رات کی کالی رِدا آسمان نے سر سے تان لی۔ ستارے دانہ ہاے اشک کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ چاند پورب کی طرف سے اپنا بھوچکا زرد چہرہ نکالے ہوئے ڈرتا ہوا کسی کو تاک رہا ہے۔ پرند اپنے اپنے آشیانوں میں سو رہے ہیں۔ رات کی سنسناہٹ معمول سے بڑھتی جاتی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے گل ہو رہے ہیں۔ مکانوں میں شہر خموشاں کا عالم ہے لوگ پڑے نیندیں لے رہے ہیں۔ صرف پاسبانوں کی آواز البتہ آرہی ہے یا خاص خاص مقامات پر کہیں امرا کے یہاں جلسوں اور دعوتوں میں آدمی جگ رہے ہیں۔ شہر لکھنؤ کے مشہور محلہ نرہی میں سید مبارک صاحب کے مکان پر بھی باہر کے آدمی خدمت گار وغیرہ سو گئے ہیں لیکن سید صاحب اور ان کی بیوی بیٹھی ہیں۔ ان کی پیاری لڑکی زہرہ بھی ایک پلنگ پر لیٹی ہے۔ یہ دونوں سید و سیدانی تو یہ جانتے ہیں کہ وہ خواب میں ہے لیکن اس کے دل پر خدا جانے کیا صدمہ ہے کہ وہ کروٹیں بدل رہی ہے اور کسی کروٹ چین نہیں آتی۔ سید مبارک نے بیٹی کو سوتا خیال کر کے اپنی بیوی سے گفتگو شروع کی:
‘‘اناؤ سے چلے آج مہینہ بھر ہونے آیا اور اب تک کہیں تم نے اس کی بات چیت بھی نہ کی۔ واللہ اعلم تم کیا سوچی ہو۔ مجھ کو جتنی ہی عجلت ہے تم کو اتنی ہی سہولیت۔ آخر اس کی وجہ کیا؟”
زہرہ کی ماں: تمھاری باتیں تو دنیا سے نرالی ہیں۔ لڑکی لڑکا کا کام کچھ ہنسی ٹھٹھا ہے کہ منہ سے کہا اور ہو گیا۔ میں نے دو ایک جگہ ذکر کیا ہے، کہیں نہ کہیں سے کچھ جواب سوال ہو ہی گا۔
مبارک: وہ خدا جانے کب ہوگا۔
زہرہ کی ماں: جب ہو۔ میں علم غیب تو پڑھی نہیں ہوں۔
مبارک: پھر کیا تدبیر ہے؟
زہرہ کی ماں: تدبیر کی ایک ہی کہی۔ کیا میں خود کسی سے پیغام دوں۔ کہیں دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ لڑکی والوں نے بات چیت کی ہے۔ پہلے لڑکے والا رقعہ پیغام کچھ بھیجتا ہے تب گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ بیٹی والے دہی لے دہی پکارتا پھرے۔ کیا تمھاری عقل ابھی سے سلب ہو گئی؟
مبارک: اس میں عقل سلب ہو جانے کی کون سی بات ہے۔ آدمی کوئی بات منہ سے صلاح کی نکالتا ہے تو اس سے الزام دینا منظور نہیں ہوتا کہ تمھاری طرح ہاتھ دھو پیچھے پڑ جائے۔
زہرہ کی ماں: پیچھے پڑنے کا کیا ذکر ہے۔ میں تو سیدھی سی بات کہتی ہوں کہ اب لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ لڑکی کا نکاح منظور ہے، دس پندرہ دن میں کہیں نہ کہیں سے پیغام ہی آوے گا۔ جلدی کیا ہے؟
مبارک: لیکن مجھے تو جلدی ہے۔
زہرہ کی ماں: اور تمھارے خلاف مجھ کو جلدی نہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے میری زہرہ ایسی ہے کہ سیکڑوں پیغام دیں گے اور اچھے سے اچھے خواہش کریں گے۔ میں تم سے سچ کہوں تاکہ جب ایسا ہی داماد ملے گا تب میں شادی بھی کروں گی۔
