لڑکیاں واقعی بہت اچھی شاعری کر رہی ہیں۔ پہلے کی بات اور تھی پہلے انہیں ایسے حالات میسر نہ تھے وہ بہت سی پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔ انہیں تعلیم اور مطالعے کی بنیادی سہولتیں میسر نہ تھیں۔ مگر جب سے معاشرے کے رنگ روپ میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں انہوں نے ہر سطح پر بہترین کارکردگی دکھائی ہے سب سے پہلے خواتین نے افسانہ نگاری میں اپنا مقام بنایا اور پھر شاعری میں نہایت عمدہ پیش قدمی کی حالانکہ میں اس بات کو نہیں جانتا کہ کسی بھی میدان میں کسی خاص صنف کو برتری حاصل ہے مگر میرا یہ خیال ضرور ہے کہ شاعری میں بہر حال لڑکیوں نے بہت جلد مقام بنا لیا ہے۔ اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ چار سال پیشتر تک ہماری لڑکیاں کس قدر سخت پابندیوں کا شکار تھیں مگر پھر جب انہیں آزادی ملی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ شاعری کے آسمان پر چھا گئیں۔ پہلے ان کی شاعری میں ہمیں مردوں کی نقالی کی بو آتی تھی۔ مگر اب انہیں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اوریجنل اور خوبصورت شاعری کر رہی ہیں، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ خواتین کی شاعری سے بعض ایسے ایسے نئے انکشافات ہوئے ہیں جو مردوں سے شاید کئی برس تک نہیں ہو سکتے تھے۔ نئی شاعرات نہایت سچی اور جرات مندانہ شاعری کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشور ناہید پروین شاکر، شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن کو ادب میں ایک خاص مقام دیا جاتا ہے بلکہ حال ہی میں نسیم نازش، عشرت آفریں، عشرت سلطانہ اور سارہ شگفتہ نے بھی جو شاعری کی ہے اس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ وہ کس سرعت آگے بڑھ رہی ہیں۔ خواتین نے اب اس الزام کو بالکل رد کر دیا ہے کہ ان کی مقبولیت کا راز محض ان کے صنف نازک ہونے میں ہے وہ اب اپنی شاعری سے پہچانی جاتی ہیں۔‘‘
جناب رئیس فروغ نے اس سوال کا جواب دیا کہ ’’کیا خواتین واقعی اچھی شاعری کر رہی ہیں یا انہیں محض اپنی صنفِ لطیف کے ناطے سے خاص مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔‘‘
رئیس فروغ کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ پہلے سنجیدہ شاعری کیا کرتے تھے مگر بعد انہوں نے بچوں پر شاعری شروع کی جب ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا :
’’میرے بارے یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے کہ میں اب سنجیدہ شاعری نہیں کرتا بلکہ میں اب بھی سنجیدہ شاعری کرتا ہوں، ۔ البتہ عام طور پر اب بچوں کے لیے زیادہ شاعری کرتا ہوں، ویسے بچوں کی شاعری بھی سنجیدہ شاعری ہوتی ہے۔ اسے غیر سنجیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے ۱۹۷۸ء سے بچوں کے لیے باقاعدہ شاعری کرنا شروع کی اور محسوس کیا کہ بچوں میں شاعری کی پسندیدگی کا جذبہ بڑوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ریڈیو اور ٹی وی دونوں پر شاعری کے ذریعے ہوا اور مجھ پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ میں بچوں کے لیے بہت خوبصورت شاعری کر سکتا ہوں اور قدرت نے مجھ میں اس کی بہترین صلاحیتیں رکھی ہیں مگر میں پھر یہ کہتا ہوں کہ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں بڑوں کے لیے سنجیدہ شاعری نہیں کرتا، وہ میں اب بھی کرتا ہوں۔‘‘
فروغ صاحب کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے بچوں کے لیے زیادہ شاعری کرنا اس لیے شروع کی ہو کہ آپ بڑوں سے مایوس ہو گئے ہوں۔’
’’مایوسی وہاں ہوتی ہے جہاں توقع ہوتی ہے‘‘ میں ان کے اس جواب کو لکھنا چاہتا تھا مگر انہوں نے فوراً بات بڑھائی ’’میں جو شعر کہتا ہوں وہ میرا اپنا اظہار ہوتا ہے، اس میں کسی سے مایوس ہونے کا مطلق سوال نہیں ہے۔‘‘
رئیس فروغ کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ وہ بہت محتاط ہو کر گفتگو کرتے ہیں۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ وہ اکثر سوالات دوبارہ سنتے ہیں اور بہت دیر تک اندر ہی اندر جوابی گتھیاں سلجھانے کے بعد کہتے ہیں۔
ہم نے ان سے ہندوستان اور پاکستان میں ہونے والی اردو شاعری پر بھی بات کی انہوں نے کہا :
