اگر نظیر اکبر آبادی کو بچوں کا پہلا شاعر تسلیم کر لیا جائے تو بچوں کی شاعری پر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ مدت گزر گئی ہے نظیر اکبر آبادی نے بچوں کے لیے جو شاعری کی ہے وہ محدود اور چند گنے چنے موضوعات سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس نے جانوروں پرندوں اور آگرے کے میلوں ٹھیلوں پر ایسی نظمیں کہی ہیں جنہیں بچے آج بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور آج بھی یہ نظمیں بچوں کے نصاب میں شامل کی جاتی ہیں نظیر اکبر آبادی کے بعد بچوں کی شاعری کا جو دور آتا ہے وہ بھر پور قسم کا ہے اس شاعری میں موضوعات کا اچھا خاصا تنوع ملتا ہے۔ حالی، آزاد اور خاص طور پر اسمٰعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے جو نظمیں کہی ہیں ان میں موضوعات کے لحاظ سے وسعت بھی ہے اور رنگا رنگی بھی۔ یہ دور اصلاً اصلاح پسندی کا دور ہے اور اس دور کے شاعروں نے ارادتاً ایسی نظمیں لکھی ہیں جن کے مطالعے سے بچوں کے اندر انسانی خوبیوں سے محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ نیکیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب بچوں کی شاعری کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اسے بچوں کی ذہنی تربیت کا ایک بہت موثر ذریعہ بنایا جاتا ہے بعد میں جو شاعر آئے ہیں ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ جہاں بچوں کے لیے اصلاحی نظمیں لکھیں وہاں ان جاندار اور غیر جاندار اشیاء کو بھی موضوع توجہ بنائیں جو بچوں کے اردگرد موجود ہوتی ہیں اور جن سے بچوں کو قدرتی محبت ہوتی ہے مثلاً جانور، پرندے، درخت، پھول، ندیا، دریا، ستارے، پہاڑ، ریل گاڑی، جگنو اور کھولنے وغیرہ۔
قیام پاکستان کے بعد بچوں کے لیے جو شاعری ہوئی ہے اس کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہاں ہمارے شاعروں نے زندگی کی کچھ نئی جہتوں کی طرف بھی نگاہ ڈالی ہے اور کچھ نئی سمتوں کی طرف بھی نشاندہی کی ہے۔ پہلی بات جو ہمارے سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کے پاکستانی شاعروں نے بزرگ بن کر اور خود کو ہر آن بزرگ سمجھ کر شاعری نہیں کی بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ شاعر بچوں کے ساتھی بن کر اپنے ساتھیوں سے بے تکلفانہ گفتگو کر رہے ہیں، ان پر حکم نہیں چلاتے کہ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ عمداً کوئی نصیحت نہیں کرتے بلکہ پیار اور محبت کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ یہ انداز بڑا موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے بڑے خوشگوار نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان شاعروں کاتعلق بیشتر مقامی رنگ سے ہے۔ مطلب یہ کہ ایک شاعر جہاں کہیں بھی ہے وہ اپنے ارد گرد ہی سے شاعری کے موضوع ڈھونڈ لیتا ہے۔ کوئی کراچی میں رہتا ہے تو وہ کراچی کے سمندر، کراچی کے کلفٹن، کراچی کے باغوں پر نظمیں کہے گا، اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ وہ صرف ان ہی چیزوں پر نظمیں کہتا رہا اور جو بے شمار موضوعات ہیں ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ ضرور متوجہ ہوتا ہے اور اسے متوجہ ہونا بھی چاہیے مگر وہ چیز جسے ’’مقامیت‘‘ کہتے ہیں وہ اس کی شاعری میں بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح لاہور میں جو شاعر رہتا ہے وہ لاہور کی تاریخی عمارتوں، لاہور کے باغوں، لاہور کے عجائب گھر اور لاہور کے چڑیا گھر کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرے گا۔
کراچی میں ایک صاحب مقیم ہیں جو بچوں کے بڑے مشہور بڑے ممتاز شاعر ہیں نام ہے ان کا رئیس فروغ!
