حیا پاکستان پہنچ چکی تھی پاکستان پہنچ کر حیا نے پی سی او سے دادا کو کال کی
"ہاں حیا بیٹا پہنچ گئی خیریت سے؟" دادا کی بے تاب سی آواز آئی
"جی دادا پہنچ گئی" وہ مسکرا کر بولی محبوب کے ملک میں قدم رکھ کر ایک احساس جاگا تھا
"اگر کہیں وہ نظر آگیا تو" یہ سوچتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی تھیں
"ہیلو حیا حیا آواز نہیں آرہی کیا؟" دادا کی آواز پر وہ چونکی
"جی کیا کہ رہے تھے دادا؟" وہ بولی
"میں کہ رہا تھا کہاں ملنا ہے؟" دادا زور سے بولے انکا گمان تھا کہ حیا کو آواز نہیں آرہی
"ساحل سمندر پر" حیا ایک پر سکون مسکراہٹ لئے بولی
"اچھا تم وہاں پہنچو میں آتا ہوں" دادا نے کال کاٹ دی حیا بھی کیب لیکر ساحل سندر کی طرف رواں دواں ہوگئی
_________________________________________
"کیا ہوا اتنے پریشان کیوں ہیں آپ؟" تائی تایا کو دیکھ کر بولیں جو فون کال سن کر پریشان سے تیار ہو رہے تھے
"حسین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے کہ رات سے وہ گھر نہیں آیا تمہیں کچھ خبر ہے؟؟؟ کومے میں ہے وہ" تایا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے جوان بیٹے کی یہ حالت کس باپ سے برداشت ہوتی ہے؟؟؟
"یہ کیا کہ رہے ہیں آپ" تائی دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں اور بیٹھتی چلی گئیں تایا انکو چھوڑ کر ہاسپٹل بھاگے
حسن ریسٹ کرنے گھر آیا ساری رات وہ سمرہ کے ساتھ جاگا تھا اب کچھ دیر آرام کی غرض سے گھر آیا
"امی کھانا دیں دیں بھوک لگ رہی ہے" وہ چلایا پر کوئی جواب نہ آیا
"امی یار کہاں ہیں۔۔۔۔" حسن انکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو تائی کو زمین پر بیہوشی پایا
"یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے" حسن کا سر چکرانے لگا وہ ماں کو اٹھا کر ہاسپٹل بھاگا ادھر پہنچ کر باپ کے فون سے حسین کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی
"یا اللہ" وہ زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اس پاس کے لوگ ترحم سے اسکو دیکھ رہے تھے
"جب بھی کوئی مصیبت آتی تو مسلمان اللہ کی طرف رجوع کرتے" کہیں پر پڑھی بھولی بھٹکی بات یاد آگئی حسن فورا اٹھا اور مسجد کی طرف چل دیا
_________________________________________
"یہ تم پر بہت اچھا لگ رہا ہے حیا" دادا اسکو ستائشی نظروں سے دیکھ کر کہنے لگے
"حیا کا نور چہرے پر جھلملاتا ہے
میرا حجاب میری دلکشی بڑھاتا ہے" حیا مسکرا کر بولی دونوں گیلی ریت پر چل رہے تھے
"کچھ بولو اتنی خاموش کیوں ہو؟" دادا اسکو خاموش دیکھ بولے
"خاموشی بھی ایک زبان ہے دادا جیسے دیکھیں نا یہ سمندر بظاہر کتنا خاموش ہے پر غور کریں تو یہ آپکو چیختا ہوا دکھائی دیگا کیونکہ اسکے نیچے آگ ہے جو کسی کو نہیں دکھتی لیکن تکلیف سہنے والی ان لہروں کو دکھتی ہے لیکن یہ لہریں خاموش رہ کر دکھی انسانوں کے آنسو پیتی ہیں میرے اندر بھی آگ ہے تکلیف سہ سہ خر تھک گئی ہوں پر اپنی ماں اور بہنوں کے آنسو سمیٹتی ہوں " حیا کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