للہ تم رات اس کا ذکر نہ کیا کرو۔ میری بچی سہمی جاتی ہے۔ تم کو ذرا اس کا پاس نہیں۔ اس نے رو رو کر دیدے سوجا رکھے ہیں۔ دور پار اس کے دشمنوں میں آدھا جان نہیں رہ گیا، میں تو دیکھ دیکھ کر گھلی جاتی ہوں۔
مبارک: شاید ایسا ہی ہو۔
زہرہ کی ماں: اس میں شاید کی کونسی بات ہے۔ میں تو دن رات کی دیکھنے والی ہوں۔ مجھ سے چھپا نہیں ہے۔ مجھ سے بڑھ کر کوئی اس کا حال کیا جانے (ٹھنڈی سانس لے کر) اف کیسی لاغر ہو گئی ہے۔
مبارک: لیکن میں تو اس کا سبب کچھ اور ہی سمجھتا ہوں۔
زہرہ کی ماں: نوج تم جانے کیا کہتے ہو؟
مبارک بیوی کو بد مزہ دیکھ کر آہستہ آہستہ کچھ کان میں کہنے لگا۔ پہلے تو وہ دیر تک سنتی رہی اور اس کے بعد بگڑ کر بولی: ‘‘نرا جھوٹ، بالکل تہمت۔ خدا کہنے والوں کا برا کرے۔ جنھوں نے یہ تہمت جوڑی، اِلٰہی ان پر اپنا غضب ڈھا”۔
مبارک: تم بالکل سڑن ہو گئی ہو۔ ذرا کچھ نیک و بد نہیں سمجھتیں۔ بس بک لگا دیتی ہو۔ (پھر آہستہ سے بہت دیر تک کچھ کان میں کہتا رہا)
زہرہ کی ماں: پھر اب کیا تدبیر ہے۔
مبارک: مجھ کو زہرہ یا رشید دونوں کی طرف ذرا سی بد گمانی نہیں ہے۔ میں نے پہلے ہی دن یہ حال سن کر اصل معاملہ کی جستجو کی تھی۔ کچھ تو گلابو نے بیان کیا اور کچھ حامد نے بتلایا۔ اس نظر سے کہ ہندوستان میں لڑکے لڑکیوں کو کچھ اختیار نہیں دیا گیا، چاہے جو سمجھا جائے۔ ورنہ میرے نزدیک اس میں ان کی راے کا لینا بہت ضروری ہے۔ لیکن چونکہ ان میں خفیہ خط و کتابت کی نوبت پہنچ گئی، اس وجہ سے مجھے گونہ خیال ہے مگر اس کی صفائی میرے دل سے اس طرح ہو جاتی ہے کہ یہ ان کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ ان خط و کتابتوں اور تمام حالات موجودہ پر نظر کرنے سے ذرا بھی بد دیانتی کا ثبوت کہیں نہیں ملتا۔ علاوہ اس کے یہ بات قبضۂ اختیار سے جا چکی اور نیک نیتی یا بد نیتی جس طرح سے ہو یہ واقعہ پیش آگیا۔ اب اس کا دفعیہ تو غیر ممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ آئندہ کے واسطے کون سی صورت اختیار کی جائے؟ یہ امر البتہ غور طلب ہے۔ لیکن ان دونوں کی موجودہ دلی کیفیت پر خیال کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ محبت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر اس وقت زبردستی زہرہ کا کہیں نکاح ٹھہرایا جاوے تو ممکن ہے کہ وہ نکاح کے وقت انکار کر دے جس میں سارے عالم میں میری رسوائی ہو یا یہ کہ وہ میرے دباؤ سے کر بھی لے اور بعد کو کوئی فتنہ پیدا ہو تو کیسی تکا فضیحتی ہو گی۔
زہرہ کی ماں: آخر تمھارا منشا کیا ہے؟
مبارک: سچ پوچھو تو میرا منشا خاص یہ ہے کہ ابھی بات چھپی تھی۔ اگر کسی طرح سے مولوی عبد المعز پیغام دیتے تو میں آنکھ بند کر کے رشید کے ساتھ شادی کر دیتا، زیادہ کاوش لا حاصل ہے۔
