محسن تم بدنام بہت ہو۔۔۔۔
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو۔۔۔۔“
صبح کی ریشمی کرنیں دھیرے دھیرے اس پوری حویلی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔آسمان آج صاف تھا چوڑے آسمان کے سینے پہ سورج چمک رہا تھا ۔۔۔۔۔لمبے گھنے اس پرانے درخت پہ پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے تھے۔۔۔۔۔جو سہمی ہوٸی آوازیں نکال کے اس سناٹے کو توڑنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے
اس بڑی حویلی میں معمول کے مطابق چہل پہل تھی نیچے اس بڑے سے ہال میں صوفے پہ میر داد خان کچھ لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے سفید کاٹن کے سوٹ میں چوڑی پیشانی والے وہ بزرگ اس عمر میں بھی خوبرو لگتے تھے آدھا سر کالا اور آدھا سفید تھا داڑھی کے بالوں میں بھی چاندی اتر آٸی تھی لیکن آج بھی وہی رعب باقی تھا پورے گھر میں ہر انسان ان سے بات کرنے سے خوف کھاتا تھا سواۓ وہاج کے اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ اس خاندان کا اکلوتا چشم و چراغ تھا ابھی بھی وہ تیسری بار ملازم کے ہاتھ بلاوا بھیج چکے تھے۔۔۔۔
لیکن وہ یہاں نہیں آیا تھا
حویلی کی پچھلی طرف کچن میں کھڑی دو عورتیں۔۔۔۔سر جوڑے باتوں میں مصروف تھی
میرداد کی بڑی بہو اور وہاج کی ماں رضیہ اور چھوٹی اور سب سے لاڈلی بہو مہرالنسا۶۔۔۔۔۔
ہال میں بیٹھے سب نفوس نے سر گھما کے دیکھا تھا وہ بکھرے بالوں کے ساتھ ٹراٶزر شرٹ پہنے ہی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا
وہاں بیٹھے دو اجنبی چہروں نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا تھا
اور میر داد حجالت سے مسکراۓ تھے
پھر سیڑھیوں سے اترتے وہاج کو افسوس سے دیکھا تھا
پتہ نہیں وہ اتنا صاف گو تھا یا انہیں چڑانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتا تھا۔۔۔۔
وہ اب ان کے سر پہ پہنچ آیا تھا
وہ ایک نظر اسے دیکھ کے پھر میرداد کی طرف متوجہ ہو گۓ تھے
وہ بھی سر جھٹک کے صوفے پہ بیٹھ گیا تھا
وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس دو کم عمر نوجوان حلیے سے کوٸی رپورٹر لگتے تھے
”شہباز خان اور رجب خان کسی کام سے دوسرے گاٶں گۓ ہوۓ تھے
اسی لیے میرداد نے وہاج کو میڈیا کے سامنے کیا۔۔۔۔۔
حالانکہ اچھاٸی کی امید انہیں اس کے ساتھ کبھی بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔
اور اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا
”تو خان جی۔۔۔۔۔آپ گاٶں کے بڑے ہیں اور گاٶں کے لوگوں کے خیر خواہ بھی ہیں۔۔۔۔۔ہمیں لگتا ہے آپ سے بڑھ کے کوٸی بھی گاٶں کے مساٸل کو حل کرنے میں ہماری مدد نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔“
کیمرہ سیٹ ہوا تھا۔۔۔۔
اس رپورٹر نے مسکرا کے انٹرویو کا آغاز کیا تھا
میرداد خان نے مسکرا کے محض سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ بوریت سے کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
پھر سیدھا ہو کے بیٹھا۔۔۔۔
”ایسی مخفلوں میں میرا کیا کام ہے ویسے۔۔۔۔۔“؟
اس نے لاپرواٸی سے کہا۔۔۔۔
تو تینوں نے چونک کے وہاج کی طرف دیکھا تھا
