زندگی ایک مسلسل فریب ہے، اس پر اعتبار کرنا بہت بڑی نادانی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ انسان نے اسے باوفا سمجھ لیاہے، اس پر اعتبارکرتا رہتا ہے، لیکن یہ ایسے وقت پر آنکھیں پھیر لیتی ہے جب انسان کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہوتے ہیں، ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو اعتبار تھا کہ رئیس فروغ اپنا مجموعۂ کلام ترتیب دے رہے ہیں، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ اپنے آٹو گراف کے ساتھ اپنے مجموعے کو خود تقسیم کریں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ یقیناً ہمارے سامنے ہے مگر آٹوگراف غائب۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا اعتبار ہماری خوش فہمی تھی۔
رئیس فروغ کے اس شعری مجموعہ کے مطالعہ سے جن حروف سے میں براہ راست متاثر ہوا جس نے کتاب کے مطالعہ کے لیے اکسایا وہ اس کا ابتدایہ ہے جو صورت حال کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ حروف ایک عالمی خبر کی شکل میں شائع ہوئے تھے جنہیں دنیا کے تمام اخباروں نے اپنے صفحات پر جگہ دی مگر اس وقت یہ حروف صرف ایک خبر کے سوا کچھ نہ تھے لیکن جب یہ ایک شعری مجموعہ کا ابتدائیہ بنے تو ان کی معنویت بدل گئی ان میں وہ وسعت پیدا ہو گئی جو شاعر کے اصل خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں جنہیں شاعر براہ راست بیان نہ کر پاتا۔ یوں تو خبر میں تین شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ملکہ الزبتھ، لیڈی ڈائنا اور شہزادہ چارلس ہیں یہاں پر یہ سب علامات بن چکے ہیں، ملکہ الزبتھ شہنشائیت اور روایت پسندی کی علامت ہیں لیڈی ڈائنا عوامی اور موڈرنزم Modernism کی نشاندہی کر رہی ہیں شہزادہ چارلس جدت اور روایت کے درمیان عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں عین ممکن ہے کہ رئیس فروغ کے اندر کا انسان بھی لیڈی ڈائنا یا شہزادہ چارلس جیسا ہو لہذا انہوں نے برملا اظہار کے بجائے نہایت ہی خاموشی سے اپنا کام کر دیا جس سے ان کی شخصیت اور ان کے آج کے رجحان کا ثبوت ملتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ ایک روایتی فارمولے سے انہوں نے انحراف کیا نہ تو کسی ناقد سے تحسین و آفرین کے کلمات لکھوائے اور نہ ہی اپنی سرگزشت و تصویر چھاپی ان کا یہ عمل قابل تعریف ہے جو ان کی جدت پسندی کا عملی مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ اس ابتدائیہ کے بارے میں ادبی حلقوں میں کچھ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں، کچھ ادیبوں کا کہنا ہے کہ یہ ابتدائیہ رئیس فروغ کا شامل کردہ نہیں بلکہ شمیم نوید نے اپنی طرف سے چسپاں کر دیا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ مجموعہ کا خالق ہم میں موجود نہیں۔ لہذا اس کی تصدیق مشکل امر ہے دونوں خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر حالت میں اس مجموعہ کلام کے لیے یہ ابتدائیہ نہایت ہی مناسب اور درستگی کا حامل ہے۔
رئیس فروغ کا یہ مجموعہ کلام نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے ان کی شاعری کا اصل جوہر ہر غزل میں پوشیدہ ہے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ انہیں پروز پوئٹری سے والہانہ لگاؤ تھا، یہ کوئی نئی بات نہیں عموماً یہ ہوتا ہے کہ تخلیق نگار جس فن پارے کو کم اہمیت دیتا ہے دوسروں کی نظر میں وہ اچھا ہوتا ہے غالب کو اپنی فارسی شاعری پر ناز تھا لیکن وجہ شہرت اردو شاعری ہوئی۔
رئیس فروغ کی غزل میں ایک عجیب کشش ہے۔ اس کشش کی وجہ غالباً ان کے الفاظ ہیں نہایت سادہ عام فہم اورنئے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے یہاں اس بات کا خاص اہتمام نظر آتا ہے کہ ایسے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی جائیں جو اس سے پہلے کہیں اور استعمال نہ کی گئی ہوں خواہ لفظ دوسری زبان ہی کا کیوں نہ ہو، عموماً شعراء حضرات غیر مانوس الفاظ استعمال کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، نفسیاتی طور پر وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ غیر مانوس الفاظ میں شعری کیفیت پیدا نہیں ہوتی اس لیے ان پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے۔ اس کے برعکس رئیس فروغ اس معاملے میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں انہوں نے الیکٹرک سٹی کی Termکو غزل میں اس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے کہ شعر میں توانائی اور معنویت پیدا کر دی، ساتھ ہی ساتھ شعریت بھی موجود ہے ع
