یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اردو شاعری پچھلے تیس چالیس سالوں سے انقلاب انگیز تحریکوں سے دوچار رہنے کے باوجود میر، غالب اور اقبال کے برابر تو کیا فانیؔ بدایونی جیسا شاعر بھی پیدا نہ کر سکی۔
میراجی کا آتش فشاں سرد پڑ گیا۔ راشد کی شاعری چراغِ سحری بن گئی، مخدوم محی الدین رومانویت کے کہر میں راستہ بھول گئے۔ فیض وقت کا ساتھ نہ دے سکے لیکن ابھی تھک کر نہیں بیٹھے :
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت دربدری نے
ان کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ کچھ کرگزرنا چاہتے ہیں :
سینے پہ ہاتھ ہے نہ نظر کو تلاش بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
فیض سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے، باوجود اس کے کہ وہ نقشِ فریادی کے سحر زدہ ہیں، یہ سحر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ فراق نے نئے تجربات کیے ہیں لیکن شعری توازن کا ان کے یہاں بھی فقدان ہے۔
ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے احمد ندیم قاسمی نے استقلال کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، وہ وقت کاساتھ دے رہے ہیں۔ وہ اپنا ایک اندازآہنگ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں ان کا اپنا رنگ ہے۔ ان کی شعری فکر روح عصر سے قریب تر ہے:
افق کی سمت تو قرنوں سے چل رہا تھا ندیمؔ
کہیں یہ راہ نما مجھ سا راہ جُو تو نہیں
جدید دور خوف، دہشت اور پر اسراریت کا دور ہے سائنس کی کوئی ایجاد ہو، معاشیات کا کوئی نظریہ ہو یا ادب میں فکری بہاؤ، سب ہی کے پیچھے خوف اور پر اسراریت کار فرما ہے۔
جدید اردو شعراء میں جو لوگ شعوری اور غیر شعوری طور پر ایسے شعر کہہ رہے ہیں جو خوف اور پر اسراریت کی پیداوار ہیں ان میں نمایاں نام احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، قمر جمیل، وزیر آغا اور رئیس فروغ کے ہیں۔ میں اس مضمون میں رئیس فروغ کی شاعری کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
رئیس فروغ کا لا شعور کائنات کی پر اسراریت اور اس سے ماورا رو بہ عمل نامعلوم قوت کے سائے سے خوفزدہ ہے یہی وہ نامعلوم قوت ہے جس نے انسان کی ذات کو حقیر کر دیا ہے۔ رئیس فروغ کا مزاج حسن پرست ہے، لیکن جس حسن کی اسے تلاش ہے وہ حسن اس کے لیے خود فہمی کا احساس بن گیا ہے۔ حسن کی اس منزل کے درمیان خوف اور اسرار کا تپتا ہوا صحرا ہے یہ اس صحرا کی تپش ہے جو شعلہ بن کر لپک رہی ہے۔ فیض، مخدوم محی الدین، ن م راشد، عزیز حامد مدنی، فراق اور اختر الایمان کے یہاں حسن نازک تر ہے جبکہ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، قمر جمیل اور رئیس فروغ کے یہاں پر اسراریت کے ساتھ ہے۔ پر اسراریت دو چیزوں کو جنم دیتی ہے تقدس اور دہشت، میں آخر الذکر کے تصور جمال کو زیادہ جمالیاتی سمجھتا ہوں کیونکہ یہی روح عصر کے مطابق ہے۔ فیض کے یہاں شب گزیدہ سحر بھی اس طرح کہا گیا ہے کہ وہ نازک تر ہو گیا ہے جبکہ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، قمر جمیل اور رئیس فروغ کے یہاں حسن کا تصور خوف کا پہلو لیے ہوئے ہے۔
رات کو آگ نہ لگ جائے کہیں
آنچ دیتے ہیں ستاروں کے بدن
