یہ بہت دنوں کی بات نہیں ہے، میں اپنے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھا آسمان دیکھ رہا تھا۔ اور میرے ساتھ ثروت حسین، صابر وسیم، اجمل کمال اور رفیق نقش تھے۔ تب ہمیں نہیں معلوم کیا ہوا ہر شخص رئیس فروغؔ کے شعر سنا رہا تھا۔ اور اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ دو شاعر ایسے ہیں جن کی کتابوں کا شدت سے انتظار ہے۔ جونؔ ایلا اور رئیس فروغؔ۔ مجھے یاد آیا میرے پاس ایک کیسٹ ہے جس میں ٹیلی ویژن کے ایک مشاعرے کی ریکارڈنگ ہے۔ میں نے کیسٹ کیو کیا اور رئیس فروغؔ کی غزل بالکونی میں آسمان دیکھنے والوں کو سنانے لگا۔
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو جلا تو میں بھی ہوں
تلاش گمشدگاں میں نکل چلوں لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں
مرے لیے تو یہ جو کچھ ہے وہم ہے لیکن
یقیں کرو نہ کرو واہمہ تو میں بھی ہوں
عجب نہیں کہ مجھی پر وہ بات کھُل جائے
برائے نام سہی سوچتا تو میں بھی ہوں
زمیں پہ شور جو اتنا ہے صرف شور نہیں
کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں
میں دوسروں کے جہنم سے بھاگتا ہوں فروغؔ
فروغؔ اپنے لیے دوسرا تو میں بھی ہوں
میں نے کیسٹ بند کر دی۔ مجھے یا میرے دوستوں کو کسی دوسرے شاعر سے اس وقت دلچسپی نہیں تھی۔ شاید ہم رئیس فروغؔ کی اس غزل سے باہر نہیں آنا چاہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جب میں دوبارہ یہ کیسٹ سنوں گا تو بہت روؤں گا۔ کیونکہ اخبار والا میرے گھر میں دکھ پھینک گیا ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر رئیس فروغؔ انتقال کر گئے۔ میں تو سمجھا تھا کہ کتاب کی رونمائی کی خبر ہو گی، لیکن نہیں۔ سینے پر آ کر ایسا پتھر لگا کہ دل دھڑکنا بھول گیا۔
اخبار والے پتھر کے حرف کیسے لکھتے ہیں۔ معلوم نہیں۔ یہ انہونی باتیں کیسے ہو جاتی ہیں۔
ابھی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے ریڈیو پاکستان کراچی کے احاطے میں وہ اسپورٹ شرٹ پہنے مسکرا رہے تھے۔ صابر وسیمؔ نے کہا فروغؔ صاحب آپ اپنی شاعری کی طرح دن بدن جوان ہوتے جا رہے ہیں۔ اور وہ ایک شان سے مسکرائے کہ جیسے یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہو، نہ ان کا جسم ان کے اختیار میں ہو نہ ان کی روح، اور نہ ان کی شاعری۔ میں نے انہیں ہمیشہ بے اختیار دیکھا۔ بے انتہا محبت کرنے والا انسان۔
مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب محمود کنورؔ کی شاعری کی کتاب ’’والکینو‘‘ چھپی۔ محمود کنورؔ کراچی میں نہیں تھا۔ اس نے مجھے لکھا کہ میں ایک کتاب رئیس فروغؔ کو پہنچا دوں۔ جب میں نے کتاب فروغؔ صاحب کو دی کہ فروغؔ صاحب محمود کنورؔ کی کتاب۔ تو ان کی محبت دیدنی تھی۔ وہ بے اختیار کتاب کو چوم رہے تھے۔ کبھی ایک طرف سے اور کبھی دوسری طرف سے، ہمارے محمود کی کتاب ہے، ہمارے کنور کی کتاب ہے۔ ان کی آنکھیں جوش و جذبات سے بھیگ گئی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ اس شخص کے پاس محبت کے سوا کچھ نہیں، اتنی محبتیں کرنے والا شخص، اتنا خوبصورت آدمی۔
اب یہ شاندار آدمی ہم میں نہیں، پتہ نہیں کیوں دل نہیں کرتا یہ کہنے کو کہ وہ اب ہم میں نہیں۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ وہ اب ہم میں نہیں، وہ حبس کا شکار، رات بہت ہوا چلی ہو گی تو کہیں سو گیا ہو گا۔ وہ آئے گا اور پھر اپنے مخصوص انداز میں شعر سنائے گا۔
اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں اس کے علاوہ نہیں ہوں میں
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
رئیس فروغؔ کو معلوم تھا کہ وہ اس شہر میں پہنچ گئے ہیں جہاں موت ان کا استقبال کرنے کے لئے موجود ہے۔ لیکن وہ اس شہر جبر میں بھی صنعتی تضاد کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہے، اس کے باوجود اپنی زندگی میں اور اپنی شاعری میں کہیں بھی اپنے خاص مزاج سے ہٹے نہیں اور اسی لئے انہوں نے اپنی شاعری کے رومانی پہلو کو لہولہان ہونے کے ساتھ شگفتہ رکھا۔ ان کی شاعری میں گلاب خون کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں صرف گلاب نظر آتے ہیں۔ وہ موسم نہ میرا ہے نہ آپ کا، نہ رئیس فروغؔ کا، پھر بھی عجیب بات ہے اس موسم کی مہکار سے رئیس فروغؔ بھی گھائل ہے۔ اور اس کے حوالے سے ہم سب بھی گھائل ہیں۔