"کیا بولے جارہی ہو کچھ سمجھ نہیں آرہا" دادا جھنجھلا کر بولے حیا سر جھٹک کر مسکرادی
"کچھ نہیں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ میرے اندر ایک آگ بھڑک رہی ہے میں جھلس رہی ہوں دادا" وہ نم آنکھوں سے بولی
"ایسا کیا ہوا ہے میری جان" دادا پریشانی سے بولے
"بابا مل گئے" بس ایک لمحہ تھا سب کچھ ساکت سا ہوگیا
"کک کیا کہ رہی ہو تم ملیں میرے بیٹے سے؟" انکی آواز میں بے تابی دیکھ کر حیا نے شکوہ کن نظروں سے انکو دیکھا
"بیٹا جو بھی ہے تمہارا باپ ہے" دادا اداسی سے بولے
"آپ یہ کیوں بھول گئے کہ وہ ہمارے ساتھ کیا کر کہ گئے تھے؟" حیا افسوس سے بولی اسکی بات پر دادا خاموش ہوگئے اور پھر گھر کی خبریں سنانے لگے
_________________________________________
عثمان گیلی ریت پر چل رہا تھا دادا کو دیکھ کر رک گیا اور انکے برابر میں کھڑی عبایا میں کھڑی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا
"حیا" وہ منہ میں بڑبڑایا
"ہاں یہ حیا ہی ہے" وہ بات کرنے کیلئے قدم آگے بڑھانے لگا
"نہیں بات کرنا تو گناہ ہے یہ تو نا محرم ہے کیا کروں یا اللہ اللہ پلیز ہیلپ" وہ بے بسی سے بولا
"بھائی آپ ادھر کھڑے ہیں" اریشہ بھاگتی ہوئی آئی
"اوہ اریشہ دیکھو حیا جا کر اس سے بات کرو پلیز اریشہ بھائی کیلئے"عثمان کی بے تابی عروج پر تھی وہ ایک اور بار حیا کو نہیں کھونا چاہتا تھا اریشہ اسکو شرارتی نظروں سے دیکھنے لگی
"جاؤ نا پلیز" عثمان نے تابی سے بولا
"جاتی ہوں جاتی ہوں دھیرج دھیرج بھائی صاحب" وہ جلادینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولی صاف لگ رہا تھا چڑارہی ہے یہاں عثمان کی بے تابی عروج پر تھی
"ٹھیک ہے نہ جاو" وہ واپس مڑنے لگا جانتا تھا اریشہ سے اسکی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی
"اچھا اچھا جارہی ہوں" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی عثمان مسکرادیا اور حیا اور دادا سے تھوڑا دور کھڑا ہوگیا
_________________________________________
"کیا ہوا دادا؟" دادا نے فون بند کیا تو ساکت سے تھے حیا انکو دیکھ کر پریشان ہوگئی
"حسین۔۔۔وہ کوما میں ہے" دادا کی آنکھیں نم ہوئیں
"اوہ میرے اللہ یہ کب ہوا؟" حیا شاک سی تھی
"ابھی ابھی حسن کا فون آیا تھا وہ بہت رو رہا تھا اسکا ایکسیڈنٹ ہوا چوٹیں اتنی زیادہ نہیں آئیں پر دماغ کو چوٹ لگی ہے" دادا نم آنکھوں سے بولے حیا کی آنکھوں کے سامنے حسن حسین کے ہر دم مدد کرتے چہرے گھومنے لگے
"تم۔نے اچھا نہیں کیا حیا زنیرہ کو حسین سے دور کر کے" دادا اسکی طرف دیکھ کر بولے
"میں کیا کرتی دادا باہر جانا ضروری تھا" حیا بے بسی سے بولی
"باہر جاکر کون خوش ہے حیا۔۔۔صرف تم؟؟ بلکہ تم۔بھی نہیں تمہاری آنکھوں میں بھی عثمان کی محبت اور ہادیہ کی دوستی کی یادیں ہیں زنیرہ حسین کے بغیر خوش ہے؟؟؟ شہیرہ شایان کے بغیر خوش ہے؟؟؟ اور وہ معصوم چھوٹی بہن اسکو تو یہ تک خبر نہیں کہ تم ہمیشہ کیلئے اسکو عثمان سے چھین کر لے آئی ہو؟؟؟ واپس آجاو حیا واپس آجاو اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے" دادا اسکو سمجھاتے ہوئے بولے
