رسالہ
تشکیل (اکتوبر ۲۰۰۱ء تا جولائی ۲۰۰۲ء)
رئیس فروغ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ بہت اچھے آدمی بھی تھے۔ مگر یہ اچھائی ہی ان کی زندگی کے آزار اور پھر موت کا سبب بنی۔ انہوں نے اپنی موت سے کچھ ہی عرصہ قبل ایک غزل کہی تھی جس کا ایک شعر یہاں ناگزیر حوالہ کے طور پر درج کیا جا رہا ہے ’’رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے؍ میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی‘‘۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ‘‘پھر مجھے نیند آ گئی‘‘ کے پس منظر میں رئیس فروغ کی زندگی کے آزار کیا تھے اور ان کی موت کیسے واقع ہوئی۔ اگر اس کا منظر نامہ ترتیب دیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ ساتویں آٹھویں دہائی کے دوران ریڈیو پاکستان کی کمرشیل سروس میں رئیس فروغ نام کا ایک آدمی ایک شاعر ماہانہ کانٹریکٹ پر انتہائی ذمہ داری اور بہ حسن و خوبی اسکرپٹ رائیٹنگ کر رہا ہے۔ جبکہ اس کا صرف اسٹاف آرٹسٹ کے زمرے میں ہونا قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے ذرا بڑے عہدے دار ہونے کے مقابلے میں کمتر ہے۔ صرف اس کمتری کی سزا دے رہے ہیں قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی۔ قمر جمیل اوسط درجے کے شاعر مگر مزاجاً حاسد اور زمیندارانہ وراثت سے ظالم اور جابر۔ ضمیر علی بدایونی سوڈو انٹیلکچوئل اور مزاجاً شر پسند، ایک طرح سے چغل خور، بد گو، سازشی بلکہ image breaker پھر بھی رئیس فروغ اور اتفاق سے احمد ہمیش اپنے حالات کی ستم ظریفی کے سبب قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے ساتھ ملنے جلنے اور اٹھنے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ مگر ریڈیو پاکستان کے مختلف کمروں، کینٹین اور کبھی کبھی زیلن کافی ہاؤس سے لے کر قمر جمیل کی رہائش کے ڈرائنگ روم تک کچھ دیر نشست کی سزا یہ ملتی ہے کہ قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی بیشتر رئیس فروغ کو اور کبھی کبھی احمد ہمیش کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان دونوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ شعر و ادب پر ڈکٹیٹر کی طرح مسلط ہو کے رئیس فروغ اور احمد ہمیش کو ذہنی غلام بنائیں۔ جبکہ رئیس فروغ تو قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے طنز و تضحیک کا نشانہ بنتے ہوئے آٹھویں دہائی کے اوائل تک شرافت اور سادہ لوحی سے برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس دوران ’’پھر مجھے نیند آ گئی‘‘ کے مترادف کئی بار جیتے مرتے ہیں اور ان کا یہ بار بار کا جینا مرنا کئی معتبر لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ افسانہ نگار نور الہدیٰ سید اس کے عینی شاہد ہیں کہ رئیس فروغ تو قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے حکم و جبر کو شریفانہ طور پر جھیلتے ہیں اور اندر ہی اندر لہو لہان ہو رہے ہوتے ہیں۔
سوائے اس کے کہ احمد ہمیش اپنے بلیاوی اکھڑ پن کے با وصف قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی سے لڑ بھڑ کر کتھارسس کر لیتے ہیں۔ خود جب وہ ایک بار قمر جمیل سے مل کر رئیس فروغ کے ساتھ واپس آ رہے ہوتے ہیں تو پاپوش نگر اپنے گھر کی طرف رخ کرتے ہوئے لیاقت آباد دس نمبر کے موڑ پر احمد ہمیش سے مخاطب ہوتے بڑے دکھی لہجہ میں قمر جمیل کے ظلم کا شکوہ کرتے ہیں۔ ’’ہمیش! میں کیا بتاؤں قمر جمیل سے جب بھی ملتا ہوں تو جیسے میرے جسم کے اندر کچھ گوشت کٹ گیا ہے یا خون کم ہو گیا ہے‘‘۔ اس کے بعد ’’پھر مجھے نیند آ گئی‘‘ کے تحت ہوتا کچھ یوں ہے کہ نور الہدیٰ سید کی عینی گواہی کے مطابق رئیس فروغ ایک شام قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی کے ظالمانہ اور جانبدارانہ طنز و تضحیک کا نشانہ بننے کے بعد ناقابل بیان اذیت برداشت کرتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ بستر پر دراز ہوتے ہیں اور نیند ہی میں مر جاتے ہیں۔ یعنی ’’پھر مجھے نیند آ گئی‘‘۔ مگر پھر کبھی نہ آنے کے لئے ہمیشہ کی نیند۔ مگر اب کیا کیا جائے کہ جواب دہی کے لئے قمر جمیل دنیا میں موجود نہیں اور ضمیر علی بدایونی دنیا میں موجود تو ہیں مگر جواب دینے کیلئے موصوف میں سکت نہیں۔
٭٭٭