"کیا ہوا بیٹا اتنی پریشان کیوں ہو؟" ہادیہ لاونچ میں گم صم بیٹھی تھی تب اسکی ماما اسکیلئے سوپ بنا کر لے آئیں
"کچھ نہیں ماما" وہ ہوش میں آتے ہوئے بولی
"حیا نہیں آئی؟" ماما نے حیرانی سے پوچھا
"میں نے اسکو نہیں بتایا کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور نہ وہ میرا فون اٹھاتی ہے" ساتھ ہی ہادیہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے
"ماما آج جانے دیں مجھے پلیز اسکو دیکھے ہوئے دو دن ہوگئے ہیں" وہ اپنی ماں سے التجا کرتے ہوئے بولی جو اسکو جانے نہیں دے رہی تھیں
"پاگل مت بنو کوئی ضرورت نہیں جب اسکو تمہاری پروا نہیں تو تم۔بھی سکون سے ادھر بیٹھی رہو اور ہاں منزہ کا فون آیا تھا وہ آرہی ہے" وہ اسکو بتا کر چلی گئیں جبکہ ہادیہ منزہ کے آنے کا سوچ کر تھوڑی مطمئن ہوگئی کی اسکی تنہائی بٹ جائیگی اس بات سے بے خبر کہ زندگی بھر تنہائی سے بہتر یہ کچھ دیر کی تنہائی ہوتی ہے
_________________________________________
"مانی بھائی کہاں جارہے ہیں؟" اریشہ اسکو جاتا دیکھ کربولی
"ہاسپٹل حیا ہاسپٹل۔میں ہے" وہ اپنی حالت کی پروا کئے بغیر بولا
"ماما نے تو آپ کو باہر نکلنے سے منع کیا ہے نا" اریشہ پریشانی سے بولی
"پلیز اریشہ تم انکو سمجھادینا اسکی بہت بری کنڈیشن کے میرا جانا ضروری ہے" عثمان سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
"اوکے جائیں لیکن دھیان سے جائیگا بھائی" اریشہ کا اشارہ ان لڑکوں کی طرف تھا
"ڈونٹ وری گڑیا وہ لوگ اب پولیس کسٹڈی میں ہیں" وہ اسکی پریشانی سمجھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا
"ویسے خیریت تو ہے آپکو میری فکر ہورہی ہے؟" عثمان اسکو چھیڑتے ہوئے بولا
"بھائی!!!میں آپکی سگی بہن ہوں" اریشہ چڑتے ہوئے بولی
"اچھا ویسے مجھے اس بات پہ یقین نہیں ہے" عثمان اسکے بال بگاڑتا ہوا گاڑی کی طرف بھاگا
"اب بھی انکو سکون نہیں ہے" اریشہ سر جھٹک۔کر واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوگئی
________________________________________
"ایمان" کال ریسیو ہوتے ہی ہادیہ بولی
"جی آپی" ایمان کی رندھی آواز سن کر ہادیہ پریشان ہوگئی
"ہادیہ آپی" ایمان اسکی آواز سن کی ہی رونے لگ گئی
" کیا ہوا مان حیا کہاں ہے؟ اور تم رو کیوں رہی ہو؟"ہادیہ کا بس نہیں چل رہا تھا اڑ کر اسکے پاس پہنچ جائے
جواب میں ایمان نے ساری روداد سندی جسکو سن کر ہادیہ شاک رہ گئی اپنی جان سے زیادہ عزیز دوست کی حالت سن کر وہ سن ہوگئی تھی
"ایمان مجھے ہاسپٹل کا نام بتاؤ میں آرہی ہوں" وہ ہر جوش ہوتے ہوئے بولی
"ماما ماما" ایمان سے بات کرنے کے بعد وہ ماما کو آوازیں دینے لگی
"کیا ہوا بیٹا؟" ماما بھاگتی ہوئی آئیں
"ماما ماما حیا کی طبیعت بہت خراب ہے مجھے ہاسپٹل جانا ہے بس آپ ڈرائیور کو کہیں" وہ روتے ہوئے بولی
"بیٹا کیسے جاوگی تم چل نہیں سکتی" ماما پریشانی سے بولیں
"مم میں ویل چیئر پر چلی جاؤں گی پر مجھے جانا ہے ماما" وہ انکی منتیں کر رہی تھی ماما نے ایک بے بس نظروں سے اسکو دیکھا وہ ان دونوں کی دوستی جانتی تھیں اسلئے مجبورا انکو ڈرائیور کو بولنا پڑا
_________________________________________
"مجھے کیوں بچایا ہے مرنے دیتے" حیا ہوش میں آتے ہی بولی اس وقت کمرے میں شائستہ زنیرہ شہیرہ ایمان حسن سمرہ اور عثمان تھے
"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپی" شہیرہ تڑپ۔کر بولی
