عشق کے کارِ مسلسل میں کوئی لمحہ پس انداز نہ کرنے کے باوجود بھی رئیس فروغؔ کو ایک نامعلوم لمحہ پس انداز کرنا ہی پڑا۔ یہ وہی لمحہ تھا جس کے لئے میرؔ کہتے ہیں کہ::
کس لئے آئے تھے ہم کیدھر چلے
کامل القادری اور رئیس فروغؔ کے درمیان جو خاموش مفاہمتیں تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ تو چل میں آیا۔ رئیس فروغ سے چند دن ملنے کے بعد ۲ جولائی کو کامل القادری نے رہ لی۔ ۵ اگست کو یہ دوسرا واقعہ ہوا۔ یوں دونوں کے درمیان ۳۴ دن کی دوری رہی۔ بالکل وہی قصہ جو فراق اور جوش کا تھا۔ دونوں بچوں کے لئے لکھتے تھے، بچہ بن کر لکھتے تھے اور اس کام کے لئے بچوں کے جھمگھٹے میں رہا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رئیس فروغ کے بعض سنجیدہ اور نہایت نرم و نازک شعروں کو بھی بچے آسانی کے ساتھ سمجھتے تھے۔ یہاں نمونے کے لئے ایک سنتے چلیے:
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
وہ سیدھے سادھے اور معصوم سے انسان تھے، کم بولتے تھے، زیادہ سوچتے تھے۔ نرم دل اور انسانیت پرست تھے۔ پہلی بار میری ان سے ملاقات ۱۹۷۶ء میں ہوئی، ان دنوں میکش مرحوم زندہ تھے۔ اور روزانہ ہماری بیٹھک وہیں ہوتی تھی۔ اس مقام پر وہ بھی آ جایا کرتے تھے، کیونکہ ان کے مراسم مسعود میکش سے بے حد دوستانہ تھے۔
’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے بچوں کے لئے کہی گئی ان کی نظموں کا مجموعہ ۱۹۸۰ء مین شائع ہوا تو اس سال پاکستان چلڈرنس اکیڈمی کراچی نے انھیں اسماعیل میرٹھی گولڈ میڈل دیا۔ اس زمانے میں ہماری ان سے ملاقاتیں رہیں۔ رئیس فروغؔ ان لوگوں میں سے تھے جن کو آج کل کے تاجرانہ معاشرے میں شریف، مہذب کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر عموماً تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے تجارتی معاشرے نے جس کا سارا ڈھانچہ انسانی اقدار کی نفی پر بنا ہے، علم و ادب اور فکر و فن کی دنیا کو بھی اسی طرح آلودہ کررکھا ہے جس طرح شور و ہنگامے اور ڈیزل کے دھویں نے اسی لاکھ آبادی والے شہر کراچی کو چاروں طرف سے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہماری پڑھی لکھی نسل اور جوان پروڈکشن سے اس معاشرے کو جدید اور ترقی یافتہ سمجھنے لگی ہے، رئیس فروغ کی شخصیت اس جدیدیت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی تھی۔ اس لئے وہ پاکستان کے اس اکلوتے بین الاقوامی شہر میں تنہا تنہا اور کھوئے کھوئے رہتے تھے۔ وہ یقیناً اپنی شخصیت کو دو حصوں میں بانٹ نہیں سکے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو پاکستان کے ان چند بڑے لکھنے والوں میں ہیں جو خالی ہاتھ آئے تھے اور جاتے وقت کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے۔ مرنے والوں کی یہ صورت حال بجائے خود اس شرافت، دردمندی اور انسان پرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو ہمارے یہاں چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے نہیں ملتی ہے۔ اور اگر کہیں ہے تو اسی طرح کھو جاتی ہے جس طرح وہ کھو گئے، انہیں اس حقیقت کا احساس رہتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں::
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
یہ وہ کرب ہے جو ہمارے یہاں ہر اچھے، سچے اور جینوئن فنکار کے ذہن اور اعصاب کو گھن کی طرح چاٹے جا رہا ہے۔ رئیس فروغ حساس اور سوچنے والے انسان تھے۔ بہت سی سوچوں کو جھٹک کر باہر پھینک دینے کے باوجود ان کو دوبارہ احساس کے پردوں میں ڈھانپ لیتے تھے اور اس طرح زہر غم کو رگ و پے میں اترنے دیتے تھے۔ اس قسم کے غم ان کو کھا گئے۔ ان غموں میں ذاتی اور اجتماعی دونوں ہی شامل تھے۔ ان کی شعری کائنات میں جمالیاتی محسوسات کی نزاکتیں اور ذاتی خلوص کے اثر سے پیدا ہونے والی وارداتیں بولتی ہیں۔ وہ تاثر کے شاعر تھے چنانچہ ان کی زبان میں تاثیریت impressionismکا جادو بولتا ہے اور اپنے معنی و مقصد کو قاری تک پہنچاتا ہے۔ وہ خود تو موجود نہیں ہیں لیکن چند اشعار ان کا آپ سے تعارف کرواتے ہیں::
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
جب تری یاد کا طوفان گزر جائے گا
دل کسی اور سمندر میں اتر جائے گا
دشت سے دور سہی سایۂ دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا
دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اتر جائے گا
مرنے سے چند دن پہلے انہوں نے کہا تھا
فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا
وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا
٭٭٭