انکو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اٹھتے تھے رسول
محترم بیٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں
انکو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بیٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں
انکو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
اپنے سسرال کا ہر غم وہ چھپالیتی ہیں
سامنے ماں کہ جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں
انکو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو مڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
اپنے بابا کے کلیجے کے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں
بابا نظم سن رہے تھے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہی تھیں سعد کمرے میں آیا تو انکو دیکھ کر انکے پاس بیٹھ گیا
"بابا آخر آپ کیوں بیٹیوں پر اتنی نظمیں سنتے ہیں؟" سعد کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی تھی اسکی تو کوئی بہن نہیں تھی پھر بابا بیٹی پر نظمیں سن کر کیوں روتے ہیں
"بتائیں نا بابا آپ کیوں بیٹیوں پر نظم۔سن کر روتے ہیں" سعد جاننے پر مصر تھا
"ایسے ہی بیٹا" وہ رندھی آواز میں بولے
"اگر آپکے بیٹی کی کمی محسوس ہوتی ہے تو میں آپکیکئے بیٹی بن جاتا ہوں" سعد ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی مسکرادئے لیکن اداس مسکراہٹ سعد نے بغور انکا چہرہ دیکھا کسی غم نے انکو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا لیکن سعد وہ غم تلاش نہ کرپاتا تھا وہ جانتا تھا بابا کچھ تو چھپاتے ہیں پر بار بار پوچھنے پر بھی نہیں بتاتے تھے سعد انکے کمرے کی لائٹ آف کر کے اپنے کمرہ میں آگیا
_________________________________________
حیا ساری رات نہ سو سکی آج ہادیہ کی برتھ ڈے تھی اسکو گزرے ہوئے تمام ماہ و سال یاد آرہے تھے حیا صبح ہی صبح پارک چلی گئی کوئی بھی نہیں تھا وہ بینچ پر بیٹھی اور سوچوں میں گم ہوگئی
کس طرح وہ اور ہادیہ برتھ ڈے مناتے تھے ایک دوسرے کے ساتھ پورا دن گھومتے مزے کرتے پھر کس کی نظر لگ گئی انکی دوستی کو
"تم کیوں بار بار وہ کرتی ہو جو مجھے برا لگتا ہے" اس دن واپس سے حیا اور ہادیہ کے درمیان منزہ کی وجہ سے لڑائی ہوئی
"یار پلیز حیا اتنی سی بات کو اتنا بڑا ایشو مت بناؤ" ہادیہ زچ ہوتے ہوئے بولی تھی
"یہ اتنی سے بات تمہارے نزدیک میرے نزدیک نہیں" حیا اسکی طرف دیکھ کر بولی تھی
"تم مجھے صاف صاف بتادو تو میں تم دونوں کے بیچ سے ہٹ جاتی ہوں" حیا ہادیہ کو خاموش پاکر بولی
"یار پلیز حیا ہر بات کو عذاب مت بنایا کرو" ہادیہ غصہ سے بولی
"میں نے تمہاری زندگی ہی عذاب بنادی ہے" حیا دکھ سے بولی
"ہاں بنادی ہے ان باتوں سے" ہادیہ کی بات پر حیا گہرے صدمے میں چلی گئی
"ٹھیک جب میں چلی جاؤں گی نا تم بہت یاد کروگی مجھے ہادیہ" حیا اٹھتے ہوئے بولی
"کر لی بکواس؟" ہادیہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی اسکی بات سے حیا کے دل میں تیر چبھے حیا کوئی جواب نہ دیکر چلی گئی تھی
"کاش ہادیہ تم۔میرے دکھ کو سمجھ جاتی" بینچ پر بیٹھے بیٹھے وہ تلخی سے مسکرائی ساتھ میں آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے
"ہائے آپی آپ ادھر کیوں ہیں اور ایک منٹ آپ رو رہی ہیں؟" سعد کی آواز پر حیا نے بے اختیار فورا آنسو صاف کئے
"تم کب آئے؟" حیا اسکی طرف سرخ آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بولی
میں ابھی آیا ہوں پر آپی آپ مجھے بتائیں آپکو کیا ہوا؟" سعد اسکے رونے پر پریشان ہوا حیا نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا جو اتنا فکرمند ہوگیا تھا
"ایسے مت دیکھیں چڑیل لگ رہی ہیں لال آنکھیں ہونٹوں پر پر اسرار مسکراہٹ کچھ دیر بعد بولیں گی ہاہاہاہاہا میں تمہیں کھا جاؤں گی سعد" سعد آواز بدلتے ہوئے بولا حیا کی ہنسی بے ساختہ تھی
"ڈفر" اسکے سر پر ایک چپت لگائی
"ایک تو پتہ نہیں کوئی مجھے اپنا کیوں نہیں سمجھتا آپ بھی کچھ نہیں بتاتیں ایک میرے ابا محترم ہیں انکو نجانے کونسا غم لگا ہوا ہے ہر وقت روتے ہیں بیٹیوں پر نظیں سن کر مجھے تو لگنے لگا ہے میں نظمیں سن سن کر ہی لڑکی بن جاؤں گا" سعد چڑتے ہوئے بولا حیا اسکی بات پر چونکی
