شاہ اس وقت فل اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا
کہاں گئی ہو گی وہ
اچانک شاہ کے مائنڈ مین کچھ کلک ہوا اس نے یوٹرن سے گاڑی موڑ لی
شاہ کے اندازے کے مطابق حیا یہاں ہی تھی
حیا سامنے تین قبروں کے پاس بیٹھی رو رہی تھی
شاہ.حیا کے پاس آکر بیٹھ گیا فاتحہ پڑی
حیا چلو شاہ بولا
حیا چپ چاپ اٹھ کر حیا کے ساتھ چل دی
شاہ اور حیا واپس آئے تو سب ڈائینگ ٹئبل پر موجود تھے
شاہ بی بی نے آگے بڑھ کر حیا کو گلے لگا لیا
میری بچی
تو ایک بار آکر مجھے تو بتاتی سارے ظلم اپنی ننھی جان پر سہتی رہی
میرے بچے کا قاتل میرے گھر میں گھوم رہا تھا اور مجھے خبر تک ناہوئی
شاہ بی بی روتے ہوئے بولی
شاہ نے آگے بڑھ کر حیا کو شاہ بی بی سے علیحدہ کیا
اور شاہ بی بی کو اشارہ کرتے ہوئے حیا کو لے کر روم کی طرف چل دیا
❤❤❤
حیا کسی بھی احساس سے خالی تھی
شاہ حیا کے پاس بیٹھ گیا
حیا شاہ حیا کے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
شاہ
ہاں حیا بولو
شاہ مجھے معاف کردو میں نے تم سے جھوٹ بولا
نہیں حیا تم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا
میرا باپ اسی کا حق دار تھا
شاہ میں نے ایک اور جھوٹ بھی تم سے بولا
کیسا جھوٹ حیا
شاہ
ہاں
مجھے طلاق چاہیے
واٹ تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا
نہیں شاہ
پلیز
اور میرے ساتھ چلو مجھے تمہیں کسی سے ملوانا ہے
حیا اس وقت کہاں جانا ہے اور کس سے ملوانا ہے
صبح چلے گے
نہیں ابھی اب امانت لوٹانے کا وقت آگیا ہے
کیسی امانت
حیا مجھے سمجھ نہیں آرہا تم کیسی باتیں کررہی ہو
شاہ میرے ساتھ چلو سب سمجھ آجائے گی
حیا شاہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
❤❤❤
سکندر شاہ کسی بھی ڈاکٹر کے کنٹرول میں نہیں تھے آرہے
آخر کار ڈاکٹرز نے تھک کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا
سکندر شاہ ہسپتال سے باہر نکل آئے
وہ مسلسل ایک ہی بات بول رہے تھے
میں قاتل ہوں
اب میں اور امیر ہوجاؤگا
اپنے بیٹے کی شادی امیر گھر میں کروں گا
سکندر شاہ کبھی ہنسنے لگتے اور کبھی رونے
سکندر شاہ پسماندہ حال میں سڑک کے کنارے پر بیٹھے تھے
اور مسلسل خود لو قاتل کہتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے
آنے جانے والے انہین بھکاری سمجھ کر کچھ پیسے دے کر گزر جاتے
❤❤❤
حیا ہم کہاں جارہے ہیں شاہ نے کئی بار کیا جانے والا سوال ایک بار پھر سے کیا
حیا چپ چاپ ڈرائیونگ کررہی تھی
حیا شاہ غصے سے بولا
حیا نے شاہ کی طرف دیکھا
حیا کی آنکھوں میں بیزاری سرد مہری اور اجنبیت تھی
یہ وہ حیا تو نہیں تھی جسے شاہ جانتا تھا
یہ تو کوئی اور ہی حیا تھی
شاہ نے اب کی بار خاموش رہنا بہتر سمجھا
میں دشت دشت رُسوا،
تُو سراب سا مسلسل..