شارٹ سرکٹ سے اڑیں چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
یہ امر مسلمہ ہے کہ آفاقی طور پر شاعری ہو یا افسانہ نگاری، اس کے کچھ مخصوص موضوعات ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں جن میں عشق و محبت، غربت و افلاس، سرمایہ دار، مزدور، معاشرتی مسائل، عریانیت، مذہب، لادینیت، تنہائی اور جبر وغیرہ وغیرہ۔ جیسے جیسے عہد بدلتا گیا موضوعات وہی رہے لیکن برتنے یا پیش کرنے میں فرق آتا گیا چنانچہ انہیں موضوعات کو کوئی بھی شاعر جس قدر اچھوتے انداز میں پیش کرتا ہے ہمارا ذہن اس پر مرکوز ہو جاتا ہے اور ہم بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ شعر اچھا ہے۔ اب دیکھیے ایسے خیالات جن پر لاکھوں شعرا نے طبع آزمائی کی اورآج بھی متواتر استعمال کر رہے ہیں، لیکن رئیس فروغ نے انہیں خیالات میں وہ جدت پیدا کر دی ہے کہ جسے ان موضوعات یا خیالات سے دلچسپی بھی نہ ہو وہ بھی ان اشعار سے محبت کرنے لگے گا
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
جس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو
اردو غزل کے موضوع پر جب ہم جدید غزل یا آج کی غزل کا تذکرہ کرتے ہیں تو یقیناً ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسی کوئی انفرادیت یا کوئی نیا پن، جو گزشتہ تجربات شعری سے کچھ نہ کچھ مختلف ہو جب یہ صورت حال ہوتی ہے تو ہم اسے جدید غزل یا آج کی غزل کا نام دیتے ہیں میرے خیال میں اگر رئیس فروغ کے ان اشعار کو پیش نظر رکھا جائے تو ہمیں وہ جدید غزل کے ایک نمائندہ شاعر نظر آتے ہیں جب وہ کہتے ہیں :
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
اپنے ہی ایک روپ سے تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا پھر مجھے نیند آ گئی
بجھ گیا جل جل کے دریا دھوپ میں
کیا بجاتے ہو کٹورا دھوپ میں
سخت برہم تھیں ہوائیں پھر بھی
ریت پر پھول بنائے میں نے
اک سانولی چھت کے گرنے سے
اک پاگل سایہ کچل گیا
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
ایک شاعر ہونے کے علاوہ رئیس فروغ کے اندر عہد کی بدلتی ہوئی اقدار کو قبول کرنے کا جذبہ ہمیشہ کارفرما رہا یہی وجہ ہے کہ شاعری کی نئی صنف پروز پوئٹری کی جانب وہ مائل ہوئے اور بلا جھجک انہوں نے نئی روش قبول کی، نیز اس پر طبع آزمائی کرتے رہے میرے خیال میں ہر تخلیق نگار کا یہ اپنا انفرادی حق ہے کہ وہ اپنی ذہنی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی فورم کو تبدیل کر سکتا ہے ہم اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے، خواہ اس نے کوئی سی بھی فارم اختیار کی ہے۔ ہیئت سے نفرت کا اظہار کر کے ہم کسی کے خیال کو ٹھکرا دیں یہ ہماری تنگ نظری کے سوا کچھ نہ ہو گا جہاں تک رئیس فروغ کی پروز پوئٹری کا تعلق ہے ان کی یہ ایک اچھی کوشش ہے، میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جن خیالات کو وہ غزل کے اندر اجاگر نہ کر سکے، اس خلا کو انہوں نے اپنی نثری نظموں میں پیش کیا ہے۔ بہ اعتبار خیال ان کی نظموں میں وسعت زیادہ ہے۔ طویل نظموں کی بہ نسبت مختصر ترین نظمیں زیادہ سے زیادہ قاری کو فکر کی دعوت دیتی ہیں جن سے بہت سے گوشے اور سوالات پیدا ہوتے ہیں ان نظموں میں ’’نئے پرندے‘‘۔ ’’انکوائری‘‘۔ ’’انکل‘‘۔ ’’پڑھے لکھے لوگ‘‘ اور ’’دیتان‘‘ قابل ذکر ہیں۔
ان کی نثری شاعری کی ایک ہلکی سی جھلک آپ بھی دیکھیے
گرتے ستاروں کے آس پاس کہیں
گریٹ آئیڈیاز
اور ان میں گھرا ہوا ولیم جیمز
اس کے لڑکپن میں
پہاڑ بھاگتے تھے
جنگل بہتے تھے
بہتے جنگلوں میں نہاتی بطخوں کا پیچھا کرتے ہم
دھوئیں کے فلیٹوں تک پہنچ گئے
ان تمام صدیوں کے دوران
اس چھری نے کئی چہرے بدلے
جسے پہلی بار ہم نے
سبزی کے تھال میں دیکھا تھا
اب ہم اس شاعری پر کس طرح الزام عائد کریں کہ یہ مبہم ہے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی جبکہ نظم کی ہر لائن میں معنی و مفہوم چھپا ہوا ہے پوری نظم میں مختلف گوشے پیدا کر کے ایک تسلسل کے ساتھ مرکزی خیال کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کسی عہد یا کسی شخصیت کے نشیب و فراز کی وہ خوبصورت تصویر ہے جس میں مناظر فطرت کی حسین عکاسی بھی ملتی ہے۔ عہد ماضی، اردگرد کا ماحول اور پھر بدلتی ہوئی اقدار کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ شاعر نے اختتام کو بڑی چابکدستی اور ایک خاص انفرادیت پیدا کر کے اپنے مرکزی خیال کو اس طرح پیش کیا ہے کہ نظم میں ایک ایسی سطح ابھری جس کی مثال ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔
٭٭٭