"تمہاری کوئی بہن تھی کیا؟" حیا پوچھے بنا نہیں رہ سکی
"نہیں تو" سعد نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا
"کیا پتہ تم سے پہلے اسکی ڈیٹھ ہوگئی اسکو یاد کر کے روتے ہوں" حیا بولی تو سعد نے اسکی بات کو ان سنا کر دیا
"آپ مجھے اپنی پرابلم بتائیں بس جسکی وجہ سے آپ رو رہی تھیں " سعد ضدی لہجے میں بولا
"ابھی نہیں تم چل کر ہماری ہیلپ کرواؤ ہم آج شفٹ ہورہے ہیں " حیا اٹھتے ہوئے بولی
"ہائیں یہ کب ہوا مجھے بتایا تک نہیں؟؟؟؟" سعد حیرانی سے بولا
"اب بتادیا نا چلو" حیا اسکو اٹھاتے ہوئے بولی اور دونوں دس منٹ بعد ہوٹل میں تھے
_________________________________________
آج شہریار کو آنا تھا تائی صبح سے اپنے بیٹے کی آنے کی خوشی میں کبھی گھر سجاتیں تو کبھی کچن میں اسکی پسند کے کھانے بنواتیں شہریار کو بارہ بجے آنا تھا تائی کیلئے ایک ایک پل مشکل سے گزر رہا تھا آخر کو وہ اپنے بیٹے سے اتنے سالوں بعد مل رہی تھیں دروازہ کی گھنٹی پر انکی خوشی کی انتہا نہیں رہی وہ دروازہ کھولنے گئیں دروازہ کھولا تو سامنے شہریار کھڑا تھا لیکن یہ کیا اسکے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی
"ہائے ماما" شہریار نے سلام کے بجائے انگریزی جملہ استعمال کیا
"السلام علیکم" گویا تائی نے یاد دلایا وہ پاکستان آچکا ہے
"و علیکم" شاید وہ سلام کا پورا جواب بھی بھول چکا تھا تائی کا دل کٹ گیا
"یہ کون ہیں؟" تائی نے لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"میں انکی وائف ہوں" شہریار کے بجائے لڑکی نے شہریار کے بازوؤں میں ہاتھ ڈال کر انکو جتایا تو تائی کے پیر کے نیچے سے زمین کھسک گئی
"شش شہری یہ کیا کہ رہی ہے؟ " تائی کو اپنی آواز کنویں سے آتی محسوس ہوئی
"ماما بیوی ہے میری اب اندر تو آنے دیں" شہری بیزاری سے بولا
"آؤ کیتھرین" وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ماں کو سائیڈ کرتے ہوئے اندر بڑھا اور بیوی کے نام پر تائی کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا یعنی کہ وہ مسلمان بھی نہیں تھی
_________________________________________
"تو تم نے آخری فیصلہ کر لیا" اشعر حسین کے روم میں آیا جو اپنی پیکنگ میں مصروف تھا
"ہاں" حسین نے مختصر سا جواب دیا
"تم وہاں جاکر اور اب سیٹ ہوجاوگے" اشعر اسکو واپس کراچی جانے سے روک رہا تھا
"ہونے دو اب تو ساری زندگی اب سیٹ رہنا ہے" وہ تلخی سے ہنستے ہوئے بولا
"اتنی مایوسیوں والی باتیں کیوں کرتے ہو حسین" اشعر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا
"کیونکہ میں خوشیوں سے مایوس ہوچکا ہوں" حسین کے لہجے میں واضح دکھ تھا
"ٹھیک ہے تم جاؤ لیکن اسکو بھولنے کی کوشش کرو پلیز" اشعر اسکی سمجھاتے ہوئے بولا
"بولنا بہت آسان جو سہ رہا ہوتا ہے نا وہی درد جانتا ہے کہ بھولنا کتنا مشکل ہوتا ہے" حسین چبھتے لہجے میں بولا اشعر نے پھر کوئی جواب نہیں دیا اور اسکے ساتھ مل۔کر پیکنگ کروانے لگا
_________________________________________
"کہاں جارہے ہو مانی؟" عثمان کو لاونچ سے گزرتے ہوئے دیکھ کر بابا نے پوچھا
"مسجد" عثمان کے لہجے میں سکون تھا اطمینان تھا بابا مسکرادئے
"لگتا ہے اللہ سے دوستی کرلی" بابا مسکراتے ہوئے بولے
"جی بابا وہ بھی بہت پکی والی آپکو پتہ ہے وہ میری ہر بات سنتے ہیں اور مجھے ان سے باتیں کرنے میں بہت مزہ آتا ہے" عثمان نم آنکھوں سے بولا
"اچھا جاؤ تمہیں دیر ہورہی ہے" بابا اسکو دکھی نہیں کرنا چاہتے تھے وہ جی بابا کہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور مسجد کی طرف قدم بڑھانے لگا
_________________________________________
سعد جان بوجھ کر ایمان سے اکیلے میں نہیں مل رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اکیلے ملیگا تو وہ کال۔کرنے کا کہے گی اور سعد حیا کی بات سننے سے پہلے کال نہیں کرنا چاہتا تھا
"سعد تھینک یو ویری مچ" حیا تشکر سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی جس نے آج انکے ساتھ کافی کام کروایا تھا اور حیا لوگ شفٹ ہوچکے تھے گھر کے باہر لان میں کھڑے ہوکر وہ سعد کے پیچھے آئی جو واپس جارہا تھا