جو بور سا لگتا تھا۔۔۔۔
اب کی بار میرداد کی نظروں میں غصہ تھا۔۔۔۔
”کیوں میرداد خان کے بعد آپ نے ہی اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کے گاٶں کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔۔۔“
رپورٹر تذبذب کا شکار تھا۔۔۔۔۔۔
”مجھے تو کوٸی دلچسپی نہیں۔۔۔“
اس نے نیوز رپوٹر کے قریب ہوکے صاف گوٸی کا مظاہرہ کیا
”وجہ جان سکتا ہوں وہاج صاحب۔۔۔۔۔“؟
گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔۔۔۔۔رپوٹر اس دفعہ ریٹنگ کے لیے قدرے دلچسپی سے اس کی طرف پلٹا۔۔۔۔
پروگرام لاٸیو جارہا تھا
اور میرداد سواۓ ماتھے سے پسینہ صاف کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔۔۔۔
”میں آپ کو بھی بتانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔۔۔۔”
اس نے مسکرا کے جواب دیا تھا
رپورٹر یکدم شرمندہ ہو کے میرداد کی طرف پلٹا تھا
”تو ہم کیا بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔خان جی۔۔۔۔“؟
اس نے ماٸیک درست کرتے ہوۓ سوال پوچھنا چاہا۔۔۔۔۔
”میں یہاں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر یہاں پیداوری کی شرخ ذیادہ ہے تو یہاں غربت کی شرخ بھی ذیادہ ہے اتنی محنت کے باوجود اگر یہاں کے لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی تو۔۔۔۔۔کیا میں یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ یہاں کہ لوگوں کی محنت سے جو فنڈز ملتے ہیں کیا وہ ضروریاتِ ذندگی کے لیے کافی نہیں ہے۔۔۔۔۔“
رپورٹر سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا
اس سے پہلے کہ میر داد خان کچھ کہتے وہاج نے ان کی بات کاٹ دی۔۔۔۔۔
”میں اس بات کا جواب دینا چاہتا ہوں
مسکرا کے کہا گیا تھا تو رپورٹر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
”آپ یقیناً حیران ہونگے کے میں ایک وڈیرہ ہونے کے باوجود اس نظام کے خلاف ہوں لیکن میں اس نظام کے خلاف ہوں۔۔۔۔۔“
اس کے اس قدر اطمینان سے کہنے پر میرداد نے افسوس سے سر اٹھا کے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
رپورٹر البتہ ماٸیک ہاتھ میں پکڑے۔۔۔۔۔دلچسپی سے بیٹھا تھا۔۔۔۔
”مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کیا ہم لوگ پاگل ہیں بے وقوف ہیں آنکھیں نہیں رکھتے یا دیکھنے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں کیا حکومت کرنے کے لیے ایک اد کوٸی دوسرے ملک کی ڈگری سیاسی بیک گراٶنڈ آٹھ دس گاڈز ہونے ضروری ہیں ۔۔۔۔“؟آپ کیا سمجھتے ہیں ایک عام کسان ان پڑھے لکھے لوگوں پہ حکومت نہیں کر سکتا۔۔۔۔“؟
وہ تیزی سے مگر صاف گوٸی سے کہہ رہا تھا
اور میر داد بس اسے دیکھ کہ رہ گۓ تھے
وہ ایسا کیوں تھا وہ کبھی سمجھ نہیں پاۓ تھے۔۔۔۔
”میرے نزدیک امیروں کی بھیس میں چھپے ان وڈیروں جاگیرداروں حکمرانوں سے ذیادہ اچھی حکومت ایک عام شہری کر سکتا ہے۔۔۔۔۔“ کیونکہ اس کو کوٸی چیز تھالی میں سجا کے نہیں ملتی۔۔۔۔اس کا کوٸی سیاسی بیک گراٶنڈ نہیں ہوتا اس کے پاس باہر کی ڈگری نہیں ہوتی۔۔۔۔اس نے پیٹ بھر کے کبھی کھایا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔وہ محنت کرنا جانتا ہے وہ ہی ہوتا ہے جو بھوکے رہنے کی تکلیف سے واقف ہوتا ہے وہ جانتا ہے سڑک پہ سونا مشکل ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مجبور باپ کی آنکھوں میں دم توڑتے خوابوں کیا قیمت ہے۔۔۔۔۔“؟ وہ تعلیم سے محروم بچوں کی خواہشات کا احترام کرتا ہے۔۔۔۔۔“
