مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ ابا کے پی ٹی میں ملازم تھے جب دفتر سے آتے تھے تو میں ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا تھا۔ ابا مجھے گود میں اٹھا لیتے تھے اور مٹھائی والے کی دکان پر لے جاتے پھر میں جس مٹھائی پر ہاتھ رکھتا مجھے دلا دیتے تھے۔ ہمارے معاشی حالات زیادہ اچھے نہ تھے مگر ابا ہم کو ایسے رکھتے تھے جیسے کوئی مالی اپنے پھولوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اب نے ہر حال میں ہمیں محبت اور شفقت دی، وہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے جو ابا سے ایک دفعہ مل لیتا وہ ابا کا معترف ہو جاتا تھا۔
میرا کوئی مسئلہ ہو پڑھائی کا، سیاست کا، مذہب کا، دین کا، دنیا کا غرض مجھے جب بھی کسی بات کو معلوم کرنا ہوتا فوراً ابا سے کہتا تو وہ اتنے پیارے انداز میں سمجھاتے کہ بات دل میں اتر جاتی۔ میں ہی کیا بے شمار ایسے لوگ ہیں جو ابا کے پاس مسائل لے کر آتے۔
ابا کہتے تھے کہ ہر بچہ اپنے باپ کو دنیا کا عظیم ترین اور طاقت ور شخص سمجھتا ہے۔
ابا بچوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ابا سے بہت جلد مانوس ہو جاتے تھے وہ بچوں کی ہر بات کو بہت اہمیت دیتے تھے
جب کبھی ان کے سامنے کوئی خاندانی مسئلہ آتا تھا تو کہتے تھے کہ دیکھو بیٹا ہر آدمی کی نفسیات الگ ہوتی ہے۔ اسی لیے پہلے یہ سمجھ لو کہ کس آدمی کی کیا نفسیات ہے۔ اس کے بعد اس کے مطابق برتاؤ کرو کہتے کہ ہر آدمی ویسا نہیں ہو سکتا جیسی کہ تم اس سے توقع کر رہے ہو اسی لیے کبھی آدمی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے جب توقع نہیں ہو گی تو مایوسی بھی نہیں ہو گی اگر تم کسی سے محبت کرتے ہو اس کے لیے اچھے خیالات رکھتے ہو تو تم یہ کیوں فرض کر لیتے ہو کہ وہ بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے بارے میں اچھے خیالات رکھے۔
کبھی طبیعت خراب ہوتی تو میں یا امی ان سے کہتے کہ سو جائیے۔ آرام ملے گا تو مذاقاً کہتے کہ ہاں بھئی مریض کی خدمت سے بچنے کے لیے لوگوں نے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے مریض سے کہہ دیتے ہیں کہ سو جاؤ کبھی مذاق میں ڈانٹتے تو بعد میں کہتے کہ بھائی برا مت ماننا ہمارے باپ تو ایسے ہی ڈانٹتے تھے کہتے کہ ہم نے سنا ہے کہ جب بچے کے پیر میں باپ کا جوتا آ جائے تو اس کو ڈانٹنا اور مارنا نہیں چاہیے اب تو تمہارے پاؤں میں میرا جوتا آ جاتا ہے اس لیے مجھے احتیاط کرنی چاہیے۔
زیادہ لمبی بیماری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر آدمی زیادہ لمبا بیمار پڑتا ہے تو پر گھر والوں کی بے توجہی اور ایک حقیقی امر ہے آخر کوئی کب تک کسی کی تیمار داری کر سکتا ہے ہر آدمی کی اپنی مصروفیت ہے۔ خدا نے ان کی یہ بات بھی سن لی تھی اسی لیے بغیر کسی کو تکلیف دیے چپکے سے سوتے سوتے ہی کوچ کر گئے ہم لوگ تو ان کی خدمت کرنے کی حسرت لیے ہی رہ گئے۔
۴؍اگست کو رات آٹھ بجے (شمیم نوید) انکل آئے تھے ان سے کتاب ہی کے موضوع پر دو ڈھائی گھنٹے بات کی پھر ان کو اسٹاپ تک چھوڑنے گئے۔ پان کھلایا۔ پان والے نے کہا آپ کو پان دوں تو کہا کہ نہیں میں نے سینے میں تکلیف کی وجہ سے پان بھی چھوڑ دیا ہے۔ سگریٹ تو پہلے اٹیک (۹؍ستمبر ۱۹۸۱ء) کے بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔ ابا شمیم انکل کو چھوڑ کر واپس آئے تو کوئی گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے سونے کے لیے لیٹے اور کہنے لگے۔ بیٹا یہ اگست چل رہا ہے۔ اگلا مہینہ ستمبر کا ہے۔ انشاء اللہ ستمبر میں کتاب آ جائے گی۔
اس رات دو تین باتیں عجیب ہوئیں مثلاً جب شمیم انکل جانے لگے تو دروازے پر ہی کوئی کام انہوں نے ابا سے کہا کہ آپ وہ کام کر لیں مگر ابا نے فوراً ہی مجھے آواز دی، میں گیا تو شمیم انکل سے کہا کہ مجھے نہیں اسے سمجھا دو، اب یہی سارے کام کرے گا۔ انکل نے وہ کام مجھے سمجھا دیا۔ اس بات کی اہمیت اب معلوم ہو رہی ہے۔ اسی طرح جب اسٹاپ پر ابا انکل کے ساتھ کھڑے تو ابا نے انکل سے پوچھا کیوں بھئی اب تو میری ضرورت نہیں ہے۔ انکل کے منہ سے ابا کی ہمدردی میں یہ الفاظ نکلے ہاں فروغ صاحب اب آپ آرام کریں میں خود کر لوں گا ( یہ بات مجھے انکل نے بتائی) یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ ابا نے اپنی حیات میں ہی کتاب کا تقریباً ہر کام مکمل کر دیا تھا یہاں تک کہ میرے ساتھ جا کر کاغذ بھی لے آئے تھے۔ بس کتاب کا پریس میں جانا باقی تھا۔