"ٹھیک ہے آئندہ بات نہیں کریگا" سعد منہ بناتے ہوئے بولا
"ہیں کیوں؟" حیا حیران ہوئی
"کیونکہ مجھے اجنبی بننا بالکل پسند نہیں" سعد ہنوز بگڑے موڈ سے کہا
"اچھا بابا غلطی ہوگئی" حیا ہنستے ہوئے بولی اسکو سعد سے اب بہت انسیت سی ہوگئی تھی
"اوکے کل شام آپ مجھے پارک میں ملیں ورنہ سمجھیں سعد مرگیا" سعد نے آخری حربہ آزمایا
"اللہ نہ کرے پاگلوں جیسی بات نہ کیا کرو" حیا اسکے بازو پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی
"اللہ رے اتنا پیار کرتی ہیں مجھ سے" سعد تھرڈ کلاس عاشقوں کی طرح بولا
"پاگل ہو تم بالکل" حیا اسکے حرکت کر ہنس دی
"چلو اندر چل کر کافی پیتے ہیں" وہ بولتے ہوئے اندر کی طرف بڑھی
"ہاں ضرور اپنی محبوبہ کے ہاتھوں سے ضرور پیوں گا" سعد بولا تو حیا ہنستی ہوئی اندر داخل ہوگئی جہاں سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے
سارا دن کام کر کر کہ حیا تھک چکی تھی کچھ آرام کی غرض سے وہ لان میں آئی وہاں رکھی ایک بینچ پر بیٹھ گئی اور گزری ہوئی زندگی کے بابت سوچنے لگی
"ارے حیا تم ادھر بیٹھی ہو میں تو تمہیں گھر ڈھونڈنے چلی گئی تھی" عائشہ کی آواز پر چونک کر حیا نے سر اٹھایا
"ہیں ہیں تم رو رہی ہو؟" عائشہ آنسوؤں کی لڑیاں اسکے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولی
"اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا" وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئی ہنسی اسکی ہنسی میں کوکھلا پن واضح تھا عائشہ کٹ کر رہ گئی اور اس کے برابر میں بینچ پر بیٹھ گئی
"حیا ایک بہن سمجھ کر مجھ سے دل کی باتیں کہ سکتی ہو" وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی حیا سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھنی لگی کتنا پرسکون اطمینان والا چہرہ تھا اسکا حیا کو نور ٹپکتا محسوس ہوتا تھا ایسا لگتا تھا گویا کوئی تکلیف کوئی دکھ اس نے زندگی بھر دیکھا ہی نہ ہو حیا کو اسپر رشک آتا تھا
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو" عائشہ مسلسل اپنی طرف دیکھتا پاکر پوچھے بنا نہیں رہ سکی جوابا حیا نے سر جھٹک نفی میں سر ہلاتے ہوئے سر کو جھکالیا
"حیا" عائشہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی
"کہ دو جو کہنا ہے جو دل میں ہے" عائشہ کے خلوص پر حیا کی آنکھیں نم سی ہوگئیں
"کیا بتاؤں عائشہ سب کچھ تو ختم ہوگیا میرے پاس۔۔۔میرے اندر کچھ نہیں ہے کوئی احساس۔۔۔کوئی جذبہ نہیں ہے میں ایک خالی لڑکی ہوں مم میں بہت تھک چکی ہوں اپنے آپ سے اپنی زندگی سے میں سکون چاہتی ہوں میں بھی سچی مسکراہٹ اپنے لبوں پر لانا چاہتی ہوں میں بھی لوگوں کی طرح سچے دل سے ہنسنا چاہتی ہوں لیکن ہنسنا میں بھول چکی ہوں مسکراتے مسکراتے رو پڑتی ہوں میرا دل چاہتا ہے میں سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور بہت دور چلی جاؤں جہاں کوئی نہ ہو بس سکون ہو میں سکون کی نیند سونا چاہتی ہوں عائشہ مجھے بس سکون دے دو میرا دل بہت مضطرب ہے میرا وجود تھکن سے چور ہے میرا دماغ کچھ سوچنے سے قاصر ہے میں مفلوج ہو چکی ہوں میں اندر سے مر گئی ہوں میں بہت بہت تھک ہوں مجھے سکون دیدو"حیا ایک نقطے پر نظریں جمائے آہستہ آہستہ کہتی ہوئی اپنا دل ہلکا کر رہی تھی آخری بات پر اپنا سر اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر گرادیا آنسو اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھی اسکے لہجے میں واضح تھکن۔۔ مایوسی تھی اسکا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا عائشہ کا دل اسکی حالت پر رو رہا تھا
"اگر میں تمہیں بتاؤں سکون کیسے ملیگا تو تم وہ کام کروگی حیا" عائشہ کی بات پر حیا نے سر اٹھا کر اسکو دیکھا جیسے بہت حیران ہوئی ہو
"ہاں ہاں میں سکون حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کروں گی لیکن جانتی ہوں کچھ بھی کر لو میرے نصیب میں سکون نہیں" اولا جوش پھر مایوسی والے لہجے میں بولی
نہیں ایسی بات نہیں حیا اتنی مایوس مت ہو" عائشہ اسکے چہرے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
