کمالِ ذات سے دنیا پہ چھا گئے ہیں فروغ
فروغ ان میں نہیں تھے جو پا گئے ہیں فروغ
ہر اک سمت فضا ہے نئے اجالوں کی
نئے شعور کی شمعیں جلا گئے ہیں فروغ
نگارخانۂ معصومیت ہوا روشن
وہ رنگ و نور کے چہرے سجا گئے ہیں فروغ
جمودِ فکر و نظر ان کی شاعری میں نہ تھا
روائتوں کو بھی آگے بڑھا گئے ہیں فروغ
کمال تھا کہ قدامت گزیدہ ذہنوں کو
جدید فکر کا محور بنا گئے ہیں فروغ
امینِ مہر و وفا تھے مگر جدا ہو کر
کچھ اور دردِ محبت بڑھا گئے ہیں فروغ
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے
سخنوری کے کرشمے دکھا گئے ہیں فروغ
زمانہ طعنۂ آوارگی نہ دے مخدوم
چلوں گو ان پہ جو راہیں دکھا گئے ہیں فروغ