"یہ شایان کون ہے؟" حیا شہیرہ کے ساتھ ایک نام سن کر حیرت میں ڈوبتی چلی گئی تھی
"اسکا یونی فیلو ہے آج تک کبھی بات نہیں کی لیکن شہیرہ اسے چاہتی ہے اسکا کہنا ہے کہ وہ بھی اسکو چاہتا ہے" دادا بیٹھتے ہوئے بولے کھڑے کھڑے تھک گئے تھے
"آپکو کس نے بتایا؟" حیا کیلئے آج حیرتوں کا دن تھا
"اس نے خود بتایا ہے وہ خاموش۔۔۔أداس۔۔۔کم گو اسی لیے ہوگئی ہے کسی کی محبت دل میں بسائے اندر اندر ہی کڑھ رہی ہے جانتی ہو نا پہلے ایمان سے بھی زیادہ شرارتی تھی اور اب دیکھو کہیں سے لگتا ہے یہ وہی شہیرہ ہے جو ہر دم چہکتی رہتی تھی؟" دادا کی آواز تھوڑی بلند ہوگئی
"ہیلو انکل" اریشہ دونوں کے سامنے آئی
"السلام علیکم بیٹا تم یہاں؟" دادا شفقت سے بولے جبکہ حیا کی اسکو دیکھ کر ہارٹ بیٹ تیز ہونے لگی
"یقینا وہ بھی آس پاس ہوگا تبھی تو دل دھڑک رہا تھا میرا" حیا نے نظریں گھمائیں دور کھڑا عثمان دکھ گیا ایک پل کیلئے دونوں کی نظریں ملیں بس ایک پل لگا تھا حیا اسکی آنکھوں میں موجود دکھ۔۔ شکوہ پہچان گئی لیکن ایک بات خوشگوار حیرت میں بھی ڈال گئی عثمان نے داڑھی رکھی تھی کتنا حسین اور مکمل مرد لگ رہا تھا
اگر حیا نے اسکی آنکھوں میں دکھ اور شکوہ پہچان لیا تھا تو عثمان نے بھی اسکی آنکھوں میں موجود تکلیف دکھ کو پہچان لیا تھا
بس ایک پل ایک پل لگا تھا محبت کرتے دونوں قلب دھڑک اٹھے تھے پھر دوست سے وفاداری کا سوچتے ہوئے دونوں نے نظریں جھکالیں نیلا آسمان عشق و محبت کی یہ ادا دیکھ کر مسکرا دیا
"حیا آپی" اریشہ اسکا ہاتھ پکڑے پکار رہی تھی
"ہوں ہاں ہاں بولو اریشہ" حیا چونکتے ہوئے بولی
"کہاں چلیں گئیں تھیں آپ؟" اریشہ کی بات پر حیا چپ ہوگئی کیا جواب دیتی
"بتائیں نا آپی کہاں گئیں تھیں؟" اریشہ پھر بولی
"مم میں کہیں نہیں" حیا کیلئے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا اس نے دادا کو دیکھا وہ بھی خاموش کھڑے تھے
"بھائی آپ کو بہت مس کرتے ہیں" اریشہ نے رازداری والے انداز میں کہا اس بات پر حیا کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی
"اچھا" حیا نے فقط اتنا کہا
"آپ بتائیں نا کہاں گئیں تھیں؟" اریشہ نے واپس وہی سوال دہرایا
"لندن" حیا کو بتانا ہی پڑا
"کیا!!!!! آپ لندن گئی تھیں مطلب ایمان بھی ادھر ہی ہے؟" اریشہ شاک سی بولی
"ہاں" مختصر سا جواب دیا اریشہ نے عثمان کو دیکھا گویا پوچھنا چاہ رہی ہو کہ اب اور کیا پوچھوں عثمان نے واپس آجانے کا اشارہ کیا
"اچھا میں چلتی ہوں آپی آللہ حافظ" وہ کہتی ہوئی بھاگ کر عثمان کے پاس آگئی
" حیا واپس آجاو بیٹا" دادا ایک اور بار بولے
"دادا میں لمبی فلائیٹ سے آئی ہوں کچھ آرام کرنا چاہتی ہوں" حیا بولی لہجے میں واضح تھکن۔۔۔دکھ۔۔۔افسوس تھا
"کہاں رہوگی؟" دادا نے بھی موضوع بدل دیا
"ہوٹل میں" حیا بولی
"لیکن بیٹا۔۔"دادا نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش ہوگئے
