میں رئیس فروغ کو شاعر کہوں گا صرف شاعر جدید کا لفظ نتھی نہیں کروں گا اس لیے کہ مجھے لطف الرحمن کے ان الفاظ سے اتفاق ہے:
’’تقریباً ایک ربع صدی سے اردو ادب میں جدیدیت ایک بے حد گمبھیر مسئلے کی صورت بحث و تمحیص کا موضوع رہی ہے۔ ادیبوں، شاعروں اور نقادوں نے اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی بساط اور نظریے کے مطابق جدیدیت کی تعریف و توضیح کی کوششیں کی ہیں لیکن بڑی حد تک یہ کوششیں نامشکور ہی سمجھی جاتی رہی ہیں اس لیے کہ یہ مسئلہ آج بھی اتنی ہی سنجیدہ توجہ کا طالب ہے اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ بعض نقادوں کی توضیحات نے اس مسئلے کے گرد جمی ہوئی گہری دھند کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے مگر آج بھی ذہن و فکر میں یہ مسئلہ تشنۂ تفسیر ہے۔‘‘(جدیدیت۔ ایک موضوع، مطالعہ از لطف الرحمن مطبوعہ ’’جواز‘‘ مالیگاؤں (ہندوستان) جون، جولائی، اگست ۷۸ء)
وزیر پانی پتی نے اپنے ایک مضمون (رئیس فروغ کے ایک ناقد کی تنقید کی روشنی میں) کی ابتدا میں غزل اور رئیس فروغ کی غزل کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے:
’’غزل کے بارے میں اظہار خیال اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا کہ نصف صدی پہلے تھا اس کا سبب ایک طرف تو یہ ہے کہ غزل میں رد فرسودگی اور ندرت آفرینی کی وجہ سے موضوعاتی رنگا رنگی پیدا ہوئی اور دوسری جانب تنقید تقریظی اسلوب کو ترک کر کے تجزیاتی دور میں داخل ہو گئی۔ صرف فنی محاسن و معائب کو معیار تنقید قرار دینے کا زمانہ ختم ہو گیا۔ آج سے پچاس سال قبل کے غزل گو شعرا کا کلام اور موجودہ دور کے شعراء کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ فرق باآسانی واضح ہو سکتا ہے تاہم ہردور میں بعض ایسے شعراء ضرور گزرے ہیں جن کا کلام قدیم و جدید کی بحث سے بالا تر ہوتا ہے۔ رئیس فروغ مرحوم اسی قسم و قبیل کے شعراء سے تعلق رکھتے ہیں (مشاہدے از وزیر پانی پتی)
وزیر پانی پتی نے رئیس فروغ کی غزل کا جو جائزہ لیا ہے اسے درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ وزیری پانی پتی کے سچ کی گواہی رئیس فروغ کے مجموعۂ کلام ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ نے دی ہے اور وزیری صاحب کے جائزے کو دیکھ کر ذہن میں رئیس فروغ کا یہ شعر بھی آتا ہے:
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
رئیس فروغ نے اس دھرتی پہ خود کو محسوس کیا۔ اس قدر شور اور اس قدر ہجوم میں نہ تو اس نے اپنی پہچان کھوئی نہ ہی وہ گم ہوا وہ موجود رہا اور اپنے وجود کو مسلسل محسوس کرتا رہا:
زمیں پہ شور جو اتنا ہے صرف شور نہیں
کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں
میں نے بھی اک حرف بہت زور سے کہا
وہ شور تھا مگر کہ کسی نے سنا نہیں
اسی شور اور اسی ہجوم میں وہ یہ بھی کہتا ہے
دن کے شور میں شامل شاید کوئی تمہاری بات بھی ہو
آوازوں کے الجھے دھاگے سلجھائیں گے شام کو
رئیس فروغ کی شام اداس نہیں وہ شام میں دن سے زیادہ پر امید دکھائی دیتا ہے۔ شام اس کے نزدیک رنج و الم کا آغاز نہیں بلکہ سکون و اطمینان کی علامت ہے۔
انجم اعظمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
