رئیس فروغ بہت پیارا انسان تھا۔ اس کی شانت پرچھائیں سے ہمیشہ پیار کی روشن روشن لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں مروت اور محبت کے لال ڈورے کچھ زیادہ ہی تھے۔ آپ معمولات زندگی کی یکسانیت سے کتنے ہی اُکتائے ہوئے ہوں۔ اس سے مل کر تازگی کا احساس پیدا ہونا لازمی تھا۔ اس کی شخصیت کی ساری دلکشی اور تمام حسن اسی سبب سے تھا کہ وہ پیار کے رشتے کو دنیا کے ہر تعلق پر ترجیح دیتا تھا۔ آج وہ ہم میں نہیں ہے۔ فرشتۂ اجل اس کو ہم سے جدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ایک میٹھی میٹھی سی یاد باقی ہے جو عرصہ دراز تک خلش کی صورت دلوں میں زندہ رہے گی۔
اُس نے یہ جو کہا تھا کہ:
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
تو اپنے اس کہنے پر اس نے ساری عمر سختی کے ساتھ عمل بھی کیا۔ نتیجۃً قبل از وقت گھر والوں اور احباب کو داغ مفارقت دے گیا۔
رئیس فروغؔ اپنی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کے حوالے سے یاد رہ جانے والا انسان تھا۔ اُس نے نئی، اچھی اور اچھوتی غزلیں کہیں۔ نثری نظمیں لکھیں۔ اس سائنسی اور صنعتی عہد کے بچوں کے لئے کومل کومل شاعری بڑی کامیابی کے ساتھ کی۔
اس نے کس خود اعتمادی کے ساتھ کہا تھا:
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
رئیس فروغؔ کی غزل نئے دور کے پیچ در پیچ حالات و ماحول کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے بھی اپنی روایت سے بڑی تمکنت کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔ اس کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے جو غزل کی قدر و قیمت بڑھانے کے ساتھ ہی غزل کی ناموس کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
داغ رہنے کے لئے ہوتے ہیں رہ جائیں گے
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں رو پوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
زندگی یاد رکھنا کہ دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
مرے کارزار حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں۔
قیام پاکستان سے قبل لوگ ایک کنبے کی صورت میں معاشرے کے ساتھ قدم ملا کر چلتے تھے۔ کسی ایک ہی شخص کے کاندھوں پر سارا بوجھ نہیں آ پڑتا تھا۔ سماجی ذمہ داریوں کو مل بانٹ کر پورا کیا جاتا تھا۔ انسانی زندگی ویران اور بنجر تنہائی کے احساس سے آشنا نہیں تھی۔ یہ بالعموم آج کے سائنسی اور صنعتی دور بالخصوص پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کی کرشمہ سازی ہے کہ یہاں فرد نیم دیوانگی کی سی کیفیت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ تنہائی، غیر یقینی اور بے بسی کے احساس نے حوصلہ شکن حالات پیدا کر کے ہر طرف مایوسی کی ایک لہر سی دوڑا دی ہے۔ رئیس فروغؔ معاشرے کا ایک حساس فرد ہونے کے ناطے اس لہر کی لپیٹ میں کچھ زیادہ ہی آیا۔ لہٰذا اس کی غزل میں زندگی کے اس پہلو کا اظہار بڑی سچائی کے ساتھ ہوا۔
آج سے پینتیس سال پیشتر گھر سے جو راحت و مسرت کا ایک تصور ابھرتا تھا وہ اب پارہ پارہ ہو کر رہ گیا ہے۔ لفظ گھر اپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ اب کسی ذہن میں موجود نہیں ہے۔ اس المیے کی عکاسی رئیس فروغ نے اپنے مخصوص رنگ و آہنگ میں بھرپور تاثر کے ساتھ کی ہے۔
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک میرا حال تماشہ ہے
گھر جو آباد کیا ہے تو یہ سوچا میں نے
تجھ کو جنت میں رکھوں آپ جہنم میں رہوں
دیواروں پر داغ لہو کے
پتھریلی انگنائی ہے
امید و خوف ناچتے ہیں
وہ ناچ گھر ہے مکان کیا ہے
اپنے آنگن کو کہوں
حادثوں کی سرزمیں
دھوپ مسافر چھاؤں مسافر آئے کوئی کوئی جائے
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے کہ رستہ ہے
ہمارے دور میں ہر شعبہ زندگی کو مسابقت اور زرکشی کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ اس مہلک مرض نے انسان سے سکھ چین چھینا سو چھینا، خواب دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیا۔ خواب اول تو آتے ہی نہیں، آتے ہیں تو ڈراؤنے اور وحشتناک ہوتے ہیں۔ اسی کیفیت کی کربناکی کو رئیس فروغ نے کس قدر پر بصیرت انداز میں شعر کا روپ دیا ہے::
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی
پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہو گا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے
لیکن شاعر ہر قسم کے دباؤ، بکھراؤ اور تناؤ کے حصار میں رہتے ہوئے بھی سندر سپنے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اچھے خواب زندگی کے حسن میں اضافے کے لئے ضروری ہیں :