’’ہندوستان میں جو شاعری ہو رہی ہے، اس کا بہت کم حصہ ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ ہندوستان میں ہونے والی اردو شاعری پر ہم مکمل تبصرہ نہیں کر سکتے دوسری بات یہ ہے کہ ہم شاعری کے خطّوں کے اعتبار سے نہیں دیکھتے، شاعری کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جو کسی خاص علاقے کے لوگوں سے وابستہ ہو۔ شاعری کو علاقوں اور خطوں سے شاعروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بلا شبہ ایک زمانے میں دلی اور لکھنؤ کے شعراء میں مقابلے ہوتے تھے اور شہروں کو باقاعدہ نمبر دیے جاتے تھے مگر اب ایسی کوئی بات نہیں رہی اور نہ اب شاعری میں زبان و بیان کی پہلے کی طرح پابندیاں ہیں۔‘‘
فروغ صاحب ہمارے ہاں جو شاعری ہو رہی ہے آپ اس سے کس حد تک مطمئن ہیں اور اپنی شاعری پر بھی تبصرہ کیجیے۔‘‘
’’میں اپنی شاعری سے تو ہرگز مطمئن نہیں ہوں، میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ اب تک نہیں کہہ پایا، مگر جہاں تک دوسرے شعراء کا تعلق ہے تو ہر دور کا ایک اپنا مزاج ہوتا ہے بعض لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں جو روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ زندہ روایت کو آگے بڑھاتے ہیں اور کچھ محض اساتذہ کی نقل کرتے ہیں۔
ہر عہد میں دراصل یہ کیفیت ملی جلی ہوتی ہے اگر آپ اپنے سوال کو سہل بنائیں، تو میں کہوں گا کہ ۱۹۵۰ء کے مقابلے میں ہمارے ہاں اب کہیں بہتر شاعری ہو رہی ہے، مگر ضرورت اب اس بات کی ہے کہ ہم اس میں انتخاب کریں کہ زندہ شاعری کون سی ہے اور بے معنی و فضول شاعری کون سی، میرے خیال میں یہی سب سے بڑی چیز ہے۔ جسے اب تک محسوس نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
رئیس فروغ نے ہمیں بتایا تھا کہ انہیں شاعری کا ذوق قدرتی طور پر پڑھا ہوا تھا، وہ غالب سے متاثر تھے اور میر و مصحفی کو بھی شوق سے پڑھتے تھے مگر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا ان کے خاندان یا آباء اجداد میں کوئی شاعر پیدا ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے خاندان سے محض شاعری کا ذوق (Taste)ملا ہے، یعنی اپنے خاندان میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باقاعدہ شاعری کی ہے۔
ہمارے ہاں شاعروں میں گروپ بندیاں ہیں مختلف دھڑے ہیں اور اس ضمن میں بعض اطلاعات تو بہت لطیف بھی ہیں۔ ہم نے رئیس فروغ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق کسی قسم کے دھڑے یا گروپ سے نہیں ہے بلکہ وہ سرے سے اس چیز کے خلاف ہیں ان کے خیال میں اس طرح سے کسی شاعر کی شناخت نہیں ہو سکتی چند لمحوں کے لیے تعریف کے کچھ بول تو نصیب ہو سکتے ہیں مگر حقیقی اور دائمی شہرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ رئیس فروغ کے خیال میں جس شاعر کو عروج کی منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں وہ خود کو منوا لیتا ہے۔ اسے کسی دھڑے، کسی گروپ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ محض جھوٹے اور فضول سہارے ہیں جو کسی بھی لمحے زمیں بوس ہو سکتے ہیں۔
پروز پوئم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ بعض ادبی حلقوں کے مطابق یہ محض شاعری کے نام پر ایک ڈھونگ ہے؟
جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں میرا خیال ہے انہیں ابھی مزید تعلیم کی ضرورت ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نثری نظم ایک اظہار کا نام ہے اور پھر یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے دنیا بھر میں نثری شاعری ہو رہی ہے، لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں، دراصل شاعری کی بہت ساری اور مختلف اصناف ہوتی ہیں، اگر ہم یہ کہیں کہ شاعری صرف آزاد یا پابند ہوتی ہے یا کسی اور میں نہیں تو یہ مہمل بات ہے۔ جس طرح اور چیزوں میں ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ نئی نئی چیزیں دریافت ہوتی ہیں اسی طرح ہماری شاعری میں بھی نئے نئے تجربات، نئی نئی باتیں کی جاتی ہیں۔ نثری نظم بھی ایک ایسی ہی چیز ہے یہ بہر حال ایک بالکل علیحدہ سوال ہے کہ ہمارے ہاں نثری نظم کیسی کہی جا رہی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ نثری نظم کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے اور میں بھی اسے صنف سخن کے طور پر قبول کرتا ہوں۔‘‘
