مجھے ساقیا وہ تو نے مے بے خودی پلائی
کہ نشے سے جس کے اب تک ہے سرور ابتدائی
آہ محبت بھی عجیب بلا ہے۔ کیسی کیسی جفائیں، مصیبتیں، مظالم اور کلفتیں اس کی بدولت جھیلنا پڑتی ہیں کہ جس کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ پیاری زہرہ! تو تو ہرگز اس قابل نہ تھی کہ ایسے مصائب میں گرفتار ہو۔ تیرا چمکتا ہوا چہرہ تو اس لائق کبھی نہ تھا کہ اس پر سونے کی زردی طاری ہو جاتی۔ افسوس! تجھ کو کیا ہو گیا؟ تیری شگفتگی و خندہ پیشانی کیا ہوئی، تیرا گلابی گلابی رخسارہ کیوں کمھلا گیا، تیری جادو بھری نگاہ کس سحر میں مبتلا ہو گئی۔ جن آنکھوں نے کبھی رنج کی صورت نہ دیکھی تھی، ان سے سیل اشک کیوں جاری ہے۔ تیری پوشاک کیوں اس درجہ خراب ہے، یہ واویلا کس لیے ہے؟
ارے یہ تو کچھ بک رہی ہے۔ سنو! کیا کہتی ہے: ‘‘آہ او میرے (ہونٹ چبا کر) ظالم تو آپ تھا اور الٹے مجھ کو ظالم بناتا تھا۔ تو نے میرے اوپر کیا افسوں پھونک دیا، للہ رحم کر۔ ہاے میں مر جاؤں گی۔ خدا کے واسطے ترس کھا۔ (کلاک گھڑی سے نو بجنے کی آواز سن کر) افسوس کم بخت گلابو بھی مر گئی، قیصر باغ ایسا کیا یہاں سے دور ہے جہاں اتنی دیر لگائی۔ مردار سے کہہ دیا تھا کہ دیر ہوتی دیکھنا تو یکہ کر لینا۔ نِگوڑی صبح کی گئی اب تک نہ پلٹی۔ خدا جانے کہاں بیٹھ رہی۔ الہی! میرے پیارے کی خیر ہو۔ آپ ہی آپ دل بیٹھا جاتا ہے۔ نہ معلوم تقدیر میں کیا لکھا ہے کیا ہونے والا ہے۔ اللہ جانے کونسی ساعت ان کو غشی آئی تھی، میں بھی کیسی کمبخت ہوں۔ کام کا گھر تھا کوئی تحقیقات تو کرنے نہ لگتا۔ آہ! کیوں نہ میں تھوڑی دیر اس کے پاس کھڑی رہی۔ ایک نگاہ بھی اچھی طرح دیکھ لیا ہوتا تو یہ الجھن نہ ہوتی۔ افسوس! افسوس!! کچھ تمنا نہ نکلی۔ ان کو میری کیا خبر ہوگی۔ وہ کیا جانتے ہوں گے کہ میں کس آفت میں پھنسی ہوں۔ کاش کوئی تدبیر میرے وہاں تک پہنچنے کی ہو جاتی، دور ہی سے ایک نظر دیکھ لیتی، کلیجہ کو ٹھنڈک تو ملتی۔ دل تو بہلتا۔ اری گلابو جلدی آ کہاں دیر کر رہی ہے۔ جلدی آ۔ جلدی۔ ارے مجھے جیتا نہ پائے گی”۔
اتنا کہہ کر زہرہ رونے لگی، روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور اس کے ساتھ ہی کچھ غفلت سی طاری ہوگئی۔
زہرہ کو غافل ہوئے ابھی زیادہ سے زیادہ دس منٹ گذرے ہوں گے کہ ایک کم عمر لڑکی دوڑتی ہوئی اس کے کمرہ میں آئی اور جلدی سے دوپٹہ (جو زہرہ کے منہ پر پڑا تھا) کھینچ کر پکاری: بیوی، بیوی! اٹھیے تو سہی۔
زہرہ (گھبرا کر آنکھ کھولتے ہی): گلابو! میں تیرے صدقے خیر تو ہے؟
گلابو (کچھ رُک کر): جی ہاں حضور! خیر ہی سمجھنا چاہیے۔
زہرہ: تم کو میرے سر کی قسم سچ سچ بتاؤ۔
گلابو: نہیں میں سچ کہتی ہوں۔
زہرہ: کہتی کیا خاک ہو۔ تم تو معمّے بُجھاتی ہو۔ از براے خدا جلد بتاؤ کیا حال ہے۔ میرے پیارے رشید کا مزاج کیسا ہے۔ تم سے ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ میرے پیغام کا جواب دیا۔ کیا کہا کچھ معلوم تو ہو۔
گلابو: بیوی! شیطان کے کان بہرے، اللہ نے بڑی خیر کی۔ نہیں تو دشمنوں کا بچنا محال تھا۔ (کچھ خیال کرکے) اوہ وہ بھیانک۔ ڈرونی۔ ارے کیسی ۔۔۔۔۔