"اچھا ٹھیک ہے لیکن مجھے خبر ضرور کرنا" دادا اسکا کندھا دباتے ہوئے بولے
"ٹھیک ہے دادا" حیا بھی سامان اٹھاتے ہوئے بولی اور آگے بڑھ گئی دادا افسوس سے اپنی اس پوتی کو دیکھتے رہ گئے
_________________________________________
"اے اللہ آپ ناراض ہیں نا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالٰی" حسن کے آنسو لگاتار بہ رہے تھے
"اللہ میری امی بھی ہاسپٹل میں میرا بھائی بھی ہاسپٹل میں میرے پیارے اللہ میں اپنی امی کی طرف سے معافی مانگتا ہوں آپ میرے گناہ بھی بخش دیں آپکی رحمت تو بے پناہ ہے نا بس آپ انکو ٹھیک کریں پلیز اللہ تعالٰی آپ ہی تو سب کچھ کر سکتے ہیں نا پلیز للہ آپکے علاوہ۔تو کوئی در نہیں جہاں میں جاؤں آپکے علاوہ کوئی دروازہ نہیں جو میں کھٹکھٹاوں پلیز میرے اللہ میرے گھر کی ساری پریشانیاں دور کردے میرے بھائی کی خوشیاں لوٹادے۔۔۔۔"حسن مسجد میں بیٹھا زار و قطار سے رو رو کر رب سے دعائیں مانگ رہا تھا
دعا مانگ کر اب اسکا دل۔کہ رہا تھا میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا وہ کبھی مجھے رسوا نہیں کریگا وہی میرا رب ہے وہی میرا سب ہے۔۔۔
_________________________________________
"عثمان حیا کی گاڑی کا پیچھا کر رہا تھا وہ ایک اور بار اسکو کھونا نہیں چاہتا تھا ایک ہوٹل کے پاس حیا اتری عثمان یہ تو سمجھ گیا تھا کہ وہ گھر جانا نہیں چاہتی ہوٹل میں رہیگی کیونکہ دادا اسکے ساتھ نہیں تھے عثمان ہوٹل دیکھ کر واپس گھر آگیا
"میں سمجھی تھی ہم ہوٹل ڈنر کرنے گئے تھے پر آپ تو واپس آگئے" اریشہ بولی تو عثمان چونک گیا وہ یہ بھول گیا تھا کہ اریشہ اسکے ساتھ ہے
"میں کیوں ڈنر کرواؤں ایک چڑیل کو" آج عثمان دل۔سے خوش تھا تو اریشہ کو چھیڑنے سے باز نہیں آیا
"اللہ۔کرے آپکو حیا آپی جلدی مل جائیں" اریشہ روہانسے لہجے میں بولی
"ارے یہ ٹاپک کہاں سے لے آئی تم" عثمان حیرت سے بولا
"آپکی خوشی انہیں سے منسلک ہے بھیا اور مجھے آپکی خوشی عزیز ہے آج کتنے دنوں بعد مجھے لگا میرے مانی بھائی آگئے" اریشہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولی اسکو اریشہ پر بے اختیار پیار آیا اور جھک کر اسکا ماتھا چوم لیا
"دعا کیا کرو وہ مجھے مل جائے گڑیا" وہ اریشہ کو پیار کر کہ اندر چلا گیا
_________________________________________
"ڈاکٹر اب میری امی کیسی ہیں؟" سمرہ کو ہاسپٹل میں آج تیسرا دن تھا اور تینوں دنوں میں ایک دفعہ بھی شہریار ماں سے ملنے نہیں آیا تھا
"اب کافی بہتر ہیں امید کرتا ہوں آج ڈسچارج ہوجائیں گی" ڈاکٹر مسکرا کر بول کر آگے بڑھ گئے
"اوہ شکر الحمدللہ" وہ شکر ادا کرتے ہوئے ماں کے روم۔کی طرف بڑھ گئے
"امی" سمرہ انکا کندھا ہلا کر بولی
"میں نے بہت ظلم کیا اللہ مجھے سزا دیں گے سمرہ وہ دیکھو۔۔۔ دیکھو آگ وہ مجھے لپیٹ لیگی سمرہ حیا کو بلاؤ اس سے معافی مانگوں گی میں آگ میں نہیں جاؤں گی سمرہ مجھے بچالو" تائی رو رو کر سمرہ سے لپٹ رہی تھیں سمرہ نے گھبرا کر انٹرکام سے ڈاکٹر کو بلایا انہوں نے تائی کو نیند کا انجیکشن لگادیا