"ٹھیک ہے بتاو" حیا ہار مانتے ہوئے بولی
"دیکھو حیا میری باتیں دل سے سنو انہیں محسوس کرو۔۔یہ جو ہماری روح ہے نا اسکی ایک غذا ہے اگر اسکو غذا نہ ملے نا تو یہ بے چین ہوجاتی ہے چیختی ہے چلاتی ہے جیسے بچہ کھانا نا ملنے پر روتا ہے بلبلاتا ہے اسی طرح روح بے چین ہوجاتی ہے پھر آپکو سکون نہیں ملتا کسی پل چین نہیں آتا اور جانتی ہو روح کی غذا کیا ہے؟" ایک پل کیلئے عائشہ خاموش ہوئی
"کیا ہے؟" حیا نے بے قراری سے پوچھا
"ذکر اللہ۔۔اللہ کا ذکر یہ ایک غذا ہے جو دل۔کو سکون دیتی ہے تقویت دیتی ہے تم نمازیں پڑھتی ہو؟" عائشہ کے پوچھنے پر حیا نے نفی میں سر ہلایا
"آج سے پڑھو دیکھو حیا تم جتنی اللہ سے دوستی کروگی نا اتنی ہی تمہاری زندگی کی ساری الجھنیں ختم ہوجائینگی حیا تم محسوس کروگی اللہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے وہ تمہاری مدد کر رہا ہے تم مانگنا سیکھو ایسے مانگو کہ جیسے اللہ تمہارا دوست تمہارا محبوب ہے دیکھو تم دل سے اسکی محبت محسوس کرو حیا" عائشہ کی باتیں حیا کے دل کو لگ رہی تھیں اسکا دل لرز رہا تھا
"میں انشاءاللہ آج سے ہی نمازیں پڑھوں گی" حیا ایک عزم کرتے ہوئے بولی جسر عائشہ مسکرادی
"دیکھو حیا اللہ کی دوستی نا تہجد میں آسانی سے حل ہوجاتی ہے جب ساری دنیا سو رہی ہو اور آپ اللہ سے سرگوشی میں مصروف ہوں اسکی سامنے دل ہلکا کریں اس سے سارے راز کہیں ساری دل کی باتیں کریں گرگرائیں تو اللہ کو اللہ۔کو اپنے بندہ کی یہ ادا بہت بھاتی ہے تمہیں ایک سکون سا محسوس ہوگا جو کبھی نہ ہوا ہوگا میں نہیں جانتی تمہاری زندگی میں کیا ہوا ہے تمہیں کونسی الجھنیں ہیں ہاں میں یہ چاہتی ہوں کہ تم سب کچھ اللہ سے کہ دو جو بھی تمہارے دل میں ہے سب کچھ اللہ سے کہ دو اس سے مانگو پھر مجھے بتانا ہاں" عائشہ اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کر اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولی حیا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
"نا نا اب نہیں رونا اب اپنے دوست کے سامنے ہی رونا" عائشہ اسکے آنسو صاف کرے ہوئے بولے
"شکریہ عائشہ" وہ ممنونیت سے بولی
"دوست کا فرض ہے کہ اسکو سیدھی راہ پر لائے مجھے خوشی تب ہوگی جب مجھے پتہ لگے گا تمہارا بیسٹ فرینڈ اللہ ہے" عائشہ مسکرادی
"چلو اب عشاء کی نماز پڑھ لو" عائشہ کے کہنے پر حیا سر ہلاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی
_________________________________________
"شایان تمہیں کیا ہوگیا ہے بیٹا کیوں اپنی بوڑھی ماں کو تڑپاتے ہو کہاں کھو گئی ہے تمہاری مسکراہٹ کیوں نہیں اب شرارت کرتے بیٹا" قدسیہ بیگم۔بیٹے کی حالت دیکھ کر اندر تک کڑھتی تھیں شایان کی سنجیدگی انہیں کاٹتی تھی
"ارے امی آپ ہی تو کہتی تھیں کہ میں بہت شرارتی ہوں ذرا سنجیدہ ہوجاوں اب ہو تو گیا ہوں" شایان ہنستے ہوئے بولا لیکن ایک اداس مسکراہٹ
"بکواس کرتی تھی میں پاگل تھی جو بولتی تھی مجھے تیری سنجیدگی ایک۔آنکھ نہیں بھاتی دیکھو ذرا ماہی اور حفصہ کی طرف کتنا دکھی رہتی ہیں تیری بہنیں تیری حالت دیکھ کر جنکی زندگی تو اپنی شرارتوں سے مہکاتا تھا آج کتنی افسردہ ہیں" قدسیہ بیگم۔کے کہنے پر شایان نے اپنی دونوں چہیتی بہنوں کی طرف دیکھا جو اسکو ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں شایان کا دل کٹ کر رہ گیا اسکو اپنا آپ۔برا لگنے لگا شایان نے اپنی بانہیں پھیلادیں اور دونوں اسکی سینے سے لگ گئیں قدسیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آئے کتنے عرصہ بعد بیٹے کو مسکراتا دیکھ رہی تھیں
"اچھا معافی دیدو مجھے" وہ۔باقاعدہ کان پکڑتے ہوئی بولا
"بالکل بھی نہیں میں بہت روئی ہوں آپکی وجہ سے" ماہی جو شایان سے زیادہ اٹیچ تھی ایک دم۔نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی
"اچھا نہیں دوگی" وہ اسکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے بولا
"بالکل نہیں" ماہی نے نفی میں سر ہلایا
"کیا لوگی بہنا معافی کیلئے" شایان اسکو الگ کرتے ہوئے بولا
"آپکی مسکراہٹ" حفصہ بولی جسپر شایان لب بھینچ کر رہ گیا