زہرہ: کیا گلابو تم سڑن ہو گئی ہو؟ میرے سوال کا جواب دو۔ رشید پیارے کا کیا حال ہے؟
گلابو: بیوی! انھیں کا تو حال بتاتی ہوں۔ وہ بہت سخت بیمار، بے انتہا مریض، از خود رفتہ ہو رہے ہیں۔ اللہ ان کو اچھا کرے۔
زہرہ: ذرا پورا حال بیان کرو۔ کیا تم میری زندگی کی دشمن ہو جو جلدی خیریت نہیں بتلاتی ہو۔
گلابو: بیوی! میں سورج نکلتے نکلتے قیصر باغ پہنچ گئی تھی۔ میں راجا صاحب کا مکان کیا جانتی، اسی فکر میں تھی کہ کسی سے پوچھوں۔ پھاٹک کے اندر داخل ہونا تھا کہ سامنے کی کوٹھی پر ہجوم آدمیوں کا نظر آیا۔ میں بھی ادھر بڑھی کہ وہیں چل کر دریافت کروں۔
آگے دو آدمی ملے۔ ایک نے کہا: ‘‘یار! لڑکا بے طرح بیمار ہے۔ خدا جانے کیا ہو گیا۔ ساری رات ڈاکٹروں حکیموں کو تدبیریں کرتے گذر گئی۔ سیکڑوں دوائیں، بہیترے تنقیے کیے گئے لیکن دانت پر دانت جو بیٹھ گیا ہے تو ابتک ہوش نہیں آیا۔ مولوی صاحب کے اکیلا ایک یہی لڑکا ہے وہ بھی کیسا کچھ پڑھا، لکھا، لائق، فائق، ہوشیار، عقل مند۔ یہاں تک کہ ابھی چند دن ہوئے راجا صاحب نے مولوی صاحب سے کہا تھا کہ نہ ہو تو آپ گھر پر رہیں۔ رشید کو میرے ساتھ کر دیں۔ آپ کو اپنے پچاس ماہوار مکان پر مل جایا کریں گے اور رشید کو پچاس میں علاحدہ دیا کروں گا۔ خدا بیچارے مولوی صاحب پر رحم کھائے”۔
یہ باتیں سنکر میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ انھیں مولوی صاحب کے یہاں کا تذکرہ ہے اور جلدی سے بڑھی۔ مکان پر پہنچ کر تو میرے آئے گئے ہوش و حواس غائب ہو گئے۔ سامنے مولوی صاحب پچھاڑیں کھا رہے تھے۔ باہری سرہانے دالان میں مریض کی چار پائی تھی۔ لوگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر حکیم بیٹھے دوائیں بنوا رہے تھے۔ مولوی صاحب تو اپنے عالم میں نہ تھے۔ راجا صاحب کھڑے تھے، ان کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔ رشید کی ماں اندر کی ڈیوڑھی میں سر پٹک رہی تھی۔ احتیاطاً اندرونی دروازے بند کر دیے گئے تھے کہ باہر نہ نکل آویں۔ مولوی صاحب میاں بی بی کے بیانات سن کر کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ میں نے بڑی ہمت کر کے پلنگ کے پاس جاکر دیکھا تو چہرہ کا عجب نقشہ دکھائی پڑا۔ رنگ بالکل زرد، آنکھیں بند، سانس اکھڑی ہوئی، دانت بیٹھے، ہونٹ خشک، ہاتھ پیروں میں طنطناہٹ، گھر گھر سانس آتی تھی۔ یہ دیکھ کر میری طبیعت بے کل ہو گئی۔ گھبرا کر بھیڑ سے علاحدہ نکل آئی، بیٹھ کر رونے لگی تو ایک آدمی نے پیچھے سے بھرّائی ہوئی آواز میں پوچھا: ‘‘نیک بخت! تم کون ہو جو یہاں بیٹھی رو رہی ہو”۔
میں (پیچھے مڑ کر): میاں آپ ہیں، حامد میاں آپ یہاں کہاں؟
حامد: یہ تو عجیب سوال ہے۔ میں کہیں کالے کوسوں تو رہتا نہیں، چار قدم پر تو نیا گاؤں ہے۔ علاوہ اس کے میں تو رات سے یہیں ہوں۔ جس وقت سے رشید بیمار ہوئے ہیں یہیں ہوں لیکن تم کیا گلابو ہو؟ ہو کیا ضرور ہو! ہاں گلابو! تم کہاں چلیں۔ کیوں روتی ہو؟