لہو کے رنگ میں اک بات ہے تمہارے لئے
ہمارے گھر یہی سوغات ہے تمہارے لئے
رئیس فروغؔ کی شاعری کا ایک موضوع ان کا شہر بھی ہے۔ شہر جو ان کے اندر ہے۔ شہر جو ان کے باہر ہے۔ جب وہ اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو اس طرح کہ::
ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں
اور جب وہ اپنے اس فلیٹ سے باہر نکلتا ہے تو بھی جبر اس کے ساتھ ہے۔ حالانکہ اس نے اس جبر کو اختیار کر لیا ہے لیکن سوال باقی ہے۔
جانے وہ کوئی جبر ہے یا اختیار ہے
دفتر میں تھوڑی دیر جو کرسی نشیں ہوں میں
اور سرِ شام جب یہ لہولہان مسکراہٹ اپنے شہر میں اترتی ہے تو اس طرح کہ::
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
رئیس فروغؔ کی شاعری میں آپ کو ایک ایسا شہر ملے گا جس کے درخت جنازوں کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ آدمی احساس کی سیکل سے گرے ہوئے، بسوں میں کھڑے ہوئے، لوگ گھر میں، گھر دھوپ میں، پھول والے شارٹ سرکٹ کی چنگاریوں کی زد میں اور بے یقین رئیس فروغؔ::
کس سے تصدیق کروں شہر کی بربادی کی
اب تو قاصد بھی نہیں ہوتے خبر کے ہمراہ
لیکن یہ رئیس فروغؔ کے شہر کا ایک پہلو ہے، دوسری طرف:
دھرتی سے ملے بادل ساتھی
موسم تو کرے پاگل ساتھی
ایسا ہے کہ اب کی برکھا میں
کنکر بھی لگے کومل ساتھی
یا پھر::
کسی خیال کی جھلک
جلا گئی ہے جسم تک
سبو نشیں تو کون ہے
اگر شراب ہے چھلک
بہارِ خواب گاہ بن
شکستِ ساز کی دھنک
کرن کا ساتھ ہے تو پھر
ہوا کے فرش پر تھرک
فروغؔ اپنے شہر میں
پئے بغیر ہی بہک
آپ کہیں گے کہ میں صرف رئیس فروغؔ کے شعر سنائے جا رہا ہوں، میرے پاس اپنی کوئی بات نہیں، تو پھر میری بات یہ ہے کہ رئیس فروغؔ کی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ آپ کی اپنی کوئی بات نہیں رہتی۔ ساری باتیں رئیس فروغؔ کی ہوتی ہیں، آپ تو صرف بہارِ خواب میں کرن کے ساتھ ہوا کے فرش پر تھرکنے والے ہوتے ہیں۔ شاعری کی دیوی آپ کو اپنی آغوش میں یوں لے لیتی ہے کہ آپ وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ نہ باتیں آپ کی ہوتی ہیں نہ سوچیں آپ کی۔ بس رئیس فروغؔ کی شاعری ہوتی ہے اور آپ ہوتے ہیں۔
بات رئیس فروغؔ کی شاعری کی ہو رہی ہے تو میں چونکہ اردو پڑھانے والے اساتذہ کرام میں سے نہیں ہوں۔ اس لئے بدیسی نقادوں کی طرح Definitions نہیں لاؤں گا۔ سیدھی سادی بات کروں گا۔ جہاں تک شاعر کا تعلق ہے تو میں محبوب خزاں کا ہمنوا ہوں::
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اور اس لئے میں یہ نہیں کہوں گا کہ رئیس فروغؔ فلاں شاعر سے اچھا تھا۔ اور فلاں زے برا۔ بس وہ شاعر تھا۔ اور رئیس فروغؔ کی شاعری پر بات کرنے کے لئے نصابی تعریفوں سے کام نہیں چلے گا۔ اس لئے میں ذاتی سمت سے آنا چاہوں گا۔ اور میری ذاتی سمت یہ ہے کہ شاعری شاعر ہونے کا دعویٰ ہے۔ اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ درخت عمارتیں جانور سب ہیں، لیکن شاعر پر ایک لمحہ ایسا گزرتا ہے جب اسے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے، بس اسی لمحے شاعر کے ہونے کا نام شاعری ہے۔ میرے نزدیک شاعری مکمل سچائی نہیں ہوتی۔ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا ٹوٹل سچائی نہیں ہے۔ خدا صرف روشنی نہیں ہے، خدا صرف نیکی نہیں ہے، خدا صرف حسن نہیں ہے۔ جس طرح خدا صرف ہے اپنی تمام تر علامتوں کے ساتھ اور مکمل علامتوں کے ساتھ اسی طرح شاعری صرف ہے۔ جس میں نیکی بھی ہے، بدی بھی، روشنی بھی، اندھیرا بھی، حسن بھی، بدصورتی بھی۔ کیونکہ ہر دو ہونے یعنی بدصورتی اور حسن اپنی انفنٹی (مع) کی صورت میں ایک ہو جاتے ہیں، شاعر اسی لمحے میں ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ رئیس فروغؔ کی طرح::
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
رئیس فروغؔ فوٹو گرافر نہیں تھے کہ As it is تصویر اتار کر ہاتھ میں تھما دی، وہ پینٹر تھے۔ آرٹسٹ تھے جو قدرت کے حسن میں اضافہ کرتا ہے، Add کرتا ہے۔
آج کے بعد جب بھی حسن کی تخلیق کا ذکر ہو گا، وہاں خدا کا ذکر بھی ہو گا اور رئیس فروغؔ کا بھی۔
رئیس فروغؔ سوچتا رہا اور چلا گیا اور یہ شعر ہمیں دے گیا::
مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
اک سوچ ہے اور سناٹا ہے
٭٭٭