"ابھی آپکی امی کسی صدمے میں ہیں پلیز کوئی بھی ایسی بات نہ کریں جو انکو واپس صدمے میں دھکیل دے" ڈاکٹر وارن کرتے ہوئے چلے گئے جبکہ سمرہ وہاں رکھے صوفے پر بیٹھ گئی
"حیا پلیز واپس آجاو کہاں چلی گئی ہو دیکھو تو تمہاری آہ نے کتنا برباد کردیا ہے ہمیں" وہ چہرہ ہاتھوں میں لے کر رونے لگ گئی
_________________________________________
حیا ہوٹل کے روم۔میں آئی آج اسکا دل بے چین سا تھا کچھ غلط ہونے والا تھا یا ہوچکا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی
"میری بہنیں میری وجہ سے خوش نہیں کیا مجھے واپس آجانا چاہیئے؟؟؟" حیا سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی وہ آنکھیں موندے بیڈ پر لیٹ گئیتھکن سے چور چور تھی لیکن آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں
"اے میرے اللہ" وہ بے بسی سے بولی اور اٹھ کر وضو کر کے دو رکعت صلاة الحاجات پڑھیں اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے
"اے میرے اللہ میرے محبوب میرے پیارے اللہ میرا تو آپکے سوا کوئی دوست نہیں کوئی ہمدرد نہیں میں کس کو اپنی پریشانیاں بتاؤں آپ تو سب جانتے ہیں نا میرے پیارے اللہ پلیز مجھے صحیح راستہ دکھائیں مجھے بتادیں میں کیا کروں۔۔۔" حیا ضبط کھو چکی تھی آنسوؤں کی لڑیاں چہرے پر بہ رہی تھیں دل۔کہیں سکون سا مل رہا تھا جیسے وہ سب ٹھیک کردیگا ہاں وہی تو سب ٹھیک کرنے والا ہے نا
_________________________________________
"انکل آپکو میری آپیاں بابا کیوں کہتی ہیں؟" بابا انکے گھر روز آتے تھے زنیرہ اور شہیرہ ان سے فری ہوکر بات کرتیں اور بابا بابا کہ کر مخاطب کرتیں یہ بات ایمان کو بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی اسی لئے پوچھ بیٹھی
"کیونکہ یہ آپکے بابا ہیں بیٹا" شائستہ بیگم چائے لیکر آئیں ایمان کی بات سن کر بابا کی آنکھوں میں دکھ کی لہر دوڑی
"لیکن ہمارے بابا تو مر چکے تھے نا" ایمان کی بات پر بابا تڑپ اٹھے
"آپکو کس نے کہا" شائستہ چونک کر بولی
"حیا آپی نے کہا تھا کہ ہمارے بابا نہیں وہ مر چکے ہیں" ایمان نا سمجھی میں بولی
"جھوٹ کہا تھا اس نے یہ بابا ہیں لندن آگئے تھے نا اسلئے حیا ناراض ہوگئی اور ایسے کہ دیا جاؤ آپ۔کھیلو" شائستہ بہانہ پیش کیا ایمان سر ہلاتی ہوئی چلی گئی لیکن اسکے ذہن میں یہ بات رہ گئی
"حیا آپی نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟؟" وہ سر جھٹک کر سعد کے پاس چلی گئی
"آپ" شائستہ ایمان کے جانے کے بعد بابا سے مخاطب ہوئیں جو دھواں دھواں چہرے کے ساتھ بیٹھے تھے
"وہ اتنی بد گمان ہے مجھ سے اس نے مجھے زندہ ہی نہ سمجھا" بابا دکھ سے بولے
"ٹھیک ہوجائیگی آپ فکر نہ کریں بیٹی ہے آپکی زیادہ دیر ناراض نہیں ہوگی" شائستہ تسلی دیتے ہوئے بولیں
"امید کرتا ہوں" بابا دکھ اور نا امیدی سے بولے
"میں چلتا ہوں پھر آؤں گا" وہ اٹھنے لگے
"ارے یہ چائے تو پی لیں" شائستہ ایک دم بولیں تو بابا نے ایک نظر انکو دیکھا
