دراز قد، چھریرا بدن، سُتواں ناک، تیکھے نقوش، بڑی بڑی گہری سوچتی آنکھیں، مسکراتے لب اور نرم و شیریں گفتگو۔ مصور ایسی کوئی تصویر بنائے تو وہ رئیس فروغ کی ہو گی۔ بزرگوں نے ان کا نام سید محمد یونس رکھا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ سید محمد یونس بڑا ہوا کر رئیس فروغ کے نام سے پہچانا جائے گا۔ یہی وجہ شہریت اور یہی اس کی شخصیت کا دوسرا نام ہو گا۔
رئیس فروغ کا تعلق بر صغیر کے اس معاشرے سے ہے جہاں تہذیبی و ثقافتی روایتیں اور قدریں ٹوٹنے پھوٹنے کے باوجود بڑی گہری تھیں۔ چھوٹے بڑے کا لحاظ، آنکھوں میں مروّت، دلوں میں محبت و احترام کا جذبہ تھا، آدابِ مجلس کی اہمیت، آپس میں بھائی چارہ، یگانگت، وضعداری، رکھ رکھاؤ اور شرافت ایک علامت تھی۔ ایسے ہی ماحول میں رئیس فروغ نے آنکھیں کھولیں۔
یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ فروغ جس خاندان کے چشم و چراغ ہیں وہ دینی و دنیوی دولتِ علم سے مالا مال تھا۔ اپنے ماضی کی عظیم تہذیبی روایات و اقدار کا پاسدار تھا، لیکن زیادہ قدامت پرست نہ تھا۔ بر صغیر میں مشرقی تہذیب و ثقافت کی روایات و اقدار کی توڑ پھوڑ کے بعد مغربی تہذیب اور اس کی ثقافت اپنا سکّہ پوری طرح جما چکی تھی، ہمارے معمولات میں بھی اس کا بڑا دخل ہو چکا تھا۔ اس وقت کی انگریزی داں نسل کو اُس کی اپنی تہذیب و ثقافت سے دور کر دیا گیا تھا بلکہ اخلاقیات، فکری رویوں اور تعلیمی نظام کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ یہ ایک سیلاب تھا جس میں ہر چیز بہی جا رہے تھی لیکن اس سیلاب پر بند باندھنے والا کوئی نہیں تھا اگرچہ اکبر الٰہ آبادی نے نئی اور پرانی نسل کو جھنجھوڑ کر، چُمکار کر طنز و مزاح کے ذریعہ غیرت و حمیت کے بند باندھنے کی کوشش کی، ماضی کی شاندار روایات و اقدار کا واسطہ دیا، عظمتوں کا احساس دلایا اور مشرق کے تہذیبی ورثے کا امین و پاسدار ٹھہرایا لیکن کچھ تو مغربی تہذیب اور ثقافت کی چمک دمک اور اس کی تندی و تیزی اور کچھ اپنوں کی کرم فرمائیوں نے لوگوں کو اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیا جس کے باعث نئی نسل کی نظر میں نہ تو اپنے ماضی کی قدر و منزلت رہی اور نہ اپنی تہذیب و ثقافت کی وقعت باقی رہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اکبر الٰہ آبادی بنیادی طور پر قدامت پرست تھے اور قدیم و جدید کے معترف تھے جسے جوں کا توں زمانے کے بہتے ہوئے دھارے میں محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اس تمام شکست و ریخت کے باوجود نہ تو گھروں کے اندر کا ماحول متاثر ہوا اور نہ تعلیم و تربیت متاثر ہوئی۔ رسم و رواج کی پاسداری اور آداب و لحاظ باقی رہا۔ بزرگوں کی تربیت اور نگہداشت نے جہاں تک ہو سکا اپنی نئی نسل کو زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی اور یہ بھی تعلیم دی کہ مشرقی تہذیب و ثقافت کے امین ہم ہی نہیں تم بھی ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ مغرب کی خوبیوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کی آبیاری بھی تم پر فرض ہے۔ کیونکہ یہی تمہاری پہچان بھی ہے اور تمہارے وجود کی ضمانت بھی۔
رئیس فروغ نے اس وقت جنم لیا جب بر صغیر میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں۔ فضاؤں میں انگریزی تسلط کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی اور ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ کانگریس اور مسلم لیگ اپنے اپنے مشن کو پورا کرنے میں مصروف تھیں۔ ان فضاؤں میں فروغ نے آزادی کا لفظ سیکھا، یہی وہ دور تھا جب بر صغیر می ں آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا اور آزادی کے نغمے فروغ کے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے نعرے بھی گونجنے لگے تھے جو ہندو مسلم ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو کر لگا رہے تھے، کہیں کہیں ایک دوسرے کے خون سے ہولی بھی کھیلی جا رہی تھی، برسوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو رہا تھا، میل و مروّت، نفرت و حقارت میں، بھائی چارہ و یگانگت دشمنی میں بدل رہے تھے۔ تعلقات میں شک و شبہ کے شگاف پڑ رہے تھے جس نے ایک دوسرے کو مشکوک بنا دیا تھا۔ رئیس فروغ نے آزادی کا جو لفظ کبھی سیکھا تھا وہ اس کو متاعِ جاں اور حسین و معصوم یادوں کی طرح اپنے سینے سے لگائے مراد آباد کو الوداع کہہ رہا تھا۔