رئیس فروغ کی شاعری، واقعتاً بچوں کی شاعری ہے او ریہ ایسی پیاری شاعری ہے کہ کوئی بچہ بھی جب اسے پڑھتا ہے تو اس سے پیار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قصہ یہ ہے کہ رئیس فروغ نے اپنی شاعری کے ذریعہ بچوں کو بڑا پیار دیا ہے اور بچے کوئی احسان فراموش تو ہیں نہیں کہ جو شخص ان سے پیار کرے وہ اس سے پیار نہ کریں تو رئیس فروغ اور بچوں کو ایک دوسرے سے بڑا پیار ہے اور یہ پیار روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
میں نے ابھی ابھی کہا ہے نا کہ پاکستانی شاعر (یہاں میری مراد بچوں کا پاکستانی شاعر ہے) مقامی رنگ ضرور بالضرور قبول کرتا ہے اس سلسلے یں ایک بات اور بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے اس پاکستانی شاعر کے لیے مقامی رنگ ایک جداگانہ رنگ ہوتے ہوئے بھی ایک بڑے رنگ کا حصہ ہوتا ہے، مثلاً کراچی کا مقامی رنگ، لاہور کا مقامی رنگ یا پاکستان کے کسی بھی شہر، قصبے گاؤں کا مقامی رنگ، پاکستان ہی کا رنگ ہے وہ جب کسی مقامی شے کے بارے میں کوئی نظم کہتا ہے تو یہ شعر پاکستان ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے کوئی الگ تھلگ شعر نہیں۔ ہمارے شاعر کو پاکستان سے محبت ہے اس لیے اسے پاکستان کے اس شہر سے بھی محبت ہے جس میں وہ رہتا ہے اور اس شہر کی جو چیزیں دیکھتا ہے ان سے بھی محبت ہوتی ہے۔
رئیس فروغ کراچی میں رہتے ہیں۔ کراچی کا نام ہو اور کلفٹن کا نام نہ ہو یہ ممکن نہیں۔
کلفٹن کراچی کی بڑی پیاری سیر گاہ ہے۔ اب تو وہاں اور بھی خوبصورت سیر گاہیں بن چکی ہیں مگر کلفٹن، کلفٹن ہے۔ کلفٹن کا جواب نہیں!
رئیس فروغ نے کلفٹن پر ایک چھوڑ چار نظمیں کہی ہیں اور یہ چاروں کی چاروں بہت خوبصورت ہیں۔
کلفٹن سمندر کا ساحل ہے۔ شاعر سب سے پہلے ساحل پر شعر کہتا ہے وہ ساحل پر کھڑا ہے۔ سامنے سمندر ہے، افق تا افق پھیلا ہوا۔ پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، سورج ہے، سایہ ہے جن سے پل بھر میں منظر بدل جاتا ہے، شاعر کہتا ہے :
جب لہر کے آگے لہر چلے
اور لہر کے پیچھے لہر چلے
ساحل کی ہوا میں لہراتا
پانی کا بڑا سا شہر چلے
کبھی سورج ہے کبھی سایہ ہے
یہاں پل پل رنگ بدلتے ہیں
اس بھیگی بھیگی ریت پہ ہم
جب ننگے پیروں چلتے ہیں
ان نکھرے نکھرے ذروں میں
کوئی پھول کوئی مہتاب لگے
یہ اپنے کلفٹن کا منظر
اک پیارا پیارا خواب لگے
تمہیں اپنے گھر لے جانے کو
کئی گھونگھے گول سڈول ملے
اپنا شو کیس سجانے کو
ہمیں سیپ کئی انمول ملے
ایک بچہ جب کلفٹن پر جاتا ہے تو جو کچھ دوہ دیکھتا ہے سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر وہ اس خوبصورت نظم میں موجود ہے بچے کو آنے جانے والے لوگوں یں تو کوئی ایسی دلچسپی نہیں ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر انہیں دیکھتا رہے وہ تو پانی کو دیکھتا ہے جس میں سے لہریں اٹھ رہی ہیں۔ پانی میں سورج کی روشنی پر نظر ڈالا ہے ان پھولوں سے متاثر ہوتا ہے جو ساحل پر کھلے ہوئے ہیں اور بڑے شوق سے وہ گول سڈول گھونگھے اٹھا لیتا ہے جو بھیگی بھیگی ریت پر پڑے ہیں۔
دوسری نظم میں کلفٹن پر بچوں کے لیے جو طرح طرح کے کھیلوں کا اہتمام کیا گیا ہے ان کا ذکر ملتا ہے۔