وہ دھیرے دھیرے بول رہا تھا
ماحول یکدم بدل گیا تھا۔۔۔۔۔
دور ۔۔۔۔۔۔۔اس چمچماتے کوٹھے میں وہ جہاں آرا۶ کے ہمراہ بیٹھی کسی ٹرانس میں۔۔۔۔۔۔اس کے الفاظوں کے سحر میں مبتلا تھی
وہ کون تھا۔۔۔۔۔وہ کیا تھا۔۔۔۔“؟
کوٸی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
شاید وہ خود بھی نہیں
ابھی یہاں بیٹھے اسے تھوڑا سا احساس ہوا تھا کہ کہیں وہ غلط تھی
وہاں وہ ابھی تک بول رہا تھا
ماحول بدل رہا تھا ریٹنگز بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
کوٸی وڈیرہ پہلی بار اپنے ہی متعلق بول رہا تھا۔۔۔۔۔
”اور آپ لوگ۔۔۔۔۔یہاں بیٹھے جو انتخابات کے دنوں میں انہی وڈیروں اور جاگیرداروں کے پیچھے جوتے گھساتے ہیں اور بعد میں آکے مساٸل پہ گفتگو کرتے ہیں۔۔۔۔۔“
اس کے اس طرح کہنے پہ اب رپورٹر شرمندہ دیکھاٸی دے رہا تھا
مگر وہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔۔۔
”میں جانتا ہوں میری یہ سب باتیں بہت سے لوگوں کو ناگوار گزریں گی۔۔۔۔۔“
میرداد کو دیکھتے ہوۓ کہا گیا تھا
وہ تپش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے
اور دور اس کوٹھے میں کوٸی ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی
”لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اگر سچاٸی آپ کو ناگوار نہیں گزری تو وہ سچاٸی ہے ہی نہیں یا آپ نے اسے دل سے قبول کیا ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔“
میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں زہر اور چہروں پہ مسکان ہوتی ہے۔۔۔۔۔لیکن میرے نزدیک صاف گوٸی غلط چیز نہیں ہے
کہہ کے کندھے اچکا کے پیچھے ہو گیا تھا۔۔۔۔
اور نیوز رپورٹر لا جواب۔۔۔۔
”اب یہاں مذید گفتگو کا کوٸی فاٸدہ نہیں اگر ہے بھی تو میں مذید حصہ لینے کے حق میں نہیں ہوں لہازہ چلتا ہوں۔۔۔۔۔“
وہ مسکرا کے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
اور وہ یکدم اس کے حصار میں سے نکل آٸی تھی
نیوز رپورٹر اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے اختتامی جملے بول رہا تھا
میرداد وہاں سے اٹھ کے جاچکے تھے۔۔۔۔۔
اور جہاں آرا۶ وہی بیٹھے کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔۔
میں دریا سے بھی گہرا ہوں
تم دریا سے بھی ڈرتے ہو۔۔۔۔۔“؟
دوپہر کی تپتی دھوپ اور جولاٸی کی گرم ہواٶں نے۔۔۔۔اس شہر کے ساتھ ساتھ اس حویلی نما کوٹھے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا
چھت کے ساتھ لٹکا قدیم زمانے کا پنکھا دھیرے دھیرے چل رہا تھا
اس کمرے میں دو نفوس کی موجودگی کے باوجود خاموشی تھی
چمکیلی ساڑھی میں ملبوس بالوں کی لمبی چوٹی بناۓ وہ بھرے ہوۓ جسم والی عورت تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھی تھی
اور سامنے ہی سفید کاٹن کے لباس اوپر واسکوٹ پہنے سامنے کے دو بٹن گرمی کی وجہ سے کھول رکھے تھے
چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔۔۔
”مطلب آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ ابھی بھی اسی سے ہی نکاح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔“؟
”نگار بیگم نے کے لہجے میں اس دفعہ طنز تھا۔۔۔۔۔
”آپ کو پتہ ہے میرا نام کیا ہے۔۔۔۔“؟
وہ تھوڑا آگے ہوا۔۔۔۔۔
”وہاج خان۔۔۔۔“
اس نام پہ زور دیا گیا تھا۔۔۔۔
”میں جو بات ایک دفعہ ٹھان لیتا ہوں وہ کر کے رہتا ہوں۔۔۔۔۔“اور اب میری ضد ہے کہ میں اس سے نکاح کروں گا۔۔۔۔۔کسی بھی قیمت میں اور میں بناٶں گا اسے اپنی طواٸف اسے بہت غرور ہے نا اسے کوٸی استعمال نہیں کرسکتا میں کروں گا اسے استعمال اور پھر اسے کسی ٹشو کی طرح پھینک دوں گا۔۔۔۔۔۔“
اس کے لہجے میں غرور اور نفرت تھی۔۔۔۔۔
”تو اس میں ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں“؟
وہ روکھے لہجے میں بولی۔۔۔۔
”آپ نے صرف اس کی ماں کو منانا ہے۔۔۔۔۔“
چاہے جیسے بھی۔۔۔۔
اسے میں خود منا لوں گا۔۔۔۔“؟
اس نے جھٹ سے انہیں کام بتایا تھا۔۔۔۔
”نہیں خان جی وہ نہیں مانے گی۔۔۔۔۔“
نگار بیگم نے جان چھڑانی چاہی تھی۔۔۔۔
اس نے جیب سے نوٹ نکالے اور اس کے سامنے رکھ دیۓ۔۔۔۔
انہوں نے ایک نظر دیکھا اور فوراً جواب دیا
”معذرت۔۔۔۔“
دو ٹوک جواب آیا تھا
اس نے نوٹوں میں اضافہ کیا تھا۔۔۔۔
انہوں نے پھر ایک نظر دیکھا تھا
اب کی بار سر نفی میں ہلایا
اس نے اور اضافہ کیا تھا۔۔۔۔۔
”ہم سوچیں گے ۔۔۔“
”کہتے ہوۓ اٹھا لیا تھا۔۔۔۔
وہ دھیرے سے مسکرایا تھا
جیب سے سگریٹ نکالا تھا ایک کش بھری تھی
”ویسے نگار بیگم۔۔۔۔۔بہت عرصے ۔۔۔۔۔۔پہلے کی بات ہے کہ اخبار میں ایک خبر نشر ہونے جارہی تھی۔۔۔۔۔کہ آپ نے ایک یتیم بچی کا ریپ کروایا تھا اور اس کے پیسے لیے تھے۔۔۔۔“؟
وہ سگریٹ کا دھواں ہوا کے سپرد کرتے ہوۓ کچھ ایسے اطمینان سے بولا کہ نگار بیگم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔۔۔
”یہ کیا بکواس کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔“؟
وہ غصے سے چلاٸی۔۔۔۔
”میرے پاس ثبوت بھی ہے۔۔۔۔۔“
وہ مسکرا کے بولا۔۔۔۔۔۔
”آپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔“؟
وہ ابھی تک صدمے میں تھی
”میں سب کچھ کر سکتا ہوں ۔۔۔۔“
انداز چیلنجنگ تھا۔۔۔۔
اور ذیادہ کچھ کرنا بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔بس کرنا یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس کرنی ہے۔۔۔۔جس میں 2007 کے کیس کا راز آشکار کرکے داد وصول کرنی ہے۔۔۔۔“
مسکرا کے سر کو خم دیا تھا۔۔۔۔
وہ بے بسی سے غصے سے آگ بگولا ہوکے بیٹھی ہوٸی تھی
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سامنے بیٹھے شخص کی گردن مڑوڑ دیں۔۔۔۔
”آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔۔“
انہوں نے ایک انگلی اٹھا کے ضبط سے کہا
وہ ذور سے ہنسا۔۔۔۔
”اور میں ایسا کیوں نہیں کروں گا۔۔۔۔۔مجھے اس کے بدلے کیا ملے گا۔۔۔۔۔“؟
اس نے تکیہ درست کرکے دلچسپی سے کہا
”جو آپ کہیں۔۔۔۔۔“؟آپ کو زرپاش چاہیۓ نا۔۔۔۔۔“ ہم کچھ بھی کریں گے۔۔۔۔۔“وہ آپ کی ہی ہو گی۔۔۔۔
اب ان کا انداز منت بھرہ تھا
