رئیس فروغ مرحوم کو میں نے جب بھی دیکھا، دوری اور فاصلے سے دیکھا ان سے ملنے یا بات چیت کرنے کا موقع مجھے کبھی نہ مل سکا۔ شعری اور ادبی نشستوں میں البتہ ان کا کلام ان کی زبانی سنا اردو کے ادبی رسائل و جرائد میں ان کی غزلیں اور نظمیں بھی پڑھیں۔ چند فوری اور بنیادی تاثرات جو رئیس فروغ کو دیکھنے اور ان کا کلام سننے کے بعد مجھ پر مرتب ہوئے یہ تھے کہ رئیس فروغ ایک ایسے شخص کا نام ہے جو دوستوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے بھی اکیلا اور تنہا ہے۔ لوگوں کے ہمراہ ہوتے ہوئے بھی وہ ان سے بالکل الگ کچھ سوچتے ہوئے اور کھوئے کھوئے سے لگتے تھے۔ اپنا کلام سناتے وقت ان پر ایک عجیب طرح کی والہانہ سرشاری اور جذب کی کیفیت طاری رہتی تھی، جو دیکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز تھی۔ میں نے غالباً ۱۹۶۵ء میں سب سے پہلے انہیں شمالی ناظم آباد میں منعقد ہونے والی ایک نجی شعری نشست میں دیکھا اور سنا لیکن اس سے پہلے پیشتر ان کے یہ دو اشعار مجھ تک پہنچ چکے تھے۔
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتا
*
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
وہ زمانہ اسلامیہ کالج میں طالب علمی کا تھا پروفیسر محمد حسن عسکری اور پروفیسر ممتاز حسین بالترتیب انگریزی اور اردو کے اساتذہ تھے۔ ان دونوں حضرات کے فیض اور توجہ کی بدولت شعر و ادب اور تنقید کے مطالعہ سے خاصی دلچسپی پیدا ہو چلی تھی۔ ادب سے خصوصی شغف رکھنے والے طلبا فارغ اوقات میں اپنی پسند کے اشعار عموماً ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے، یہ دو اشعار بھی اسی طرح مجھ تک پہنچے اور حافظے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے شمالی ناظم آباد کی جس شعری نشست کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس میں رئیس فروغ نے اپنی مخصوص والہانہ کیفیت کے ساتھ وہ غزل سنائی تھی جس کا مطلع ہے :
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک میرا حال تماشا ہے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس غزل کے ہر شعر پر انہیں وہاں موجود شعراء اور سامعین نے بے پناہ داد دی تھی اور ہر مرتبہ داد ملنے کے بعد ان کا والہانہ پن اور بڑھتا جا رہا تھا۔ نشست اختتام پذیر ہوئی تو رئیس فروغ کی یہ غزل ’’حاصل مشاعرہ‘‘ قرار پائی۔
کالج سے فراغت کے بعد جب یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اردو شعر و ادب اور تنقیدی مطالعہ شروع کیا تو رئیس فروغ کا کلام بھی باقاعدگی سے پڑھا۔ کراچی سے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل بالخصوص سیپ، سہ ماہی میں ان کی غزلیں تواتر کے ساتھ شائع ہوا کرتی تھیں۔ ادب کے مطالعے کے ساتھ اچھا یا برا لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ اسی زمانے کی بات ہے جب رئیس فروغ کی شاعری اور خیالات میں ایک بڑی اور انقلابی تبدیلی کے آثار آہستہ آہستہ نمایاں ہونے لگے تھے۔ پھر اچانک دیکھا کہ رئیس فروغ کی تمام تتر توجہ جدید انداز کی نثری اور علامتی نظموں کی جانب ہو گئی ہے۔ غزل وہ کبھی کبھار، اب بھی کہہ لیا کرتے تھے لیکن ان کی ساری تخلیقی دلچسپی اب نثری اور علامتی نظموں سے وابستہ ہو چکی تھی۔ ان کی یہ نئی چیزیں بھی اسی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھیں لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ ان جدید نثری نظموں اور ایک حد تک جدید وضع کی تجرباتی غزلوں میں مجھے وہ رئیس فروغ نظر نہیں آیا جس نے اردو غزل کی کلاسیکی روایات کو اپنے عہد کے جدید طرز احساس و اظہار سے ہم آہنگ کر کے ایسے خوبصورت اور اثر انگیز اشعار کہے تھے جنہیں بجا طور پر جدید غزل کی آبرو کہا جا سکتا ہے۔ میری اس بات سے بہت ممکن ہے کہ آپ یہ سمجھنے لگیں کہ میں غزل کی بے جا مدافعت کرتے ہوئے رئیس فروغ کی جدید نثری اور علامتی نظموں اور تجرباتی غزلوں کی اہمیت اور افادیت کو یکسر نظر انداز کر رہا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور مجھے اپنے اس موقف پر شدید اصرار ہے کہ رئیس فروغ اپنی سرشت، مزاج اور لب و لہجے کے حوالے سے بنیادی طور پر غزل اور اس کی مخصوص تہذیب کے آدمی تھے۔ غزل ہی نے ان کے تہذیبی، تخلیقی اور شعری مزاج اور لب و لہجے کی تشکیل کی تھی اور ان کے طرز احساس اور اظہار کو اس عبارت، اشارت اور ادا سے روشناس کیا تھا جو صرف اور محض غزل کی تہذیب و کلچر سے مخصوص ہے میرا خیال ہے، بلکہ مجھے یقین ہے کہ رئیس فروغ میں غزل کا ایک بڑا نہ سہی، لیکن ایک اہم شاعر ہونے کا امکان ہر لمحہ موجود تھا جس کا غالباً انہیں ادراک نہ تھا اور اگر تھا تو انہوں نے محض نئے تجربوں کی لذت کے شوق میں اسے ضائع کر دیا۔ اپنے شعری اور تخلیقی Potential اور Talentکے اعتبار سے غزل ہی ان کی شناخت تھی اور میرا دعویٰ ہے کہ یہی غزل انہیں ادب میں زندہ بھی رکھے گی۔ میری اس بات کا ثبوت آپ کو اس حقیقت سے بھی مل سکتا ہے کہ ان کی جدید نثری اور علامتی نظموں میں قطعاً کوئی اپیل اور کشش نہیں ہے جن کے بارے میں سوچنے اور لکھنے کے ضمن میں انہوں نے اپنی تخلیقی زندگی کے دس بارہ سال وقف کر دیے تھے۔ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں رئیس فروغ کے پہلے شعری مجموعہ ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ سے چند اشعار درج کر رہا ہوں، ملاحظہ ہوں :
خم جادہ سے میں پیادہ پا کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دور جیسے دھواں اٹھا کسی بھولی بسری سرائے سے
اٹھی جو موج درد تو یک بیک، مرے آس پاس بکھر گئے
مہ نیم شب کے ادھر اُدھر جو لرزرہے تے کنائے سے
*
اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
دل دریا ہے دل ساگر ہے، اس دریا اس ساگر کی
ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا
*
راتوں کو دن سپنے دیکھوں، دن کو بتاؤں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہونے اور نہ ہونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو ادھر اُدھر کسی کونے میں
*
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
*
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
*
رنج کا اپنا ایک جہاں ہے اور تو جس میں کچھ بھی نہیں
یا گہراؤ سمندر کا ہے یا پھیلاؤ بیاباں کا
*
کیسی باتیں ہیں کہ جاناں تری ہر بات کے ساتھ
در و دیوار کی رنگت بھی بدلتی جائے
*
جس طرف کوئی دریچہ نظر آ جاتا ہے
اس طرف ہم کوئی دیوار اٹھا لیتے ہیں
*
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جلا تو میں بھی ہوں
*
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
*
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
اور رئیس فروغ کی یہ پوری غزل میرے خیال میں اردو کی چند بہترین جدید غزلوں میں سے ایک ہے:
سفر میں جب تلک رہنا، گھروں کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا
رفو گر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہیں
رفو گر اپنے ہاتھوں کے اجالوں میں رفو کرنا
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
غم نا آگہی جب رقصِ وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لا کر وضو کرنا
جنہیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو
وہ شاخیں کاٹ لانا، پھر انہیں زیبِ گلو کرنا
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پہ رنگ کرنا یا لہو کرنا!
آپ ان اشعار کو بغور پڑھیں۔ ان اشعار میں آپ کو ہجر اور ہجرت کے پر آشوب تجربے سے گزر کر آنے والے ایک ایسے شخص کے جذباتی اور روحانی کرب کا احساس ہو گا جو ایک تیزی سے بڑھتے، پھیلتے پر شور صنعتی شہر میں زندگی کے شب و روز بسر کر رہا ہے۔ فرد کی تنہائی، ہجوم سے الگ تھلگ ہونے کا احساس، طبقاتی معاشرے میں سرمایہ و محنت کی کشاکش کے حوالے سے زندگی کے لایعنی اور قدروں کے بے روح ہونے کا جاں گسل کرب ان اشعار میں Under Currentکے طور پر موجود ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی روح کو جدید حسیت سے آمیز کر کے غزل کے شائستہ اسلوب میں ڈھال دیا ہے اوپر میں عرض کر چکا ہوں کہ رئیس فروغ کی تخلیقی سرگرمی کا مرکزی حوالہ جدید غزل ہے۔ وہ جب اس حوالے سے بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے قدم اپنی زمین، اقدار اور روایات میں بڑی مضبوط سے جمے ہوئے ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں بے پناہ اعتماد موجود ہے لیکن جونہی وہ اس مرکزی حوالے سے غیر متعلق ہو کر غزل کے ایسے تجرباتی مصرعے لکھتے ہیں جن میں انگریزی الفاظ کا غیر ضروری اور کسی حد تک ناگوار استعمال ہوا ہے یا ایسی نثری اور علامتی نظمیں لکھتے ہیں جن کا تخلیقی پس منظر، حسیت اور ڈکشن ان کی روح کی گہرائیوں میں نہیں اترا بلکہ فقط ان کے ذہن کو چھو کر گزر گیا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی زمین اور تخلیقی روایات سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان کی ایسی تمام چیزوں میں نہ کوئی اپیل ہے نہ تاثر اور نہ خاطر خواہ ابلاغ! بلکہ ان سب سے بڑھ کر اک عجب مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے مثال کے طور پر رئیس فروغ کے چند مصرعے درج کرتا ہون آپ انہیں دیکھیں اور غور فرمائیں کہ تجربے کے شوق میں رئیس فروغ صاحب جیسا محتاط اور Balanced شاعر بھی کس طرح گمراہ ہوا ہے۔ جدید اردو شاعری میں ایسی گمراہیوں کی مثالیں نمایاں طور پر سلیم احمد، ظفر اقبال، محمد علوی اور عادل منصوری کے ہاں بھی موجود ہیں۔ آپ یہ مصرعے دیکھیے:
ع: شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اڑا دینا
ع: چھ فیٹ تک ہوں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوں میں
ع: اینجائنا کی طرح مگر دل نشیں ہوں میں
ع: تیری چاہت کو سبوتاز نہیں کر سکتے (صحیح لفظ سبوتاژ ہے)
ع: وہ دل میں کوئی ’’بلٹ‘‘ تو نہیں اتارے گا
ع: میری آنکھوں نے الوژن کو حقیقت سمجھا
ع: یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے
ع: جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھو
ع: کوئی تصویر نہیں جو ترے البم میں رہوں
میں یہ نہیں کہتا کہ اس قسم کی تجرباتی غزلوں اور مصرعوں کے لکھنے سے سلیم احمد، ظفر اقبال، محمد علوی یا رئیس فروغ کا شعری اور ادبی مقام کسی بھی طرح متاثر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے۔ جدید اردو شعری ادب میں ان تمام فن کاروں کی انفرادیت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ میں درحقیقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رئیس فروغ میری ناقص رائے میں اولین طور پر اس کلچر اور تہذیب کے آدمی تھے جو غزل کو اپنی روح میں اتار لینے کے بعد آدمی کی تخلیقی شخصیت، لب و لہجے اور اسلوب کا درجہ حاصل کر لیتی ہے المیہ ان کے ساتھ یہ ہوا کہ اپنی تمام تر تخلیقی توجہ غزل پر مرکوز رکھنے کی بجائے وہ تجربے کے شوق محض میں ایسی زمینوں پر جا نکلے جو ان کے لیے قطعاً اجنبی تھیں۔ ان کی اپنی ہرگز نہیں تھیں۔ اس سے انہیں دو سطحوں پر نقصان پہنچا۔ ایک تو ان کی بہترین غزلوں اور اچھے اشعار کے ساتھ ساتھ غیر ضروری انگریزی الفاظ مضحکہ خیز انداز میں داخل ہو گئے۔ دوسری طرف مغرب کے علامتی شعراء کے کلام کو پڑھنے کا جو فوری رد عمل ان پر ہوا اس نے ان سے ایسی نظمیں لکھوائیں جو صرف اور محض الفاظ ہیں اور بس! میں زور اس بات پر اس لیے دے رہا ہوں کہ اپنی تخلیقی زندگی کے عروج تک پہنچتے پہنچتے وہ نہ جانے کیوں جدید غزل میں اپنی انفرادیت اور اہمیت سے مایوس ہو کر آخری دس بارہ برسوں میں نثری اور علامتی نظموں کی طرف پوری سنجیدگی سے راغب ہو گئے تھے انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ ان کی شعری صلاحیتیں غزل گوئی پر اب تک ضائع ہوتی رہی ہیں۔ نہ جانے کس نادان دوست نے انہیں یہ باور کرا دیا تھا کہ اگر وہ پوری توجہ اور یکسوئی سے ایسی نثری اور علامتی نظمیں لکھتے رہے تو یقیناً بہت جلد ایک Major Poetبن جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ رئیس فروغ نے بڑی معصومیت اور بھولپن کے ساتھ اس مشورے پر عمل شروع کر دیا جس کا بہت بڑا نقصان انہیں یہ ہوا کہ ان کی تخلیقی شخصیت میں اچھی اور بڑی غزل کہنے کا جو ٹیلنٹ تھا وہ کچل کر رہ گیا ور نہ وہ ناصر کاظمی کی طرح غزل کے ایک بڑے شاعر نہ سہی ایک اہم شاعر کی حیثیت سے ضرور یاد رکھے جا سکتے تھے۔ اب چلتے چلتے رئیس فروغ کا یہ شعر سن لیں :
تلاشِ گمشدگاں میں نکل چلوں لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں
٭٭٭