"اس زندگی سے تو موت ہی اچھی ہے" اسکے لہجے میں کڑواہٹ تھی عثمان لب بھینچ کر رہ گیا اسکو سب اپنا قصور لگ رہا تھا
"موت تایا کیلئے بہت اچھی ہے" کونے میں بیٹھی ایمان کی آواز ابھری حیا نے منہ موڑ کر اسکو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی حیا کی آنکھوں میں نمی آنے لگی ایمان بھاگ کر اسکے بیڈ کے اوپر چڑھ گئی اور رکے ہوئے آنسو بہانے لگی حیا نے اسکو رونے دیا ہر آنکھ دونوں بہنوں کی محبت دیکھ کر اشکبار تھی
اتنے میں کمرے کے دروازہ پر ناک ہوئی حسن نے اٹھ کر دروازہ کھولا
"ہادیہ" وہ اسکو ویل چیئر پر بیٹھا دیکھ کر شاک سا رہ گیا
"حیا کہاں ہے؟" ہادیہ نے بے تابی سے پوچھا
"تت تم اندر آؤ" وہ اسکو راستہ دیتے ہوئے بولا ہادیہ ویل چیئر چلا کر اندر آئی تو حیا ہونقوں کی طرح اسکو دیکھ رہی تھی
"ہادیہ کیا ہوا؟" عثمان بے تابی سے بولا
"مانی بھائی" ہادیہ زیر لب بولی
"کیا ہوا گڑیا" عثمان اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوا بولا
"کچھ نہی بھائی ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اب تو ٹھیک ہوں" وہ بمشکل۔مسکرائی
"خاک ٹھیک ہو جو ویل چیئر پر ہو" سمرہ برہمی سے بولی تو ہادیہ مسکرا کر رہ گئی اور ویل چیئر چلا کر حیا کے بیڈ کے پاس آگئی دونوں ایک دوسرے کو دو دن بعد دیکھ رہی تھیں دونوں کی آنکھیں ایک دوسری کو دیکھ کر نم ہورہی تھیں ایمان بیڈ سے اتر کر عثمان کی گود میں جاچکی تھی۔۔۔ ہادیہ نے بنا کچھ کہے اپنا سر اسکے ہاتھ پر رکھ دیا تو بیڈ پر رکھا تھا اور رو گئی
"یار یہ جذباتی سین بند کرو میں رو رو کر تھک گئی ہوں" سمرہ ماحول خوشگوار کرتے ہوئے بولی
"اور رو لو جان روتے ہوئے ویسے بھی لال ٹماٹر ہوجاتی ہو" حسن بھی لہجے میں بشاشت لاتے ہوئے بولا
"آپ تو چپ ہی رہیں" اب سب کے چہروں پر مسکراہٹ رقص کر رہی تھی شائستہ بیگم بھی اپنے رب کا شکر ادا کرنے کیلئے نماز پڑھنے چل دیں
_________________________________________
"اسلام علیکم" زنیرہ کے فون اٹھاتے ہی حسین نے سلام کیا
"وعلیکم السلام" زنیرہ ہاسپٹل کے روم سے باہر آتے ہوئے بولی
"کہاں ہو یار کل سے کال کر رہا ہوں" حسین کے سوال پر زنیرہ لب بھینچ کر رہ گئی
"زنیرہ" کوئی جواب نا پاکر حسین واپس گویا ہوا
"جی" بمشکل آنسو روکتے ہوئے بولی
"آر یو آل راءٹ؟" حسین فکرمندی سے بولا
"یس" وہ خود کو نارمل۔کرتے ہوئے کہنے لگی
"مجھے تو نہیں لگ رہی چلو بتاؤ جو دل میں ہے" حسین پیار سے بولا
"کچھ نہی ہے حسین"
"ٹھیک ہے نا بتاؤ جب اپنا سمجھ لو تو بتادینا" حسین ناراضگی سے بولا اسکے ناراض ہونے پر زنیرہ نے ساری بات بتادی
"اففف اتنی سفاکیت کی امید نہیں تھی ان سے زونی اور یہ ایمان کیا کراٹے کلاسس لے رہی ہے؟" حسین حیرانی سے بولا
"نہیں تو پتہ نہیں کہاں سے سیکھتی ہے یہ سب" زنیرہ مسکراتے ہوئے بولی
"دادا دادی کہاں ہیں؟" حسین نے پوچھا
"آپی کو ہاسپٹل۔لانے کے بعد دادی کی طبیعت بگڑ گئی تھی دادا انہیں کے پاس ہیں لیکن بار بار کال کر کے پوچھ رہے ہیں" زنیرہ اسکو بتاتے ہوئے خود ایک بینچ کر بیٹھ گئی
"اچھا تم نے کچھ کھایا ہے؟" حسین جانتا تھا وہ بھی اپنی آپی کی طرح ٹینشن میں کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے
"نہیں" حسب توقع جواب آیا
