اردو کی جدید شاعری میں رئیس فروغ کا نام صرف تیکنک کے تجربے کے لیے ہی نہیں لیا جائے گا بلکہ موضوعات کی اہمیت کے لیے بھی انہیں یاد رکھا جائے گا۔ رئیس فروغ دراصل احساس کی شدت کو جب شاعری میں ڈھالتے ہیں تو ان کے قلم میں تیزی اور کاٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے جوش اور جذبے کی شدت اور انفرادیت کا احساس، نئی تراکیب اور ڈکشن کے پیش کرنے میں اجنبیت شامل ہو گئی ہو لیکن ان کی غزل اپنے تیکھے پن اور لب و لہجے کی خصوصیت کی وجہ سے ہماری تمام تر توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہے۔ دراصل رئیس فروغ کا مسئلہ ان کی انفرادیت کے جذبے کے گرد زیادہ گھومتا ہے وہ بعض باتیں عام شاعری میں آسانی سے کہہ جاتے ہیں تکنیک کی تبدیلی کے ساتھ اس کے لیے نیا پیرایہ تلاش کرتے ہیں اور اس وقت تک اپنے جذبے کا اظہار ہی نہیں کرتے جب تک کہ وہ نیا انداز تلاش نہیں کر لیتے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ جو نیا پیرایہ اختیار کرتے ہیں وہ مقبول بھی ہو۔ اس پیرائے سے اختلاف ممکن ہے اس لیے بھی کہ جب بھی کوئی نئی تکنیک اچانک اپنا مقام پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اس قسم کی دشواریوں کا ہونا ایک فطری امر ہے اگر اس میں کچھ جان ہوتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں دوسری صورت میں اس کی صورت تجربے کی تو رہتی ہی ہے۔
تکنیک کے تجربوں کو ہم یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہیے۔ اگر غزل جو ارد و شاعری میں ایک بے حد مقبول صنف سخن ہے کس قدر سخت جان ثابت ہوئی ہے۔ کتنی تبدیلیوں، مرحلوں اور پر پیچ راستوں سے گزری ہے اور آج بھی یہ عمل جاری و ساری ہے۔ آزاد غزل، گو کہ وہ اب بھی مقبول نہیں ہو سکی ہے اپنی ایک اہمیت رکھتی ہے۔ کم از کم تجربے کی حد تک اس کو قبول کر لیا گیا ہے اور اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ اس میں پیدا شدہ تبدیلیوں نے نئے امکانات اور نئے اثرات مرتب کیے ہیں۔
جدید شاعری میں تکنیک کے نئے نئے تجربے اس امر کے شاہد ہیں کہ تبدیلی ممکن ہے اس لیے میں تکنیک کے ان تجربوں کو اردو شاعری کے لیے نیک فال ہی تصور کرتا ہوں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اب تک بعض فنی خامیوں کے باعث یہ تجربے زیادہ تیزی کے ساتھ کامیابی کی طرف گامزن نہیں ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ محض تجربے ہی نظر آتے ہیں ان میں بے ساختگی، روانی، سرور کی کیفیت اور وجدانیت نہیں ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابلاغ کا مسئلہ تجربہ کرنے والوں کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے اور اس طرح بعض ترکیب خیال کی پیش کش ڈکشن اور شعری حسن مجروح ہو جاتا ہے بلکہ کسی خاص جواز کے الفاظ کا مروجہ مفہوم ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے کبھی معنی کے لحاظ سے وہ الفاظ معکوس سمت میں چلے جاتے ہیں اور یوں شاعر اور قاری کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو جاتی ہے جو شاعری کے بنیادی مقصد اور اس کے حسن کو غارت کر دیتی ہے۔
شاعر کو زندگی کے براہ راست تجربوں اور مشاہدوں میں شاعری کے ڈکشن اور الفاظ کا نیا مفہوم مرتب کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس کا قاری کے ساتھ گہرا رابطہ ہوتا ہے اور جب یہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے تو قاری اور شاعر دونوں کی سمتیں مختلف ہو جاتی ہیں۔