"کتنی مخلص تھیں وہ کتنا صاف دل تھا انکا فورا سے معاف کردیا اور اب بھی کتنے پیار سے پیش آرہی تھیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو" بابا سوچ کر چائے پینے لگ گئے جو آج انکو بہت لذیذ لگ رہی تھی
"حسن آپ کہاں ہیں؟" سمرہ نے حسن کو کال کی
"ابھی فی الحال زندہ ہوں تم بولو کیا بات ہے؟" حسن تھکے تھکے لہجے میں بولا
"کیسی باتیں کر رہے ہیں حسن اللہ نہ کرے آپکو کچھ ہو" سمرہ تڑپ کررہ گئی دوسری طرف حسن بے بسی سے ہنس دیا
"کیا بات تھی؟" حسن گویا ہوا
"امی کو چھٹی مل گئی میں بابا کے ساتھ انکو لیکر گھر جارہی ہوں" سمرہ نے اطلاع دی
"چلو شکر کوئی تو ٹھیک ہوا" حسن کا لہجہ تھکن سے چور چور تھا
"کوئی نہیں انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائیگا حسن آپ نا امید نہ ہوں" سمرہ تسلی دیتے ہوئے بولی
ہاں امید کرتا ہوں سب ٹھیک ہوجائے" حسن نے تھکے لہجے میں بولا اور کال کاٹ دی سمرہ کا دل بھی اداس تھا
_________________________________________
حیا دعا مانگ کر فارغ ہوئی تو موبائل پر کال آنے لگی اس نے آج ہی سم خرید کر موبائل میں ڈال کر نمبر عائشہ کو سینڈ کر دیا تھا
"السلام علیکم" حیا جانتی تھی عائشہ ہوگی کیونکہ نمبر صرف اسی کے پاس تھا یا دادا کے پاس چونکہ دادا ابھی مل کر گئے تھے کال کی انکو ضرورت نہیں تھی
"حیا آپی" ایمان کی آواز پر حیا خوش ہوگئی
"ارے گڑیا کیسی ہو؟" حیا نے پیار سے بولا
"آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا آپی؟" ایمان کی آواز میں دکھ تھا
"کونسا جھوٹ؟" حیا نا سمجھی میں بولا اسکو سمجھ نہ آیا ایمان کس بارے میں بات کر رہی ہے
"یہ جھوٹ کہ بابا مر گئے ہیں جبکہ وہ زندہ ہیں" ایمان کی بات پر حیا سن ہوگئی
"بولیں آپی کیوں جھوٹ بولا آپ نے؟" ایمان رندھی آواز میں بولی
"وہ میرے لئے مر گئے تھے مان اگرچہ زندہ ہیں" حیا نے بات کہ کر کال کاٹ دی
"یا اللہ یہ کونسی آزمائش ہیں مجھ پر" حیا نے بے بسی سے سوچا اچانک موبائل پر میسج ٹون بجی
"ہم سب پاکستان آرہے ہیں" میسج پڑھ کر حیا کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی فورا کال ملائی دوسری بیل۔پر ہی اٹھالیا گیا
"ہیلو" عائشہ کی آواز پر حیا نے شکر کا ایک سانس لیا
"میسج تم نے کیا تھا؟" حیا نے پوچھا
"ہاں کرنا تو نہیں تھا تمہیں سرپرائیز دینا تھا پر ایمان کی ضد پر کرنا پڑا" عائشہ ہنستے ہوئے بتانے لگی
"کیوں آرہے ہیں سب پاکستان اور کون کون؟" حیا بولی
"میں،،ماما،،زنیرہ،،شہیرہ،،ایمان،،انکل،،انٹی،،سعد سب آرہے ہیں مجھے اور ماما کو تو پاکستان دیکھنے کا بہت شوق ہے اور باقی سب کو انکل لارہے ہیں " عائشہ اسکو تفصیل بتانے لگی
"نہیں عائشہ ادھر مت آؤ تم سب جانتی تو ہو پھر کیوں؟" حیا بے بسی سے بولی
"بہت ہوگیا حیا اب تمہیں لائف آگے بڑھانی چاہیے انکل کو دادا سے ملنے دو تم بھی انکل سے صلح کرو وہ تمہارے باپ ہیں اور بہت شرمندہ بھی تو ہیں" عائشہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی پر حیا اس بات پر ہمیشہ پتھر دل بن جاتی تھی
"میں بعد میں بات کروں گی" حیا نے کہ کر کال کاٹ دی اور بے دردی سے ہونٹ کاٹنے لگی
