رئیس فروغؔ بھائی (جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے اپنے ہی قلم پر اعتبار نہیں آ رہا ہے) کی کتاب پر کچھ لکھنے کے معاملے میں، مَیں عجیب گو مگو میں مبتلا تھا۔ اس لیے کہ رئیس بھائی کی کتاب پر نہ تو لکھنے والوں کی کمی ہے اور نہ ہی ان کا کلام اتنا غیر معروف ہے کہ مجھ جیسا مبتدیِ فن اسے روشناس کرائے۔
رئیس فروغؔ بھائی سے میری پہلی ملاقات جناب لیثؔ قریشی صاحب کے دولت کدے پر ایک نشست میں ہوئی۔ اور پھر میں انہیں چاہنے لگا۔ اور ایک ایسا ذہنی رشتہ استوار ہوا جس کے تحت میں جب بھی ریڈیو پاکستان سیّد ناصر جہاں اور دیگر احباب سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو رئیس بھائی سے ملاقات مقدم ہوتی تھی۔ ان کے مکان پر ملاقاتوں کا غیر مسلسل سِلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ ایک دن دفتر میں تقریباً ۲ بجے فون آیا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ اِنَّ للہِ ؤاِنّاَالیہِ راجعون، ۔
سرزمینِ مرادآباد نے، جو نقش و نگار کی دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، ہمیشہ وجود کے آسمان پر ایسے چمکتے نقوش اُبھارے ہیں جن کی ضیأ کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔ بقول میر انیسؔ
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
زیرِ نظر کتاب ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ رئیس بھائی کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جسے انھوں نے اپنی زندگی ہی میں مرتب کر لیا تھا۔ گلستانِ شعر و ادَب کا حسین گلدستہ ہے۔
میرا مقصد کیونکہ رئیس بھائی کی شاعری یا ذات پر لکھنا نہیں ہے، بلکہ ان کی محبتوں کا قرض چکانا ہے۔ شعری اور ذات پر گفتگو کافی طویل ہو جائے گی جس کا نہ تو یہ محل ہے اور نہ ہی میرا منصب۔ میں چونکہ بنیادی طور پر غزل کی زلف کا اسیر ہوں اور سچ پوچھئے تو ہمیشہ غزل کے معیار سے ہی شاعری کی عظمتوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ لیکن یہ کوئی کلّیہ یا پیمانہ نہیں ہے۔ بلکہ میرا اپنا اندازِ انتخاب ہے۔ رئیس بھائی کی کتاب پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی صحرا میں کوئی دیوانہ وار چراغ جلانے کی کوشش کر رہا ہے اور تیز و تند ہوائیں آندھیوں کی صورت میں اُسے ایسا کرنے سے باز رکھ رہی ہوں۔ مگر وہ تھکتا نہیں۔
رئیس بھائی نے اپنی شاعری میں لفظوں کو اس چابکدستی سے استعمال کیا ہے کہ ان کی نشست و برخاست میں دھیمی دھیمی موسیقیت زندہ شاعری کا پَتہ دیتی ہے اور انھوں نے خاصی تعداد میں ایسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جنھیں عموماً غزل کی زمینیں برداشت نہیں کرتیں اور وہ ابھی تک مکمل طور پر اردوائے بھی نہیں گئے ہیں۔ ایسے الفاظ اکثر تنافر صوتی کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر رئیس بھائی نے اس خوبصورتی سے انھیں استعمال کیا ہے کہ تنافر تو ایک طرف، لفظوں میں اجنبیت کی بُو تک باقی نہیں رہی بلکہ ایک خاص قسم کی موسیقیت پیدا ہو گئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں!
شکایتیں ہی کرے گا کہ خود غرض نکلے
وہ دل بیں کوئی بلٹ تو نہیں اُتارے گا
جیسے ہر شام تجھے روپ بدل کر آئے!
میری آنکھوں نے الوژن کو حقیقت سمجھا
شارٹ سرکٹ سے اُڑیں چنگاریاں
صدر میں ایک پھول والا جل گیا
ماتھے پہ جو زخموں سے دوراہا سا بنا ہے
یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے
اوپر دیے ہوئے چند اشعار میں آپ نے دیکھا کہ شاعر نے کس خوبصورتی سے بلٹ، الوژن، شارٹ سرکٹ اور سائیکل کو استعمال کیا ہے۔ عہدِ حاضر میں نظم کی تکنیک پر اور بھی بہت سے دیگر صاحبانِ کمال نے تجربے کئے ہیں، لیکن غزل میں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال کے بارے میں یہ فیصلہ تو اربابِ نقد و نظر یا آنے والا وقت ہی کرے گا کہ یہ تجربہ کہاں تک کامیاب رہا اور عہدِ جدید کی غزل اس بار کو کہاں تک برداشت کرتی ہے، یہ تو ایک چھوٹی سی مثال تھی۔ ان تجربوں کی جو رئیس بھائی نے وقتاً فوقتاً کئے ہیں لیکن جب آپ ان کے کلام پر عمیق نظر ڈالیں گے تو آپ کو ان کے کلام میں روایت پسندی بھی نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نظر آئے گی۔ انھوں نے ذاتی مشاہدوں کو اپنے طرزِ اظہار میں ڈھالا ہے لیکن کہیں بھی جدیدیت کے زعم میں مشرقی ادب کو منہ نہیں چڑھایا ہے۔ چند اشعار پیش خدمت پیش خدمت ہیں، ملاحظہ ہوں۔
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اُسے گذار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
ایسے ظالم ہیں میرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت بُرا نہیں اتنا بُرا تو میں بھی ہوں
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
دشت سے دور سہی سایۂ دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ چند سطریں نہ تو کلامِ شاعر پر تنقید کے طور پر لکھی گئی ہیں اور نہ ہی ادبی موشگافیوں کے طور پر، بلکہ یہ تو محض ایک شاعر کے دوسرے شاعر پر حقِ محبت کی آئینہ دار ہیں اور بس، میں خامۂ تحریر کو رئیس بھائی ہی کے اس شعر پر روکتا ہوں جو میرے دیرینہ جذبات کا بیّن ثبوت ہے
لوگ اچھّے ہیں بہت دِل میں اُتر جاتے ہیں
اِک بُرائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
٭٭٭