طبع شدہ: روزنامہ اوصاف کراچی 24 اگست 2016ء
سفر میں جب تلک رہنا گھروں کی گفتگو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا
رفوگر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہیں
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
غمِ ناآگہی جب رقص وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لا کر وضو کرنا
جنہیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو
وہ شاخیں کاٹ لانا پھر انھیں زیب گلو کرنا
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا یا لہو کرنا
قارئین کرام!
یہ خوبصورت غزل جو حسین الفاظ، جمیل مصرعوں اور رئیس اشعار پر مشتمل ہے، اپنے عہد کے ایک ممتاز، یا یوں کہیے کہ عہد ساز شاعر جناب رئیس فروغؔ مرحوم کے ذہن رسا کا شاہکار ہے۔ رئیس فروغؔ گزشتہ 36 سے 45 برس کے درمیان جدید غزل کی سوغات وضع کرنے میں مصروف رہے۔ یہ وہ دور تھا جب نثری نظم کا شہرہ تھا اور قمر جمیل اس صنف سخن یعنی نثری نظم کے سرخیل تھے۔ ۱۵ اپریل ۱۹۲۶ء کو موجودہ بھارت کے مردم خیز خطے میں، جسے جگر مرادآبادی کے حوالے سے بھی شہرت حاصل ہے۔ یعنی مرادآباد میں جنم لینے والے رئیس فروغ کا اصل نام سید محمد یونس حسن تھا۔ عمر عزیز کے ۲۱ ویں برس پاکستان بنا، ہجرت کا درد سہا، جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) سے وابستہ رہے۔ ۱۹۵۰ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کے صاحبزادے طارق رئیس فروغ شعر و سخن اور ابلاغ کی دنیا سے منسلک ہیں۔ ان کی ہمشیرہ یعنی رئیس فروغ کی صاحبزادی، ہماری بہن شہناز جمیل (دونوں) والدین کی میراث ہیں۔
اتوار ۲۱ اگست ۲۰۱۶ء ایک سہانی شام بزم رئیس فروغ کے روح رواں، طارق رئیس فروغ نے اپنی قیام گاہ واقع ناظم آباد کراچی میں اپنے والد گرامی کی ۳۴ ویں برسی کے موقع پر ایک خصوصی ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر طارق نے جناب رئیس فروغ کی کتاب ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کی رونمائی کا بھی اہتمام کیا۔ شہر بھر اور وفاقی دار الحکومت سے شعر و ادب سے وابستہ معروف شخصیات نے خصوصی نشست میں بطیب خاطر شرکت کی۔ پروفیسر اشتیاق طالب صدر نشین اور ڈاکٹر شاداب احسانی مہمانی خصوصی تھے۔ تقریب کے وقار کو بڑھاوا دینے میں طارق رئیس فروغ، ان کے صاحبزادگان، اور معروف شاعر، صحافی حنیف عابد نے خصوصی دلچسپی لی۔ حنیف عابد کو نثر میں سنا تو اندازہ ہوا کہ اس تقریب کی نظامت واقعی ان ہی کو کرنی چاہئیے تھی کہ تمام شرکاء گفتگو اور اہل محفل کو نام بنام مخاطب کرتے رہے اور ہاتھ میں قلم نہ کاغذ۔ گاہے گاہے چاندی کی بنی ہوئی جیبی ڈبیا کھولتے۔ تقریباً استری شدہ کیفیت کا پانی اس میں سے نکالتے اور دنداں پو کے کوچۂ ڈاڑھ میں رکھتے۔ ایک شیشی سے شاید قوام کی گولیاں کشید کر کے پانی کی زینت بناتے اور اس مہارت سے چباتے کہ منہ کہیں سے بھی عمل تغذیہ کے حوالے سے متحرک نظر نہیں آتا تھا۔ ہاں جب وہ لب کھولتے اور بولتے تو پتہ چلتا تھا کہ پان، اگلی پناہ گاہ میں پہنچ چکا ہے۔
تقریباً متحرک ساڑھے سات بجے شب یعنی مغرب کی نماز کے بعد شروع ہونے والی یہ محفل کم و بیش تین گھنٹے جاری رہی۔ جبکہ درمیان میں چائے بھی آتی رہی اور مدعوئین بھی قدم رنجہ فرماتے رہے۔
آغاز تقریب جناب رئیس فروغ اور معروف شاعر، مدیر اجرا احسن سلیم مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
