رئیس فروغ بہت نرم مزاج آدمی تھے۔ ان کے لب و لہجہ میں، ان کے اندازِ گفتگو میں، ان کے فقروں کی ادائیگی میں ایک میٹھے مزے کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کرتے تھے اور اگر انہیں کوئی اختلاف ہوتا بھی تو وہ اس کی بابت سادگی اور نرمی سے کوئی ایسا اشارہ کر دیتے جس سے ان کے اختلاف کا اظہار ہو جاتا، زیادہ تر وہ مخالف نقطہ نظر اختیار کرنے کے بجائے تائیدی نقطہ نظر اختیار کرتے تھے اور بات کرنے میں کوئی نہ کوئی اتفاقی پہلو ڈھونڈ لیتے تھے۔ مجموعی طور پر زندگی کے بارے میں ان کا انداز فکر مثبت تھا اور اسی لیے وہ اپنے تمام رشتوں میں ایک مثبت آدمی تھے۔ طنز، غیبت، حسد اور لالچ میں سے کوئی ایک چیز بھی ان کی شخصیت میں موجود نہیں تھی۔ رئیس فروغ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے کسی کی غیبت میں حصہ نہیں لیتے، زندگی کی سختیوں کو برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے نہ تو کبھی انسانوں کی شکایت کی، نہ زمانے کی اور نہ ہی خدا کی کوئی شکایت کبھی ان سے سنی گئی لیکن حد درجہ نرم خو اور صلح جو انسان ہونے کے باوجود وہ اپنی رائے پر بڑی مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔ ان میں بڑی خود اعتمادی تھی۔ جب انہوں نے نثری نظمیں لکھنی شروع کیں اور کئی دوسرے تجربات کیے تو لوگوں نے ان کا بہت مذاق اڑایا، کئی دیرینہ دوستوں نے فقرے بازی کی۔ احمد ہمدانی جیسے ہمدردوں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر رئیس فروغ پوری سنجیدگی اور مکمل سچائی کے ساتھ اپنے راستے پر چلتے رہے۔ بحث کیے بغیر، دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کیے بغیر اور اپنا دفاع کیے بغیر وہ وہی کچھ کرتے رہے جو ان کی نظر میں درست تھا۔
رئیس فروغ اچھی شاعری سے عشق کرتے تھے اچھا شعر سن کر وہ بیتاب ہو جاتے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اچھے شعر کی تعریف کرتے جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ان کا مطالعہ زندگی بھر جاری رہا وہ زندگی کو سمجھنے اور برتنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ آپ ان کی شاعری کو دیکھیں تو ان کی شاعری اتنی ہی سچی، پر خلوص اور نرم ہے جتنی کہ خود ان کی شخصیت تھی۔ زندگی نے انہیں جو کچھ دیا انہوں نے اسے حسین تر بنا کر زندگی کو واپس کر دیا۔ رئیس فروغ شاعری کے کلاسیکی اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے ان کی مشق بھی اتنی تھی کہ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے۔ خاص طور پر ہمارے نئے لکھنے والوں میں تو کوئی ایسا آدمی ڈھونڈنا دشوار ہے۔ ابتدا میں رئیس فروغ کی غزلیں کلاسیکی اسلوب سے زیادہ قریب تھیں لیکن وہ نیا لکھنا اور نئی زندگی کو لکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ پرانے سے نئے کی طرف ہجرت کرتے رہے۔ انہوں نے بہت سے انداز اختیار کیے۔ زندگی کے نئے نئے تجربوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی، غزلیں، نظمیں، نغمے، بچوں کے گیت وغیرہ لکھ کر انہوں نے اپنے آپ کو آزمایا اور کوئی شک نہیں کہ ہر جگہ اپنے زندہ اور تازہ نقش ثبت کیے۔ رئیس فروغ کو کسی سے کوئی اختلاف نہیں تھا اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ کسی کو ان کی شاعری سے اختلاف نہیں ہے۔ سب مانتے ہیں کہ وہ ایک خوبصورت اور ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے والے شاعر تھے۔ احساس کی شاعری کرنے والوں میں ان کے پیش روؤں سے، ان کے ہمعصروں تک ناصر کاظمی، منیر نیاز ی، فرید جاوید، رسا چغتائی اور اطہر نفیس ایسے شاعر ہیں جن کو پڑھنے والوں میں قابل اعتماد شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے لیکن رئیس فروغ کی شاعری میں احساس کے علاوہ کچھ اور بھی موجود ہے اس بات کے معنی یہ ہیں کہ رئیس فروغ میں اپنے تجربات کو ایک ساتھ دیکھنے اور کئی تجربات پر ایک ہی وقت میں غور کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو ناصر کاظمی تک میں نہیں ملے گی۔ ناصر کاظمی احساس کی نزاکتوں اور جذبوں کی خوبصورتیوں کو ایک بھر پور شعر میں لکھ سکتے تھے لیکن وہ اپنے تجربات کو ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ فرید جاوید بہت نازک احساس کے شاعر تھے لیکن ان کی لفظی پیکر تراشی کا ہنر اتنا تازہ اور متنوع نہیں ہے جتنا کہ ہم رئیس فروغ کے یہاں دیکھتے ہیں۔ منیر نیازی میں سوچ کی لہر ناصر کاظمی سے زیادہ گہری ہے لیکن اگر ہم غزلوں میں منیر نیازی کے بہترین اشعار کا انتخاب کریں اور رئیس فروغ کے بہترین اشعار کے مقابل رکھیں تو رئیس فروغ کے شعروں کی تعداد زیادہ نکلے گی۔ رسا چغتائی میں احساس بھی ہے اور جذبہ بھی لیکن رئیس فروغ کی شاعری میں جو نفاست اور جو تازگی ہے وہ رسا چغتائی کی شاعری میں کمتر پائی جاتی ہے۔ یہ تو اپنے اپنے ہنر کی بات ہے۔ اس سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں رئیس فروغ کو ان کی صداقتوں سے زیادہ لکھنا چاہتا ہوں یقیناً رئیس فروغ میں قوت کی کمی تھی جس کا احساس خود انہیں بھی تھا جب وہ جدید زندگی کی کرختگی و سختی اور جدید زندگی کے شدید آشوب اور جدید زندگی کے حسن دشمن کردار کو بیان کرتے تو ان کی قوت اظہار ان کا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی وہ کلی کے چٹکنے کا منظر پیش کر سکتے تھے لیکن ہائیڈروجن بم کا دھماکا ان کی شاعری کی گرفت میں نہیں آتا تھا۔
ان تمام شاعروں کے لیے جو نیا لکھنا چاہتے ہیں، نئی زندگی کو لکھنا چاہتے ہیں، اور زندگی کے بدلتے ہوئے پس منظروں میں شاعرانہ زندگی کا نیا امیج تخلیق کرنا چاہتے ہیں ان سب کے لیے رئیس فروغ کی زندگی اور ان کی شاعری رہنما ستاروں کی حیثیت رکھتی ہے انہوں نے ہمیں اس طرح لکھ کر اور جی کر دکھایا ہے جس کے بغیر کرتب تو بہت دکھائے جا سکتے ہیں لیکن اچھی زندگی اور اچھی شاعری نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمانہ تیز ہواؤں کا زمانہ ہے۔ رات ہمارے سروں پر یہ، قریب و دور سناٹوں کی دیواریں چاروں طرف کھڑی ہیں اور ہمیں کچھ کہنا ہے، کچھ سننا ہے۔ رئیس فروغ اپنی زندگی میں اور اپنی شاعری میں کچھ کہنے، کچھ سننے کی کوشش ہی کر رہے تھے لیکن کون جانتا ہے کہ جب تیز ہوا کا کوئی جھونکا آئے گا تو ہم میں سے کتنوں کو جاگتا پائے گا اور کتنوں کو گہری نیند اپنی چادر میں لپیٹ کر وہاں لے جا چکی ہو گی جہاں انسان یا تو ابدیت میں بولتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتا ہے۔
٭٭٭