(احمد ندیم قاسمی)
پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجیب
آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا کیسا غضب
(منیر نیازی)
میری تمنا ہی نہ ہو یہ بہار
اک سماں دشت و بیاباں میں ہے
(قمر جمیل)
ساگر کی یہ سبک ہوا
زہر بھرا ہے بیرن میں
(رئیس فروغ)
رئیس فروغ کے لیے شاعری ایک مقدس شے ہے، یہی وجہ ہے اس کے شعروں میں ایک پر اسرار تقدس اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے انداز بیان میں اشلوک جیسی شیرینی اور رچاؤ ہے۔ نرم و رواں زبان، سبک الفاظ اور ایک ایسی فضا شعروں میں ملتی ہے جو کائنات سے ماورا کا تصور ذہن میں ابھارتی ہے :۔
روشنیوں کے جال سے باہر
کوئی کرن لہرائی تھی
روشنیوں کا جال کائنات کی پر اسراریت کی ایک لطیف علامت ہے اور اس جال سے باہر جس کرن کے لہرانے کا ذکر ہے۔ وہ اس نامعلوم قوت کی نشاندہی کرتا ہے جس سے یہ جال تیار کیا گیا ہے۔ روشنیوں کا جال ’’ساکت‘‘ کائنات ہے کہ شاعر خود جس کا ایک حصہ ہے اور وہ متحرک توانائی جس کی بدولت یہ کائنات قائم ہے اور وہ کرن ہے جو ایک اسرار ہے۔
شعروں میں جس تقدس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے وہ درحقیقت اس فضا سے پیدا ہوتا ہے جو اس شعر میں موجود ہے:
اپنے ساتوں رنگ لیے
سُندر بَن میں اُتر چلوں
اس شعر کی فضا دو لفظوں نے مقدس بنا دی ہے۔ جو علامت کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان الفاظ کے وہ معنی نہیں جو نظر آ رہے ہیں۔ سات رنگ، رنگوں کے معنوں میں نہیں، بلکہ ایک ایسی قوت، روشنی، توانائی اور ذات کے لیے استعمال ہوا ہے جو کامل ہے، سات رنگ کا تصور تکمیل ذات کی طرف اشارہ ہے۔ سندر بَن کائنات کے لیے کہا گیا ہے یعنی کوئی ذات، کوئی قوت ایسی ہے جو ماورا سے کائنات میں ظہور چاہتی ہے۔ دوبارہ پیدا ہونے اور تخلیقِ ذات کی یہ خواہش اس شعر میں نمایاں ہے :
پھر مری خوشبو تیز ہوئی
پھر کوئی شعلہ ہاتھ میں لوں
اس شعر میں بھی وہی کیفیت ہے لیکن بہت واضح، شدتِ احساس اور اس کا اظہار یقیناً شدید تر ہے یہاں بھی وہی خواہشیں پوشیدہ ہیں جو ایک نئی کائنات تخلیق کرنا چاہتی ہیں یا تو یہ کہ شاعر کا لاشعور اسی کائنات میں پوشیدہ، کوئی کائنات دیکھ رہا ہے اور یا پھر اس سے ماورا بھی کوئی کائنات ہے جس کا انکشاف کرنا چاہتا ہے۔
اس شعر میں بھی خوشبو اپنے اصل معنوں میں استعمال نہیں ہوئی بلکہ ایک جذبہ، خواہش تموج اور کرب کے لیے علامت کے طور پر لائی گئی ہے اسی طرح شعلے کو زندگی کی علامت کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ کرب اور شدّت سے آتش فشاں پھٹ جاتا ہے، اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور ایک نئی چیز تخلیق کرنا چاہتا ہے۔
در حقیقت یہ خوف اور پر اسراریت سے پیدا ہونے والے خود رحمی کا رد عمل ہے۔ رئیس فروغ کی شاعری خوفزدہ لاشعور کی شاعری ہے، اسے اپنی ہر چیز سمٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ ذات کے مٹ جانے کا تصور ہی بڑا ہولناک ہے اور جو اس راز کو پہلے جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہے تو وہ استدلال کی قوت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر احساس کی شدت رہ جاتی ہے، جذبہ رہ جاتا ہے اور وجدان رہ جاتا ہے۔ اس کے ذہن سے نکلنے والے الفاظ علامتیں بن کر نکلتے ہیں۔ وہ احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور احساس حقیقت سے قریب ہوتا ہے۔