"چلو میری جان فورا سے کھانا کھاؤ" وہ اسکو پیار سے بولا جسکو زنیرہ ٹال نہیں سکتی تھی ورنہ سخت ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا کچھ دیر تک حسین زنیرہ سے باتیں کرتا رہا اور زنیرہ سوچتی رہی اگر یہ شخص میری زندگی میں نہ ہوتا تو اکیلے غم سہ کر وہ شاید مر ہی جاتی
حیا ڈسچارج ہوکر گھر آچکی تھی لیکن گھر آکر لوگوں کی باتوں اور نظروں نے اسکی روح تک کو زخمی کردیا تھا تایا اور تائی وہاں سے اٹھ جاتے جہاں وہ ہوتی صرف کزنز اور ماں اسکے ساتھ ہوتے دادا اور دادی کو بھی چپ لگ گئی تھی آج اسکو ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور اس ایک ہفتے میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جسمیں اسکو اپنا آپ برا نہ لگا ہو کوئی رات ایسی نہیں گزری جسمیں وہ ہچکیوں سے روئی نہ ہو اس نے اپنے آپ کو اپنا دوست بنا لیا تھا اب وہ کسی سے اپنی باتیں شیئر نہیں کرتی تھی اپنا دل دوسروں کے سامنے پتھر کا کر لیا تھا جیسے برف جو کبھی نہ پگھلے جیسے کوئی جذبات نہ ہوں اب بھی وہ ڈائری لے کر بیٹھ گئی تھی
"مجھ سے دوریاں بہتر
قربتیں مضر کہ میں
زندگی ہار چکی
خواہشیں مار چکی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔۔بہت کہنے کی چاہت ہو بہت لکھنے کی خواہش ہو۔۔قلم کو تھام بھی لیں بہت سی گفتگو بھی کرلیں تب بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ہم اندر سے مر چکے ہوتے ہیں۔۔۔
آہ یہ لوگ صرف ظاہر کو کیوں دیکھتے ہیں جو بھی لڑکی گھر سے باہر اغوا ہوجائے اسکو برا کیوں سمجھنے لگتے ہیں کوئی قصور نہ ہوکر بھی قصور وار کیوں ٹہراتے ہیں ان لڑکوں کو کوئی کچھ کیوں نہیں کہتا جو اصل قصور وار ہیں وہ قصوروار ہوکر بھی بے قصور رہ کر دندناتے پھرتے ہیں کیا یہ معاشرہ لڑکیوں کو یوں ہی اندر سے مارے گا پھر کیا فرق رہ جائیگا اس جاہلیت کے زمانہ میں اور اس موجودہ زمانہ میں بس وہ جسم کو مارتے تھے اور آج روح کو مارتے ہیں اور یقین جانو روح کو مارنے کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے انسان زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں رہتا ہر پل۔۔۔ہر رستہ۔۔۔ہر موڑ۔۔۔ہر گھڑی مارتے ہیں تڑپاتے ہیں تکلیف دیتے ہیں..... آگے حیا کی لکھنے کی ہمت نہیں تھی وہ اپنی ڈائری پر سر رکھ کر رونے لگی آنسو لگاتار اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے دروازہ کی ناک پر اس نے فورا سر اٹھایا آنسو صاف کئے ڈائری دراز میں رکھی اور دروازہ کھولا سامنے سمرہ تھی جو اسکو ناشتہ دینے آئی تھی
"ارے سمرہ آؤ نا" وہ مسکرا کر بولی جیسے اسکو رونا آتا ہی نہیں لیکن سمرہ یہ خوب جانتی تھی کہ وہ ابھی روئی ہے سمرہ اسکی یہ حالت دیکھ کر اندر تک اداس ہوجاتی تھی
"ناشتہ کرلو حیا" سمرہ اپنے آنسو روکتے ہوئے بولی جسکو رونا چاہیے تھا وہ دوسروں کے سامنے ایسے رہتی جیسے رونا جانتی ہی نہیں اور اسکی حالت دیکھ کر دیکھنے والے روجاتے
"ارے ہاں میں ناشتہ کرنے آرہی تھی قسم سے یار بہت بھوک لگی تھی" حیا چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بول رہی تھی اور سمرہ۔اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں آنسوؤں کا ایک سمندر آباد تھا جو کبھی بھی نکلنے کو بے تاب تھا لیکن بہنے نہیں دے رہی تھی سمرہ نے آگے بڑھ کر ٹرے اسکے بیڈ پر رکھی اور اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی
"کیا ہوا بہت حسین لگ رہی ہوں؟" اپنی طرف مسلسل دیکھتا پاکر حیا بولی ساتھ ہی زور سے ہنسی گویا آنسو اندر لے جانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی
"دیکھو ذرا ہنستے ہوئے بھی آنکھوں سے پانی آجاتا ہے لگتا ہے آنکھوں کا ٹیسٹ کروانا پڑے گا بہت زیادہ ایموشنل ہوجاتی ہیں ہاہاہا" حیا آنکھیں رگڑتے ہوئی بولی گویا ہاتھوں سے آنکھوں کو ڈانٹ رہی ہو سمرہ نے اسکو گلے لگا لیا
"پلیز حیا نارمل ہوجاو کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں ہمیں رولا رہی ہو کیوں اتنی اجنبی ہوگئی اپنے آپ سے بھی ناراض ہو پلیز حیا بولا کرو کیوں اپنے آنسو چھپاتی ہو" سمرہ اسکے گلے لگ کر رو رہی تھی اور حیا تیز تیز پلک جھپکاتے ہوئے اپنے آنسو اندر اتار رہی تھی
"ارے پاگل۔ہوگئی ہو سمرہ میں بالکل ٹھیک ہوں یار کیا غم۔لگا ہے مجھے اور اجنبی کہاں ہوں وہی حیا ہوں بھئی پاگلوں جیسی باتیں نہیں کرو اچھا میں ذرا واشروم چلوں" وہ آنکھیں چراتے ہوئے واشروم بھاگی اور اتنی دیر سے برداشت کرے ہوئے آنسو خود بخود آنکھوں سے بہنے لگے سمرہ۔جانتی تھی وہ اندر تک زخمی ہے بہت مشکل ہے اسکو واپس پہلی جیسی حیا کرنا وہ بھی باہر آگئی
_________________________________________
"آپی" ایمان اسکے کمرے میں آئی جب حیا لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھی
"ہاں جان" وہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی
"جھوٹ مت بولا کریں" ایمان برہمی سے بولی جبکہ حیا پریشان کہ اس نے تو کچھ بولا ہی نہیں
"ہائے میں نے کچھ بولا ہی نہیں مان" وہ اسکو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولی
"ابھی تو بولا جان جبکہ جان ایسی نہیں ہوتی جان کو اب کچھ بتاتے ہیں اپنی جان سے کچھ نہیں چھپاتے اور آپ آپ اپنے آنسو اپنی چھوٹی معصوم سی بہن سے چھپاتی ہیں تو پھر میں آپکی جان کیسے ہوئی" وہ بولتے بولتے رو گئی تھی اور حیا لب بھینچ کر رہ گئی
"اتنی گہری باتیں کہاں سے سیکھتی ہو مان؟" وہ مسکراتے ہوئے اسکی باتوں پر حیران ہوتے ہوئے بولی
"اپنے دل سے" ایمان اسکی گود میں سر رکھتے ہوئے بولی
"اچھا تمہارا دل اتنا گہرا ہے واہ بھئی" حیا مصنوعی حیرانگی سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
"ہاں میرا دل بہت گہرا ہے آپی ابھی تک اپنی آپی کی حالت جو برداشت کر رہا ہے" وہ ایک گہری بات کہ چکی تھی اور حیا اسکی باتوں پر شاک سی رہ گئی
"مجھے کیا ہوا ہے مان"
"آپکو کیا نہیں ہوا ہے آپی آپ وہ آپی رہی ہی نہیں ہیں" وہ روتے ہوئے بولی
"اچھا بتاؤ اگر ہم یہاں سے بہت دور چلیں تو آپکو کیسا لگیگا" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی
"کہاں جائیں گے ہم؟" ایمان سر اٹھا کر حیرانی سے بولی
"وہاں جہاں کوئی اپنا نہ ہو ہم اپنی زندگی سکون سے جئیں" وہ خلا میں گھورتے ہوئے بولی
"پھر میں واقعی بہت خوش ہونگے لیکن اگر ہمارے ساتھ مانی بھائی اور ہادیہ آپی بھی ہوں تب" اور حیا اسکی بات پر لب بھینچ کر رہ گئی
________________________________________
"سر مے آئی کم ان" آج وہ آفس کسی خاص کام سے آئی تھی اور سیدھا عثمان کے روم میں آئی
"تم بغیر پوچھے بھی آسکتی ہو حیا" وہ اسکو مسکرا کر دیکھتا ہوا بولا تو حیا بھی جوابی ہونٹوں سے مسکراہٹ دیتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی
"کہو کچھ کہنا ہے" اسکو خاموش پاکر عثمان بولا