انتقال سے تقریباً دس پندرہ دن پہلے ایک جمعہ کی بات ہے کہ میں دوپہر میں سو رہا تھا۔ ابا نے مجھے اٹھایا اور کہا کیوں کیا نماز کو نہیں جاؤ گے (مجھے انہوں نے پہلے کبھی بھی سوتے سے نہیں اٹھایا) میں اٹھ گیا۔ میں نے کہا ابھی تو کافی وقت باقی ہے۔ کہنے لگے ادھر آؤ، اپنے کمرے میں لے گئے۔ ان کے بستر پر کئی اخبار بے ترتیب سے پڑے ہوئے تھے ایک اخبار اٹھا کر کہنے لگے یہ خبر پڑھو۔ میں نے ان کی بتائی ہوئی خبر پڑھی جو کہ ایک عام سی خبر تھی لیڈی ڈائنا اور ملکہ الزبتھ کی لڑائی کی، میں نے کہا ابا کیا بات ہے کہنے لگے۔ اب ایسا کرو اس خبر کو ایک دفعہ اور پڑھو، اور ڈائنا کے بچے کی جگہ میرے مجموعہ کو رکھو۔ میں نے اس نظریے سے خبر کو دوبارہ پڑھا۔ پھر تو میں اچھل پڑا۔ پوچھنے لگے کیسا آئیڈیا ہے؟ میں نے کہا، ابا آئیڈیا تو فنٹاسٹک ہے مگر ایک بات ہے وہ یہ کہ کوئی بھی شاعر جب اپنا مجموعہ لاتا ہے تو بہت احتیاط برتتا ہے کیونکہ وہ اس کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے اس سے آپ کی امیج بنتی ہے یا بگڑتی ہے۔ مجموعے میں وہ کوئی اونچ نیچ نہیں کرتا آپ تو اتنا بڑا رسک لے رہے ہیں۔ اگر آپ نے پیش لفظ اس طرح دے دیا تو لوگ بہت باتیں بنائیں گے، بعض تو شاید مذاق بھی اڑائیں گے۔ ابا کہنے لگے مجھے اس کی پروا نہیں میں تو وہ کروں گا جو میرا دل چاہے گا، میرے نزدیک اس خبر کے ذریعہ میری بات کا اظہار ہو جائے گا۔ یہ بات روایت سے ہٹ کر ہو جائے گی اور ہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ابا نے مجھ پر یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ میں یہ کتاب کسی سے منسوب نہیں کر رہا۔
رمضان کے مہینے میں جب ابا ہسپتال میں داخل ہوئے تھے تو بہت زیادہ ڈپریشن میں تھے کہنے لگے، دیکھو! مجھے پہلی بار اب سے نو مہینے پہلے ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور اس نو مہینے کی مدت میں میں اپنی کتاب ترتیب نہ دے سکا۔ مجھے اور تو کوئی فکر نہیں ہے لڑکیوں کی شادی ہو گئی۔ لڑکا نوکر ہو گیا۔ بس ایک کتاب کی فکر ہے وہ کسی طرح چھپ جائے۔ ہم نے کہا ابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، آپ خود جلد ہی گھر چل کر کتاب کو ترتیب دیں گے اور کتاب ضرور چھپے گی۔
ایک دن اسپتال میں بہت زیادہ ڈپریشن میں تھے کہنے لگے طارق کہیں سے بھی ہمدانی صاحب کو لاؤ۔ میں نے ریڈیو فون کیا مگر وہ آئے نہیں تھے۔ ابا کہنے لگے میں نہیں جانتا کہیں سے بھی ہمدانی کو پیدا کرو۔ میں ابا کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اتنے میں میرا ایک دوست آ گیا تو میں چلا گیا۔ ہمدانی صاحب کو گھر سے لے کر آیا۔ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دونوں خوشی سے لپٹ گئے۔
میں نے ابا کو دو موقعوں پر روتے دیکھا ہے۔ ایک دفعہ جب انہیں ناصر کاظمی کی موت کی خبر ملی تو دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ ان سے ملنے ابا لاہور بھی گئے تھے۔ جب ناصر کاظمی میو ہسپتال میں داخل تھے۔ دوسری دفعہ جب ابا کے چھوٹے بھائی کا مراد آباد میں انتقال ہوا تھا۔
ابا کو اپنے کچھ دوستوں سے شکایت بھی تھی مگر کبھی انہوں نے ان دوستوں پر یا کسی دوسرے پر بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا۔ آخری دنوں میں ہسپتال ہی میں میری اور ہمدانی صاحب کی موجودگی میں ابا نے ان باتوں کا اظہار کیا جن سے ابا کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ اس طرح بقول خود انہوں نے اپنا کتھارسس کر دیا تھا۔
ابا کی کتاب چھپ گئی ان کی ایک بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اس کتاب کو تکمیل کے مراحل سے گزارنے میں اور اتنی جلد یعنی ابا کی خواہش کے مطابق ستمبر ۸۲ء میں لے آنے کا سارا کریڈٹ شمیم نوید انکل کو جاتا ہے۔
اگر میں اس موقع پر اپنے محترم بزرگ مولانا وزیر پانی پتی صاحب کا نام نہ لوں تو زیادتی ہو گی۔ مولانا صاحب ابا کے بے حد عزیز دوستوں میں سے ہیں اور بے لوث آدمی ہیں۔ کتاب کی تیاری میں آپ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
خرام عمر ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ ترے زیر پا تو میں بھی ہوں ٭٭٭