"چلو ٹھیک ہے آؤ ہم سب ڈنر پر چلتے ہیں" شایان کے کہنے پر دونوں بہنوں کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ قدسیہ بیگم مسکرادیں
_________________________________________
"مانی بھائی" اریشہ اسکے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی
"ہوں" عثمان کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اریشہ کے کہنے پر سر اٹھایا
"مجھے آئسکریم کھلانے لینے چلیں" اریشہ ماں سے بولی
"چلو" عثمان مسکراتے ہوئے کھڑا ہونے لگا
"نہیں رہنے دیں" اریشہ اپنا دل سنبھالتی اٹھنے لگی عثمان اسکے رویہ پر حیران ہوا
"کیا ہوا لے جا تو رہا ہوں" عثمان کو سمجھ نہیں آیا اسکو کیا ہوا ہے
"جب آپ۔مجھے تنگ کرنے کیلئے منع کرتے تھے وہ زیادہ اچھا لگتا تھا بنسبت آرام سے مان جانے پر" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی عثمان نے نظریں چرالیں
"آپ بہت بدل گئے ہیں بھائی آپ میرے مانی بھائی نہیں رہے" اریشہ بھیگی آواز میں بولتے ہوئے جانے لگی تب عثمان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
"کیا بدلا ہوں میں" عثمان بمشکل مسکراتے ہوئے بولا
"خود سوچیں پہلے کیا تھے اب کیا ہیں" اریشہ بے رخی سے بولی بھائی کی سنجیدگی کس بہن سے برداشت ہوتی ہے؟؟
"اچھا ادھر بیٹھو" وہ اسکو اپنے پاس بٹھاتا ہوا بولا
"بھائی آپ۔کیوں مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہتے میں اتنی چھوٹی نہیں ہوں جو کچھ سمجھ نہ سکوں" اریشہ بولی تو عثمان اسکا چہرہ دیکھنے لگا
"کیا سمجھتی ہو؟" عثمان بولا
"آپ حیا آپی سے پیار کرتے ہیں وہ یہاں سے چلی گئیں اسی لئے آپ ایسے ہوگئے" اریشہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی عثمان حیران ہوا
"اتنے حیران مت ہوئیں میں بہن ہوں آپکی کسی بہن سے بھائی کا غم چھپا نہیں رہ سکتا اگرچہ وہ کتنا چھپالیں" اریشہ اداسی سے مسکرائی
"وہ کیوں چلی گئی اریشہ کیوں اس نے میری بات بھی نہیں سنی مجھے وہ چاہیئے اریشہ" عثمان سامنے رکھے صوفے پر نظریں جماتے ہوئے بولا
"وہ ضرور ملیں گی بھائی آپکی دلہن وہی بنیں گی آپ اتنے دکھی مت ہوں بھائی میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا محبت اگر سچی اور پاکیزہ ہو تو ضرور ملتی ہے اور آپ نے تو انکو اللہ سے مانگا ہے نا پھر کیوں نہیں ملیگی " اریشہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولی عثمان اسکی باتوں پر مسکرادیا
"اتنی بڑی کب سے ہوگئی میری گڑیا؟" عثمان اسکو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بولا یہ سچ تھا اسکو اریشہ سے بہت پیار تھا
" میں تو بڑی ہوگئی ہوں بھائی آپ نے ہی کبھی بڑا نہیں سمجھا" اریشہ نے ذو معنی بات کہی
"چلو چڑیل کو آئسکریم کھلانے لینے چلوں" وہ اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے اسکا دل رکھنے کیلئے ایسے بولا
"شرارتیں دل سے کی جاتی ہیں کسی کا دل رکھنے کیلئے نہیں۔۔چلیں" وہ کہتے ہوئے باہر چلی گئی جبکہ عثمان اسکے دل کی گہرائی پر ششدہ رہ گیا
_________________________________________
"ہیلو انکل" تایا شام کو گھر آئے تو کیتھرین انکے پاس آئی
"تم کون ہو" تایا حیران ہوتے ہوئے بولے
"میں شہری کی وائف ہوں انکل" کیتھرین کا لہجہ تایا کو بالکل اچھا نہیں لگا
"شہریار شہریار" وہ غصے سے چلائے
"جی بابا" کتنے سالوں بعد وہ اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسے ملاقات ہوگی
"یہ کیا سن رہا ہوں میں؟؟" تایا غصے سے بولے انکی آواز سن کر بقیہ گھر والے بھی جمع ہوگئے
"کیا؟" شہریار نا سمجھی میں بولا
وہ کیتھرین کی طرف بغیر دیکھے آسانی کرتے ہوئے بولے
" بابا اس سے بتایا تو وائف ہے میری" شہریار بنا کسی شرمندگی کے بولا
"تم نے شادی کرکے اور باپ تک کو بتایا نہیں؟" تایا کسی گہرے صدمے میں بولے
"میرا حق ہے کیوں میں شادی نہیں کرسکتا؟" شہریار ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا تایا کا ہاتھ بے اختیار اٹھا لیکن شہریار کے چہرے پر پڑھنے سے پہلے وہ ہاتھ شہریار کے ہاتھوں میں تھا
"تمیز سے بابا میں نے کوئی گناہ نہیں کیا میں عاقل ہوں بالغ ہوں خود شادی کر سکتا ہوں آپ لوگوں کی اجازت کا محتاج نہیں ہوں" شہریار غصے سے کہتا ہوا کیتھرین کا ہاتھ پکڑے ہوئے جانے لگا