"جی کہنا اچھا تو نہیں لگ رہا لیکن مجھے اس مہینے کی سیلری چاہیئے کچھ ضرورت ہے" وہ نظریں جھکاتے ہوئے اجنبی لہجے میں بولی تو عثمان اسکی بات اور لہجہ پر حیران نظروں سے اسکو دیکھنے لگا
"خیریت؟" وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا
"جی گھر کی کچھ چیزیں لینی ہیں" وہ سر جھکائے ہی بولی مبادا کہیں جھوٹ پکڑا نہ جائے
"اوہ اچھا اوکے میں دیتا ہوں" وہ دراز کھولتے ہوئے بولا اور اسمیں سے حیا کو سیلری پلس بونس دے دیئے جسپر حیا نے تشکر بھری نظروں سے دیکھا
_________________________________________
"دادا" رات کے پہر وہ دادا کے کمرے میں آئی جو اس وقت کسی گہری سوچ میں گم تھے اور دادی سو رہی تھیں
"ہاں حیا آؤ بیٹا" وہ سیدھے ہوکر بیٹھے
"کیا آپ بھی مجھے قصوروار سمجھتے ہیں؟؟ مجھ سے کتراتے ہیں؟؟؟ مجھے دیکھنا مجھ سے بات کرنا تک نہیں چاہتے؟" کتنا دکھ تھا اسکے لہجے میں کتنی تکلیف تھی دادا تڑپ کر رہ گئے تھے
"نہیں بیٹا میں تو تمہارے مستقبل کا سوچ سوچ کر پریشان ہوتا ہوں بیٹا یہ لوگ کتنے ظالم ہیں میری سب سے اچھی پوتی کو توڑ پھوڑ کی رکھ دیا" وہ سامنے گھورتے ہوئے بولے
"یہ لوگ کبھی ظالم نہیں ہوتے اگر میرا باپ ظالم نہ ہوتا دادا ساری داستان شروع ہی میرے باپ کے جانے سے ہوتی ہے وہ ہوتے تو کسی کی ہمت نہیں تھی کچھ بھی کہنے کی پر افسوس میں اس نعمت سے محروم ہوں" وہ سر جھکائے افسردہ لہجے میں کہ رہی تھی
"دادا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے" وہ ایک دم سر اٹھا کر بولی
"ہاں بولو بیٹا" دادا اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
"دادا میں جانتی ہوں یہ آپ کے لئے بہت مشکل ہوگا لیکن میں آپکو اپنا ہمراز بنا رہی ہوں میں اپنی بہنوں اور ماں کو لیکر لندن جارہی ہوں یہاں سے سب کچھ ختم۔کر کے سوائے آپ کے دادا میرے اکاؤنٹ میں کافی پیسے تھے اور سیلری بھی آج کے کی اسکو ملا کر کافی ساری اماونٹ جمع ہوگئی تھی شکر ہے سب کے پاسپورٹ بنے ہوئے تھے صرف فلائیٹ بک کروانی تھی اور ویزا جو میں کل کروالوں گی لیکن دادا آپ سے میرا رابطہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا میں آپ سے ملنے پاکستان ضرور آؤں گی مگر کسی خفیہ مقام پر اپنے سارے کانٹیکس آپکو دے دوں گی لیکن آپ اپنی اس دوست سے وعدہ کریں کہ میرا راز میرا پتہ کسی کو نہیں بتائیں گے ہادیہ اور میرے باس کو بھی نہیں کسی کو بھی آپ یہ ظاہر بھی نہیں کریں گے کہ آپکو میرے بارے میں کچھ بھی پتہ ہے اور آپ مجھ سے رابطہ میں ہیں" وہ کہ کر خاموشی سے دادا کا چہرہ دیکھنے لگی جو حیران نظروں سے اسکو دیکھ رہے تھے
"لیکن بیٹا مشکلات اور مصائب سے گھبرا کر کہیں دور بھاگ جانا تو بہادری نہیں اور میں نے ہمیشہ تمہیں بہادری کا سبق دیا ہے" دادا سے اپنی پوتی کی جدائی کہاں برداشت ہونی تھی
"میں بھاگ نہیں رہی دادا ایک دن لوٹوں گی لیکن کچھ بن کر ایک کامیاب لڑکی بن کر ایک مضبوط لڑکی بن کر دادا میں یہاں رہ رہ کر تھک چکی ہوں مجھ سے اور لوگوں کی باتیں اور نظریں نہیں برداشت ہوتیں میں بھی تو انسان ہوں دادا کب تک برداشت کروں بائیس سال بہت ہوتے ہیں میں اپنی زندگی تباہ کرسکتی ہوں پر اپنی وجہ سے اپنی بہنوں کی زندگی تباہ نہیں کرسکتی اپنی ماں کو ایک کوئین بنا کر رکھنا چاہتی ہوں جو واقعتا میں کوئین بننے کے لائق ہے یہاں نوکروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک میری ماں کی ساتھ کیا جاتا ہے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں میں اپنی ماں سے بات نہیں کر پاتی اسی لئے میں نے یہ سب فیصلہ کیا ہے" وہ۔رندھی آواز میں بول رہی تھی دادا کو اسکا فیصلہ ٹھیک لگ رہا تھا اسکا مستقبل بھی وہیں بن سکتا تھا جسکیکئے وہ پریشان تھے
