نہ رہا وہ گلِ ریاضِ کمال
رہ گئی نکہتِ کمالِ فروغ
فکرِ تاریخِ ارتحال جو کی
لکھ دیا ’’یومِ ارتحال فروغ‘‘
۱۹۸۲ء
محبتوں، صداقتوں کی روشنی فروغ ہے
وہ کل بھی تھا فروغ اور آج بھی فروغ ہے
ہے سالِ مرگ اس کا کس قدر درست اور بجا
’’رئیسِ بارگاہِ فن و آگہی فروغ ہے‘‘
۱۹۸۲ء
مہر و مہ کی طرح رہے گا فروغ
ضو فشاں عالمِ صداقت میں
عیسوی سالِ مرگ ہے اس کا
’’ہوا ساکن فروغ جنت میں‘‘
۱۹۸۲ء
٭٭٭