تیسری نظم کلفٹن کے مچھلی گھر سے متعلق ہے یہ مچھلی گھر بڑا وسیع ہے اور اس میں شیشوں کے اندر سینکڑوں کی تعداد میں رنگارنگ عجیب و غریب مچھلیاں محفوظ ہیں بچوں کو مچھلیوں سے دلچسپی نہیں ہو گی تو اور کس سے ہو گی۔ یہ مچھلی گھر Play land کی طرح کلفٹن کا ایک جز ہے۔
چوتھی نظم کا عنوان ہے کلفٹن کی سیر یہاں بچے چھوٹی چھوٹی کاروں میں بیٹھ کر گھومتے ہیں بڑا عجیب تماشہ ہوتا ہے۔ بچے اپنی اپنی کاروں میں بیٹھ کر انہیں اس طرح چلاتے اور گھماتے ہیں کہ یہ آپس میں ٹکراتی نہیں اور ٹکرا بھی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
یہ چار نظمیں ہیں ان کا موضوع ایک ہے مگر ہر نظم ایک الگ تناظر میں لکھی گئی ہے۔ ہر نظم ایک خاص ماحول اور اس خاص ماحول سے جو چیزیں متعلق ہیں صرف انہیں سے اپنا رابطہ قائم کرتی ہے۔
پہلی نظم سمندر سے بالکل قریب ہو کر کہی گئی ہے اور اس کے لیے جو بحر استعمال کی گئی ہے وہ خود بخود بچوں کے ذہن یں پانی کی آتی جاتی لہروں کا منظر لے آتی ہے
جب لہر کے آگے لہر چلے
اور لہر کے پیچھے لہر چلے
لہر کی تکرار صوتی آہنگ قائم رکھنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔
دوسری نظم میں کھیلوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے یہاں بھی بحر رواں دواں ہے۔ لفظ متحرک ہیں اور ان متحرک لفظوں سے بچوں کے ذہن میں مسلسل تحرک ایک زیر و بم کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے:
شیر پہ بیٹھو ڈرو نہیں
بلی کی پروا کرو نہیں
جیسے بچوں کا اپنا کوئی بے تکلف ساتھی ان سے کہہ رہا ہے یہ شیر بس یونہی ہے بے فکر ہو کر اس پر سواری کرو یہ بلی بھی تو تمہاری سواری ہے اس کی پروا کیا کرو گے۔
میں نے اوپر بچوں کے جس ساتھی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کوئی اور شخص نہیں خود شاعر ہے جو پہلے دو مصرعوں میں بتا دیتا ہے کہ یہ کلفٹن کا پلے لینڈ ہے اور پھر فوراً براہ راست ان سے مخاطب ہو جاتا ہے
تیسری نظم میں پہلے بند کا ہر مصرع صرف دو لفظوں پر مشتمل ہے۔ اسے اس طرح پڑھیے:
کلفٹن پر
(کیا)
مچھلی گھر
( کیسا)
نظر آئے۔ حسین منظر
(کیوں)
بہت خوش ہیں یہاں آ کر
اس ایک چھوٹے سے بند میں بڑی جامعیت ہے۔ شاعر بچوں کے دلوں میں کلفٹن کے مچھلی گھر کی سیر کا شوق ابھارنا چاہتا ہے اور اس نے صرف اس ابتدائی بند ہی کے ذریعہ اپنا مقصد پا لیا ہے۔ بچوں میں جذبہ شوق ابھر آتا ہے تو وہ خود انہیں مچھلی گھر میں لے آتا ہے اور اس مصرع کے ساتھ ’’یہ خوبصورت مچھلیاں‘‘ مچھلی گھر کی سیر کا آغاز ہو جاتا ہے۔
چوتھی نظم میں موضوع یہ ہے کہ بچے موٹروں میں بیٹھ کر انہیں ڈرائیو کر رہے ہیں یہ گاڑیاں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں اس کوشش میں ٹکرا بھی جاتی ہیں مگر یہ ٹکراؤ کوئی خطرناک بات نہیں۔ یہ کھیل ہی تو ہے بچے سچ مچ کی موٹروں میں تو سوار ہیں نہیں کہ انہیں کسی قسم کا خطرہ ہو۔
اس ساری نظم میں مسلسل حرکت ہے کیونکہ معاملہ کاروں کا ہے جو اپنے اپنے راستوں پر چل رہی ہیں۔ شاعر شروع ہی میں بچوں کو اس حرکت کا احساس ذرا ہٹ کے چلو، ذرا بچ کے چلو، کے دو مصرعوں سے کرا دیتا ہے اور یہ احساس کاروں کی تیز روی اور باہمی تصادم سے متواتر بڑھتا رہتا ہے۔