استدلال شعور سے پیدا ہوتا ہے اور کیفیت وجدان سے۔ شعر ایک جمالیاتی کیفیت ہے، اگر کوئی شعر استدلال پر پورا نہیں اترتا تو اس کا صرف مطلب یہ ہے کہ شعور لاشعوری کیفیات کو پورے طور پر محسوس نہیں کر رہا ہے۔ در حقیقت شاعری کسی منطقی استدلال کا نام نہیں ہے بلکہ اس شدید کیفیت کا نام ہے جو وجدان پر طاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی کیفیت کو خواہ وہ خوف اور پر اسراریت کی کیفیت ہو، یا حسرت و یاس کی، الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کا اظہار الفاظ ہی شکل میں علامتوں کے طور پر ہوتا ہے۔ اور وہ علامتیں صرف کیفیت کی شدت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پڑھنے والا ان علامتوں سے کیفیت کو کتنی شدت سے محسوس کرتا ہے اس کا دار و مدار سمجھنے والے کے شعور اور وجدان پر ہے۔
شعر میں خیال کی ایک امیج ہوتی ہے۔ اس کے خد و خال نکالنا، اس کو شکل دینا تنقید نگار کا کام ہے۔ شاعر کا نہیں۔ امیج تو بے ترتیب خیالات اور کیفیات کی ایک ایسی ترتیب ہوتی ہے جو لاشعور سے ابھرتی ہے جس میں رنگ، شعور کی قوت بھری ہے۔ رئیس فروغ کے یہاں کائنات کے دوبارہ تخلیق ہونے کا تصور ہر جگہ اجاگر ہے:
سُونے گھر کے ماتھے پر
جلے نگر کی راکھ ملوں
*
آنکھیں موندے بیٹھی تھی
خوشبو کورے باسن میں
کائنات سے خوفزدہ رئیس فروغ کو زندگی بے کیف اور خالی خالی محسوس ہوتی ہے جب وہ کہتا ہے:
کوئی صبح تلک مرے ساتھ رہے
سبھی اپنے چراغ جلائے ہوئے
*
روپ جھروکہ بند نہ کر
دیر لگے گی درشن میں
میرے تو دن بیت گئے
اپنے آپ سے ان بن میں
اس کائنات میں ہر وہ شخص خوش رہ سکتا ہے جس نے جبلت کے تقاضوں کی تسکین کو زندگی کا حاصل سمجھ رکھا ہے۔ لیکن وہ شخص کیا خوش رہے گا جو اپنا رشتہ زمین سے نہ ملا سکا:
دنیا میرے ساتھ رہی
ایک ادھورے بندھن میں
ایک ایسا شخص جس کا تصورِ جمال بھی خوفناک ہے زندگی میں کیا خوش رہ سکتا ہے:
آج کا چاند نکلنے پر
کتنی دیر اداس رہوں
میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں کہ رئیس فروغ کے لیے شاعری ایک مقدس شے ہے اور ہر مقدس شے پر اسرار ہوتی ہے۔ اس کے شعروں میں ایک نشہ ہے اور وہ نشہ ہے کیفیت کا۔ رئیس فروغ کا موضوع ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کے لیے نیا ہو اور الجھا ہوا بھی لیکن وہ شخص جو روح عصر کی پہچان رکھتا ہے، وہ اس کرب کو ضرور محسوس کر سکتا ہے۔
رئیس فروغ نے یہ موضوع اور انداز بیان یک بیک نہیں پا لیا ہے، وہ اس منزل تک ایک طویل سفر کے بعد پہنچے ہیں۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال پہلے کے شعروں میں اس کے یہاں وہ سب کچھ ہے جو اس کے ہم عصروں کے یہاں ہے یعنی خیال سے عاری غنائیت، اور روایتی انداز بیان۔
لیکن اب نہ صرف یہ کہ موضوع ہی بدل گیا ہے بلکہ انداز بیان بھی اس کا اپنا ہے۔ شعر کا ہر مصرعہ بھر پور تاثر لیے ہوئے ہے، علامتیں اس طرح متحرک ہیں کہ پڑھنے والے کے سامنے (Images) کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے جس میں رنگ اور روشنی کا عجیب امتزاج ہے، لیکن بنیادی خیال ایک ہی ہے۔ تخلیقِ ذات۔ تخلیقِ ذات۔ :