زہرہ کی ماں: لیکن اس کی کیونکر تقریب کی جائے؟
مبارک: تقریب کی کیا مشکل ہے۔ میں حامد سے باتوں باتوں میں کہہ گزذروں گا اور وہ مولوی صاحب سے کہیں گے تو فوراً مولوی صاحب پیغام دیں گے۔
زہرہ کی ماں: حامد کون ہیں؟
مبارک: رشید کے ہم سن دوست ہیں، بڑے لائق آدمی ہیں مگر رشید ان سے بھی بڑا لائق ہے۔ جمال بھائی کے دونوں لڑکے شاگرد ہیں اور دونوں میں بے انتہا محبت ہے۔ جن راجا صاحب کے مولوی عبد المعز نوکر ہیں وہ تو رشید کی لیاقت پر فریفہ ہیں۔ نہ معلوم کیا سبب ہوا کہ وہ اب تک نینی تال سے واپس نہیں آئے ورنہ رشید کی چھان بنان مچ جاتی۔
زہرہ کی ماں: پھر تامل تمھیں کیا ہے، کہتے کیوں نہیں۔ حامد سے کہنا تمھارا کام ہے۔ بار بار مجھ کو پریشان کرنے سے کیا حاصل؟
مبارک: میں صرف تمھارا منشا دریافت کرتا تھا۔ الحمد للہ کہ تمھاری راے میرے موافق ہے۔ مگر افسوس ہے کہ رشید مصیبت میں گرفتار ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
زہرہ کی ماں: خدا نہ کرے، کس مصیبت میں گرفتار ہے، جلد بتاؤ۔ تم سے ہو سکے تو کچھ تدبیر کرو۔
مبارک: ڈپٹی احسان حسین اپنی لڑکی سے اُس کا نکاح کرنا چاہتے تھے، اس نے انکار کردیا (اسی پر تو انھوں نے یہ رقعہ مجھے دکھلا دیا تھا)، اس کا انکار کرنا تھا کہ ڈپٹی صاحب نا خوش ہوگئے۔ زبردستی گرفتار کرکے پاگل خانہ بھیج دیا۔ افسوس! غریب رشید کے ساتھ بڑی سختی کا برتاؤ کیا گیا۔ میں تابعداری کی وجہ سے کچھ دم نہ مار سکا۔ اس کے سواے وہاں کے رئیس اور پھر حاکم (دو باتیں) تھے میرا کیا اختیار چل سکتا تھا، خاموش ہو رہا۔ لیکن آج اخبار سے معلوم ہوا کہ ان کا تبادلہ میرٹھ کو ہو گیا ہے۔ اب جی میں آتا ہے کہ مولوی عبد المعز صاحب کو لے کر اناؤ جاؤں اور رشید کو چھڑا لاؤں۔
زہرہ کی ماں: صبح ہونے دو، تم فوراََ مولوی صاحب سے ملو اور کل ہی اناؤ جا کر رشید کو لے آؤ۔ جمال بھائی سے اور مولوی صاحب سے کیسی محبت ہے۔ ان کو معلوم ہو تو کیسا نا خوش ہوں۔ نوکری پر لات مار دو، استعفا لکھ کر بھیج دو۔ ساٹھ روپیہ مہینہ مکانات کی آمدنی اور بازار کی دکانوں کا کیا۔ یہ میرے تمھارے واسطے کافی ہے۔
مبارک: مجھ کو خود خفت ہے کہ مولوی صاحب کو حال معلوم ہو جائے تو خدا جانے مجھ سے کیسے مکدر ہوں۔ وہ دور کا سہی مگر میرے ان کے نانہالی رشتہ بھائی کا بھی ہوتا ہے۔ سچ پوچھو تو میں ان کو منہ دکھانے کے کام کا نہیں رہا۔ لیکن خیر صبح ان سے ضرور ملوں گا۔
اتنی باتیں کر کے میاں بی بی لیٹ رہے اور چونکہ قریب دو کے بج گئے تھے، سوئے تو ایسا بے خبری کی نیند کہ جب آفتاب نے نکل کر دھوپ کی چادر انھیں اڑھادی تب گرمی کی وجہ سے جاگے اور چٹ پٹ قضا نماز پڑھ کر زہرہ کی ماں تو کارِ خانہ داری میں مصروف ہوئی اور مبارک مطب موقوف کرکے گاڑی پر سوار ہو قیصر باغ کی طرف چلے۔