رئیس فروغ کا تعلق روہیلوں کے گڑھ، جگر کے دیس اور بر صغیر کے مشہور و معروف صنعتی شہر مراد آباد سے ہے جس کی اپنی ایک مخصوص تہذیب اور روایتیں ہیں، لوگ سیدھے سادے مگر محنتی اور جفا کش ہیں۔ مہمان نواز بھی ہیں اور اکھڑّ بھی، اَکل کھرے بھی ہیں اور با مروت بھی۔ یہاں کے لوگ بدلتے ہوئے موسموں کا لطف ضرور اٹھاتے ہیں لیکن بدلتے ہوئے فیشنوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ مراد آباد اگرچہ صنعتی شہر ہے لیکن یہاں کی فضائیں اور گلی کوچے شعر و ادب کے چرچوں سے گونجتے رہتے ہیں۔ مولانا حکیم راغب مراد آبادی، سر محمد یعقوب، قاضی عبدالغفار، جگر، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ہوں کہ قمر سب کا تعلق اسی شہرِ ناموراں سے ہے۔ ساجد علی خان، راز، شکیل عادل زادہ ہوں کہ رئیس فروغ سب کی جنم بھومی یہی بستی ہے۔ شعر و ادب کی محفلوں، ادبی انجمنوں اور مشاعروں نے نوجوان رئیس فروغ کے اندر چھپے ہوئے شعری جذبے کو ٹہوکا دیا تو اس کا جمالیاتی شعور اندر ہی اندر انگڑائیاں لینے لگا۔ ابتدائی دور شاعری میں رئیس فروغ نے قمر مراد آبادی کو اپنے لکھے ہوئے شعر اصلاح کے لیے دکھائے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ مراد آباد میں جگر کے بعد قمر کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ اگرچہ قمر صاحب نے رئیس فروغ کی شعری صلاحیتوں کو اجاگر کیا، ان میں سلیقہ پیدا کیا اور فروغ کے شوق کو مہمیز کیا لیکن جوانی جذباتی ہوتی ہے۔ کچھ کر گزرنے کا جنون ہوتا ہے ا سی باعث مسعود میکش، تابش حیدری اور رئیس فروغ کے ساتھ کچھ اور دوسرے دوستوں نے مل کر ’’انجمن بقائے ادب‘‘ کی بنیاد رکھی اور قمر صاحب سے اس انجمن کی سرپرستی قبول کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ان نوجوانوں کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو ان نوجوانوں نے قمر صاحب سے دوری اختیار کر لی۔ بعد میں جب جگر صاحب اپنے سفر سے مراد آباد واپس آئے اور انہیں ان معاملات کا علم ہوا تو انہوں نے ان نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس انجمن کی سرپرستی قبول کر کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کیا۔ قمر صاحب سے دوری کا ان نوجوانوں پر خوشگوار اثر ہوا، ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی، شوق نے ان کی رہنمائی کی اور یہیں سے رئیس فروغ کی شاعری کا اپنا دور شروع ہوتا ہے۔
حصولِ آزادی کے بعد رئیس فروغ مراد آباد سے ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے جو ان کے خوابوں کی تعبیر تھا لیکن تلاشِ معاش اور نت نئی پریشانیوں نے انہیں الجھا کر رکھ دیا۔ مشکلات اور مسائل نے ان کے کس بَل نکال دیے۔ وقت کی تپتی دھوپ نے نہ صرف ان کے رنگ و روپ ہی کو جھلسا کر رکھ دیا بلکہ انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا جس کا اظہار انہوں نے اپنے ان شعروں میں کیا ہے:
صحنِ گلزار میں کس سے پوچھوں
کیا ہوا رنگِ پریدہ میرا
*
کانٹوں سے بچاؤں کیا بدن کو
کانٹے تو لباس میں سلے ہیں
لیکن یادوں کا جو سلسلہ وہ اپنے ساتھ سینے سے لگا کر لائے تھے اسی طرح آج تک تر و تازہ ہے جو اُن کے شعروں میں ڈھل کر اور بھی گہرا ہو گیا ہے :
آدھی عمر کے پس منظر میں شانہ بشانہ گام بہ گام
تو ہے کہ تیری پرچھائیں ہے میں ہوں کہ میرا سایہ ہے
*
یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائے
سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا
جب تری یاد کا طوفان گزر جائے گا
دل کسی اور سمندر میں اتر جائے گا
