ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے رفتگاں کا ہجوم ہوا نے دیکھ لئے ہیں چراغ سب میرے
اپنے شعر سے کسی بھی تحریر کا آغاز ایک طرح کے احساس کمتری پر بھی مبنی ہوتا ہے، مگر احساس کمتری کا ہونا یا نہ ہونا اس وقت اپنی شکل بدل دیتا ہے جب منڈیر پر روشن چراغ بدلنے کے بجائے بجھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ طاق پر روشن ایک سے ایک دیے یکے بعد دیگرے ہمارا ساتھ چھوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ دیے ایک سے نہ ہوتے ان کی روشنی میں ہم آہنگی نہ ہوتی، ان کے نور میں یکسانیت نہ ہوتی تو شاید میں اس تحریر کا آغاز
’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘
جیسے مقبول عام شعر سے کرتا یا پھر براہ راست میں فروغؔ کی موت سے ہی شرو ع ہوتا۔ رئیس فروغؔ جسے میرے بڑے اور خود رئیس فروغؔ کے بڑے ’’دادا‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان پر جب دورہ پڑا تو انہوں نے اپنی ایک غزل میں بھی ذرا ذرا ڈرا کے اشارے سے ہم بے خبروں کو متنبہ کرنے کی سعی لاحاصل کی تھی اور ہم کم آگاہ لوگ ان کے اشارے کو نہ سمجھ سکے، ویسے بھی کتنے ہیں جو ان کی شاعری سے آگاہ رہے۔ مگر جب انھوں نے یہ کہا تھا کہ:
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے، والے مصرعے میں جو اعتماد، استقامت اور یقین ہے اس سے رئیس فروغؔ نظر انداز کئے جانے کے باوجود قلندرانہ انداز میں شعر کہتے رہے۔ نظمیں ترجمے اور ننھے بچوں کے لئے گیت لکھتے رہے۔ انہیں ننھے منے بچے، پرندے، شام کی دھندلی فضا، صبح کا طلوع اور اشیاء کا لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہونا ہمیشہ اچھا لگتا رہا۔ وہ مفکرانہ خیالات کی جگہ اپنی شاعری میں تخیلاتی سفر پر زیادہ گامزن رہتے تھے، ان کے اس سفر کا ناقدانہ تجزیہ تو ہمارے نقاد ہی کر سکتے ہیں، مجھے تو یہ بات ہی تنگ کرتی ہے کہ آخر ہوا کی چشم خشونت آمیز میرے ہی چراغوں پر کیوں پڑتی ہے۔ بات ذرا خود غرضی کی ہے مگر پچھلے تین چار برسوں میں ایک ہی صف کے سارے افراد صرف اسی بنیاد پر ہمارے درمیان سے اٹھا لئے جائیں کہ اس صف کی کوششیں مثالی معاشرہ قایم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ کامیابی اور ناکامی خدا کے ہاتھ میں ہے مگر مشیت ایزدی کی یہ مصلحت بھی ہمیں سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرتی ہے مگر ہم اقبال کا یہ مصرعہ تو دہرا ہی سکتے ہیں کہ:
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
میری سنی سنائی معلومات کے مطابق رئیس فروغؔ بھی تمام عمر قریباً عالم بے چارگی میں رہے، مگر تحقیقی سطح پر انہوں نے بے چارگی کو کبھی اپنے قریب پھٹکنے بھی نہ دیا۔ وہ حوصلہ مندی سے کہتے رہے:
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
یہ ایک منقسم المزاج شخص کا شعر نہیں ہے۔ یہ ایک ماتم کناں شخص کا المیہ ہے۔
نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں
کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پلا دینا
فروغؔ صاحب کے اس شعر سے بھی ان کی زندگی کے متعدد گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ میں نے انہیں ہمیشہ اپنے ہم عصروں کو داد دیتے اور کم عمروں کی حوصلہ افزائی کرتے دیکھا ہے۔ حوصلہ افزائی اور دوسروں کا بھی جی رکھنے والے اس شاعر کی فراخی دل کا اس سے زیادہ میں کیا ثبوت دے سکتا ہوں کہ انہوں نے میرے بے شمار خراب اشعار پر بھی ایسے داد دی کہ مجھے ان کی شعر فہمی تک پر شبہ ہونے لگا۔ مگر آپ یقین جانیے میں نے ہمیشہ ان کے اس عمل کو ان کے کشادہ سینہ، اعلیٰ ظرفی پر ہی محمول کیا مگر چونکہ ان کا ایقان سانپوں کو دودھ پلانے تک پر تھا لہٰذا وہ اپنی فطرت سے باز نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے ارد گرد جو سانپ تھے ان کا ذکر یہاں کچھ انسب نہیں۔ آپ اپنی فوری تسلی کے لئے ایک میرا نام لے لیں۔ مگر افسوس مجھے ان کے ارد گرد بحیثیت ایک سانپ کے بھی رہنے کا اعزاز حاصل نہ ہو سکا۔
