رئیس فروغ بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہے اگرچہ اس نے رومانی نظمیں بھی لکھی ہیں، قطعات اور گیت بھی لکھے ہیں لیکن اس کی شاعری کا موضوع زندگی اور اس کی سچائیاں، حقیقتیں اور تلخیاں ہیں۔ اگرچہ حالات و واقعات کی سنگینی کی طرح زندگی بھی بڑی سنگین اور بے رحم ہوتی جا رہی ہے لیکن فروغ نے اپنے فکر و شعور کی آنچ سے تپا تپا کر اسے نرم و گداز ہی نہیں بلکہ قابل قبول بھی بنا دیا ہے اور یہی اس کا فن ہے۔
رئیس فروغ کی شاعری میں جہاں عام انسانوں کے دکھ درد اور خوشی و مسرت کی کہانی ملتی ہے وہیں خود اس کی کہانی بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے جس میں رئیس فروغ کی جوانی کے بیتے دنوں کی حسین یادیں، عشق کی جنوں خیزی اور حُسن کی حشر سامانیاں بھی ہیں اور دل کی ویرانیاں بھی، اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کا دکھ بھی شامل ہے جو بڑا گہرا ہے اس دکھ کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو خود بھی اس کرب سے گزرے ہیں اور آج بھی حالتِ سفر میں ہیں۔ رئیس فروغ ایک حسّاس شاعر ہے اس کا احساس اس وقت اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب وہ بے سر و سامانی کے عالم میں پا فگار اور دل گرفتہ منزل پر پہنچتا ہے تو اس کو سہارا دینے یا اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، طنزیہ مسکراہٹوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا جاتا ہے تو اس کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے :
پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
پھر یوں ہوا کہ ساری فضا فاحشہ لگی
اس بے مروّتی اور بے حسی کے ماحول میں وہی زندہ رہ سکتا ہے جو خود بھی بے حس ہو چکا ہو اور جس نے اپنے ضمیر کا سودا کر کے حالات سے ساز باز کر لی ہو، اپنی انا اور خود داری کو خود ہی سر بازار نیلام کر دیا ہو لیکن ایک حسّاس اور با ضمیر انسان موت کو تو گلے لگا سکتا ہے لیکن مانگی ہوئی زندگی کو قبول نہیں کر سکتا۔ گدایانہ زندگی کے بجائے نیاز مندانہ طور پر مر جانے کو ترجیح دے گا۔ وہ حالات سے صلح کر کے اپنے اندر چھپے ہوئے غیرت مند انسان کے قتل کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ جسے رئیس فروغ نے بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے:
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
یہی وہ شعور تھا جس کی وجہ سے فروغ اپنے حالات سے صلح نہ کر سکا، ہجومِ رنگ و بو میں نہ کھو سکا بلکہ و ہ واقعات اور حالات کی بے رحمی کا شکار ہونے کے باوجود زندگی اپنے طور پر گزار رہا ہے۔ بقول میرؔ
نا مُرادانہ زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو
لیکن فروغ اپنے آپ سے اور اپنے پیدا کرنے والے سے مایوس نہیں ہے۔ اس نے حالات سے شکست نہیں مانی بلکہ خود ان پر مسکراتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے :
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں
سیلانیوں کو خطرۂ سیلِ بلا نہیں
رئیس فروغ کی صورت میں یہ حساس انسان جب صنعتی شہر کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اور لوگوں کے ہجوم میں شامل ہو کر انہیں غور سے دیکھتا ہے تو اسے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں اسے بے مروّتی، ریاکاری، جعل سازی اور مکّاری نظر آتی ہے۔ جانے پہچانے ہوئے لوگ اجنبی کی طرح اسے دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ حصولِ دولت کے لیے لوگوں کو جائز و ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے۔ نو دولتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور چور بازاری کرنے والوں کی لوٹ کھسوٹ دیکھتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو بھی اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے اس کا چہرہ ندامت کے پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔ وہ چھاؤں کی تلاش کرنے نکلا تھا، لیکن بے رحم وقت کی تپتی دھوپ ملی۔ سکون کے بجائے بے یقینی اور کربِ مسلسل اس کا مقدّر بن جاتا ہے۔ گردشِ مدام سے گھبرا کر وہ حیران نظروں سے اپنے چاروں طرف دیکھتا ہے تو اسے دلاسا دینے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔
حالات کی اس سفّاکی کے باعث فروغ کے ہاں جھلّاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا دھیما دھیما لہجہ تلخ ہوتا چلا جاتا ہے۔ نرمی و شگفتگی کے بجائے تندی و تیزی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دار، ذخیرہ اندوز، اسمگلر اور نو دولتیے ہماری ملکی سیاست اور معیشت پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ بظاہر ان سے نجات ناممکن ہے لیکن فروغ بڑے تیقّن اور پُر اعتماد لہجے میں حالات کی تبدیلی کا اظہار کرتا ہے:
دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغؔ
جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اتر جائے گا
کاش اس کا یہ یقین، یقین ہی رہے، اس کا اعتماد بحال ہی رہے۔ اس کے آبگینۂ احساس کو ٹھیس نہ لگے۔ ورنہ اس کا یقین اٹھ جائے گا وہ زندگی سے شکست کھا جائے گا، وہ نہ صرف انسان بلکہ خدا سے بھی مایوس ہو جائے گا۔
جہاں تک اس کی عشقیہ شاعری کا تعلق ہے تو اس کی عشقیہ شاعری نہ تو رسمی ہے اور نہ روایتی بلکہ ایک صحت مند انسان کے توانا احساس و جذبے کی شاعری ہے۔ اس میں کسی کو اپنا کر رکھنے اور کسی کا ہو رہنے کا جذبہ موجزن ہے اس نے جیتے جاگتے انسان سے محبت کی ہے اور اپنے محبوب کو وہ محبت دی جو اس کا حق تھا۔ اس محبت میں اس نے بہت کچھ کھویا اور پایا بھی۔ جسے اپنے آپ پر ناز ہے اور اپنے عشق پر بھی، وہ حسن کا قصیدہ خواں ضرور ہے لیکن عشق کی عظمتوں کا بھی قائل ہے کیونکہ عشق ہی حسن کی پہچان ہے اور دونوں آدمی سے معتبر ٹھہرتے ہیں، ان سے آدمی اعتبار پاتا ہے۔ یہ اور بات کہ عشقِ حریم ناز میں وہ ہمیشہ با ادب رہتا ہے لیکن حسن کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسے نظر انداز کر دے۔ اس حقیقت کو رئیس فروغ نے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جسے اس کے لہجے نے اور بھی حسین بنا دیا ہے:
حسن کو حسن بنانے میں مِرا ہاتھ بھی تھا
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
محبوب کو چاہنے اور ٹوٹ کر چاہنے کی کیفیت ہر شاعر کے ہاں ملتی ہے لیکن فروغ کے ہاں اس چاہت کا انداز ہی نرالا ہے:
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
جہاں تک فروغ کے لہجے کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فروغ کی غزل کی شاعری کا لہجہ اردو شاعری کے نرم و سبک لہجوں میں ایک معتبر اضافہ ہے۔ یہ لہجہ اپنے عہد کے دوسرے لہجوں سے مختلف ہے۔ ناصر کاظمی کا لہجہ بھی نرم ہے لیکن ان کی پوری شاعری کی فضا پر رومانیت کی چھاپ ہے، رئیس فروغ کا لہجہ حقیقتاً صنعتی عہد کا ایک نرم و نازک لہجہ ہے جس میں زندگی کے بڑے دکھ اور انسان کے پیچیدہ نفسیاتی پہلوؤں کو نرمی اور گداز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے میر کی روایت سے الگ ہو کر فروغ نے نرم لہجوں میں ایک نئے لہجے کی تخلیق کی ہے جو موم کی طرح پگھلتا ہوا لہجہ ہے جیسے کڑی دھوپ میں کھلتا ہوا گلاب۔ ناصر کاظمی کے ہاں استعارات و تشبیہات کا سلسلہ شجر، برگ، ستارا، چاندنی، اداسی اور مناظر فطرت سے عبارت ہے اور بہت خوب ہے لیکن رئیس فروغ نے استعارات و تشبیہات کو زندگی کے طوفانی سیل ہی سے نہیں بلکہ زندگی کے جبر اور اس کے قہر سے وضع کیا ہے۔
ناصر کاظمی، رسا چغتائی، جمیل الدین عالی، احمد فراز، اطہر نفیس، فرید جاوید، منیر نیازی اور رئیس فروغ اپنے عہد کے جدید غزل گو شاعر ہیں۔ ان شاعروں کے ہاں غزل کا مزاج، اس کا رچاؤ، روایت اور موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ ان شاعروں نے غزل کو اپنے عہد کے تقاضوں، مزاج، علامتوں اور ذہنی رویوں سے ہم آہنگ کرنے کی جو شعوری کوششیں کی ہیں ان سے غزل میں تازہ دمی، نیا حوصلہ اور نیا آہنگ پیدا ہوا اور نئے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ غزل کو جدیدیت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ رئیس فروغ نرم و سبک لہجہ شگفتہ مزاج، غزل کی روایت اور اس کے مزاج سے واقف ہونے کے باوجود غزل کو مشرف بہ جدیدیت کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جدیدیت کے شوق یا شعوری طور پر غزل کے دائرے کو وسیع کرنے میں انہوں نے جو پیوند کاری کی کوششیں کی ہیں اس سے شعر و ادب کا مطالعہ کرنے اور دلچسپی رکھنے والوں کے ذہنوں کو جھٹکا تو لگتا ہے لیکن غور و فکر کی دعوت نہیں ملتی جسے کسی طرح بھی فکری رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ رئیس فروغ تربیت یافتہ ذہن کے مالک اور با شعور و پختہ کار شاعر ہیں۔ ان کا یہ انداز اور رویہ غزل کے سلسلے میں کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اس قسم کا رویہ نوواردان شعر و ادب کے لیے تو زیب دیتا ہے کہ وہ چونکا کر اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن یہی رویہ جب رئیس فروغ کے ہاں ملتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بات میں نے اس لیے بھی کہی ہے کہ اس قسم کا رویہ غزل کے مزاج و مسلک کی شریعت میں بدعت ہے۔ رئیس فروغ کے ان چند اشعار سے اس بدعت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کل میرے لہو کی رم جھم میں
سورج کا پہیہ پھسل گیا
*
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی ’’سڑک‘‘ پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا
*
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو ’’سبوتاژ‘‘ نہیں کر سکتے
ان اشعار میں ’’پہیہ‘‘۔ ’’سڑک‘‘۔ ’’سبوتاژ‘‘ ایسے الفاظ ہیں جو عام ہوتے ہوئے بھی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور نہ غزل ایسی صنف ہے جو ہر لفظ کو اپنے اندر سمو لے۔ نظم میں تو ایسے الفاظ کی کھپت ہو سکتی ہے لیکن غزل نظم کی طرح جنرل اسٹور نہیں بن سکتی جس میں مانوس اور غیر مانوس ہر طرح کے الفاظ کا ذخیرہ کیا جائے۔
جہاں تک نثری نظم کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ نثری نظم نے آج تک اپنے سفر میں علامتی افسانے کی طرح ابھی تک اردو شاعری کو کچھ نہیں دیا۔ شاعری کو کلام منظوم تک محدود نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاتا کہ نثری نظم صرف بے ہیئتی تک محدود ہے اور ابھی تک کسی شاعر کے ہاں ایسا آہنگ ابھر کر سامنے نہیں آیا جو قابل توجہ ہو نثری نظم میں غزل کا سا آہنگ، رچاؤ یا نغمگی ہو یا نہ ہو مگر اپنے عہد کا تو آہنگ ہو۔ صنعتی عہد کے تضادات سے پھوٹنے والی نغمگی تو ہو۔ ن۔ م راشد نے اپنی زندگی کے آخری دور میں چند نثری نظمیں ضرور لکھی تھیں لیکن وہ بے مزہ، پھیکی اور بے جان تھیں جو راشد کے ہاں کسی اضافہ کا باعث نہ بن سکیں۔ رئیس فروغ غزل کے منفرد شاعر ہیں اور ان کی غزل میں صنعتی عہد کے تضادات سمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف نثری نظم پر توجہ دی بلکہ نثری نظم کے سلسلے میں مخدوم منور کی کتاب پر جو مقدمہ لکھا ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات سامنے نہیں آتی جس سے نثری نظم کی اس عہد میں کوئی اہمیت واضح ہوتی ہو اپنی کوششوں کے باوجود رئیس فروغ نثری نظم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر سکے اور نہ اس طرح کامیابی حاصل ہو سکی جس طرح وہ آج کی غزل کے ساتھ کامیاب سفر کر رہے ہیں۔ سوچنا پڑے گا کہ غزل کا یہ منفرد شاعر اپنے تخلیقی اوقات کو کس حد تک نثری نظم لکھنے میں گنواتا ہے اور کہاں تک اس عہد کی نمائندہ غزل کی تخلیق میں صرف کرتا ہے یہ فیصلہ بہر حال رئیس فروغ کو خود کرنا پڑے گا۔
میں نے اس مجموعے میں وہ غزلیں شامل نہیں کیں جو ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں۔ ہاں ان غزلوں کو شامل ضرور کیا ہے جو بوجوہ شامل نہیں ہو سکی تھیں۔ اس مجموعے میں ان کی نظموں اور بچوں سے متعلق گیت اور نظمیں اس لیے شامل نہیں کیں کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ طویل مضامین یا کتابوں کی صورت میں منظر عام پر آنا چاہئیں تاکہ رئیس فروغؔ کی کاوشوں کو سامنے لا کر ادب کے اہم ذخیرے میں انھیں شمار کیا جا سکے۔ کیونکہ یہ دونوں یعنی نظمیں اور بچوں سے متعلق گیت اور نظمیں اپنے طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ میں نے یہی سوچ کر ان دونوں کو اس مجموعے میں شامل نہیں کیا ہے۔
ان تمام حضرات بالخصوص طارق رئیس فروغ، نور الہدیٰ سیّد، حنیف عابد کا شکر گزار ہوں کہ ان حضرات نے ہر ہر قدم پر میری رہنمائی کی۔
٭٭٭