کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بھائی رئیس فروغؔ کا اور میرا ساتھ، بلکہ بھائی رئیس فروغؔ کا رسالے ’’صدف‘‘ کا اور میرا ساتھ کوئی دس بارہ برسوں کا قصہ ہے۔ ان کے ریڈیو میں پروڈیوسر بن جانے کے بعد بھی ہماری یہ رفاقت جاری رہی۔ ادھر وہ ’’صدف‘‘ اور بزم ادب کے پی ٹی سے کبھی بے تعلق نہیں ہوئے، اِدھر میں نے ریڈیو کا آنا جانا نہیں چھوڑا۔ نتیجہ یہ کہ اس تمام مدت میں ان کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھنے کو اور اُن کی مہربان آواز سننے کو ملتی رہی۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیادہ تر مشاعروں میں بھائی فروغؔ ہی کو نظامت کے فرائض انجام دینا ہوتے تھے۔ کیونکہ بھائی فروغؔ کے اور منتظمین کے ذہنوں میں ایک بات بالکل واضح تھی وہ یہ کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت چھوڑ دینے کے باوجود یہ محکمہ بھائی فروغ کو عزیز تھا اور محکمے والوں کے لئے بھائی فروغؔ باہر کے آدمی نہیں ہوئے تھے۔ اپنے ہی آدمی تھے۔ چنانچہ علمی ادبی مجلسوں کے انتظامات کے سلسلے میں غور کرتے ہوئے ہم نے بہت سے معاملوں میں رئیس فروغؔ صاحب سے مشورے لئے۔ کے پی ٹی کے کسی بھی مشاعرے یا نشست میں بھائی فروغؔ کو دعوت دینے کے بعد ہم کو ایک یہ اطمینان تو ہو جاتا تھا کہ آندھی آئے طوفان بھائی فروغؔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بلانے پر ضرور تشریف لے آئیں گے۔ کوئی پوچھتا تھا کہ فروغؔ صاحب کو لانے کے لئے کیا انتظام کیا گیا ہے تو میرا جواب ہوتا تھا کہ ویسے تو سب انتظام موجود ہے مگر بھائی فروغؔ کو کے پی ٹی بلانے کے لئے ’’ایک محبت کافی ہے‘‘۔ انھیں یاددہانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ یہ ان کا اپنا جلسہ اپنا مشاعرہ ہوتا تھا۔ یہاں وہ مہمانوں کی طرح نہیں آتے تھے، اپنے گھر میں آتے تھے۔
اُن کی رحلت سے علم و ادب کا، اردو زبان کا جو نقصان ہوا وہ سب کے علم میں ہے مگر انکے اُٹھ جانے سے میرا ایک بڑا بھائی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کا ایک دیرینہ دوست نہیں رہا۔ میں زندگی کو ہنستے کھیلتے گزارنے کا قائل ہوں، کبھی تنہائی میں بیٹھا ہوتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ یہ ایک اچھی بات شاید میں نے اپنے دوست اور بھائی رئیس فروغؔ صاحب سے سیکھی ہے۔ خدا مغفرت کرے۔ اس طرح وہ میرے محسن بھی ہیں۔ ان چند سطروں کے حوالے سے آج میں اپنے دوست بھائی اور محسن کو یاد کر رہا ہوں۔
٭٭٭