عشق کو اتنا کارِ مسلسل بنانے پر تلے کہ فروغؔ صاحب اپنی شروع کی شاعری میں اپنے لئے ایک لمحہ بھی پس انداز کرنا بھی انہیں دشوار ہو گیا۔ جب وہ اس لمحے سے گزرے تو گیند وقتی طور پر سہی مگر ان کے کورٹ سے نکل چکی تھی۔ میرے خیال میں شاید مجید امجد مرحوم کا یہ شعر میرے خیال کی ترجمانی کرے:
اور اب یہ چاہتا ہوں جرم یہ روا رکھتا
میں عمر اپنے لئے بھی تو کچھ بچا رکھتا
جب آدمی اپنے لئے عمر کے سلسلے میں سوچنے لگتا ہے تو یہ بڑا جانکاہ لمحہ ہوتا ہے۔ رئیس فروغؔ نے اپنے لئے عمر بچائی یا نہیں مگر دوسروں پر صرف بہت کی اور اس کے گواہ بہت ہیں، ایک بار انہوں نے لکھا:
لڑکیاں روشنیاں کاریں دکانیں شامیں
انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
روحانی طور پر فروغؔ صاحب ہمارے بیچ نہ سہی مگر یہ بتا گئے کہ جسمانی طور پر وہ آپ کو کہاں مل سکتے ہیں، کل شام ان کی بتائی ہوئی پانچوں چیزوں میں ان کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔ وہ مجھے تو نہیں ملے خیال آ رہا ہے ان نشانیوں میں جمع کا صیغہ قدر مشترک ہے اور میری کاوش صرف ایک شام تھی۔ ایسا بان کا اور سجیلا شاعر ہم میں سے ایکا ایکی اٹھ گیا جو تصویرِ حیات تک میں منکسر المزاج تھا، رئیس فروغؔ نے کہا:
کوئی پیراک نہیں ہم ایسے
وہ تو دریا ہی رواں ایسا ہے
دریائے فن کا پیراک جب گزاری جانے والی حیات کی ہیبت کا شکار ہو جائے تو انجام دل کے دوسرے دورے اور سفر دوسری اور ابدی زندگی کی جانب شروع ہو جاتا ہے۔ رئیس فروغؔ اب نہیں رہے، شمیم نوید ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت میں دل و جان کے ساتھ کوشش میں مصروف ہے۔ ان کے پس ماندگان پر کیا گزر رہی ہے۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ بہرحال ہے۔ ان کے دوستوں اور اقرباء کا عالم کیا ہے؟ یہ سب پر عیاں ہے۔ اگر انہیں صبر نہیں آ رہا ہے تو یہ حق بجز خدا کوئی ان سے نہیں چھین سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو یہ قابل احتجاج امر ہے۔
فروغؔ صاحب کے جنازے میں کون شریک تھا اور کون شریک نہ ہو سکا، میں بہرحال نہیں تھا۔ جنازے میں شریک ہونے والوں کا رویہ کیا تھا اور نہ شریک ہونے والوں پر کیا فقرے بازی ہوئی۔ یہ اڑتی ہوئی خبریں مجھ تک زبانی طیور کے پہنچ گئی ہیں۔ فقرے بازی کا فی الحال نہ تو یہ محل ہے نہ میرا موڈ۔ دوسرے یہ کہ مجھ پر فی الوقت اک ایسے ملازم پیشہ شخص کی کیفیت طاری ہے جو مہینے کی آخری تاریخوں میں ہے۔ پہلی تاریخ کو تنخواہ ملنے پر کم از کم فقرے بازی والا قرض تو چکا دوں گا۔ رہی میری موجودہ کیفیت تو وہ یہ ہے:
میں اب کبھی نہ دکھوں گا کسی کے مرنے سے
کہ شب گزار کے مہمان جایا کرتے ہیں
رئیس فروغؔ کا ایک شعر ہے:
شارٹ سرکٹ سے اڑیں چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
میرے لوگو، اک پھول والا اور جل گیا ہے اور جب پھول والے جلنے شروع ہو جائیں تو دئیے خود بخود بجھنے لگتے ہیں۔ اندھیرا بڑھنے لگتا ہے، بصارت ساتھ چھوڑ دیتی ہے، اب اپنی بصیرت بھی گنوا لی تو گنوا لو اور فقرے بازی کرو مگر یاد رکھو کہ ایک پھول والا اور جل چکا ہے۔
٭٭٭