میں: میاں علاحدہ چلو کچھ میں آپ سے کہوں گی۔
حامد میری بات سننے کے لیے علاحدہ اٹھ کر چلے اور میں بھی ان کے ساتھ گئی۔ علاحدہ جا کر میں نے سوال کیا: ‘‘کیوں میاں یہ کب سے بیمار ہیں اور کیا حال ہے؟”
حامد: کیا بتاؤں گلابو! تم سے چھپانے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بیچارہ بڑا سیدھا آدمی ہے مگر خدا جانے کیا بات ہوئی آج تیسرا دن ہے موتی محل کی طرف سیر کو گئے تھے۔ وہاں کسی بگھی پر کوئی لڑکی ان کو دکھائی دی جس کو دیکھ کر یہ از خود رفتہ ہوگئے۔ کل صبح کو بادشاہ باغ کے وہاں جھاڑیوں میں تنہا بیٹھے تھے۔ اتفاقاً میں ادھر جا نکلا، بمشکل تمام اپنے ساتھ مکان لے گیا۔ وہاں سے شام کو خواجہ صاحب کے یہاں تقریب شادی میں شریک ہونے گئے۔ بعض کام میرے اور ان کی سپردگی میں تھے۔ مغرب پڑھ کر جب مجلس منعقد ہوئی، میں کام سے باورچی خانہ گیا۔ ابھی وہیں تھا کہ میرے خدمت گار نے مجھ سے جا کر کہا کہ میاں رشید ڈیوڑھی میں بے ہوش پڑے ہیں۔ میں گھبرا کر جلدی سے ڈیوڑھی میں آیا۔ خواجہ صاحب وغیرہ سبھی موجود تھے۔ یہ بے ہوش پڑے تھے۔ خواجہ صاحب سے اجازت لے کر میں ان کو مکان پر لے آیا اس وقت سے یہ گھڑی آئی۔ نہ معلوم کتنی تدبیریں ہو چکی ہیں، اب تک آنکھ نہیں کھولی۔ ایک بار اسی بے ہوشی میں یہ البتہ پکار کر کہا تھا: ‘‘حامد! دیکھو یہی ظالم ہے”، جس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید پھر کسی کو انھوں نے دیکھا۔ خدا جانے کیا قسمت میں لکھا ہے۔ میرے رات سے ہواس ٹھکانے نہیں ہیں، حقیقی بھائی سے بڑھ کر مجھے محبت ہے۔ اللہ اپنے حبیب کے تصدق میں رحم کرے۔ گلابو! دعا کرو۔
میں: میاں یہ عقدہ تو اب کھلا۔ سنو! پرسوں کے دن صبح کو ہماری بیوی اپنی بیٹی سمیت خواجہ صاحب کے گھر جاتی تھیں۔ راستہ میں پُل کے پاس ذرا گاڑی کسی وجہ سے رُک گئی تھی پھر فوراً روانہ ہو گئی۔ اس دن میں بھی ساتھ گاڑی کی چھت پر سوار تھی۔ رشید کو میں نے بھی دیکھا تھا لیکن مجھے یہ کچھ معلوم نہیں کہ انھوں نے بٹیا کو دیکھا یا نہیں اور نہ اس کا خیال گذرا۔ کیونکہ زہرہ کو اپنے پردہ کا خود بڑا خیال ہے۔ ہاں شاید کھڑکی کی آڑ سے جھانکا ہو اور رشید نے دیکھ لیا ہو۔ مگر کل رات تو پان مانگنے کے واسطے رشید ڈیوڑھی پر گئے تھے۔ کوئی ماما موجود نہ تھی۔ زہرہ پان دینے نکل آئی تھیں، شاید رشید کا پیر کسی چیز سے الجھ گیا وہ گر پڑے۔ زہرہ گھبرا کر آگے بڑھ آئیں۔ یہ جلدی سے اٹھے تو لیکن ایک دوسرے کو دیکھ کر نظر بازی میں پڑ گئے۔ زہرہ کہتی تھیں کہ میں چند منٹ بعد سنبھل کر اندر آئی تو دھماکا سنا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ وہی پان مانگنے والے صاحب بے ہوش ہو گئے ہیں۔ میاں! میں تو گھر پر تھی۔ تھوڑی رات گئی ہوگی کہ زہرہ نرہی واپس آگئیں۔ میں نے پوچھا کہ تم اکیلی کیوں چلی آئیں اور بی بی کو کہاں چھوڑا۔ انھوں نے بوجہ ہم سنی راز چھپانے کی قسم لے کر مجھ سے سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ ان کی غشی سن کر میری حالت بھی غیر ہونے لگی تو میں اپنی ناچاقی طبیعت کا عذر کرکے چلی آئی۔ جس وقت سے مکان پر آئی ہیں رونے پیٹنے کے سوا کچھ کام نہیں ہے۔ رو رو کر صبح کی۔ سویرے تڑکے مجھ کو خیریت دریافت کرنے کو بھیجا تھا اور کہا تھا کہ کسی طرح میرے حال کی خبر ان سے کہہ دینا لیکن یہاں تو اور ہی رنگ ہے۔