رئیس فروغ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر تھے۔ انہوں نے بہت اچھی غزلیں کہی ہیں ان کے گیت بھی خوبصورت اور مترنم ہیں ان یں زندگی اور اس کے مسائل ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ جب بھی نظم کی طرف مائل ہوئے ہیں انفرادیت اور جدت کا شدید احساس ان کی شاعری پر غالب آ گیا ہے۔ یہاں ان کی شاعری تجربے کے دور سے تو گزرتی ہے لیکن جدت پسندی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اپنے خیال کی روانی کے لیے کوئی اور بہتر راستہ اختیار کرتے تو ممکن تھا بات بن جاتی لیکن ان کی ساری توجہ نثری نظم کی طرف ہی رہی چنانچہ متنازعہ مسائل ان کی شاعری میں ایک ہنگامی شکل میں ابھرتے رہے نثری نظم کے پرستار اپنی غیر مقبولیت اور بیزاری کے بعد اپنی ذات کو ابھارنے، انوکھا کہلانے شدید انفرادیت اور جدت پسندی کے شغل میں مصروف ہیں ان میں سے بعض واقعی جینیس ہیں لیکن صحیح طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں ان ہی لوگوں میں رئیس فروغ بھی شامل ہیں ان کی ساری ذہانت نثری نظم پر صرف ہوئی اور ان سے امید تھی کہ ممکن ہے وہ کچھ نہ کچھ بہتر صورت نکالیں گے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔
رئیس فروغ کی غزل الجھنوں اور بھاری فلسفوں کی قید سے آزاد ہے۔ وہ زیادہ گہرائی میں نہ تو جاتے ہیں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ شاید یہ بھی ان کی انفرادیت ہی ہے وہ غزل کو بوجھل نہیں ہونے دیتے لیکن ان کے ہاں قلبی واردات اپنے پورے احساس کے ساتھ اور اپنے مخصوص رنگ میں موجود ہے جو دل پر گہرا اثر کرتی ہے۔ یہاں میں ان کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ان سے ان کی شعری عظمت کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے:
باتوں کی دہلیز پہ آیا
آدھا سورج آدھا سایا
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرایا
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
وہ مرا ہم نشیں ہم نوا ہم نفس
بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
آنکھ جو ہم کو دکھاتی ہے وہ ہم کیا دیکھیں
دیکھنا ہے تو کسی خواب سے کم کیا دیکھیں
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک میرا حال تماشا ہے
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نے
لکھا ہے اگر شعر تو فاقہ بھی کیا ہے
تصویر بنانے کا مرض لے گیا اس کو
اک شخص تھا پرویز ابھی کل ہی مرا ہے
سج رہے ہوں گے نازک پودے چل رہی ہو گی نرم ہوا
تنہا گھر میں بیٹھے بیٹھے سوچ لیا اور جھوم لیے
لڑکیاں روشنیاں کاریں دکانیں شامیں
انہیں چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
اپنے ہو نہ پرائے ہو
کس سے ملنے آئے ہو
کچھ سایہ کچھ دھوپ لیے
کہاں کہاں لہرائے ہو
ان کی تیرہ نظمیں جو کہ رات بہت ہوا چلی میں ہیں مغربی موسیقی کے رکارڈز سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں ان نظموں کو منظوم ترجمہ ہونے کی صورت میں ایک نیا تجربہ ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شعری حسن سے مبرّا ہیں مغربی موسیقی کے حوالے سے ہی ان میں غنائیت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے کہ اکثر سطریں انفرادی طور پر غور وفکر کی دعوت تو دیتی ہیں اور ان میں کہیں کہیں شعری حسن بھی جھلکتا ہے لیکن یہاں پر پھر ابلاغ کا مسئلہ درمیان میں آ جاتا ہے اور قاری کے لیے الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ ان نظموں کے جن سے یہ منظوم تراجم کیے گئے ہیں تفصیلی حوالے نہیں ہیں۔ ممکن ہے اصل نظمیں شعری لحاظ سے اس سے بھی گئی گزری ہوں۔ انفرادیت کا یہ طریقہ ممکن ہے تجربوں کی حد تک کوئی افادی پہلو رکھتا ہو لیکن جہاں تک لطف لینے کا تعلق ہے اس میں ناکامی ہی ہوتی ہے۔
٭٭٭