رئیس فروغؔ جتنے بڑے شاعر تھے اُس سے کہیں زیادہ بڑے انسان تھے۔ اُن سے میری دوستی کی ابتداء اُس وقت ہوئی تھی جب کے پی ٹی میں تقرری کے بعد کیش برانچ میں اُن کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اگرچہ اس برانچ میں وہ ایک مختصر عرصے کے لئے ہی رہے لیکن اس دوران انہوں نے اپنی شخصیت کے جو نقوش چھوڑے وہ آج تک ان کے دوستوں، ہمدردوں اور بہی خواہوں کے دلوں پر ثبت ہیں۔ پورٹ کی ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ اگرچہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اکثر ہم جیسے پرانے دوستوں سے ملاقات کے لئے آیا کرتے تھے اور اسی بے تکلفی سے ملا کرتے تھے جیسی کہ محکمہ چھوڑنے سے قبل۔ اگرچہ کہ اس وقت بہ حیثیت شاعر ان کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پر پہنچ چکا تھا، لیکن ترقی اور شہرت کو انہوں نے کبھی بھی دوستی کے درمیان حارج نہ ہونے دیا۔
رئیس فروغؔ ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے۔ خاموش طبیعت، منکسر المزاج، ہمدرد اور انتہائی با اصول انسان تھے۔ اپنی اور ان کی طویل دوستی کے درمیان میں نے ان میں یکسر کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ ان کی شخصیت کی یہ خوبیاں اگر کسی جگہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے لگتیں تو بھی انہوں نے اصول پرستی کو ترقی پر فوقیت دی۔ وہ ایک عظیم انسان اور اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ انتہائی مخلص دوست بھی تھے۔ ایک ایسے دوست جس کے حلقۂ احباب میں ہر شخص شامل تھا۔ وہ خود بہت با اخلاق تھے اور ان کا برتاؤ ہر شخص کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ تھا، لہٰذا ان کے احباب میں کوئی بھی شخص ان سے ناخوش نہ تھا۔
وہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک بہترین کارکن بھی تھے۔ جب تک وہ دفتر میں رہتے تھے دفتر کے اصولوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور اپنی طرف سے کوئی ایسا موقع نہیں دیتے تھے کہ لوگ ان پر نکتہ چینی کر سکیں۔ دفتری اوقات میں وہ زیادہ تر دفتر ہی کے کام کرتے تھے۔ لیکن اکثر اوقات ان کے احباب بھی جن میں اکثریت نو آموز شعراء کی ہوتی تھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ یہ لوگ فروغؔ صاحب سے اپنے کلام کی تصحیح کرایا کرتے تھے اور اکثر یہی ہوا کرتا تھا کہ فروغ صاحب فارغ اوقات میں ان کے کلام کو ماہرانہ انداز میں نوک پلک سے درست کر دیا کرتے تھے۔
کے پی ٹی میں رئیس فروغؔ کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ہے۔ پہلے بھی تھی۔ وہ گاہے بگاہے یہاں آیا کرتے تھے۔ آخری بار میری ان سے ملاقات مئی ۱۹۸۲ء میں ہوئی تھی۔ یہ غالباً ۱۵ یا ۱۶ مئی کا واقعہ ہے جب وہ کے پی ٹی ہیڈ آفس میں آئے تھے اور اس بار کافی دیر تک ان کے ساتھ نشست رہی۔ ان کی باتوں میں کوئی پژمردگی اور کوئی ناامیدی نہ تھی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ درخشاں شاعر اچھا انسان اور بہترین دوست صرف ۳ ماہ بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملے گا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے مفر ناممکن ہے۔
٭٭٭