رات بہت ہوا چلی، کوئی زلزلہ آیا یا کوئی سیلاب تھا۔ مجھے کچھ ہوش نہیں۔ اب دن چڑھ آیا ہے۔ اور میں ایک مکان کے ملبے پر خاموش بیٹھا ہوں۔ سامنے ایک لاش ہے ایک لڑکے کی لاش جس کے بال سفید ہیں۔
آسماں سورج کے بیٹے کو جگا
سو گیا کیسے یہ لڑکا دھوپ میں
میں اٹھتا ہوں اور ملبے سے ٹوٹی پھوٹی چیزوں کو اکھٹا کرتا ہوں، یادیں، باتیں، خواب، ملاقاتیں، صبح اور شامیں، کچھ بھی تو سالم نہیں رہا۔ دس سال پہلے کی ایک دوپہر یاد آتی ہے۔ میں رحمٰن کورٹ کی سیڑھیاں چڑھتا اوپر پہنچا ہوں۔ قمر جمیل کہتے ہیں ثروت ملو یہ رئیس فروغؔ ہیں۔ میز کے ایک کونے سے ایک ہاتھ بڑھتا ہے۔ میں رئیس فروغؔ کی طرف دیکھتا ہوں۔ سفید بال اور چمکدار آنکھیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ دن گزرتے جاتے ہیں۔ عزیز آباد میں قمر جمیل کا گھر نئے لکھنے والوں کے لئے سائبان، محمود کنور، فاطمہ، عذرا، سید ساجد اور نہ جانے کتنے ہی نئے لکھنے والے قمر جمیل کے گرد جمع ہیں اور اس تمام شور میں ایک آواز جو سب سے زیادہ پر جوش ہے، رئیس فروغؔ کی ہے۔ وہ اپنی غزلوں، نظموں اور ترجموں کے ساتھ نئے طرز احساس کی ترویج میں پیش پیش۔
یہ ایک رات ہے۔ انوپا کے گھر پروگرام بنتا ہے کہ ساحل سمندر پر چلا جائے۔ سمندر کے نام پر رئیس فروغؔ کی آنکھوں میں چمک اور گہری ہو جاتی ہے۔ کلفٹن کے ساحل پر لہروں کا شور اور روشنیاں ایک خواب کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ رئیس فروغؔ ایک نظم کے ساتھ لوٹتے ہیں، ’’انوپا کی رات سمندر میں کیا ہوا‘‘۔
فروغؔ بھائی ایران کیسا لگا۔ ان کے چہرے پر کتنے ہی رنگ دمک اٹھتے ہیں اور وہ ایران کے سفر کا احوال اس طرح سناتے ہیں جیسے کوئی خوبصورت خواب ان گنت شامیں اور راتیں۔ فروغؔ صاحب اپنا جہنم اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ریستورانوں، سڑکوں اور مکانوں میں اپنی تمام سرخوشی اور سرمستی کے ساتھ نوجوانوں کو اپنے رنگوں سے حیران کرتے جاتے ہیں:
کیسی باتیں ہیں جاناں تری ہر بات کے ساتھ
در و دیوار کی رنگت بھی بدلتی جائے
یہ زیلن کافی ہاؤس کی ایک شام ہے، قمر جمیل اور محبوب خزاںؔ ’’دادا‘‘ سے غزل کی فرمائش کرتے ہیں، فروغؔ صاحب اپنے شرمیلے پن کے ساتھ مطلع پڑھتے ہیں:
مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
اک سوچ ہے اور سناٹا ہے
وہ موت کو ایک تجربے کے طور پر قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے، جہاں تک کہ پہلے ہارٹ اٹیک کے بعد جب موت بالکل ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی وہ پھر بھی تلخ اور خوفزدہ نہیں ہوئے:
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
کس جنازے کے انتظار میں ہیں
راستے کے درخت محرابی
خرام عمر ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ ترے زیر پا تو میں بھی ہوں
فروغ بھائی مجموعے کا نام کیا رکھا، موت سے کچھ دن پہلے کمرشیل سروس کے کمرے میں ان سے بات ہوتی ہے، ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں کہتا ہوں فروغ بھائی کوئی کمی ہے اس نام میں، اچھا اگلی ملاقات میں بات ہو گی فروغؔ صاحب کہتے ہیں۔ پھر دوسرے دن اخبار بتاتا ہے رئیس فروغؔ ابدی نیند سو گئے:
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی
دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
فروغؔ صاحب نے کتاب کے نام کو اپنی موت سے مکمل کر دیا۔ فروغؔ صاحب کی شاعری رنگوں میں بھیگے ہوئے جنگل کی طرح پرک‘‘ اور بارش کے بعد کی ہوا کی طرح نم آلود ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے دکھ اور محرومیاں جب شگفت پاتے ہیں تو ان کی بہار ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ رنگوں کا یہ لہجہ احساس اور لہجے کا یہ سبک پن، اردو شاعری میں بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔
اپنے ساتوں رنگ لئے
سندر بن میں اتر چلوں
پھر مری خوشبو تیز ہوئی
پھر کوئی شعلہ ہاتھ میں لوں
تو نے تو میگھ راج کو نہلا کے رکھ دیا
ساون کی ایک شام ترے ہاتھ کیا لگی
اس ہری شاخ نے بازو تو بہت پھیلائے
ابرِ آوارہ تلک ہاتھ نہ جانے پائے
انتظارِ ابر کھینچا عمر بھر
روز میرا مور ناچا دھوپ میں
کچھ تو تیرے حسن سے لوں
خوشبو کی پہچان سہی
تیرا سپنا دیکھ سکوں
پھر آنکھیں ویران سہی
رئیس فروغؔ کے یہاں زندگی اپنی تمام رنگینیوں اور رنگو کی شکست کے ساتھ نمودار ہے۔
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
دریا تھے اور ان کی گزرگاہ تھی مگر
اب کے سجے سجائے گھروں سے گزر گئے
رفوگر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہیں
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا
وہ اک ہجوم تھا گرتے ہوئے درختوں کا
پکارتے تھے سہارا ملے سہارا ملے
کوئی ایسا ہو کے دیکھے جائے
میں جہاں تک نظر آئے جاؤں
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
تری تصویر جو دیکھی اس بار
رنگ پھیلے ہوئے پائے میں نے
جانے کس خواب کی دھن میں ہر رات
نیند کے جال بچھائے میں نے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
مل گئی ہے جو تھکن گھر بیٹھے
کس مشقت کا صلہ کہلائے
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا
احمد پرویز کی موت پر رئیس فروغؔ کئی روز اداس رہے۔ اور یہ شعر کہا:
تصویر بنانے کا مرض لے گیا اس کو
اک شخص تھا پرویز ابھی کل ہی مرا ہے
ہمارے اس دوست کو بھی تصویر بنانے کا مرض لے گیا:
چہروں کی ندی بہتی ہے مگر
وہ لہر گئی وہ کنول گیا
٭٭٭