’’ہمارا ملک زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ فرد معاشرے اور معاشرہ فرد سے کٹا ہوا ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ حرص دولت اور خود غرضی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے پاس کوئی خواب نہیں۔ درد مندی کی بے بہا دولت ضائع ہو رہی ہے۔ یہ کام ہمارے شاعروں، مصوروں، دانشوروں اور ادیبوں کا ہے کہ اسے ایسے خواب بخش دیں جو اس کی زندگی کو فعال بنا سکیں۔ فن اس انسان کا اقرار ہے۔ جس نے آج تک حوصلہ نہیں ہارا۔ فن میں اگر یہ قوت پیدا نہ ہو سکے تو صرف رنگوں اور لفظوں کے پجاری بھکاریوں سے بھی بدتر ہیں۔‘‘( ’’عہد جدید اور فن‘‘ از انجم اعظمی مطبوعہ ماہنامہ ہم زبان، مالیگاؤں ہندوستان اپریل ۷۸ء)
انجم اعظمی نے تو اس موضوع میں کافی جذباتی رنگ بھر دیا ہے لیکن رئیس فروغ جو خواب دیکھتا ہے ان میں وہ سب کو شریک کر لیتا ہے۔ ا گر میں یہ کہوں کہ وہ سب کے درمیان بیٹھ کر خواب دیکھتا ہے بلکہ سب کے ساتھ مل کر خواب تلاش کرتا ہے تو شاید زیادہ مناسب ہو گا :
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو ادھر اُدھر کسی کونے میں
ڈاکٹر طاہر تونسوی جنہوں نے رئیس فروغ کو بے خواب ساعتوں کا شاعر قرار دیا یہ لکھتے ہیں :
رئیس فروغ کو اپنی دنیا کی ہر شے سے پیار ہے اور اس کی بہتری کے خواب دیکھتا ہے۔ فصلوں کے کھلنے ہرے بھرے رہنے گاؤں کی گوریوں کے لیے چنریوں کی خواہش بھی اس کے ہاں موجود ہے۔ وہ انسانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ پر گہرے کرب کا بھی اظہار کرتا ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ وہ اس صورت حال سے مایوس نہیں ہے بلکہ پر امید ہے اور اچھے دنوں، اچھی فصلوں مراد کے سورجوں، روشن راتوں، بدن کی چاندنیوں، میٹھے سپنوں سے ناامید نہیں وہ اپنی دھرتی کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کو تیار ہے اور اسے آباد دیکھنے کا متمنی ہے:
رئیس فروغ کی غزل دلکش موضوعات اور خیالات کا مرقع ہے اس لیے رنگوں کو اپنی غزلوں میں اس انداز سے بھرا کہ انہیں خوبصورت تصویریں بنا دیں ایسی تصویریں جو ذہنوں پر ہمیشہ نقش رہیں گی۔
ایک دیے کی دھیمی لو سے
میں نے اپنا ہاتھ جلایا
روشنیوں پر پاؤں جما کے چلنا ہم کو آئے نہیں
ویسے در خورشید تو ہم پر گاہے گاہے کھلا بھی ہے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
دھوپ ہی کے سلسلے پہلے بھی تھی
عہد رفتہ ہے گزشتہ دھوپ میں
سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغ
جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے
شاید اسی لیے ڈاکٹر طاہر تونسوی نے لکھا ہے کہ:
اسی تناظر میں رئیس فروغ نے اسلوب و معنی کے اعتبار سے نئی غزل کو نئے امکانات سے ہمکنار کیا ہے اور لفظ و معنی کو نئی وسعتیں عطا کی ہیں۔ اس کی غزل کا جو سرمایہ محفوظ ہو کر رہ گیا ہے اس کو سامنے رکھ کر بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب اردو غزل رئیس فروغ کی راہوں پر چلے گی۔
رئیس فروغ زندہ شاعری کا خالق ہے وہ اپنی غزل کی لڑی میں زمانے کے دکھوں کو پروتا رہا۔ زمانے کے دکھوں کو اپنے دکھ شمار کرتا رہا۔ رئیس فروغ نے جو کچھ بھی کہا بیدار رہ کر اپنے عہد سے متاثر ہو کر اور گزشتہ زمانوں کی خبر رکھتے ہوئے کہا:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
اور
پیارے اتنا یاد رہے
میں اک دن مر جاؤں گا
لیکن رئیس فروغ اپنے اشعار کے ساتھ زندہ رہے گا اس وقت تک جب تک کہ اردو اور اردو غزل زندہ ہے۔
٭٭٭