حامد (کچھ مسرور ہو کر): گلابو! اب مجھے اطمینان ہو گیا۔ خدا نے چاہا تو رشید اب جلد صحت پا جائیں گے۔ مجھے بڑا تردد تھا کہ بغیر جانے بوجھے کہاں سے ان کی چاہتی پیدا کی جائے۔ اب اس کا پتہ لگ گیا ہے تو ان شاء اللہ سب تکلیفیں رفع ہو جائیں گی۔
میری اور حامد کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر مولوی صاحب کو مبارک باد دی: ‘‘مولوی صاحب رشید کی صحت مبارک”۔ میں اور حامد یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ باتیں موقوف کرکے دالان میں گئے۔ اس وقت رشید نے آنکھیں کھول دی تھیں اور آہستہ سے پانی مانگا تھا۔ پانی اور اس کے ساتھ ہی دوا بھی دی گئی۔ دوا پی کر ذرا اور حواس درست ہوئے، کروٹ لی۔ حامد نے بے چین ہو کر پاس جا کر کان میں کچھ آہستہ سے کہا اور رشید کا ہاتھ پکڑ کر میری طرف اشارہ کیا۔ مجھے دیکھ کر رشید نے زور سے کہا: ‘‘حامد تم سچ کہتے ہو؟ میں خواب تو نہیں دیکھتا ہوں۔ بھائی! تم مجھے دھوکا دیتے ہو۔ ہائے! بھلا وہ کیوں مجھے پوچھنے لگیں”۔
حامد: ذرا کی ذرا خاموش رہو، سب کھڑے ہیں کیا کہیں گے۔
رشید: کہے گا کوئی کیا۔ میں کسی کے کہنے کی کچھ پروا نہیں کرتا (مجھے اشارے سے بلا کر) اپنی بیوی سے میرا حال زار مفصل کہہ دینا۔ کہنا کہ تمھارے پیچھے چار ہی دن میں ہماری سب گتیں ہو گئیں۔ خدا کے واسطے ہمارے اوپر رحم کریں، نہیں تو اسی طرح کسی دن جان بھی نکل جائے گی۔
رشید کی اتنی باتیں سن کر میں نے جواب دینے کا کچھ موقع نہ دیکھ کر گھر کو پلٹنے کا قصد کیا۔ حامد نے چلتے وقت مجھ سے کبھی کبھی ملتے رہنے کا وعدہ لے کر رخصت کیا۔ جلدی کے خیال سے فوراً یکہ کرکے بھاگی۔ اب لائیے کچھ انعام دلوائیے۔
زہرہ (رنجیدہ سی ہو کر): تم نے مجھے خوش خبری تو سنائی لیکن یہ تو بتاؤ کہ اِس سے مجھے کیا فائدہ۔ حرام کاری، بد وضعی میں کرنے سے رہی۔ منہ سے حسب دل خواہ شوہر تجویز کرنے کے لیے کہنے سے رہی۔ پھر مجھے کیا امید کہ کبھی میرا پیارا جانی مجھے ملے گا بھی یا نہیں۔
گلابو: بیوی! دین میں تو پیغمبر صاحب کا حکم ہے کہ جس سے عورت راضی ہو، اس سے نکاح کر لے۔ پھر تم پڑھی لکھی ہو کر کیوں سب سے ڈرتی ہو۔ کیا اللہ و رسولﷺ سے بڑھ کر کسی کا حکم ہے۔ منہ سے کہہ کیوں نہیں دیتیں۔
زہرہ (ٹھنڈی سانس لے کر): گلابو! یہ سب سچ ہے خدا رسولﷺ نے سب اجازتیں دی ہیں مگر ہمارے اس کمبخت ملک کی رسم کیسی سخت ہے کہ چاہے جس کو ہاتھ پکڑا دیں، لڑکی کمبخت منہ سے ہوں تک نہیں کر سکتی۔ میں کیوں کر کچھ کہوں (رو کر) میری تقدیر میں خدا جانے کیا لکھا ہے۔ میری اچھی گلابو! میری عزت تمھارے ہاتھ ہے، للہ اس کو چھپائیو۔ کبھی کبھی خیریت لا دوگی تو میں تمھاری۔۔۔۔۔
اپنے باپ سید مبارک کو آتے دیکھ کر زہرہ چپ ہو رہی۔