حیا بیڈ پر لیٹی بانو(ساحرہ)کو یاد کر رہی تھی
کیا یار کتنا فضول نام ہے بابو تجھے اور کوئی نام نہیں ملا
ایک تیرے لیے پاگل کا رول ادا کررہی ہون پھر بھی میڈم کے نخرے نہیں پورے ہورہے بانو منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے بولی
میری جان غصہ تو نا کرو حیا بانو کی باہوں سے لپٹتے ہوئے بولی
ارے پیچھے ہو یہ حق کسی اور کا ہے بانو مصنوعی غصے سے بولی
واہ جی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئِے اور تیور ہی بدل گئے ہیں
ویسے شاہ میر ہے ہیارا حیا بانو کو تنگ کرتی ہوئی بولی
تمیز سےنام لو جیجو ہین تمہارے بانو ایک ادا سےبولی
اوئے ہوئے دال میں کچھ تو کالا ہے
نہیں جی یہاں تو پوری کی پوری دال کالی ہے
بانو کی بات پر دونوں قہقہ لگا کر ہنس پڑی
حیا کی آنکھ سے ایک آنسو گرا
حیا تم کتنی پیاری ہو بانو کی آواز حیا کے کانون میں گونجی میں بھی اتنی ہی پیاری ہوتی اگر میرے چہرے پر یہ داغ نا ہوتا بانو افسردگی سے بولی
میری جان تم تو چاند ہو تو چاند پر تو داغ ہوتا ہے نا حیا اسکو پچکارتے ہوئے بولی
❤❤❤
بانو کو یاد کرتے کرتے ناجانے کس پہر حیا کی آنکھ لگ گئی
حیا سنو اپنے بدلے کی آگ میں میرے شاہ میر کو مت جلانا سنو تم اس سے شادی کر لینا اور اسکو بہت محبت دینا جتنی محبت وہ مجھ سے کرتا تھا آخر کو بیٹے کو کیوں سزا ملے باپ کے گناہوں کی
تم اپنے غم اسکو بتانا وہ تمہاری مدد کرے گا اور اسے کہنا تمہاری ساحرہ تم سے بہت محبت کرتی تھی
سنو اس دنیا میں شاہ میر کو تم اپنا لو
اور قیامت کے دن مجھے میرا بابو واپس کردینا
بانو......نہیں جاؤ
حیا اُٹھ کے بیٹھ گئی اے خدا یہ کیسا خواب تھا
حیا بہت دیر سوچتی رہی لیکن اسکو کچھ سمجھ ناآیا وہ دوبارہ سونے کو لیٹ گئی
❤❤❤
حیا مسلسل رات کے خواب کے بارے میں سوچ رہی تھی
کچھ سوچتے ہوئے اس نے عمر کو کال کی
ہیلو میم
عمر مجِھے شاہ میر کا نمبر چاہیے
کیوں میم
جتنا کہا ہے اتنا کرو
اوکے میم ابھی سینڈ کرتا ہوں
تھوڑی دیر میں حیا نے شاہ میر کو. کال ملا دی
ہیلو شاہ میر اسپیکنگ شاہ کی گھمبیر آواز گونجی
شاہ کی آواز سنتے ہی حیا کے دل کی دھڑکن ناجانے کیوں تیز ہوئی
ہیلو شاہ کی آواز پھر سے فون میں گونجی
مین حیا شاہ بول رہی ہوں حیا جلدی سے بولی مبادا وہ فون ہی نا بند کردیں
جی بولیں
میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں حیا فوراً مدعے پر آئی
کیوں
مجھے آپ سے بات کرنی ہے
تو ایسے ہی کرلیں شاہ بیزاری سے بولا
نہیں ایسے نہیں کرسکتی
تو میں بھی مل نہیں سکتا شاہ نے ہری جھنڈی دکھائی
میں ساحرہ(بانو) کی دوست ہوں حیا جلدی سے بولی
ککک کیا کہا آپ نے
وہی جو آپ نے سنا
میں چار بجے کافی شاپ پر آپ کا انتظار کروں گی
یہ کہہ کر حیا نے کال بند کردی
شاہ حیران و پریشان سا موبائل کو دیکھنے لگا
❤❤❤
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﭼﮭﻮﮌ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ؟
ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ
ﮐﯿﺴﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ؟
ﺗﻢ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔۔
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﻣﯿﮟ
ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ
ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﺗﻮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺁﺱ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻻﺋﯽ ﺗﮭﯽ؟
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻥ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ
ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ
ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ
ﺟﻮ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔
ﺟﻮ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
شاہ چار بجے سے پہلے ہی کافی شاپ میں موجود تھا
وہ یہاں کبھی بھی نا آتا لیکن ساحرہ کا حوالہ ایسا تھا کہ اسے آنا پڑا
تھوڑی ہی دیر میں حیا وہاں آکر بیٹھ گئی
آئی ایم حیا شاہ
حیا شاہ کے سامنے بیٹھتی ہوئی بولی
جبکہ شاہ یک ٹک حیا کو دیکھ رہا تھا
وہ ساحرہ تھی اسکی ساحرہ ہو بہو ہاں پر کچھ مختلف تھا اور وہ تھا داغ کا نشان
جو حیا کے چہرے پر نہیں تھا
کیا کوئی کس سے اتنی بھی مما ثلت رکھتا ہے شاہ سوچنے لگا
آپ ساحرہ کی بہن ہو
نہیں دوست اور ہماری دوستی کی وجہ بھی ہمارا چہرہ ہے
حیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
ہمم
کیسے ہین آپ حیا نے ابتدا کی
کیسا ہونا چاہیے تھا شاہ نے الٹا سوال کیا
بانو آپ سے بہت مجبت کرتی تھی حیا سر جھکاتے ہوئے بولی
کون بانو
ساحرہ
اوہ ایسا آپ سے ساحرہ نے کہا شاہ نے ایک بار پھر سے پوچھا
جی
خیر آپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا شاہ مدعے پر آیا.
میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں حیا مدعے پر آئی
آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہے شاہ میر صرف ساحرہ کا ہے شاہ چلا کربولا
سب لوگ انکی طرف متوجہ ہو گئے
سوری شاہ بولا
میں قیامت کے دن ساحرہ کا شاہ میر اسکو لٹا دوں گی حیا سر جھکا کر بولی
آپ کا دماغ خراب ہے شاہ اٹھ کر چل دیا
ایسا ساحرہ چاہتی ہے حیا کے الفاظ نے شاہ کو رکنے پر مجبور کردیا
❤❤❤