”ٹھیک ٹھیک۔۔۔۔۔“لیکن یہ تو ہو گیا اس بات کو چھپانے کا معاوضہ اب ۔۔۔۔۔قانون کو نہ بتانے کا کیا معاوضہ دیں گی۔۔۔۔۔“
اس نے معصومیت سے کہا
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
میں سمجھاتا ہوں۔۔۔۔
”ذیادہ نہیں پانچ لاکھ دے دیں۔۔۔۔۔“
بہت آرام سے ڈیمانڈ کی گٸ تھی
”ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آۓ“؟
وہ بے چارگی سے بولی۔۔۔۔
”ارے آپ کے ہاتھ میں پکڑے ہوۓ ہیں۔۔۔۔۔“
وہ یکدم اٹھ بیٹھا مسکراتے ہوۓ جوش سے بولا
وہ اس کا منہ دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔
پھر وہ نوٹ دوبارہ وہی رکھ دیۓ۔۔۔
اس سے جیتنا مشکل تھا وہ وہاج خان تھا۔۔۔۔وہ لوگوں کے دماغوں کے ساتھ کھیلنا جانتا تھا۔۔۔۔۔
”نوٹ جیب میں ڈال کے وہ باہر نکل گیا
نگار بیگم کلس کر رہ گٸ۔۔۔۔۔
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آۓ تو کب یاد آۓ۔۔۔۔۔۔؟
باہر ٹیبل ۔۔۔۔۔کے اوپر پڑے گلدان۔۔۔۔۔سے تیزی سے کوٸی ٹکرایا تھا اور وہ ذمین بوس ہو کے کسی کے پاٶں پہ جاکے گرا تھا۔۔۔۔
اس کی نظر اس کے سفید پاٶں سے ہوتے ہوۓ اس کے چہرے تک گٸ تو ایک لمحے کے لیے اس کے تاثرات بدلے
چہرے پہ سختی در آٸی
وہ درد کی شدت سے ذمین پہ بیٹھ گٸ تھی۔۔
سفید پاٶں خون سے بھر گیا تھا اور ساتھ ہی ذمین کو بھی لال کر گیا تھا
پتہ نہیں کیوں اس کا دل پسیج رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ اسے نظر انداز کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔
لیکن وہ دو قدم سے آگے نہیں جا پایا۔۔۔۔
پھر پلٹا۔۔۔۔
ذمین پہ بیٹھا اسی دن کی طرح۔۔۔۔۔جیب سے رومال نکالا اور اس کے پاٶں پہ باندھنے لگا۔۔۔۔۔
وہ چپ چاپ نظریں جھکا کے بیٹھی رہی
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
جانے لگا۔۔۔۔
جب اس نے پکارا
وہ رکا مگر پلٹا نہیں۔۔۔۔
”ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی تھی
وہ کچھ تذبذب کا شکار لگتی تھی اس لیے رک رک کر بول رہی تھی۔۔۔۔
”ہم سے غلطی ہو گٸ ہے۔۔۔۔۔ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔۔۔۔۔“
اس نے شرمندگی سے سر جھکا کے کہا۔۔۔۔
وہ اس چیز کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اس لیے فوراً پلٹا۔۔۔۔
میں اتنی جلدی معاف نہیں کرتا لوگوں کو۔۔۔۔۔“
سختی سے کہہ کے جانے لگا
جب وہ فوراً سے بول پڑی
”آپ جو بھی کہیں گے ہم کریں گے بس ہمیں معاف کر دیں۔۔۔۔۔“
لہجے میں التجا تھی
وہ ذو معنی انداز میں ہنسا۔۔۔۔
پھر پلٹا۔۔۔۔۔
”جو ہم کہیں مانیں گی۔۔۔۔۔“
اس کے قریب بالکل اس کے سامنے آکے کھڑا ہوا
اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
”مجھ سے شادی کر لیں۔۔۔۔۔۔“؟
چہرے پہ ہنوز تپش بھری مسکراہٹ تھی
وہ جسے مسکراہٹ سمجھ رہی تھی
وہ اصل میں آگ تھی جو اسے لپیٹ میں لینے کے لیے تیار تھی۔۔۔۔
وہ کچھ بھی نہ بول پاٸی بس منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
”کہیں مانیں گی۔۔۔۔۔“؟
دوبارہ پوچھا گیا تھا
”نہیں نا۔۔۔۔“
وہ اٹھ کھڑا ہوا
”پھر معافی بھی نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔۔“
وہ وہاں سے چلا گیا اور وہ اسے روک بھی نہ پاٸی
پہلی دفعہ دل کو کچھ ہوا تھا
مگر کیوں۔۔۔۔۔“؟