_________________________________________
"بابا" عثمان نے موقع پاکر بابا کو مخاطب کیا
"ہاں" بابا کتاب سے سر اٹھاتے ہوئے بولے
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے" عثمان بولا
"ہاں بولو" بابا پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوگئے
"وہ مل گئی بابا" عثمان کی بات پر بابا نے حیرت سے اسے دیکھا
"ہیں کیا کہ رہے ہو کہاں ملی کب ملی؟؟" بابا خوشگوار حیرت سے بولے عثمان نے مسکراتے ہوئے ساری بات بتادی
"اب کیا کرنا ہے؟" ساری بات سننے کے بعد بابا نے سوچتے ہوئے کہا
"آپ اسکے دادا سے بات کریں بابا میں نہیں جانتا اسکی فیملی کہاں ہے بس اب میں ایک اور بار کھونا نہیں چاہتا بابا" عثمان کے لہجے میں بے تابی حسرت جذباتیت سب جمع تھیں
"اچھا کروں گا میں بات لیکن تم اپنے دوست کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولنا" وہ اسکا کندھا تھپھپاتے ہوئے بولے
"کبھی نہیں بابا" وہ بھی مسرور سا بولا اور اپنے کمرے میں چلا گیا
_________________________________________
"شہریار پلیز واپس چلو مجھے یہاں بالکل مزہ نہیں آتا" کیتھرین بے زاری سے بولی
"نہیں یار میں یہیں رہنا چاہتا ہوں بہت سالوں سے اکیلا رہ رہا ہوں" شہریار اسکو اپنے پاس بٹھاتا ہوا بولا
"اب بھی اکیلے ہی ہو کون سا تم سے کوئی بات کرتا ہے؟" کیتھرین کی بات سے شہریار کے دل میں ٹیس اٹھی
"میں نے سب کو دکھ بھی تو دیا ہے اور ماما کو دیکھنے بھی نہیں گیا ہاسپٹل" شہریار کھوئے کھوئے لہجے میں بولا
"کونسا دکھ؟" کیتھرین نا سمجھی میں بولی
"ہاں نہیں نہیں یہی دکھ نا کہ ان کے پاس نہیں گیا جبکہ وہ ایڈمٹ ہیں" شہریار اب اسکو کیا بولتا کہ شادی کا دکھ دیا
"تو کون جاتا اس بڈھی سے ملنے کونسا وہ ہوش میں ہوتی ہیں" کیتھرین ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں بولی
"تمیز سے بولو کیتھرین ماں ہیں وہ میری" شہریار آج پہلی بار اسپر روڈ ہوا تھا
"اوہو بڑی ماں کی پروا ہے نا تمہیں" کیتھرین طنزیہ انداز میں بولی
"میں جارہا ہوں" وہ اٹھتے ہوئے بولا
"کہاں؟" کیتھرین اسکا ہاتھ پکرتے ہوئے بولی
"پتہ نہیں بس جارہا ہوں کہ دیا نا" شہریار ہاتھ چھڑا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا جبکہ کیتھرین اسکے انداز پر حیرت میں ڈوبتی چلی گئی
"دادا ابھی ہوٹل پہنچیں پلیز" حیا نے کال کر کے کہا
"کیا ہوا بیٹا خیریت؟؟" دادا پریشانی سے بولے
"آپ پہنچیں تو سہی پھر بتاؤں گی" حیا نے بے صبری سے کہا اسکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے
"اچھا آتا ہوں تم پریشان مت ہو" دادا اسکو تسلی دیتے ہوئے بولے
کچھ ہی دیر میں دادا اسکے پاس موجود تھے اور حیا نے ساری بات ان کے گوش گزار دی
"یہ تو اچھی بات ہے نا کہ وہ آرہے ہیں" دادا خوش ہوتے ہوئے بولی
"کبھی کبھار مجھے لگتا ہے آپ میرے دادا نہیں" حیا ناراضگی سے بولی
"کیوں بھئی؟" دادا حیرت سے بولے