میں ٹریفک کی بد انتظامی اور بعض گاڑی کھینچنے والوں کی بد لگامی کے سبب قدرے تاخیر سے پہنچا تو حنیف عابد گفتگو کر رہے تھے جو ہر لحاظ سے پر مغز تھی۔ انور جاوید ہاشمی صاحب نے مرحوم رئیس فروغ کے کلام پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محترم شہاب الدین شہاب نے رم جھم کی سی کیفیت میں اپنی گفتگو سے محظوظ کیا اور صاحبِ تقریب کے سفید بالوں کے حوالے سے جوگندر پال کی یہ بات دہرائی کہ انہوں نے سفید بالوں والی کسی شخصیت سے کہا تھا کہ۔ یہ سفید بال۔ بھیتر (اندر) کا نور ہیں جو اب نمودار ہو رہے ہیں۔
راقم الحروف نے ۱۹۸۰ء کی یادگار ملاقات کے حوالے سے حاضرین کو بتایا کہ وہ یعنی جناب رئیس فروغ فرماتے تھے انسان کے ذہن کی ۶۶ فیصد یعنی دو تہائی قوت ہاتھوں اور انگلیوں میں ہوتی ہے۔ ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ محترم عقیل عباس جعفری نے پیشکش کی کہ وہ جناب رئیس فروغ کے کلام کی اشاعت و طباعت کے لیے بھرپور تعاون کریں گے۔ اس تعاون کو ضامن بناتے ہوئے انہوں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی خدمت کے حصول کا بھی اشارہ دیا۔ جناب سرور جاوید نے خوبصورت شعر گو شعراء کے ذکر کے بین بین جناب رئیس فروغ کو قادر الکلام شاعر ہونے کے ناطے بھر پور خراج عقیدت پیش کیا۔ محترم معراج جامی نے بچوں کے لیے محترم رئیس فروغ کی شاعری کو سراہتے ہوئے ان سے منسوب بچوں کے لیے کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کا حوالہ دیا۔ جس میں بچوں کیلئے نظمیں شامل ہیں۔ جناب صابر وسیم نے ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں بعض ضروری ترامیم کی ضرورت پر زور دیا۔ محترم رئیس احمد فاروقی نے مرحوم کے کلام کو ترنم سے ہمہ آہنگ کیا۔ ان کی پاٹ دار آواز بہت بھلی معلوم ہوئی۔ اسلام آباد سے خصوصی طور پر تشریف لانے والے جناب احمد حاطب صدیقی نے بعض اشعار کی قرار واقعی تشریح کی۔ دوران گفتگو بعض مقررین نے شمیم نوید صاحب کا بھی ذکر کیا۔ رسا چغتائی صاحب کا بھی تذکرہ ہوا۔ شاداب احسانی صاحب نے تمام مقررین کی گفتگو کے حوالے سے مرحوم رئیس فروغ کے کلام سے اقتباسات پیش کیے اور بتایا کہ انہوں نے نتاشا نامی ایک طالبہ کو جناب رئیس فروغ پر ادبی تحقیق کے لئے ایم فل میں رجسٹر کرایا ہے۔ ان کی تقریر کے بعد حنیف عابد نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واضح کیا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی سے رئیس فروغ پر پی ایچ ڈی کے لیے گفتگو کے دوران موصوف سے گزارش کی تھی کہ آپ جامعہ کراچی کے صدر شعبہ اردو ہیں، کیوں نہ یہ کام آپ خود کریں۔ چنانچہ یہ کام شروع ہو گیا ہے۔ آخر میں صاحب صدر کی باری آئی تو انہوں نے کمالِ معصومیت سے فرمایا کہ شاداب احسانی صاحب نے تو پوری کلاس لے لی ہے اب کیا بچا ہے کہ وہ (پروفیسر اشتیاق طالب) لب کشائی کریں۔ انہوں نے جناب رئیس فروغ سے اپنی ملاقاتوں کا ’’مکالمہ وار‘‘ (مکالمہ آمیز) تذکرہ کیا۔ سادہ انداز میں گفتگو بہت متاثر کن تھی۔ تقریباً ساڑھے دس بجے یہ بیانیہ نشست مکمل ہوئی تو طعامیہ نشست جمی، لذت کام و دہن کا اپنا ہی رنگ تھا۔ طارق رئیس فروغ اور ان کے فرزندان مہربان نے خاطر تواضع کا بھی حق ادا کر دیا۔ اس اثناء میں آرٹس کونسل کو پیارے ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر سحر انصاری تشریف لے آئے۔ انہیں بزم رئیس فروغ کی جانب سے شیلڈ تفویض کی گئی کہ سرکاری سطح پر ستارہ امتیاز سے نوازے گئے۔ پروفیسر سحر انصاری کی گرانقدر خدمات کا احباب فکر و سخن کی جانب سے اعتراف ضروری تھا۔ بہر کیف بہترین ماحول میں یہ یادگار تقریب اپنے انجام کو پہنچی۔
٭٭٭