رات بہت ہوا چلی
رات بہت ہوا چلی
گوشۂ دل میں زرد رو خواب نے آنکھ موندھ لی
دو چار دیپ آس کے کانپے، بھڑک کے بجھ گئے
دو چار بار کوششیں زیست کی جھلملا اٹھیں
دو چار خوش گمانیاں آنکھ میں جگمگا اٹھیں
رات بہت ہوا چلی
منظر سبھی بدل گئے سارے عروج ڈھل گئے
سوکھے ہوئے درخت کی
آخری سانس رُک گئی
چھوٹے سے دائرے میں تھی، وہ کائنات رُک گئی
شاخِ سیاہ بخت ایک
کٹ کے گری تو جل گئی
یہ زندگی بدل گئی، ساعتِ غم عجیب تھی آخرِ عمر تک چلی
یو تو وہ رات ڈھل گئی
پھر بھی کہیں کوئی صدا
اوڑھ کے درد کی ردا، نزدیکِ صبح دلربا
اوراقِ دل کی اک دعا، ہر سمت سے گریز پا
ہر صبح کہہ رہی ہے کیا
رات بہت ہوا چلی، سوکھے ہوئے درخت کی آخری سانس رُک گئی
چھوٹے سے دائرے میں تھی، وہ کائنات رُک گئی
رات بہت ہوا چلی
٭٭٭