خداوندا خیر! ایں۔ آج یہاں اس قدر ہجوم کیوں ہے۔ واہ واہ۔ جدھر دیکھو نیا رنگ ہے۔ چہل پہل، ہنسی خوشی کے سامان ہیں۔ یہ باجے اور روشنی کا انتظام کیسا ہے۔ فرش فروش، صفائی کا کیوں اہتمام ہے۔ اندر دیکھو! ارے یہاں تو اور بھی غضب تیاریاں ہیں۔ مسند آراستہ ہے۔ مکان سجایا گیا ہے۔ ایک قطعہ میں کچھ کھانا پکانے کا بندوبست ہے۔ یہاں تو کچھ تقریب سی معلوم ہوتی ہے۔ آواز آئی، خواجہ صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ ایک ادھیڑ آدمی (پکارنے والے سے) کیوں جنید خیر ہے۔ میں یہاں ہوں۔
جنید: جی ہاں بفضلہ سب خیریت ہے۔ میں سید مبارک صاحب کی خدمت میں گیا تھا۔ انھوں نے آپ سے دریافت کیا ہے کہ ٹھیک کَے بجے محفل نکاح آپ کے یہاں منعقد ہوگی، آپ کی بھانجی اور بہن ابھی سے تیار ہیں۔ لیکن سید صاحب نے ان کو اس وقت تک کے واسطے روک لیا ہے کہ جب تک یہاں سے ٹھیک وقت دریافت نہ ہو جائے۔ کیونکہ لڑکی کو بہت عرصہ کے لیے دوسرے مکان پر جانے کی سید صاحب کی اجازت نہیں ہے۔
خواجہ صاحب: میاں! ذرا تم تکلیف کرو اور الٹے پیروں واپس جاؤ۔ نرہی یہاں سے کچھ دور نہیں ہے۔ اسی سیدھی سڑک پر چلے جاؤ۔ مبارک بھائی سے کہنا کہ فوراً بعد مغرب عقد ہو جائے گا۔ جہاں تک ممکن ہو بہن کو بھیج دیں، بغیر ان کے یہاں کچھ انتظام نہ بن پڑے گا۔
جنید تو خواجہ صاحب کا حکم سن کر چلتے پھرتے نظر آئے۔ لیکن ہم کو بتانا ہے کہ یہ کونسا مقام ہے۔ دیکھیے یہ سامنے دوراہے کی سڑک ہے اور یہ لکھنؤ کا مشہور محلہ گولہ گنج ہے۔ یہ مکان خواجہ جمال صاحب ایک نامی گرامی رئیس کا ہے۔ آج ان کے لڑکے کا عقد ہے۔ چونکہ خواجہ صاحب کے خیالات اخلاقی بہت عمدہ ہیں لہذا سواے معمولی زیبائش کے کچھ بے انتہا اور فضول خرچی کا سامان نہیں کیا گیا ہے۔ خواجہ صاحب تو چاہتے تھے کہ دروازہ پر نقارہ بھی نہ رکھا جاوے لیکن خیالاتِ جہالت کی وجہ سے عورتوں نے ضد کی اور بدیں وجہ کہ اور کوئی سامان نہیں کیا گیا چار نا چار اتنا کہنا عورتوں کا خواجہ صاحب کو ماننا پڑا۔ سمدھیانہ کے لوگ چونکہ بہت ہی کم مایہ تھے، اس باعث سے سب اخراجات اپنے ذمہ لے کر اپنے مکان ہی پر انھوں نے محفل منعقد کی تھی۔
ابھی عصر کا وقت ہے، آفتاب کی کرنیں کچھ دھیمی سی ہو چلی ہیں۔ دھوپ کے اوپر سایہ ریل پیل کیے بڑھا چلا آرہا ہے۔ اونچے اونچے محلوں کی دیواریں سنہری دھوپ کی شعاعوں سے ہم بغل ہو کر رخصت ہو رہی ہیں۔ سڑکوں پر چھڑکاؤ شروع ہو گیا ہے۔ تمام دن کے سوکھے ہوئے سبزہ زار آہستہ آہستہ لہلہانے لگے ہیں۔ ہوا کی تیزی کم ہو چکی ہے اور وہ دلاویز سماں جو دونوں وقت کے ملنے سے پیدا ہوتا ہے، بہت ہی قریب ہے۔ ہمارے شفیق خواجہ جمال کے مکان پر مہمانوں کی دھوم مچی ہے، آدمی بکثرت چلے آرہے ہیں۔ گاڑیوں اور بگھیوں کی بھر مار مچی ہے، چند لوگ ان نئے مہمانوں کے بٹھانے اور تواضع و تکریم میں مصروف ہیں۔ کچھ گاڑیوں میں زنانی سواریاں بھی آئیں اور وہ دوسرے دروازے سے مکان کے اندر چلی گئیں۔ مغرب سے بہت ہی قریب ایک ٹم ٹم پر ہمارا نوجوان رشید اور اس کا دوست حامد بھی شریکِ مجلس ہونے کو پہنچے۔ اندر پہنچ کر یہ دونوں بھی ایک جگہ پر بیٹھے مگر رشید ہے کہ سخت پیچ و تاب میں ہے۔ بار بار اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ اِدھر ادھر دیکھتا ہے، منہ پر ہوائیاں چھوٹ رہی ہیں، ہر بار یہی چاہتا ہے کہ اٹھ کر بھاگوں، لیکن جب وہ ایک مرتبہ اٹھنے لگا تو حامد نے اس کا دامن زور سے پکڑ کر کہا: ‘‘تُم عجیب سڑی آدمی ہو۔ صبح کو مجھے کھانا کھانے میں پریشان کیا۔ سارا دِن سمجھاتے گذر گیا اور تمھارے کان پر جوں نہیں رینگی۔ بھلا تم یہ تو سوچو کہ جس شخص کا تمھیں نام و نشان، پتہ حال کُچھ معلوم نہیں ہے، راہ چلتوں کسی کو دیکھ لیا ہے اور وہ بھی صرف ذرا کی ذرا پھر اس کے واسطے سڑی سودائی بننے سے کیا فائدہ۔ ایسی پاگل پنے کی باتوں سے وہ ملی تو جاتی نہیں، یہاں آئے ہو تو تھوڑی دیر صبر کرو۔ نکاح ہو جاوے، اُس کے بعد گھر چلیں۔
رشید: گھر میں کیا رکھا ہے، گھر چل کر کیا ملے گا، میرا وہاں کیا کام ہے؟
حامد: یا وحشت! کیوں مکان سے کیا دشمنی ہے، گھر میں تمھارے باپ تو ہیں۔ ابھی ظہر کے وقت اُن کا آدمی دوڑا آیا تھا کہ آج رشید کا پتہ نہیں ہے اور آج اُن کی والدہ فیض آباد سے آئی ہیں۔ جس وقت سے آئی ہیں رو رہی ہیں کہ رشید کو بلواؤ مگر اُن کا کہیں پتہ نہیں۔ میں نے کہلا بھیجا ہے کہ میرے یہاں ہیں، اس وقت تو میں خواجہ جمال صاحب کے یہاں جاتا ہوں رات کو ساتھ لے کر آؤں گا۔
رشید: حامد تُم تو اور ظلم کرتے ہو۔ والدہ آئی ہیں تو مجھ سے اُن کو کیا کام ہے۔ خُدا کے واسطے تُم مُجھ کو آزاد کر دو میرا جہاں جی چاہے گا وہاں جاؤں گا۔
حامد: کیا تمھاری خوشی خاطر ہے جو جہاں جی چاہے جاؤ گے۔ ہرگز نہیں تُم کو مکان چلنا ہوگا۔ وہ تُم کو دیکھیں گی یہی اُن کا کام ہے۔
رشید: لیکن میں تو سواے اسی زاہد فریب کے اور کسی کام کا نہیں ہوں۔ مُجھ کو اُن کے پاس لے جانا بالکل بے کار ہے۔ اگر تم ضد کرو گے تو میں بھاگ جاؤں گا۔ میں تو کبھی نہ بیٹھوں گا۔
حامد: کہیں ایسا بھی نہیں کرنا۔ خواجہ صاحب ہمارے تمھارے دونوں کے اُستاد ہیں، تُم کو یاد نہیں ہے۔ حمد اللہ و میر زاہد ہم دونوں نے اُنھیں سے پڑھا ہے۔ تمھارے والد سے کیسی محبت خواجہ صاحب کو ہے شاید کوئی کام سپرد کر دیں۔ میرے پیغام کے جواب میں تمھارے والد نے یہ بھی کہلا بھیجا تھا کہ رشید جاتا ہے تو اب میرے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تُم بھی چلے جاؤ گے تو خواجہ صاحب کو ہمیشہ کی شکایت رہے گی۔
حامد رشید سے آہستہ آہستہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ اذان ہوئی، سب لوگ نماز کو گئے۔ بعد نماز پلٹ کر مکان پر پہنچے تو خواجہ جمال نے حامد کو دیکھ کر پُکارا: حامد! حامد!!
