۶۰ء کی دھائی سے ریڈیو پاکستان سے رئیس فروغ کے گیت و نغمے نشر ہونے شروع ہو گئے تھے۔ کچھ قومی نغمے تو ۶۵ء کی جنگ کے دوران بھی لکھے جو جنگ کے دوران ہی نشر کیے گئے جیسے ’’شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک، ان غازیوں پہ سایہ فگن ہے خدائے پاک‘‘۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار قومی گیت تحریر کیے۔
پھر ریڈیو ہی سے ایک گیت اپنے زمانے کا مقبول ترین گیت تھا، جس کے بول تھے ’’اے وادیِ مہران، اے وادی مہران، تو ہے وطن کی شان‘‘
بھٹو صاحب نے کسانوں کو جب زمینیں واپس کیں تو اس سے متعلق ایک گیت ریڈیو پر مقبول ہوا جس کے بول ہیں ’’دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے
ماں جو بچھڑ گئی تھی بچوں سے آ ملی ہے‘‘
اس کے علاوہ بھی بے شمار گیت تحریر کیے جسے وقت کے نامور گلو کاروں نے گایا۔ بلقیس خانم کا گایا ہوا مدھر گیت: پلک پلک مورے سج گئے تارے
دور کہیں سے کوئی مجھ کو پکارے‘‘
پھر پاکستان ٹیلیویژن شروع ہوا تو اس میں بھی رئیس فروغ نے گیت لکھے۔ گیتوں کی ایک سیریل ’’بزمِ لیلیٰ‘‘ کے نام سے تھی، جس کے تمام گیت رئیس فروغ تحریر کرتے تھے۔ جو کراچی ٹی وی کے ابتدائی دور میں لکھے گئے۔
پھر بلبل صحرا ریشماں کا گایا ہوا گیت جس نے شہرت اور قبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ’’میری ہمجولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں‘‘ بھی رئیس فروغ مرحوم ہی نے تحریر کیا تھا۔ جسے حال ہی میں کوک اسٹوڈیو نے دوبارہ پروڈیوس کیا ہے۔
شعیب منصور کے معروف پروگرام ’’جھرنے‘‘ کے گیت رئیس فروغ ہی تحریر کرتے تھے۔ یہ پروگرام جدید اور پاپ میوزک کے باعث عوام میں بے حد مقبول تھا۔ اس میں محمد علی شہکی، عالمگیر، مہناز وغیرہ نے رئیس فروغ کے بے شمار گیت گائے۔ جن میں محمد علی شہکی کا گایا ہوا گیت ’’دلِ دیوانہ تیرا اک نظر میں بنا پروانہ تیرا اِک نظر میں‘‘، عالمگیر کا گایا ہوا ’’دل کے سب راستے تیرے ہی واسطے جب نظر سے ملی تیری پہلی نظر ہم تیرے ہو گئے جانے کیا سوچ کر‘‘ وغیرہ بہت اہم ہیں۔ ان گیتوں کی موسیقی اس وقت کے مشہور و معروف موسیقار ترتیب دیتے تھے جن میں نیاز احمد، اور اللہ دتّہ شامل ہیں۔
اسی طرح پی ٹی وی پر بچوں کے گیتوں کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے تمام گیت رئیس فروغ ہی نے تحریر کیے تھے۔ بعد میں ان گیتوں کی کتابؔ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے عنوان سے شائع بھی ہو چکی ہے۔
٭٭٭