*
اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں تو پوچھے آرام کہوں
*
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
رئیس فروغ بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہے اگرچہ اس نے رومانی نظمیں بھی لکھی ہیں، قطعات اور گیت بھی لکھے ہیں لیکن اس کی شاعری کا موضوع زندگی اور اس کی سچائیاں، حقیقتیں اور تلخیاں ہیں۔ اگرچہ حالات و واقعات کی سنگینی کی طرح زندگی بھی بڑی سنگین اور بے رحم ہوتی جا رہی ہے لیکن فروغ نے اپنے فکر و شعور کی آنچ سے تپا تپا کر اسے نرم و گداز ہی نہیں بلکہ قابل قبول بھی بنا دیا ہے اور یہی اس کا فن ہے۔
رئیس فروغ کی شاعری میں جہاں عام انسانوں کے دکھ درد اور خوشی و مسرت کی کہانی ملتی ہے وہیں خود اس کی کہانی بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے جس میں رئیس فروغ کی جوانی کے بیتے دنوں کی حسین یادیں، عشق کی جنوں خیزی اور حُسن کی حشر سامانیاں بھی ہیں اور دل کی ویرانیاں بھی، اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کا دکھ بھی شامل ہے جو بڑا گہرا ہے اس دکھ کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو خود بھی اس کرب سے گزرے ہیں اور آج بھی حالتِ سفر میں ہیں۔ رئیس فروغ ایک حسّاس شاعر ہے اس کا احساس اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب وہ بے سر و سامانی کے عالم میں پا فگار اور دل گرفتہ منزل پر پہنچتا ہے تو اس کو سہارا دینے یا اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، طنزیہ مسکراہٹوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا جاتا ہے تو اس کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے :
پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
پھر یوں ہوا کہ ساری فضا فاحشہ لگی
اس بے مروّتی اور بے حسی کے ماحول میں وہی زندہ رہ سکتا ہے جو خود بھی بے حس ہو چکا ہو اور جس نے اپنے ضمیر کا سودا کر کے حالات سے ساز باز کر لی ہو، اپنی انا اور خود داری کو خود ہی سر بازار نیلام کر دیا ہو لیکن ایک حسّاس اور با ضمیر انسان موت کو تو گلے لگا سکتا ہے لیکن مانگی ہوئی زندگی کو قبول نہیں کر سکتا۔ گدایانہ زندگی کے بجائے نیاز مندانہ طور پر مر جانے کو ترجیح دے گا۔ وہ حالات سے صلح کر کے اپنے اندر چھپے ہوئے غیرت مند انسان کے قتل کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ جسے رئیس فروغ نے بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے:
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
یہی وہ شعور تھا جس کی وجہ سے فروغ اپنے حالات سے صلح نہ کر سکا، ہجومِ رنگ و بو میں نہ کھو سکا بلکہ و ہ واقعات اور حالات کی بے رحمی کا شکار ہونے کے باوجود زندگی اپنے طور پر گزار رہا ہے۔ بقول میرؔ
نامُرادانہ زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو
لیکن فروغ اپنے آپ سے اور اپنے پیدا کرنے والے سے مایوس نہیں ہے۔ اس نے حالات سے شکست نہیں مانی بلکہ خود ان پر مسکراتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے :
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں
سیلانیوں کو خطرۂ سیلِ بلا نہیں
رئیس فروغ کی صورت میں یہ حساس انسان جب صنعتی شہر کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور لوگوں کے ہجوم میں شامل ہو کر انہیں غور سے دیکھتا ہے تو اسے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں اسے بے مروّتی، ریاکاری، جعل سازی اور مکّاری نظر آتی ہے۔ جانے پہچانے ہوئے لوگ اجنبی کی طرح اسے دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ حصولِ دولت کے لیے لوگوں کو جائز و ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے۔ نو دولتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور چور بازاری کرنے والوں کی لوٹ کھسوٹ دیکھتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو بھی اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے اس کا چہرہ ندامت کے پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔ وہ چھاؤں کی تلاش کرنے نکلا تھا، لیکن بے رحم وقت کی تپتی دھوپ ملی۔ سکون کے بجائے بے یقینی اور کربِ مسلسل اس کا مقدّر بن جاتا ہے۔ گردشِ مدام سے گھبرا کر وہ حیران نظروں سے اپنے چاروں طرف دیکھتا ہے تو اسے دلاسا دینے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔
حالات کی اس سفّاکی کے باعث فروغ کے ہاں جھلّاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا دھیما دھیما لہجہ تلخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ نرمی و شگفتگی کے بجائے تندی و تیزی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دار، ذخیرہ اندوز، اسمگلر اور نودولتیے ہماری ملکی سیاست اور معیشت پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ بظاہر ان سے نجات ناممکن ہے لیکن فروغ بڑے تیقّن اور پُر اعتماد لہجے میں حالات کی تبدیلی کا اظہار کرتا ہے:
دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغؔ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اتر جائے گا
کاش اس کا یہ یقین، یقین ہی رہے، اس کا اعتماد بحال ہی رہے۔ اس کے آبگینۂ احساس کو ٹھیس نہ لگے۔ ورنہ اس کا یقین اٹھ جائے گا وہ زندگی سے شکست کھا جائے گا، وہ نہ صرف انسان بلکہ خدا سے بھی مایوس ہو جائے گا۔
جہاں تک اس کی عشقیہ شاعری کا تعلق ہے تو اس کی عشقیہ شاعری نہ تو رسمی ہے اور نہ روایتی بلکہ ایک صحت مند انسان کے توانا احساس و جذبے کی شاعری ہے۔ اس میں کسی کو اپنا کر رکھنے اور کسی کا ہو رہنے کا جذبہ موجزن ہے اس نے جیتے جاگتے انسان سے محبت کی ہے اور اپنے محبوب کو وہ محبت دی جو اس کا حق تھا۔ اس محبت میں اس نے بہت کچھ کھویا اور پایا بھی۔ جسے اپنے آپ پر ناز ہے اور اپنے عشق پر بھی، وہ حسن کا قصیدہ خواں ضرور ہے لیکن عشق کی عظمتوں کا بھی قائل ہے کیونکہ عشق ہی حسن کی پہچان ہے اور دونوں آدمی سے معتبر ٹھہرتے ہیں، ان سے آدمی اعتبار پاتا ہے۔ یہ اور بات کہ عشقِ حریم ناز میں وہ ہمیشہ با ادب رہتا ہے لیکن حسن کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسے نظر انداز کر دے۔ اس حقیقت کو رئیس فروغ نے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جسے اس کے لہجے نے اور بھی حسین بنا دیا ہے:
حسن کو حسن بنانے میں مِرا ہاتھ بھی تھا
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
محبوب کو چاہنے اور ٹوٹ کر چاہنے کی کیفیت ہر شاعر کے ہاں ملتی ہے لیکن فروغ کے ہاں اس چاہت کا انداز ہی نرالا ہے:
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلے پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
جہاں تک فروغ کے لہجے کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فروغ کی غزل کی شاعری کا لہجہ اردو شاعری کے نرم و سبک لہجوں میں ایک معتبر اضافہ ہے۔ یہ لہجہ اپنے عہد کے دوسرے لہجوں سے مختلف ہے۔ ناصر کاظمی کا لہجہ بھی نرم ہے لیکن ان کی پوری شاعری کی فضا پر رومانیت کی چھاپ ہے، رئیس فروغ کا لہجہ حقیقتاً صنعتی عہد کا ایک نرم و نازک لہجہ ہے جس میں زندگی کے بڑے دکھ اور انسان کے پیچیدہ نفسیاتی پہلوؤں کو نرمی اور گداز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے میر کی روایت سے الگ ہو کر فروغ نے نرم لہجوں میں ایک نئے لہجے کی تخلیق کی ہے جو موم کی طرح پگھلتا ہوا لہجہ ہے جیسے کڑی دھوپ میں کھلتا ہوا گلاب۔ ناصر کاظمی کے ہاں استعارات و تشبیہات کا سلسلہ شجر، برگ، ستارا، چاندنی، اداسی اور مناظر فطرت سے عبارت ہے اور بہت خوب ہے لیکن رئیس فروغ نے استعارات و تشبیہات کو زندگی کے طوفانی سیل ہی سے نہیں بلکہ زندگی کے جبر اور اس کے قہر سے وضع کیا ہے۔