میں اب تک اس خواب میں ہوں
دیکھا تھا جو بچپن میں
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا
جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا
ویسے تو یار میں بھی تغیر پسند ہوں
چھوٹا سا ایک خواب مجھے بھولتا نہیں
میں راتوں کا دریا ہوں
خوابوں کو شاداب کروں
آنکھ جو ہم کو دکھاتی ہے وہ ہم کیا دیکھیں
دیکھنا ہے تو کسی خواب سے کم کیا دیکھیں
اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغؔ
خواب ہی خواب دکھائے جاؤں
ہمارے معاشرے میں ایک اور انسانی روش نے وبا کی سی صورت اختیار کر لی ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو، اپنے گھر کو اور اپنے معاشی مراکز کو غیر ضروری سامان سے آراستہ کرنے کا مریضانہ شوق۔ معاشرے کا ہر فرد اپنے گھر میں دنیا بھر کی چیزیں سمیٹ لینے کی جدوجہد پر اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ رئیس فروغؔ نے آج کے اس اہم مسئلے پر بھی ایک سچے شاعر اور فنکار کی طرح غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچنے میں وہ حق بجانب ہے کہ آج کا انسان اندر سے ویران ہو چکا ہے۔ لہٰذا اندر کی ویرانی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمہ وقت باہر کی سجاوٹ میں مصروف ہے::
دل کی ویرانیاں چھپانے کو
جتنے شو کیس تھے سجائے گیا
وہ راستوں کو سجاتے رہے انھوں نے کبھی
گھروں میں ناچنے والی بلا سے کچھ نہ کہا
اردو غزل میں محبت کی تمام تر کیفیات زیادہ تر ہند مسلم تہذیبی اقدار کے سائے سائے ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ فراق نے جِنس کا جو ایک پاکیزہ شعور اپنی غزل اور رباعی کے ذریعہ عام کیا وہ بھی مشرقی تہذیب کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھ سکا۔ بعد کے شعرا نے محبت کے مادی پہلوؤں پر مغربی افکار کی روشنی میں کچھ توجہ کی تو وہ جسمانی لذت کے سیلاب میں بہہ گئے۔ محبت اور جنس کے فطری تقاضوں کے نتیجے میں جو مسئل و معاملات سر ابھارتے ہیں، ان کی دھوپ چھاؤں کا تخلیقی سطح پر بہت کم اظہار ہوا۔ رئیس فروغ نے اس مقام پر بھی اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس کی غزل میں گوشت پوست کی عورت سامنے آئی ہے لیکن بڑی ترقی اور شائستگی کے ساتھ۔
پاگل پنچھی بعد میں چہکے پہلے میں نے دیکھا تھا
اس جمپر کی شکنوں میں ہلکا سا رنگ بہاراں کا
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
اک شور ہے بدن میں کہ اب وصل بھی کرو
کیسی یہ میرے عشق کے پیچھے بلا لگی
جیسے دنیا میں کہیں اور کوئی جسم نہیں
اپنے جسم کی مٹی سے بہلتی جائے
ہاتھ ہیں آگ نہ انگار ہیں بانہیں میری
پھر بھی وہ موم کی مریم تو پگھلتی جائے
آنکھوں کی چنگاریوں سے
اس کا بازو بچا نہیں
اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
۱۹۵۸ء کے بعد غزل میں فکر و احساس کی نئی لہریں اٹھنا شروع ہوئیں تو اس وقت فراق اور فیض کی غزل کا جادو اردو شاعری کے پورے افق پر چھایا ہوا تھا۔ حفیظ ہوشیارپوری، باقی صدیقی، ناصر کاظمی، عزیز حامد مدنی، جمیل الدین عالی، سلیم احمد، ظفر اقبال، منیر نیازی، احمد فراز اور فرید جاوید جیسے شعراء گلستانِ غزل کی آبیاری میں مصروف تھے۔ جن نئے شعراء نے اس دور میں غزل کو فکر و احساس کی نئی فضا سے آشنا کیا ان میں شکیب جلالی، اطہر نفیس، ساقی فاروقی، احمد مشتاق، سحر انصاری، کشور ناہید، شہزاد احمد، عبید اللہ علیم، جون ایلیا، انور شعور، رضی اختر شوق اور اقبال ساجد کے علاوہ بہت سے دوسرے قابل ذکر شعراء شامل ہیں۔ رئیس فروغ بھی اسی دور میں سامنے آیا اور اپنی منفرد اور رسیلی آواز کے ساتھ اس قافلے میں شریک ہوا۔ اس نے اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لانے کے لئے جو لب و لہجہ غزل میں اختیار کیا وہ اپنی دلکشی اور اثر انگیزی کے اعتبار سے بڑی توانا حیثیت رکھتا ہے۔
رئیس فروغؔ غزل کی شاہراہ پر ایک توازن اور ہمواریت کے ساتھ چلتے چلتے نثری نظم کی پر از امکانات گلی میں مڑ گیا تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئیے۔ ہر اچھا شاعر تبدیلی منظر کی ضرور کسی وقت محسوس کرتا ہے۔ وہ بہر کیف بنیادی طور پر غزل ہی کا شاعر تھا۔ جذبات و محسوسات اور مشاہدات و تاثرات کے تخلیقی اظہار کے لمحوں مین اس کے دل و دماغ میں جو فضا تخلیق کی ہے وہ بالکل نئی ہوتے ہوئے بھی غزل کے مزاج و آہنگ سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ حالات ساتھ دیتے اور عمر وفا کرتی تو وہ اردو شاعری کے سرمائے میں غزل کے حوالے سے کچھ اور قیمتی اضافے کرنے میں ضرور کامیاب ہوتا۔
٭٭٭