"لیکن بیٹا ہادیہ کا کیا قصور وہ تو جان چھڑکتی ہے تم پر" دادا کو ہادیہ اور حیا کی دوستی بہت پسند تھی
"آپ بے فکر رہیں اسکی اور بھی بہت سی دوستیں ہیں دادا" حیا کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا دادا نے اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا
"مجھ سے دور مت جانا میری جان" دادا اسکو پیار کرتے ہوئے بولے
"آپ سے دور جا ہی نہیں سکتی دادا جان" وہ بھی جواب پیار سے بولی اور کچھ دیر کیلئے انہیں کی گود میں سر رکھ کر سکون لینے لگی اور دادا اسکے نصیب کیلئے دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگے ان سے اپنی اس ہوتی کی یہ حالت برداشت نہیں ہوتی تھی ہر وقت انکے کب اسی کیلئے دعا گو رہتے تھے
"آپ نے بلایا آپی؟" زنیرہ اسکے کمرے میں آتے بولی
"ہاں زونی شہیرہ اور ماما کو بھی بلادو" وہ اسکی طرف مسکرا کر دیکھتی ہوئی بولی
"خیریت آپی؟" زنیرہ کو کچھ خطرہ کا شبہ ہوا
"ہاں اب تو خیریت ہی خیریت ہے تم جلدی سے بلا کر لاو" اسکی بات پر زنیرہ بنا سمجھے سر ہلاتی ہوئی دونوں کو بلانے چل دی
_________________________________________
"کہاں دھیان ہے تمہارا عثمان؟" بابا اسکو سوچوں میں گم دیکھتا بولے جو انکی کسی بات کا جواب نہیں دے رہا تھا
"ہوں کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں" وہ ہوش میں آتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا
"کوئی پریشانی ہے؟" بابا سے اسکے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگایا
"نہیں تو مجھے کیا پریشانی ہوگی" عثمان اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر بولا
"ادھر دیکھو" بابا نے آگے بڑھ کر اسکی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اپنی طرف کیا عثمان نے بے ساختہ نظریں چرالیں
"قد میں لمبے ہوگئے بیٹے میرے ہی ہو میرے میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں" وہ برہمی سے بولے جسر عثمان مسکرایا
"اچھی بات ہے ہر باپ کو ایسا ہی ہونا چاہیئے" وہ مسکراتے ہوئے بولا
"تم بتا رہے ہو یا جاؤں میں" بابا اسکی بات پر چڑتے ہوئے ناراضگی سے بولے
"کیا بتاؤں؟؟؟؟" عثمان انکو اپنے پاس بٹھاتا ہوا بولا
"کہ تمہیں حیا بہت یاد آرہی ہے اس سے محبت ہوگئی ہے وہ بھی شدت والی" بابا اسکے آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے بولا جبکہ عثمان حیرانی سے آنکھیں کھولے انکو دیکھ رہا تھا
"کہا تھا نا تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں باپ ہوں تمہارا" وہ اسکو اپنی طرف حیرانی سے دیکھتا پاکر گویا ہوئے
"نن نہیں ایسی بات نہیں" عثمان نے سر جھٹکا
"کس کو جھٹلا رہے ہو؟" بابا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے جو آج کافی مضطرب لگ رہا تھا
"مانی جاکر کہ دو اسکو جو تمہارے دل میں ہے کیا پتہ وہ بھی کرتی ہو اور مجھے اور تمہاری ماں کو بہت خوشی ہوگی اگو وہ ہماری بہو بنے" وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولے
"نہیں بابا میں نہیں کہ سکتا" وہ بے بسی سے بولا