"کتنی عجیب فیملی ہے تمہاری شہری" کیتھرین جاتے ہوئے کہتے ہوئے گئی تایا کا غم و غصے سے برا حال تھا دادا نے بڑے استہزائیہ انداز میں دونوں میاں بیوی کو دیکھا جنکا غم و غصے کے مارے برا حال تھا جس بیٹے کیلئے انہوں نے پاک دامن لڑکی پر تہمت لگائی تھی آج وہی انکے منہ پر کالک مل رہا تھا
_________________________________________
حسین کراچی آچکا تھا سیدھا دادا کے پاس گیا انکے گلے لگا
"کیا ہوا بیٹا کیا حالت بنا لی ہے تم نے اپنی کتنے کمزور ہوگئے ہو" دادی اپنے پوتے کی حالت دیکھتے ہوئے بولیں
"وہ دادا سے الگ ہوکر دادی سے ملا " دادا سمجھ گئے تھے اسکی حالت ایسی کیوں ہوئی ہے
"حسین بیٹا کچھ آرام کرو پھر باتیں کریں گے سکون سے"دادا دادی کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتے تھے حسین سمجھ گیا اسی لئے سر ہلاتا ہوا سب کو لاونچ میں بس سلام۔کرتا ہوا اوپر آگیا
"کم۔ان"دروازہ کی ناک پر حسین بولا حسن اندر داخل ہوا
"بھائی" حسن بھائی کا دکھ جانتا تھا
"کچھ مت پوچھنا حسن میں اپنا ضبط کھو دوں گا" حسین منہ پھیرتے ہوئے بولا جبکہ حسن لب بھینچ کر رہ گیا
"بھائی میں آپکا دکھ سمجھ سکتا ہوں" حسن بھائی کی حالت دیکھ کر بولا
"چپ ہوجاو کوئی نہیں سمجھ سکتا میرا دکھ یہ میرا دکھ ہے اسے میں نے ہی سہنا ہے تم سب رہو سکون کی زندگی دکھ میں تو میری زندگی ہے" حسین کی آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھیں
"بھائی آپکو آپ کیا ہو گیا ہے میں آپکا دکھ کیوں نہیں سمجھوں گا میں نے ہر ممکن انکا خیال رکھا لیکن بابا اور تایا نے حد کر دی تھی وہ لوگ بھی تھک چکی تھیں" حسن کسی گہری اذیت سے بولا
"تم جاؤ حسن مجھے اکیلا رہنے دو اسکی یادوں کے ساتھ" حسین بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا اسکے لہجے میں دکھ بول رہا تھا حسین نے اضطراب سے اپنا ہاتھ بالوں اور چہرے پر پھیرا وہ کھل کے رونا چاہتا تھا پر رو نہیں سکتا تھا وہ خود کو رونے سے روکتا تھا جو اسکے اندر کے طوفان کو مزید برپا کر رہا تھا
"بھائی پلیز خود کو اذیت مت دو" حسن اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
"جانتے ہو حسن بچھڑنے کی اذیت کیا ہوتی ہے؟؟؟ ذرا سانس روک کر دیکھو خود کو فنا کردو جب سانس اکھڑنے لگے تو جان لینا بچھڑنا موت جیسا ہے" دو موتی حسین کی آنکھوں سے ٹپکے
درد اب کہاں تک ہوگا
ضبط آنکھوں سے نکل آیا ہے
"میں نے بچپن سے اسکو چاہا ہے حسن ہر دکھ میں اسکا ساتھ دیا کبھی اسکو نہیں چھوڑا اسکے علاوہ کسی کو دیکھا تک نہیں پر وہ مجھے بیچ سنسان راستے میں چھوڑ کر چلی گئی جہاں آگے کے دروازے بند اور پیچھے گہری کھائی ہے میں کچھ نہیں کر سکتا میرا دل و دماغ مفلوج ہے" حسین گم لہجے میں بولا
"بھائی وہ واپس آجائیگی میرا دل کہتا ہے وہ آجائیگی آپ پلیز خود کو نارمل کریں" حسن اسکو تسلی دیتا ہوا بولا
"تسلی دینا بہت آسان ہے حسن تمہیں کہا تھا نا یہ میرا دکھ ہے مجھے ہی سہنا ہے تم جاؤ" حسین کپڑے لیکر واشروم چلا گیا پیچھے بیٹھے حسن سے بھائی کی حالت دیکھنا مشکل تھا وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
_________________________________________
گھر کا دروازہ کھلا تھا سعد اندر آگیا گھر پر شاید کوئی نہیں تھا سعد کو اچانک کسی کی سسکی کی آواز آئی وہ آواز کی طرف بڑھا دروازہ کھولنے سے پہلے اسکے کانوں میں آواز آئی
"میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی میں اندر سے مر رہی ہوں تم کیا جانو حسین میں اندر سے جھلس رہی ہوں میں مجبور تھی میں آپی کا مان بھی نہیں توڑ سکتی تھی" سعد کو آواز کا پتہ لگنے میں بالکل دشواری نہیں ہوئی وہ اندر داخل ہوا زنیرہ اب سر کو میز پر رکھے ہچکیوں سے رو رہی تھی
"زنیرہ آپی" وہ ہولے سے بولا زنیرہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا آنکھیں سوجھ کر لال ہوگئیں تھیں
"تت تم کب ائے؟" وہ اپنی آنکھیں چراتے ہوئے بولی
"ادھر بیٹھو" وہ اسکو بیڈ پر بٹھاتا ہوا بولا زنیرہ میں منع کرنے کی ہمت نہیں تھی اسکو ایک ہمدرد کی ضرورت تھی