حامد: جی حضرت! حاضر ہوں۔ اِرشاد؟
خواجہ جمال: کیوں میاں تُم کو معلوم ہے کہ مولوی عبد المعز صاحب کیوں تشریف نہیں لائے۔ تُم سے اور اُن کے بیٹے رشید سے تو بڑی محبت ہے۔ دیکھو نہ تو مولوی صاحب ہی آئے اور نہ رشید کو بھیجا۔ واللہ اعلم کیا بھید ہے؟ کیا رقعہ نہیں پہنچا۔ مُجھ کو بڑا افسوس ہے۔ اپنے شاگردوں میں مجھے تُم سے اور رشید سے بڑی محبت ہے مگر خدا جانے وہ کیوں نہیں آئے۔
حامد (رشید کے کان میں): دیکھو خواجہ صاحب کیا فرماتے ہیں۔
رشید (اپنے خیالات سے چونک کر اور خواجہ صاحب سے مخاطب ہو کر): حضرت! والد نے مجھ کو بھیجا ہے۔ میں بعد عصر سے حاضر ہوں۔ آج والدہ آئی ہیں اور چونکہ وہ کسی قدر علیل ہیں لہٰذا والد نے مجھے حُکم دیا کہ تو حضرت کے یہاں جا۔
خواجہ صاحب (اظہارِ مسرّت کے لہجے میں): شاباش۔ مُجھ کو خود بڑی اُمّید تھی کہ تُم ضرور آؤگے۔ ذرا تُم اور حامد یہاں آؤ۔
خواجہ صاحب کا حُکم سن کر حامد و رشید اُٹھے اور پاس آکر مُنتظر ہوئے کہ اُستاد کیا حُکم دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا: ‘‘بھئی! یہ تمھارا گھر ہے، تُم کو بیٹھنا نہیں چاہیے۔ جلال تمھارا چھوٹا بھائی ہے۔ اُس کی شادی کا انتظام خود تمھیں کرنا چاہیے”۔
رشید و حامد (یک زبان ہو کر): بسر و چشم! اِس میں آپ کے فرمانے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو واقعی بات ہے۔
خواجہ جمال: تُم دونوں آدمی ہمیشہ لڑکپن سے گھر میں آیا جایا کیے ہو۔ اس وقت ہجوم بہت ہے۔ تم ڈیوڑھی کا انتظام کرو۔ اندر سے عروس کے کپڑے وغیرہ تُم اپنے اہتمام سے منگوا کر محفل میں لاؤ۔ اور جب فراغت ہو لے تب سب چیزوں کو میرے یا کسی اور معتمد کے سپرد کر کے مکان جانا۔ کام کا گھر ہے، شاید میں تُم سے بار بار نہ مِل سکوں۔ تو یہ ضرور نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ میرے انتظار میں رہو۔
اتنا سمجھا کر خواجہ جمال تو اور کام میں مصروف ہوئے اور عالی ہمّت اور مستعد طبع حامد اُستاد کے حکم کی تعمیل کو تیار ہوا اور اپنے اوپر جبر کر کے براے نام رشید بھی اُس کے ساتھ ہو لیا۔ خُدا خُدا کرکے وہ سبھ ساعت آئی کہ جلال کا عقد پڑھنے کے لیے قاضی صاحب تشریف لائے۔
محفل میں پان ہو چکے تھے اور حامد کسی ضرورت سے باورچی خانہ کو گیا ہوا تھا۔ رشید نے اندر آواز دی: ‘‘ماما! پان دے جاؤ”۔ نہ معلوم ماما کس کام میں مصروف تھی کہ دیر تک نہ آئی اور یہ وقت بھری محفل کا تھا رشید جو ماما کے آنے کا منتظر تھا، اس نے اندر کی آہٹ پر کان لگا دیا۔