"کیوں؟" بابا نے ابرو اچکا کر پوچھا
"بابا وہ مردوں سے دور بھاگتی ہے وہ شادی نہیں کرنا چاہتی" وہ سر جھکائے بول رہا تھا
"تمہیں کس نے کہا؟" بابا نے حیرانی سے پوچھا
"ہادیہ نے خود بتایا ہے جو اسکے بابا نے اسکے ساتھ کیا اسپر اسکا یہی رد عمل ہونا تھا پتہ نہیں کیوں لوگ بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں" وہ افسوس سے کہ رہا تھا
"انکو اندازہ نہیں ہوتا کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے بیٹی ایک انمول خزانہ ہے اور ماں باپ کا دکھ ہو یا سکھ بیٹی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا تمہیں پتہ ہے عثمان اللہ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چار بیٹیاں دیں کیونکہ وہ رحمت ہوتی ہیں اور اللہ اپنے محبوب کو رحمتیں ہی دیگا نا کچھ ہوتے ہے اسلام اور دین سے دور لوگ جنکو بیٹیوں کی قدر نہیں ہوتی لیکن یہ مشاہدہ ہے کہ کبھی نہ کبھی انکو بیٹی کی یاد۔۔اسکی کمی ضرور ستاتی ہے اور حیا کے باپ کو بھی حیا کی ماں اور بہنوں اور خود حیا کی کمی بھی بہت ستاتی ہوگی لیکن تم ہمت نہیں ہارو میرے شیر جاکر اسکو کہ دو جو بھی کہنا چاہتے ہو کیا پتہ تمہارے لئے اسکے جذبات کچھ الگ ہوں ایک دفعہ جاکر کہو تو سہی پھر جو ہوگا دیکھا جائیگا" وہ اسکی ہمت بندھا رہے تھے اور عثمان سمجھتے ہوئے سر ہلا رہا تھا اور ایک پختہ ارادہ کر رہا تھا
_________________________________________
"یہ تم کیا کہ رہی ہو حیا!؟" شائستہ بیگم حیا کی ساری بات سن کر شاک۔رہ گئیں
"یہی صحیح فیصلہ ہے امی ہم اپنی زندگی سکون سے جی سکتے ہیں" وہ متانت سے انکو قائل کرنے لگی
"لیکن بیٹا میں امی ابو کو ایسا چھوڑ کر نہیں جاسکتی اور یہاں کیا مشکلات ہیں سب کچھ صحیح تو ہے" شائستہ نظریں چرا کر بولیں جسپر حیا نے انکو بہت شکوہ کرتی نظروں سے دیکھا
"آپی نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے امی ہم وہاں اپنی مرضی سے رہ سکتے ہیں" شہیرہ رضامندی دیتی ہوئی بولی حیا نے زنیرہ کو دیکھا جو سوچوں میں گم تھی
"تمہیں اگر حسین سے اپنی بہنوں اور ماں سے زیادہ محبت ہے تو تم رہ سکتی ہو اگر حسین تم سے شادی کرلے" وہ اسکی سوچ پڑھتے ہوئے بولی جسپر زنیرہ نے سر اٹھا کر دیکھا کیا کچھ نہیں کیا تھا حیا نے ان سب کیلئے کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ حیا کو ڈاکٹر بننے کا کتنا شوق تھا لیکن صرف اپنی بہنوں کیلئے اس نے اپنی پڑھائی کو خیر آباد کہا تھا اور تایا سے پیسے ملنے کے باوجود وہ جاب کیلئے اسی لئے گئی تھی کیونکہ وہ پیسے کم ذلیل زیادہ کرتے تھے اپنی اپنی ماں اور بہنوں کی عزتیں اسے بہت عزیز تھیں
کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دفعہ تائی اسکو شدت سے مار رہی تھیں دور کھڑا حسین بس دیکھ رہا تھا لیکن کچھ نہیں کر رہا تھا اسوقت حیا نے ہی اسکو بچایا تھا اور بدلے میں خود مار کھائی تھی
کیا کچھ نہیں کیا تھا حیا نے تب اس نے حیا کے مان کا ۔۔۔اس سے وفاداری کا پلڑا بھاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہیں وہ غلط تھی کیونکہ انسان سے بعض اوقات فیصلے غلط بھی ہوجاتے ہیں نا
____________________________________
"حسین" کال پک کرتے ہی زنیرہ نے کہا
"جی جان حسین" حسین نے پیار سے کہا اور زنیرہ نے اس خطاب پر اپنے لب بھینچ لئے ہاتھ کپکپا گئے