میں لمحہ لمحہ تنہا،
تُو خواب سا مسلسل..
مشہور ہیں نگر میں
میری تشنگی کے قصے
میں قریہ قریہ پیـاسی،
تُو آب سا مسلسل..
میں عکسِ آشنائی،
تُو سراپا دل لگی ہے..
میں خار خار زندگی،
تُو گلاب سا مسلسل..
میں گلی گلی مسافر،
تیرے قُرب کی دیوانی،
میں کوچہ کوچہ بکھری،
تُو نایاب سا مسلسل.....!!
❤❤❤
میں جب چھوٹی تھی تو مجھے ایک ملازم نے سنبھالا تھا وہ میرے لئے باپ کا درجہ رکھتے ہیں
حیا گویا ہوئی
شاہ سمجھ نا سکا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے
انہوں نے ہمیشہ میری زندگی کا ایک ہی مطلب بتایا
سکندر شاہ کی بربادی
اور میں نے اس بات کو ذہن مین رکھا
اور کبھی کسی کو دوست نا بنایا
عمر بشیر بابا کا بیٹا تھا میرا بچپن اسکے ساتھ ہی گزرا پر کبھی بہت اچھی دوستی نا ہو سکی
وہ عمر جو پاپا کا سیکرٹری
ہاں لیکن حقیقت میں وہ میرا سیکرٹری تھا
پھر ایک دن مجھ سے ایک لڑکی ٹکرائی ہو بہو میرے جیسی پر اسکے چہرے پر داغ تھا جو مجھے بہت اچھا لگتا پر اسے میرا بے داغ چہرہ اچھا لگتا
میرہ طرح اسکا بھی کوئی نہیں تھا
وہ میری دوست بن گئی اور میرے ساتھ ہی رہنے لگی
پھر وہ میرا بدلہ لینے کے لئے تمہاری زندگی میں آئی اور تم سے محبت کر بیٹھی
حیا ان سب باتوں کا مطلب
عمر میرا سیکرٹری بن کر کام کررہا تھا
پر وہ مجھ سے محبت کرنے لگا لیکن اس نے ہمیشہ خود کو میرا غلام سمجھا
لیکن میں اسکی آنکھوں میں اپنی محبت دیکھ سکتی تھی
لیکن مجھے اپنی زندگی کا مقصد پورا کرنا تھا
اس لئے میں نے تم سے نکاح کیا
آئی نو تم مجھے مظلوم سمجھ کے میرے ساتھ کمپرومائز کرنے کو تیار ہو
لیکن میں نہیں
جس دن عمر نے مجِھے تمہارے ساتھ دیکھا تھا تو میں نے اسکی آنکھوں میں دکھ دیکھا
شاہ میں محبت کی بھوکی لڑکی ہوں ساری عمر محبت کو ترسی ہوں
مجھے اب کمپرومائز نہیں مجبت چاہیے
حیا میں تمہیں محبت دوں گا
شاہ محبت صرف ایک سے ہوتی ہے اور اگر سب سے ہوجائے تو وہ وقت گزاری ہے
اور تم بانو سے محبت کرتے ہو
مجھے نا تم سے محبت ہے نا عمر سے
پر مجھے پتا ہے مجھے عمر کی محبت سے محبت ہو جائے گی
حیا
شاہ بولا
اسکے ساتھ ہی حیا نے گاڑی روک دی
اور شاہ کو اترنے کا اشارہ کیا
شاہ خاموشی سے گاڑی سے اتر گیا
حیا بھی اتر آئی
یہ ایک خوبصورت گھر تھا
حیا نے کسی کو کال کی
ہاں دروازہ کھولو
تھوڑی دیر میں دروازہ کھل گیا
تتتت تم دروازہ کھولنے والے کو دیکھ کر شاہ کے منہ سے نکلا اور وہ منجمد ہو کر اس چہرے کو دیکھنے لگا
❤❤❤