کوئی چاندنی تھی کسی راستے میں
مرے سائے سے آس لگائے ہوئے
میں سمجھتا ہوں اس جیسے شعر رئیس فروغ نے زندگی میں دو ایک ہی کہے ہوں گے۔ اس شعر کی بڑی پر اسرار فضا ہے، چاندنی کا سائے سے آس لگانا ایک ایسی کیفیت اور فضا پیدا کرتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے پوری کائنات اختلاط کرنا چاہتی ہے۔ چاندنی حسن کی علامت ہے اور حسنِ کائنات ہے اور وہ سایہ شاعر کی ذات ہے اور یہ سایہ حسن سے مل جانا چاہتا ہے۔ لیکن خود رحمی کا رد عمل بجائے یہ کہنے کے کہ یہ سایہ چاندنی سے آس لگائے ہوئے ہے یہ کہلواتا ہے کہ چاندنی سائے سے آس لگائے ہوئے ہے، اگر یہاں بھی پس پردہ ابھرنے والی امیج میں رنگ بھرا جائے تو حاصل تخلیق کے جذبے کی تسکین ہے۔
رئیس فروغ کا شمار ان چند جدید شعراء میں ہے جنہوں نے اردو غزل کو اچھوتا پن دیا ہے اور اردو غزل کو ایک ایسے کرب سے روشناس کرایا ہے جو اس عہد اور انسانی ذات کا کرب ہے۔
انہوں نے کائنات کے اسرار سے پیدا ہونے والے خوف کو غزل کا موضوع بنایا ہے۔ رئیس فروغ کی شاعری کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم سب لوگ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ایک مہیب عالم ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ چاندنی بھٹک رہی ہے، خوشبو بھٹک رہی ہے، حتیٰ کہ کائنات خود بھٹک رہی ہے۔ ہر طرف نا دید چہرے اور آوازیں فضا میں تیر رہی ہیں اور ایسے میں :
خوابوں کی دہلیز پہ آیا
آدھا سورج آدھا سایہ
رئیس فروغ کی شاعری میں سپردگی کا ایک عجیب احساس ہے، یہی احساس اسے آغوش بے پردا میں پہنچاتا ہے اور یہ آغوشِ بے پردا کائنات ہے جہاں آنے والے خطرات کا اندازہ اسے فرار کی راہ بتا تا ہے
جھلمل تارے ٹوٹ رہے ہیں
دھیرے دھیرے چلتے جاؤ
بادل گہرے شام سے ہیں
آخرِ شب طوفان سہی
رئیس فروغ نے اس عہد کی شاعری ہی نہیں کی بلکہ خود اس عہد کا آدمی بھی ہے۔ اس کی شاعری، اس کی اپنی داخلیت کی شعری ہے اور یہ داخلیت اسے نئی کائنات کی تخلیق پر آمادہ کرتی ہے۔ ایک ایسی کائنات جہاں خوف و دہشت کا نام نہ ہو۔ کھیتوں کی ہریالی سبز لہو بن کر نظر نہ آتی ہو۔
کھیت پہ کس نے سبز لہو کی
چادر سی پھیلائی تھی
یہ جذبہ یقیناً خوفزدہ لاشعور کا رد عمل ہے۔ لیکن وہ کون سا جذبہ ہے جو رئیس فروغ میں تخلیقی قوت کو ابھار رہا ہے۔ یہ وہی جذبہ ہے جو ازل سے انسان میں موجود ہے۔ تخلیق کا جذبہ، تجسس کی لہر منکشف کرنے اور خود کے اظہار کی آرزو۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کائنات یا اس سے ماورا پیدا ہونے والی کائنات اس بات کی ضمانت ہو سکتی ہے کہ وہاں انسان ابدیت سے ہمکنار ہو جائے گا اور وہاں خوف کی مہیب فضا جو آج طاری ہے اور جس سے انسانی روح فرار چاہتی ہے، دوبارہ ظاہر نہیں ہو گی میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک تک ایک انسان میں وجدان باقی ہے وہ تخلیقی اسرار کے فریب سے باہر نہیں آ سکتا ایک اسرارِ کامل دوسرے اسرار کو جنم دیتا رہے گا ایک خوف سے رہائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ خود ایک خوف نہ بن جائے۔
٭٭٭