ہر شاعر کی شاعری کا ایک محور ہوتا ہے، آپ جب شعر کہتے ہیں تو آپ کے سامنے کون ہوتا ہے؟
’’میں خود ہوتا ہوں اور میرے سامنے پوری کائنات ہوتی ہے۔‘‘
فروغ صاحب دنیا بھر میں افسانے کی طرح شاعری بھی زوال پذیر ہے اور جو شاعری ہو رہی ہے وہ بھی محض مزاحیہ قسم کی ہو رہی ہے۔ آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں گے؟
ہاں یہ آپ نے بہت اہم بات کہی ہے۔ اصل میں شاعری بھی ہماری عادات کی طرح ایک چیز ہوتی ہے ہم لوگ چونکہ ایک خاص قسم کی شاعری پڑھتے اور سنتے چلے آئے ہیں اس لیے اس کے عادی ہو چکی ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب اس سے ذرا باہر کوئی شاعری کرتا ہے تو ہمیں وہ مزاحیہ نظر آتی ہے مثال کے طور پر غزل کی اپنی ایک زبان متعین ہو کر رہ گئی ہے چنانچہ شعراء بھی اسی نہج پر غزلیں کہتے ہیں جب کوئی اپنے عہد کے مطابق علامتی شاعری کرنے لگتا ہے تو لوگ اسے مزاحیہ محسوس کرتے ہیں حالانکہ ایسا ہوتا نہیں۔‘‘ رئیس فروغ سے جب مزید تفصیل چاہی تو انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم غزل میں راہ لکھتے ہیں تو اسے شاعری کہا جاتا ہے، لیکن اگر سڑک لکھتے ہیں تو وہ مزاحیہ ہو جاتی ہے اس طرح کارواں کو قبول کر لیا جاتا ہے اور بس کو مزاحیہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
رئیس فروغ عمومی طور پر فلمی شاعری کو پسند نہیں کرتے مگر زیادہ متنفر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ وہ فلمی شاعری کو کمرشل شاعری کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے بقول شاعر حضرات وہ مال محض آرڈر پر تیار کرتے ہیں۔ چنانچہ اسے ان کی خالص تخلیق تو نہیں کہا جا سکتا البتہ کسی نہ کسی پہلو وہ شاعری تو ہوتی ہے خواہ وہ فلمی دنیا تک محدود ہی ہو۔
رئیس صاحب جدید اردو شاعری سے بہت حد تک مطمئن ہیں اور انہیں اردو شاعری میں نئے نئے انکشافات ہونے اور پروز پویم سے کہیں بہتر تجربات ہونے کی بھی امید ہے، البتہ وہ ترقی وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑتے، ان کے خیال میں شاعری میں ترقی وغیرہ کا کوئی سوال نہیں ہے بس ہر دور میں اور ہر عہد میں نئے زاویوں سے شاعری ہوتی رہتی ہے۔
ہم نے ان سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے شاعر حضرات محض ذاتی جذبوں، دکھوں اور محبتوں کی شاعری کرتے ہیں مثلاً کسی شاعر کو کسی لڑکی سے محبت ہے تو وہ اسی کی شان میں قصیدے پڑھتا چلا جاتا ہے کیا وجہ ہے کہ ہمارے شعراء حضرات قومی اور ملی شاعری نہیں کرتے یا کوئی ایسا شاعر ہمارے ہاں کیوں پیدا نہیں ہوتا جسے بیک وقت پوری قوم پڑھے جیسا کہ اقبال تھے۔
رئیس فروغ نے کہا ’’یہ نہایت اہم سوال ہے مگر جہاں تک میرا خیال ہے، اقبال تو ایک منفرد اور یکتا شاعر تھے ہمیں نہ ان سے پہلے ان جیسا شاعر ملتا ہے، اور نہ ہی ان کے بعد کوئی ایسا شاعر نظر آتا ہے۔ جس نے خود کو ہمہ وقت قوم کے لیے وقف کر دیا ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے انہی جیسا خلوص اور محبت کی ضرورت ہے چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کی طرح شاعر حضرات بھی پہلے کی طرح نہیں رہے لہذا یہ بات طے ہے کہ اقبال جیسا شاعر دور دور تک نظر نہیں آتا جسے پوری قوم بیک وقت پڑھے، مگر میں یہاں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ قومی شاعری گو ان معنوں میں نہ سہی مگر بہر حال لکھی گئی ہے۔ میں آپ کے سوال کے اس حصے سے مطمئن نہیں ہوں کہ عشقیہ شاعری ناکارہ قسم کی شاعری ہے۔ میرے نزدیک عشقیہ شاعری بھی قومی شاعری کی عکاس ہوتی ہے کیونکہ مشرقی شاعر جب اپنے عشقیہ احساسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس سے مختلف ہوتا ہے جو مغرب کا شاعر کرتا ہے۔‘‘
رئیس فروغ نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا ’ ’ ہمارے موجوہ شاعر بھی قومی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی شاعری خواہ عشقیہ ہی سہی مگر لوگوں کو ذہنی سکون بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔‘‘ فروغ صاحب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بہر حال یہ مان لینا چاہیے کہ عشقیہ شاعری بھی قومی شاعری ہوتی ہے۔‘‘
٭٭٭