"میں بہت پریشان ہوں دادا وہ سب ادھر آرہے ہیں جبکہ میں ادھر رہنا ہی نہیں چاہتی میں کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی مجھے کسی سے نہیں ملنا" حیا بے بسی سے بولی
" حیا اب لوٹنے کا وقت ہے کسی سے چھپ کر رہنا یا بھاگنا بہادری نہیں ہے سب کا سامنا کرنا سیکھو"
"پر دادا" حیا نے کچھ کہنا چاہا پر دادا نے ہاتھ اٹھا کر اسکو روک دیا
"ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی" دادا نے اسکا ہاتھ پکڑا
"جن جن سے تم روٹھ کر گئی نا حیا سب اپنی اپنی سزا بھگت رہے ہیں تمہاری آہ سب کو لگ گئی۔۔۔ اللہ نے انصاف کردیا ۔۔۔دیکھو نا تمہاری دونوں تائی ہاسپٹل میں ہیں حسین کی کوئی غلطی نہیں لیکن اسکے ذریعے تمہاری تائی کو سبق دیا گیا اور جانتی ہو تمہاری جگری دوست کی کیا حالت ہے؟؟؟ دیکھو جاکر اسکو نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے نہ کچھ بولتی بالکل خاموش ہوگئی ہے وہ۔۔۔ اب لوٹ آؤ حیا اب چھپنے کا کوئی فائدہ اپنی زندگی بڑھاؤ۔۔ سوچو۔۔۔ قدم بڑھاؤ۔۔ دل سے نفرت کدورت سب مٹا ڈالو اللہ کی دوست کے دل میں یہ سب نہیں ہوتا وہاں سب کو معاف کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے تم خود کو اللہ کا دوست کہتی ہو نا اللہ بھی تو فورا معاف کردیتا ہے تو اسکی دوست کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے نا؟؟" دادا اسکو پیار سے سمجھا رہے تھے انکی بات کا ایک ایک لفظ حیا کے دل میں اتر رہا تھا
"میں کیا کروں دادا؟" وہ حد درجہ کنفیوژن کا شکار تھی
"سامان پیک کرو میرے ساتھ گھر چلو وہاں منتظر ہیں تمہارے سب تم سے معافی مانگنے کیلئے کسی نے کہا نہیں پر سب پچھتا رہے ہیں اب غرور کا سر نیچے ڈھلک گیا ایک دفعہ آخر دیکھ لو بس پلیز میرے لئے حیا" دادا کا لہجہ آخر میں نم ہوگیا حیا نے جانے کا فیصلہ کرلیا آخر اسکو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اپنے رب کی دوست ہے وہ اپنے رب کی پسندیدہ چیز اپنانا چاہتی ہے کیونکہ وہ اس سے محبت کرتی ہے اور محبت میں محبوب کی ہر ادا پیاری ہوتی ہے اور رب کی سب سے پیاری ادا "معافی" ہے
وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور سامان پیک کرنے لگی دادا اسکو دیکھ کر مسکرا دیئے
"ویسے دادا ہادیہ کا آپکو کیسے پتہ؟" حیا چونکتے ہوئے بولی
"تمہارے جانے بعد ہادیہ میرے پاس آتی تھی بہت روتی تھی تمہیں بہت یاد کرتی تھی بہت کمزور بھی ہوتی جارہی تھی جانتی ہو اسکی بس ایک ہی رٹ تھی مجھے حیا لادیں کتنی محبت کرتی ہے وہ تم سے حیا اب کافی ہے جاکر مل لو اس سے میں اکثر اسکے پاس جاتا ہوں آج تک میں نے اسمیں اور تم۔میں کوئی فرق نہیں کیا بیٹا۔۔۔ اب جاتا ہوں تو وہ بس تمہارے کی بارے میں باتیں کرتی ہیں بچپن سے جوانی تک کے سارے قصے سناتی ہے پھر خود ہی ہنستی ہے خود ہی روتی ہے مجھے بہت ترس آتا ہے اسپر حیا میں نے پاکستان تمہیں اسی لئے بلایا تھا کہ اب لوٹنے کا وقت آگیا ہے" دادا کا لہجہ افسردہ تھا ہادیہ کی حالت کا سن کر حیا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور وہ ایک پختہ عزم کر کے بیگ پیک کرنے لگی