ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ خود غرضیوں اور منافقتوں کا عہد ہے اس عہد بلا میں سچ کی تلاش ایک بڑا مسئلہ ہے کہ صداقتیں کال کوٹھریوں میں محبوس ہیں مگر روشنی کی یہ کرنیں کسی نہ کسی روزن سے نکل کر ہر بار امید کی ایک نئی دنیا روشن کر دیتی ہیں۔ میں رئیس فروغ سے نہ کبھی ملا نہ انہیں دیکھا بلکہ میری بد نصیبی کہ ان کی حیات میں ان کا نام بھی کم ہی سنا لیکن اب ان کی شاعری سے متعارف ہونے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
اس جواں مرگ سے تھی اپنی شناسائی بہت
فروغ کی شاعری نہ لفظوں کی بازیگری ہے اور نہ تخیل کی تماش بینی، ان کی شاعری سیدھی سچی اور ابہام سے پاک شاعری ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں نہ کوئی فلسفہ بگھارتے ہیں نہ پیغام دیتے ہیں اور نہ رجز خوانی کرتے ہیں بلکہ ایسے جذبوں کو زبان دیتے ہیں جو ہر دور میں شاعری کی اساس رہے ہیں اور جو سبھی کے دلوں میں ہلچل مچا دیتے ہیں یوں ان کی شاعری ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو موسموں کے تغیرات سے اثر قبول کرتے ہیں ہوا چلتی ہے تو کھل اٹھتے ہیں برکھا رت میں نہال ہو جاتے ہیں اور جب باد شمال چلتی ہے تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ فروغ کی شاعری انہی زندہ اور جیتے جاگتے انسانوں کے لیے ہے اور اسی فریکوینسی پر ہے جس پر عام آدمی اسے وصول کرتا ہے بلکہ فروغ کی خوبصورت شاعری کا اصل کمال یہی ہے کہ و ہ اپنے قاری کی فریکوینسی سے باخبر ہے اور اسی لیے وہ ان باکمال اردو شعرا سے مختلف ہے جو کسی اور زبان میں شاعری کرتے ہیں۔
فروغ کا مجموعہ ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ اردو شاعری میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح وارد ہوا اور اس کا امپیکٹ بھی ویسا ہی ہوا جیسا کہ تازہ ہوا کے جھونکے کا ہوتا ہے یعنی جسم و جاں میں نئی حرارت، نئی تازگی اور زندگی، بلکہ زندہ ہونے کا بھر پور احساس، بچوں کے لیے لکھی جانے والی نظموں کے علاوہ فرو غ کی شاعری کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی غزل اور نظم (یوں تو فروغ نے جو شاعری بچوں کے لیے کی ہے وہ بھی نہایت سنجیدہ اور فکر انگیز ہے اور بچوں کے لیے ایک علیحدہ جہان نو ہے مگر یہاں ہم اس سلسلے میں گفتگو کو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں) ان دونوں میدانوں میں فروغ ایک مستحکم شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے منفی جہتوں میں سرگرمی دکھائے بغیر اپنے لیے ایک مقام بنایا۔
فروغ کی غزل بڑی زور آور اور بھر پور غزل ہے جو تجربے کے تنوع سے مالامال ہے مگر روایت کی اساس سے منکر بھی نہیں۔ ان کی غزل میں بلا کی توانائی ہے وہ جب شعری کیفیت کی انتہا کو چھوتی ہے تو تمام قیود کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور اس مقام پر غزل صرف غزل ہوتی ہے۔ اس پر نہ زبان کے جکڑ بندھ کوئی قدغن لگا سکتے ہیں اور نہ مزاج کے سلسلے میں ہونے والے مباحث اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اس میں جدید ترین رجحان کے با وصف غزل کا تمام تر حسن موجود ہے مگر اس کے باوجود ان کا ڈکشن بالکل نیا اور ترو تازہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل مور کی طرح ناچتی ہے اور قاری کو ایک غیر محسوس طریقے پر اپنا اسیر بنا لیتی ہے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
خم جادہ سے میں پیادہ پا کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دور جیسے دھواں اٹھا کسی بھولی بسری سرائے سے
اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
عشق و ہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
غزل کے سلسلے میں فطری مناسبت اور میلان نہ ہونے کے باوجود فروغ نے زبان کے معاملے میں بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا ہے انہیں جو لفظ جہاں اچھا لگا اسے بلا تکلف استعمال کر لیا ان کے اس رویے نے ان کی شاعری کو جو کہ عام زندگی کی عکاس ہے چار چاند لگا دیے۔ لفظوں کے استعمال کے سلسلے میں انہوں نے ہندی کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی خوب خوب فائدہ الفاظ چنے اور اس معاملے میں میرا ور جوش کی خفگی کی بھی پروا نہ کی ان کے یہ اشعار دیکھیے
آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو
شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اڑا دینا
ایش ٹرے میں شہر سجا کے
سورج سے سگریٹ سلگائے
عالمِ خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے
فروغ کی کیفیات شعری ان لطافتوں سے مالامال ہیں جو اردو شاعری کے لیے اب تک اجنبی تھیں وہ قاری کو اپنے ساتھ انجانی دنیاؤں کی سیر کو لے جاتے ہیں جہاں آنکھیں حقیقت کو الوژن (Illusion) سمجھتی ہیں اور کسی پچھلے جنم کی سرمئی مندر کی سیڑھی پر سمندر پاؤں رکھتا ہے۔ ان نادیدہ دنیاؤں میں بادل بھی ہیں اور خواب بھی۔ کبھی بادل خوابوں کا روپ دھار لیتے ہیں کبھی خواب بادلوں کی طرح افق پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک رقص کرتے چلے جاتے ہیں یہاں رنگ و انوار بھی ہیں اور عکس و آہنگ بھی، مگر یہ سب کچھ ذرا مختلف ہے چونکہ یہ صرف اور صرف فروغ کا ہے اور اس پر کسی کی چھاپ تو درکنار بلکہ ہلکی سی پرچھائیں بھی نہیں ہے۔ فروغ کے ہاں بلا کی انفرادیت ہے مگر یہ انفرادیت نکیلی اور چبھتی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ فروغ کی اپنی چھب ہے ان کی پوری شاعری میں ان کی شخصیت کا سارا رکھ رکھاؤ ہے انہوں نے اس انفرادیت اور رکھ رکھاؤ کو اوور کوٹ کی طرح نہیں پہنا ہے بلکہ یہ ان کے شاعرانہ وجود کا ایک حصہ ہے اسی لیے ان کی شاعری میں جو بات جی کو زیادہ لگتی ہے وہ ان کا شاعرانہ رویہ ہے اور ان کی اپروچ بے حد شاعرانہ ہے جوا نہیں ان شعراء سے جدا کرتی ہے جو Poetic نہ ہونے کے سبب Non Poetic اپروچ رکھتے ہیں یا اس پر مجبور ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
ہاتھ میں ہاتھ اگر نہ آئے گا
خواب میں خواب ہی پرو لیں گے
کوئی دو قدم ساتھ چلتا نہیں
مگر میں بھی رستہ بدلتا نہیں
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
خواب فروغ کی شاعری کا بنیادی استعارہ ہیں وہ دنیا کو خوابوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور یوں ان کی دنیا بھی ان کے خوابوں کی طرح پر کیف ہے ان کے ہاں خوابوں کا ایک تواتر اور تکرار ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی شاعری ایک دھنک رنگ خواب ہے اور یہ خواب ان کی شاعری کا مخصوص اور خیال انگیز حوالہ بھی ہے اور ان کی شاعری کی دنیا میں آنے والوں کے پاس ورڈ بھی
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرانا
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
درد سے جھلمل روشنیوں سے بارہ خواہ کی دوری پر
ہم نے ایک دھنک دیکھی جو شعلہ بھی ہے صدا بھی ہے
میں جن دنوں ترے خوابِ وفا نمود میں تھا
عجیب سا ترا دشمن مرے وجود میں تھا
شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر
بہر کیف رئیس فروغ کی غزلوں کے اس سرسری جائزے کے بعد میں ان کی نظموں سے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پیشتر میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ رئیس فروغ ادب میں نئے نئے تجربات کرنے کے فطری طور پر عادی تھے کیونکہ ان کا مزاج ہی یہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب نثری نظم کی تحریک شروع ہوئی تو رئیس فروغ اس قافلے کے ہر اول دستے میں نظر آئے کیونکہ وہ فطرتاً ایک جری اور بے خوف آدمی تھے اور جس بات کو صحیح جانتے تھے اس سے ذرا نہ ہٹتے تھے نثری نظم کے مخالفین میں سبھی طرح کے لوگ موجود تھے اور ہیں وہ بھی جو شاعری کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے سے قاصر ہیں اور وہ بھی جن کی گردنوں میں روایت کے ایسے بھاری بھاری طوق ہیں کہ وہ سر اٹھانے سے معذور ہیں۔ وہ لورکا، نرودا اور ناظم حکمت جیسے شعراء سے تو خیر واقف ہی نہیں ہیں مگر میرا جی اور راشد کے لیے بھی ان کے پاس دشنام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور تو اور اردو شاعری کے کئی معتبر شعراء آہنگ شعری تک کو قبول نہ کر پائے بلکہ عربی اور فارسی کی انہی مروجہ بحور و اوزان سے بندھے رہے جنہیں وہ گردانوں کی طرح رٹ لیا کرتے تھے ایسے ہی کچھ لوگ اردو نظم کے اس سفر سے منکر ہیں جو اس نے پچھلی چند دہائیوں میں کیا ہے وہ جدید ارد و نظم کی ہیئت پر بھی معترض ہیں اور اسے اسی کیفیت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس میں اسے مولانا آزاد نے چھوڑا تھا۔ انہی لوگوں کے درمیان فروغ نے نثری نظمیں لکھیں جن میں سے بعض بہت ہی کامیاب ہیں فروغ کی ان نثری نظموں میں جہاں سیفرٹؔ کی اسی خود آگاہی ہے۔ وہاں اریکاجونگ کی سی جھلّاہٹ اور تلخی بھی ہے بوچر لیاری پیاری جنریشن گیت اور لورکا سے ایک بند ان کی خوبصورت نظمیں ہیں۔
فروغ نے اپنی مختصر سی عمر میں بہت کم لکھا مگر اچھا لکھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو کسی دائرے میں قید نہ ہونے دیا بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کو مطالعے، مشاہدے، وسعت نظر اور خوبصورت آہنگ سے سجائے رکھا۔ مجھے یقین ہے کہ جب بھی جدید اردو شاعری پر بات ہو گی وہ فروغ کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ انہوں نے اردو شاعری کے افق پر جو دھنک بنی ہے وہ بارہ خوابوں کے فاصلے پر جگمگاتی رہے گی۔
٭٭٭