دنیا میں سب سے مشکل کام اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں اور عزیزوں کے بارے میں لکھنا ہے۔ میں، جس نے کبھی بھی کوئی مضمون نہیں لکھا اس کے لئے فروغؔ صاحب جیسے اچھے شاعر اور دوست کے بارے میں کچھ بھی لکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ اب جب کہ میں نے ان کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کیا ہے تو وہ گزرے ہوئے ماہ و سال ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔
فروغؔ صاحب کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اپنی زندگی کے ان لمحات کو میں بہت قیمتی تصور کرتا ہوں جو میں نے فروغ صاحب کے ساتھ گزارے ہیں اور یہ بات میں رواجاً نہیں حقیقتاً کہہ رہا ہوں کہ ان جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔
میں نے ۱۹۵۴ء میں رئیس فروغؔ صاحب کو پیلی بار دیکھا۔ دفتر کے دو اور دو چار کے بوجھل ماحول میں فروغ صاحب کی شخصیت بہار کا وہ لطیف جھونکا تھا جو تھکے ہوئے ذہنوں کو ترو تازہ کرتا ہے۔ وہ اکثر لیجر پر ڈیبٹ کریڈٹ کرتے کرتے نیچے سے کاغذ نکال کر اشعار لکھنا شروع کر دیتے تھے۔ میں ان پر حیران ہوا کرتا تھا کہ اس قدر غیر شاعرانہ ماحول کے باوجود وہ اپنی شاعرانہ مصروفیات کس طرح برقرار رکھتے ہیں۔
فروغ صاحب بڑے بذلہ سنج، نیک طبع، شریف اور قانع آدمی تھے۔ میں نے ان کی زبان سے کبھی حالات اور زمانے کا شکوہ نہیں سنا۔ ہاں، ان کی شاعری میں جھلکتا ہوا کرب اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے بالکل بے نیاز نہیں تھے کچھ نہ کچھ شکوہ رکھتے تھے:
ہدفِ ملامتِ بے ہنر، سببِ تمسخر کم نظر کہیں عصمت دلِ شیشہ گر، کہیں عظمت دلِ کوہکن
میں کیا کیا شگفتہ امیدیں بوئی تھی نازک سی اک آرزو کس کو معلوم تھا عمر کٹ جائے گی کاٹتے کاٹتے فصل غم دوستو
یہ فرصت بھی کہاں گرداب دوراں میں کہ دم بھر کو کسی دم توڑتے لمحے کا ماتم کر لیا جائے
گھر میں آرام سے رہنے کے ہزاروں ارماں صرفِ تعمیرِ در و بام ہوئے جاتے ہیں
بلا کشوں کے گریباں سے داغِ دل ہی نہیں کبھی کبھی کوئی خورشید بھی نکلتا ہے
مری کارزارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
یہ فروغ صاحب کی ابتدائی شاعری تھی لیکن اس کے باوجود ان اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی فکر کتنی گہری اور تصور کتنا اچھوتا تھا۔ ان کے ابتدائی کلام میں قدیم رنگِ تغزل پایا جاتا ہے۔ فروغ صاحب بڑے پرگو شاعر تھے تھوڑی ہی دیر میں خاصی طویل نظمیں کہہ دیا کرتے تھے۔
فروغ صاحب کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت ان کی بذلہ سنجی تھی۔ میں نے کبھی بھی ان کو بہت سنجیدہ نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ میں فروغ صاحب اور کچھ دوست مشاعرہ سننے گئے، وائی ایم سی اے میں مشاعرہ تھا۔ خیال یہ تھا کہ مشاعرہ ختم ہوتے ہوتے صبح ہو جائے گی لیکن خلاف توقع مشاعرہ جلد ختم ہو گیا۔ رات کا عالم کوئی سواری نظر نہ آتی تھی تو ہم سب نے پیدل چلنے کا ارادہ کیا، ہم لوگوں نے چلنا شروع کیا، کسی نے تجویز پیش کی کہ شعر ہی سنائے جائیں تاکہ راستہ کٹے۔ ظاہر ہے سب نے فروغ صاحب کی طرف دیکھا۔ میں نے فروغ صاحب کو چھیڑنے کو ایک لطیفہ سنا دیا جس میں شاعروں کے حافظے کو مزاح کا ہدف بنایا گیا تھا۔
فروغ صاحب مسکرائے اور پھر جو انہوں نے اشعار سنانا شروع کیے تو تمام راستہ شعر سناتے رہے یہاں تک جب ہم لوگ چائے پینے ایک ہوٹل میں رکے تو وہاں کے بیرے سے کہنے لگے کہ ’’ایک شعر سن لو‘‘ وہ نہ جانے کیا سمجھا کہ بھاگ کھڑا ہوا۔ جب بل دینے کے لئے منیجر کے پاس گئے تو اس سے کہنے لگے ’’اب تو میں پیسے دے رہا ہوں اس لئے اب تو ایک شعر سن لو اور اس کو بھی فارسی کا ایک شعر سنا دیا۔
فروغ صاحب بڑی سادہ اور خود دار شخصیت کے مالک تھے ان کی ذات میں تصنع کا کوئی عنصر بھی نظر نہیں آتا تھا۔ یہی سادگی ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے:
ہے فروغ مظہر سادگی مرا ہر شعار جلی خفی
مرے شعر میں مری زندگی مرے جسم پر مرا پیرہن
بے زر و مال بے خانماں ہے مگر کم نہیں ہے کسی فروغ آپ کا اس کو کیا چاہئیے جس کے قبضے میں ہو ایک جام ایک بیاض ایک قلم دوستو
فروغ صاحب کے دفتر سے چلے جانے کے بعد بھی میری اور ان کی دوستی ہنوز برقرار تھی وہ جب بھی آ جات ہم ان کی شاعری پر تبصرہ اور تنقید کرتے اور وہ بڑے مدھم انداز میں اپنا نکتۂ نظر سمجھاتے تھے۔ ۱۵ مئی ۱۹۸۲ء ایسا ہی ایک دن تھا جب فروغ صاحب میرے پاس آئے اور اس دن بھی ہماری گفتگو کا موضوع ان کی جدید شاعری تھی جس پر مجھے کچھ اعتراضات تھے کیونکہ میں ان کے پرانے انداز تغزل کا مداح ہوں۔ اس دن ہم نے کافی دیر تک بات چیت کی۔ ایک ٹائپسٹ نے ان سے آٹو گراف مانگا تو انہوں نے لکھا:
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اور نیچے اپنے دستخط کر دئیے۔ اور پھر ۱۵ اگست ۱۹۸۲ء کو مجھے اخبار کے ذریعہ معلوم ہوا کہ فروغؔ صاحب کا انتقال ہو گیا اور اب دنیا سے میرا ایک بہت اچھا دوست ایک اچھا شاعر چلا گیا۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
٭٭٭