"مجھے سچ سچ بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں میری بہن رو رہی تھی" سعد تکلیف سے بولا اسکو یہ چاروں بہت عزیز تھیں وہ بالکل ایک سگے بھائیوں کی طرح ان سب کا خیال رکھتا تھا انکی تکلیف سعد کو اپنی تکلیف محسوس ہوتی
"مجھے بتائیں زنیرہ آپی" سعد پریشان ہوا
"کچھ نہیں سعد بس ایسی ہی دادا دادی یاد آرہے تھے" زنیرہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی
"میں سب سن چکا ہوں۔۔ حسین کون ہیں؟" سعد بولا تو زنیرہ نے چونک کر دیکھا
"وہ۔۔۔۔۔وہ ایک ایسا انسان ہے سعد جسکے پاس بس محبت ہے لل لیکن میں نے اسے چھوڑ دیا" زنیرہ رو گئی
"آپ نے کیوں چھوڑا؟" سعد کی بات کے جواب میں روتے روتے سب کچھ بتادیا
"آپی سے اس معاملے میں غلطی ہوگئی" سعد کسی بات میں گم ہوتا ہوا بولا
"شاید" زنیرہ چہرہ چھپاتے ہوئے بولی
"سب ٹھیک ہوجائیگا انشاءاللہ " سعد اسکا ہاتھ لیکر تسلی دیتے ہوئے بولا
_________________________________________
ہادیہ اپنے کمرے میں بیٹھی حیا کو یاد کر رہی تھی جس دن اسکی برتھ ڈے تھی اس دن حیا اسکے پاس صبح سے ہوتی تھی اور اب اس نے اپنی برتھ ڈے اکیلے تنہا اپنے کمرے میں گزاری اپنی کی گئی زیادتیاں اسکو یاد آرہی تھیں وہ اس وقت میں کھو گئی جب وہ حیا کو کافی دنوں سے انگور کر ہی تھی حیا اس سے بہت پیار کرتی جوابا وہ بے زاریت کا مظاہرہ کرتی
"تم اتنا کیوں بدل گئی ہو ہادیہ" حیا اس سے اکثر کہتی
"تمہاری وجہ سے" ہادیہ کے جواب پر حیا حیرانی سے اسکو دیکھتی تھی
"میری وجہ سے" حیا اپنی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہتی
"ہاں تم ہر دفعہ مجھے ٹارچر کرتی ہو منزہ کو لیکر میرا دل تو خراب ہوگا ہی" ہادیہ کہ بات پر حیا اسکو انتہائی اذیت سے دیکھتی
"تمہین میرا منع کرنا اتنا برا لگتا ہے تو آئندہ نہیں کہوں گی ہادیہ" حیا دکھ سے بولی
"ہاں تم بس یہی کرنا ہر دفعہ فضول بکواس" ہادیہ بیزاریت سے کہتی
"ٹھیک میں جارہی ہوں" حیا اٹھتے ہوئے بولتی
"ٹھیک ہے جاو" ہادیہ کے کہنے پر ایک دفعہ حیا اسکو پیچھے مڑ کر بہت دکھ سے دیکھتی لیکن اس وقت ہادیہ دکھ نہیں پہچان پاتی آج سب اسکو یاد آرہا تھا اس سب کے بعد بھی حیا اس کے ساتھ بہت پیار سے رہتی کبھی ناراض ہوتی لیکن ہادیہ منانا بھول چکی ہوتی اکثر ہادیہ کو کہتی
اسوقت اسکے لہجے کا دکھ بھی ہادیہ نہیں پہچان پاتی حیا ہر طرح اسکو پہلا جیسا کرنے کی کوشش کرتی پر ہادیہ کی بیزاریت ختم نہ ہوتی
"حیا تم نے ہار مان لی ماننی بھی چاہیئے تھی ۔۔۔میں نے بھی تو کتنی تکلیف دی۔۔۔ تمہیں حد ہی کردی تھی۔۔۔ تمہارے پیار کے جواب میں بہت دکھ دیا مین نے۔۔تم سچ کہتی تھیں میں تمہارے بعد بہت پچھتاوں گی میں واقعی بہت پچھتارہی ہوں حیا" ہادیہ خود سے مخاطب ہوئی اسکو آج ایک ایک غلطی کا احساس ہورہا تھا ایک ایک دی گئی اذیت اور دکھ کا اندازہ ہورہا تھا حیا تو سارے دروازے بند کر کے گئی تھی ہادیہ اسکو یاد کر کر کے روتی رہتی پر کہتے ہیں نا اب پچھتانے کا کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔۔۔
_________________________________________
"مولوی صاحب مجھے سکون تو مل گیا آپکے کہنے پر مسجد میں نمازیں بھی پڑھنا شروع کر دی ہیں پر اب مجھے وہ کب ملیگی؟؟؟" عثمان آج پھر مسجد کے امام صاحب کے پاس آکر اپنے دل کی بات کر رہا تھا
"انشاء اللہ تمہارا دوست تمہیں ضرور عطا کریگا تم بالکل اس سے ویسے منگتے ہو جیسے وہ تمہارا دوست ہے تمہاری دعا میں بہت اثر ہے بیٹے کل جب تم وہاں کونے میں بیٹھ کر دعا مانگ رہے تھے تمہیں دیکھ کر میں لرز رہا تھا تمہارے چہرے پر مجھے نور محسوس ہوتا ہے بس بیٹے اس لڑکی کے مل جانے کے بعد بھی ایسے ہی رہنا اسکو کبھی نہیں چھوڑنا" امام صاحب اسکو سمجھارہے تھے
"میری کیا اوقات میں اسکو بھلاوں کوئی اپنی روح کو بھلا سکتا ہے کیا؟؟ وہ تو میری روح کے میرا اللہ" عثمان کے لہجے میں ایسی محبت تھی کہ امام صاحب بھی حیران تھے واقعی اللہ جسکو چاہے اپنی محبت عطا کرتا ہے
"اللہ تمہاری ساری پریشانی دور کرے" امام صاحب اسکا ہاتھ چومتے ہوئے بولے عثمان مسکرادیا