ایک شرمگیں آواز معلوم ہوئی: ‘‘ماماجی! دیکھو پان لے جاؤ کوئی کھڑا پکار رہا ہے۔ تم سنتی نہیں ہو۔ ماموں جان مجھ پر ناراض ہوں گے”۔ ماما نے گھبرائی ہوئی آواز سے جواب دیا: ‘‘بیوی! میں تو اس جگہ سے ہل نہیں سکتی، کسی اور کے ہاتھ بھیج دیجیے۔ (رشید کی آواز سن کر) سنو بی بی! مولوی عبد المعز صاحب کے بیٹے رشید تمھارے ماموں جان کے شاگرد پکار رہے ہیں جلد بھیجیے”۔
چند منٹ گذر گئے اور کوئی نہ آیا تو رشید نے جھنجھلا کر زور سے پکارا: ‘‘کیوں حضرت صاحب کی عزت کے درپے ہوئی ہو۔ ساری محفل منہ باندھے بیٹھی ہے۔ میں شور کر رہا ہوں اور ماما تم نہیں سنتی ہو، کہیں جلد پان دے بھی جاؤ۔ بڑی بدنامی ہوا چاہتی ہے”۔
رشید کا اتنا کہنا تھا کہ اندر سے ایک چودہ پندرہ برس کی نو عمر لڑکی کس ناز و انداز سے عجلت میں دروازہ پر آکر کہنے لگی (ہاتھ بڑھا کر): ‘‘لیجیے حضرت پان لیجیے۔ کمبخت ماما کسی کی سنتی بھی ہے”۔ رشید پان لینے چلا تو کسی چیز کی ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ لڑکی ذات نرم دلی کی وجہ سے بے حجاب نکل آئی۔ ‘‘الٰہی خیر” کہہ کر رشید کے سرہانے پہنچ گئی۔ رشید شرمندگی مٹانے کو جلدی سے اٹھا تو اس عابد فریب حسن کی دیوی کو دیکھ کر بے خود ہو کر رہ گیا۔ اس کی ایک نگاہ نے اس پر مسمریزم سا عمل کر دیا کہ وہ سکتے کے عالم میں مثل پیکر تصویر کے بے حس و حرکت کھڑا رہ گیا۔ رشید خود بھی خوش رو، خوب صورت، خوش وضع آدمی تھا۔ اس کی خوبروئی ایسی نہ تھی جو اپنا رنگ نہ دکھاتی۔ اس کے علاوہ اس کے منہ سے ‘‘آہ! تو ہی ہے” نکلنا تھا کہ اس دوشیزہ پر بھی اثر ہو گیا۔ تخمیناََ پانچ منٹ تک یہ اس کو اور وہ اس کو دیکھتے رہے کہ ایک بارگی یہ قتالۂ عالم کچھ خیال کر کے منتشرانہ حالت میں جلدی جلدی قدم رکھتی ہوئی اندر کو چلی اور چلتے چلاتے ایک نگاہ ناز و ادا کی رشید پر ڈال کر کہا: ‘‘ذرا سنبھلو۔ دیکھو، خبردار، خدا حافظ”۔
رشید کی نگاہ سے اس پری پیکر کا جدا ہونا تھا کہ اس کو اک بارگی کچھ گرمی سی معلوم ہوئی۔ کپڑے نوچ ڈالے، سر پر سے ٹوپی اتار کر پھینک دی۔ زیادہ جوش وحشت ہوا تو ہاے الٰہی میں کیا کروں۔ اس نے تو غضب کیا۔ نہ کوئی آتا تھا نہ کچھ اور پھر اس قدر جلد بھاگ گئی، افسوس ؎
ما را بغمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت
خود سوے ما ندید و حیا را بہانہ سا سا سا
شعر بھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ بے ہوش ہو کر دھم سے گر پڑا۔