"بولو بھی" زنیرہ کو خاموش پاکر حسین کو بولنا پڑا
"حسین مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے" وہ ڈرتے ڈرتے بولی
"بولو نا" حسین تجسس سے بولا
"آپ مجھے چھوڑدیں" زنیرہ ہمت کر کے بولی
"کیا کہ رہی ہو پاگل ہوگئی ہو کیا؟" حسین کو اسکی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا
"ہم جارہے ہیں حسین!! سب کچھ چھوڑ کر سب رشتے توڑ کر" زنیرہ اپنا دل سنبھالتے ہوئے بولی
"کہاں جارہے ہو؟" حسین کا لہجہ بدلا
"ملک سے باہر" فقط اتنا کہا
"کہاں؟" حسین نے سختی سے پوچھا
"میں یہ نہیں بتا سکتی" زنیرہ نے راز رکھنے کا وعدہ کیا تھا
"مجھے بھی نہیں" حسین بے یقینی سے بولا جیسے اسکو یقین نہ آرہا ہو کہ یہ سب زنیرہ کہ رہی ہے
"نہیں" زنیرہ نے سختی سے کہا
"کیا میں جان سکتا ہوں کہ اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟ کیا صرف یہی کہ میں انکا بیٹا ہوں؟" حسین کے لہجہ میں کیا کچھ نہیں تھا
"میں جواب دینے کی پابند نہیں" زنیرہ نے کال کاٹ دی اور رکے ہوئے آنسو بہانے لگی واقعی اس سب کے پیچھے اسکا کوئی قصور نہیں تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ تائی کبھی اسکو قبول نہیں کریں گی اور یہ بھی سچ تھا کہ وہ حسین کے بغیر کبھی خوش نہیں رہ سکے گی لیکن اپنی بہن اور ماں کیلئے ایک رشتہ اسکو توڑنا تھا جسکی کوئی منزل نہیں تھی جسکا کوئی انجام نہیں تھا میسج کی ٹون پر وہ سوچوں سے باہر آئی
"اپنی مرضی سے مجھے چھوڑ رہی ہیں چھوڑ دیں لیکن یاد رکھیں جب کبھی لوٹ کر آوئیں گی تب مجھے کھو دینگی بہت ڈھونڈیں گی پر نہیں ملوں گا اور ہاں اس بے وفائی کا آپکا بہت بہت شکریہ مجھے پیار کے بدلے جدائی کا انعام دینے کیلئے آپکا بہت شکرگزار ہوں خوش رہیں آپ اپنی فیملی کے ساتھ آئندہ آپکو مجھ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی لیکن ایک بات یاد رکھیں میں بے وفا نہیں تھا بے وفا تم ہو زنیرہ تم ہو۔۔" میسج پڑھ کر زنیرہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی کتنی اجنبیت تھی اسکے ایک میسج میں جو شاید آخری میسج تھا وہ موبائل پھینک کر بی کر اوندھی لیٹ کر آنسو بہانے لگی
آج رات انکو نکلنا تھا حیا نے اپنی فلائیٹ رات کے پہر رکھوانی تھی لیکن قسمت مہربان تھی جو فلائٹ ملی بھی رات کی سب تیاری ہوچکی تھی ایمان کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا بس یہ بتایا کہ ہم۔گھومنے جارہے ہیں اور حیا نے اپنا موبائل چھپادیا کہ کہیں وہ عثمان کو کال کر کے نہ بتادے
"اپنا خیال رکھنا بیٹا"دادا اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
"آپ بھی دادا اور ہاں میں آپ سے ملنے آیا کروں گی کب ملنا ہے کہاں ملنا ہے سب بتاؤں گی" وہ انکو مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولی
"ہاں ضرور بیٹا شائستہ اور بچوں کا خیال رکھنا" وہ اسکو ہدایت دیتے ہوئے بولے
"بچپن سے یہی کرتی آرہی ہوں دادا" وہ اداسی سے مسکراتے ہوئے بولی
یوں وہ سب دادا دادی کو الوداعی کلمات کہتے ہوئے گھر سے باہر نکلے اور اس گھر کو آخری بار دیکھا جہاں خوشیاں بھی تھیں حسن اور سمرہ کی صورت میں اور اذیتیں بھی تھیں تایا تائی کی صورت میں محبتیں بھی تھیں دادا دادی کی صورت میں لیکن اذیت تکالیف ان سب پر حاوی آگئیں اور اس دریچہ کو چھوڑنے پر مجبور کردیا
جہاز میں بیٹھنے سے پہلے حیا ایک کام کرنا ہرگز نہیں بھولی تھی