"آمین" عثمان مسکرا کر بولا اور مسجد سے باہر چلا گیا جبکہ امام صاحب اسکی پیٹھ دیکھ کر اللہ کے اس محبوب بندے پر رشک کر رہے تھے اسکو دیکھ کر اللہ یاد آجاتا تھا نجانے کیوں امام صاحب کو وہ اللہ کا محبوب بندہ لگتا کیونکہ اللہ نے اسکو چنا تھا صرف ایک دکھ دیکر اور اسکے لہجے میں بھی واضح اللہ کی محبت ٹپکتی تھی امام صاحب اسکیلئے دعا کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے
_________________________________________
"حیا اٹھو جلدی" رات کی تاریکی میں کوئی اسے سرگوشی میں پکار رہا تھا
"اٹھو جلدی حیا" اب اسکو کندھوں پر ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا حیا نے آنکھ کھولی تو سامنے عائشہ کا نورانی چہرہ تھا
"عائشہ تم یہاں اسوقت؟" حیا نے گھڑی دیکھی رات کے چار بج رہے تھے پھر عائشہ کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولی
"ہاں تمہیں جگانے آئی تھی" عائشہ اسکے اوپر سے کمبل ہٹاتے ہوئے بولی
"کیوں خیریت؟" حیا کو اسکی دماغی حالت پر شک سا ہونے لگا
"اللہ سے دوستی نہیں کرنی؟" عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
"اوہ ہاں" حیا فورا اٹھی اور بنا کچھ کہے واشروم بھاگی جبکہ عائشہ مسکرادی
کچھ دیر بعد حیا وضو کر کے باہر آئی تو عائشہ کو اپنے کمرے میں ہی پایا
"ویسے تم ادھر آئی کیسے؟" حیا حیرانی سے بولی کیونکہ دروازہ تو وہ بند کر کے سوئی تھی
"میرے پاس چابی ہے دروازہ کی" عائشہ مسکراتے ہوئے بولی
"اوہ اچھا" حیا مسکراتے ہوئے نماز کیلئے دعا مانگنے لگی
"تم۔رب سے سرگوشی کرو میں بھی چلتی ہوں" عائشہ کہ کر چلی گئی حیا اطمینان سے جائے نماز بچھا کر تہجد پڑھنے لگی
آج اس نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ اٹھائے تھے اسکا دل لرز رہا تھا ہاتھ اٹھاتے ہی کچھ کہنے کی ضرورت نہ پڑی خود بہ خود آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے
"اللہ میں کیا کہوں آپ تو سب جانتے ہیں" حیا کا ضبط جواب دے رہا تھا وہ ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی
"اللہ میری زندگی کی ساری مشکلات سارے دکھ آپکے سامنے ہیں آپ سب جانتے ہیں اللہ میرے باپ نے مجھے چھوڑا کیونکہ میں تیری رحمت تھی میں یہ نہیں کہتی کہ آپ انکو کوئی سزا دیں بس یہ کہتی ہوں کہ زندگی میں کسی ایک موقع پر انکو بیٹی کی موجودگی کا احساس ضرور دلائیں" حیا کے آنسو تواتر سے بہ رہے تھے ساتھ میں دل میں پڑی مٹی بھی اسکے آنسوؤں سے دھل رہی تھی ایک عجیب سا سماں تھا ایک اداس بندی اپنے رب سے محو گفتگو تھی آسمان والے بھی اسکی دعا سن رہے تھے آج ایک رب کی مہمان بندی آئی تھی
"میں نے زندگی میں بہت گناہ کئے میں نے نماز نہیں پڑھی میں نے قرآن نہیں پڑھا میں نے آپکی کوئی بات نہیں مانی میں نے آپکا بہت دل دکھایا اللہ میں اپنے سارے گناہوں کا اعتراف کرتی ہوں میں آپ سے دوستی کرنے آئی ہوں اللہ میرے دوست بنیں گے نا؟" حیا دعا مانگتے ہوئے گم ہوگئی تھی دل سے آواز آئی "میں تو اپنے بندے کے آنے کے انتظار میں ہوتا ہوں آؤ میرا در تھامو ضرور پکڑوں گا ضرور سمیٹوں گا میری پیاری بندی" دل دھک دھک کر رہا تھا رب سے گفتگو کر رہا تھا
"میں اب سے نماز بھی پڑھوں گی میں قرآن بھی پڑھوں گی میں آپ سے دوستی کروں گی بس اللہ ایک چیز مانگتی ہوں مجھے سکون دے دے میرے مضطرب دل کو سکون دے دے
مجھے سکون چاہیئے اللہ میں آپ۔سے آپ ہی کی ذات کا سوال کرتی ہوں میں آپکو چاہتی ہوں مجھے اپنا بنالیں میں بہت دکھی لڑکی ہوں اللہ میرا دل مردہ ہے اسکو زندہ کردیں میرا دل ٹوٹا ہے اسکو جوڑ دیں میری روح زخمی ہے اسپر مرہم لگادیں آپ تو ٹوٹے دل کے قریب ہوتے ہیں نا میں آئی ہوں میں آئی ہوں نا آپکے پاس مجھے خالی ہاتھ تو نہیں لوٹائیں گے اللہ بیشک میں تیری ولیہ نہیں میں تیری نیک بندی نہیں لیکن تیرے سب سے محبوب سب زیادہ نیک بندے آپکے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہوں نا آپ اپنے محبوب کو تو دکھ نہیں دے سکتے نا میں رونگی انکو تکلیف ہوگی وہ اپنی امت سے بہت پیار کرتے تھے تھا اللہ پلیز مجھے سمیٹ لیں مجھے اپنی رحمت کی چادر میں لے لیں مجھے مجھے سکون راحت اطمینان خوشیاں دے دے اللہ" حیا رو رو کر نڈھال ہو رہی تھی آج اپنا دل ہلکا کر رہی تھی دل۔میں رکھے سب دکھ اپنے دل بنانے والے سے کہ رہی تھی آج اسکو ایک عجیب سا سکون مل رہا تھا