ان چار نظموں میں بالخصوص آخری نظم میں اگر تواتر کے ساتھ تحرک نہ ہوتا تو وہ تجربہ ناکام رہتا جو شاعر کے پیش نظر ہے اور جس سے وہ نظمیں پڑھنے والے بچوں کو لذت آشنا کرنا چاہتا ہے۔
رئیس فروغ اپنی نظموں میں جا بجا تخاطب اور تکلم سے کام نہیں لیتے اور اس سے ان کی آواز بچوں کو کہیں باہر سے آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ ان کا کوئی اپنا ساتھی ان کے ساتھ یا ان کے درمیان کھڑا ہے اور بڑی بے تکلفی سے باتیں کر رہا ہے۔ اس طرح سے وہ اپنی آواز کو بچوں ہی کی آواز بنا دیتے ہیں۔ یہ تخاطب اور تکلم ان کی اکثر نظموں میں ہے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ قریب قریب ہر نظم میں ہے کہیں بالواسطہ اور کہیں بلا واسطہ۔
آپ ہی کہیے، ہم کیا کہیں
(آپ کہ ہم)
اجی ہٹاؤ، چھوڑو بھی
(یہ باتیں چھوڑ دو)
ہمیں پل، دو پل بہلا دینا
(توجہ فرمائیے)
امی
ہماری امی
تم پیاری پیاری امی (امی)
یہ نظم جس کا عنوان جس کا عنوان ’’امی‘‘ ہے اور جس کے تین مصرعے اوپر درج کیے گئے ہیں اپنی تکنیک کے لحاظ سے نہایت خوبصورت نظم ہے، بیٹا دیکھتا ہے کہ اس کی ماں کسی کام میں مصروف ہے اسے بلاتا ہے ’’امی!‘‘ ماں اس کی طرف منہ پھیرتی ہے۔ بیٹا ذرا آگے بڑھ کر ’ہماری امی‘‘ کہہ کر صرف اپنی امی کو نہیں دنیا کی ہر امی کو مخاطب کر لیتا ہے اور جب امی مسکراتی ہے تو وہ اور آگے بڑھ کر ’’تم پیاری پیاری امی‘‘ کہہ کر اس سے لپٹ جاتا ہے
یہ طریقہ کار اس وجہ سے ہے کہ شاعر اس پیار اور محبت کو واضح کرنا چاہتا ہے جو ماں اور بیٹے میں ہے۔ اس پیار اور محبت کا اظہار اصولاً بیٹے کی زبانی ہونا چاہیے کیونکہ وہی ماں سے مخاطب ہے اور وہی ان ’’جلوہ گاہوں‘‘ کی نشاندہی کر سکتا ہے جو ماں کے پیار اور محبت سے جگمگا رہی ہیں۔
بچے کی یہ فطرت ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس کے متعلق پوچھنا چاہتا ہے کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے۔ اس کی تحیر آفرینی، گویا اس کی اوّلین کیفیت ہے جس سے طرح طرح کے سوال پھوٹ نکلتے ہیں، رئیس فروغ نے بچے کی یہ استفہامیہ کیفیت، اپنی متعدد نظموں میں سمیٹ لی ہے مثلاً
آپ ہی کہیے، ہم کیا کہیں
(آپ کہ ہم)
ہم کبھی کبھی یہ سوچتے ہیں
اتنے پھول کہاں سے آئے، خوشبو کیا ہے، رنگ ہے کیا
بہتے دریا اڑتے بادل، ان دونوں کا سنگ ہے کیا
ہم کبھی کبھی یہ سوچتے ہیں
(آپ بھی سوچیے)
آپ بھی سوچیے بڑا معنی خیز عنوان ہے آپ بھی سوچیے یعنی ہمارے سوالوں کا جواب دیجیے
چھائے ہیں آسماں پر کتنے ہزار بادل
لائی ہوا کہاں سے اتنے ہزار بادل
(کتنے ہزار بادل)
آخر میں طلعت حسین کی رائے نقل کرتا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ رئیس فروغ کے بارے میں اس سے بہتر رائے دے سکتا ہوں۔
’’ہم سب انہیں دادا کہتے ہیں اور تو اور قمر جمیل بھی انہیں ’’دادا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا سبب ان کی عمر نہیں، ان کی طبیعت کی وہ نرمی اور محبت ہے جو لفظ ’’دادا‘‘ کے علاوہ کسی اور لفظ سے ادا نہیں کی جا سکتی اب دادا اگر بچوں کے گیت لکھیں گے تو کیسے لکھیں گے۔
جواباً عرض کروں گا کہ یہ ایسے گیت لکھیں گے جیسے وہ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔
٭٭٭