ناصر کاظمی، رسا چغتائی، جمیل الدین عالی، احمد فراز، اطہر نفیس، فرید جاوید، منیر نیازی اور رئیس فروغ اپنے عہد کے جدید غزل گو شاعر ہیں۔ ان شاعروں کے ہاں غزل کا مزاج، اس کا رچاؤ، روایت اور موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ ان شاعروں نے غزل کو اپنے عہد کے تقاضوں، مزاج، علامتوں اور ذہنی رویوں سے ہم آہنگ کرنے کی جو شعوری کوششیں کی ہیں ان سے غزل میں تازہ دمی، نیا حوصلہ اور نیا آہنگ پیدا ہوا اور نئے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ غزل کو جدیدیت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ رئیس فروغ نرم و سبک لہجہ شگفتہ مزاج، غزل کی روایت اور اس کے مزاج سے واقف ہونے کے باوجود غزل کو مشرف بہ جدیدیت کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جدیدیت کے شوق یا شعوری طور پر غزل کے دائرے کو وسیع کرنے میں انہوں نے جو پیوند کاری کی کوششیں کی ہیں اس سے شعر و ادب کا مطالعہ کرنے اور دلچسپی رکھنے والوں کے ذہنوں کو جھٹکا تو لگتا ہے لیکن غور و فکر کی دعوت نہیں ملتی جسے کسی طرح بھی فکری رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ رئیس فروغ تربیت یافتہ ذہن کے مالک اور با شعور و پختہ کار شاعر ہیں۔ ان کا یہ انداز اور رویہ غزل کے سلسلے میں کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اس قسم کا رویہ نوواردان شعر و ادب کے لیے تو زیب دیتا ہے کہ وہ چونکا کر اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن یہی رویہ جب رئیس فروغ کے ہاں ملتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بات میں نے اس لیے بھی کہی ہے کہ اس قسم کا رویہ غزل کے مزاج و مسلک کی شریعت میں بدعت ہے۔ رئیس فروغ کے ان چند اشعار سے اس بدعت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کل میرے لہو کی رم جھم میں
سورج کا پہیہ پھسل گیا
*
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی ’’سڑک‘‘ پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا
*
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو ’’سبوتاژ‘‘ نہیں کر سکتے
ان اشعار میں ’’پہیہ‘‘۔ ’’سڑک‘‘۔ ’’سبوتاژ‘‘ ایسے الفاظ ہیں جو عام ہوتے ہوئے بھی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور نہ غزل ایسی صنف ہے جو ہر لفظ کو اپنے اندر سمو لے۔ نظم میں تو ایسے الفاظ کی کھپت ہو سکتی ہے لیکن غزل نظم کی طرح جنرل اسٹور نہیں بن سکتی جس میں مانوس اور غیر مانوس ہر طرح کے الفاظ کا ذخیرہ کیا جائے۔
جہاں تک نثری نظم کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ نثری نظم نے آج تک اپنے سفر میں علامتی افسانے کی طرح ابھی تک اردو شاعری کو کچھ نہیں دیا۔ شاعری کو کلام منظوم تک محدود نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاتا کہ نثری نظم صرف بے ہیئتی تک محدود ہے اور ابھی تک کسی شاعر کے ہاں ایسا آہنگ ابھر کر سامنے نہیں آیا جو قابل توجہ ہو نثری نظم میں غزل کا سا آہنگ، رچاؤ یا نغمگی ہو یا نہ ہو مگر اپنے عہد کا تو آہنگ ہو۔ صنعتی عہد کے تضادات سے پھوٹنے والی نغمگی تو ہو۔ ن۔ م راشد نے اپنی زندگی کے آخری دور میں چند نثری نظمیں ضرور لکھی تھیں لیکن وہ بے مزہ، پھیکی اور بے جان تھیں جو راشد کے ہاں کسی اضافہ کا باعث نہ بن سکیں۔ رئیس فروغ غزل کے منفرد شاعر ہیں اور ان کی غزل میں صنعتی عہد کے تضادات سمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف نثری نظم پر توجہ دی بلکہ نثری نظم کے سلسلے میں مخدوم منور کی کتاب پر جو مقدمہ لکھا ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات سامنے نہیں آتی جس سے نثری نظم کی اس عہد میں کوئی اہمیت واضح ہوتی ہو اپنی کوششوں کے باوجود رئیس فروغ نثری نظم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر سکے اور نہ اس طرح کامیابی حاصل ہو سکی جس طرح وہ آج کی غزل کے ساتھ کامیاب سفر کر رہے ہیں۔ سوچنا پڑے گا کہ غزل کا یہ منفرد شاعر اپنے تخلیقی اوقات کو کس حد تک نثری نظم لکھنے میں گنواتا ہے اور کہاں تک اس عہد کی نمائندہ غزل کی تخلیق میں صرف کرتا ہے یہ فیصلہ بہر حال رئیس فروغ کو خود کرنا پڑے گا۔
٭٭٭