چند غزلیں، متفرق اشعار اور ادبی مکالموں میں تذکرے، بس اتنا تعارف تھا میرا رئیس فروغؔ کے ساتھ۔ پھر محترم طارق رئیس فروغ نے جب ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کا دوسرا ایڈیشن چھاپا تو ان کی مہربانی سے رئیس فروغؔ کو بھرپور اور بالاستعیاب پڑھنے کا موقع ملا۔ قیام پاکستان سے انیس سو اسی تک کراچی شہر اپنے شعری فضا اور ادبی حلقوں کی گہما گہمی کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے شعراء نے جہاں نئے شہر کی ادبی فضا کی باریابی میں کلیدی کردار ادا کیا وہیں نئے شعراء کی تربیت کے لیے مکالمے کی روایت بھی جاری کی۔ جن کے سرخیل سلیم احمد اور قمر جمیل تھے۔ قمر جمیل ایک صاحب طرز شاعر تھے، جنھوں نے رئیس فروغؔ کی شعری انفرادیت اور حسّیت کا درک کرتے ہوئے انھیں وہ راہ دکھائی جس نے ان کے کلام کو مزید نکھارا۔ وہ قمر جمیل ہی کی ترغیب پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت چھوڑ کر ریڈیو پاکستان چلے آئے جہاں انہیں ایک بالغ شعری فضا میں خود کو سنوارنے کا بھرپور موقع ملا اور ان کی غزل اور نظم میں جدید حسّیت نے اپنا احساس دلانا شروع کیا۔ شعر ان کے نزدیک معاشرتی کرب کے اظہار کا ذریعہ تھا۔ ان کی شعری حسّیت نے ان سے اپنا اور اپنے گرد موجود متعلقین کا نوحہ تحریر کروایا۔
سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں جدیدیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ
’’جدیدیت کی روح یہ ہے کہ کسی بات کو اس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ پہلے سے چلی آ رہی ہے یا ہم پر خارج سے عائد کی گئی ہے یا ہم سے بالاتر ہے، بلکہ
ہر چیز کے حسن و قبیح، خیر و شر، منفعت و مضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے، اس لیے جدیدیت کے معنی زیادہ تر تجرباتی ہونے کے ہیں۔‘‘
جدیدیت کے بارے میں میری اپنی رائے یہ ہے کہ جب ایک بالغ تخلیقی ذہن عصری حسّیت سے جڑتا ہے تو جدیدیت اپنا وجود نمایاں کرتی ہے۔ رئیس فروغ کی شاعری اپنی عصری حسّیت سے جڑی شاعری ہے، جس کی واضح مثال یہ دو اشعار ہیں :
ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
عصری کرب نے جب تخلیق کار کو آفاقیت کے دائرے سے دور فلیٹ اور بس کی حقیقی زندگی کی سچائیوں کی حسّیت میں مبتلا کیا تو ایک بالغ شعری ذہن نے اپنا بھرپور ابلاغی اظہار یہ پیش کیا کہ تخلیق کار جو خود کو ساری دنیا کا باشندہ تصور کرتا ہے حقیقتاً ایک چھوٹے سے فلیٹ نما زنداں میں روز اپنے خواب جلا رہا ہے۔ گرچہ رئیس فروغؔ اور اقبال دو الگ الگ کیفیتوں کے شاعر ہیں اور ان کا شعری موازنہ میرا موضوع بھی نہیں، لیکن ایک بات ہے جس کے لیے اقبال کے ذکر کا محل بنتا ہے اور وہ ہے دو شعراء کے یہاں شعری حسّیت کی ٹریٹمنٹ (برتاؤ) کہ اقبال کائنات کے سربستہ رازوں کی تفہیم کرتے ہیں، جبکہ رئیس فروغ کے یہاں علم اپنی عینیت میں موجود ہے، وہ قیاس اور گمان کے شاعر نہیں۔ ایک روایتی شہری تعقل (civic rationale) لیے خالص علت و معلول کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں انسان اور انسان سے متعلق رویوں اور مسئلوں کا وجدان ملتا ہے۔ وہ انسان کی آفاقیت کی طرف دھیان دینے کے بجائے انسانی معاشرت کے اختلافی پہلو اور تہذیبی رکھ رکھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔ وہ شاعری کو خالص انسانی معاملات کا بیانیہ مانتے ہیں۔ اقبال کا انسان آسمانی مسافرت میں مصروف ہے، جبکہ رئیس فروغ کا انسان اپنی مٹی سے جڑا بیٹھا ہے اور اس کا شاعر اُسے اپنے اردگرد موجود مسائل پر نگاہ کرنے کی تلقین کرتا ہے اور وہ مسائل خواہ مذہبی ہوں، نفسیاتی ہوں، سیاسی ہوں، تمدنی ہوں، تہذیبی ہوں، معاشی ہوں یا نفسانی، سب کے سب کو زمینی معاملہ گردانتے ہوئے اُن کے حل کے لیے زمینی وسیلہ تلاشنے کی ہمک دیتا ہے۔ اسلام اور دیگر ادیان میں موجود روحانیت کے تصور نے انسان کو جتنا فائدہ نہیں دیا شاید اُس سے زیادہ نقصان پہنچایا، خرقہ اور خانقاہ نے انسان کا خدا کی ربوبیت پر یقین کا ستیاناس کر دیا، ایک کمزور ذہن جس کی تہذیبی و علمی آبیاری نہ ہوئی ہو وہ بہت آسانی سے مقلّد بن جاتا ہے اور یہ تقلیدی رویہ اُسے رب اور ربوبیت کی حقانیت سے دور کر دیتا ہے۔ کیوں کہ علم کا محمل اظہاریہ ناقص اذہان کی کاشت کا موجب بنتا ہے جو کسی صورت بھی علمی و اخلاقی برتری کی توجیہ نہیں ہو سکتا۔
جب کہ رئیس فروغؔ کا معاملہ ہرگز ایسا نہیں ہے وہ ایک بالغ ذہن کے ساتھ اپنے عصر سے جڑے معاشرتی حسّیت کو اپنے خون جگر کی سیاہی سے نہ صرف اعتبار بخشتے ہیں بلکہ ان کا شعری اظہاریہ جدید حسّیت کی ایک مثال ہے۔ رئیس صاحب کی شاعری انفرادی برتاؤ میں ایک خاص تغیر کا شکار نظر آتی ہے۔ لفظ اپنے در و بست مین بظاہر روایتی محسوس ہوتے ہیں، لیکن اپنے تاثر میں عصری حسّیت لیے بہترین ابلاغی اظہار رکھتے ہیں۔ ان کے مصرعوں میں جب شعری لہجے کی شکل واضح ہوتی ہے تو انفرادیت اپنی سادہ بیانی کے باوجود قاری و نقاد دونوں کو حیرانگی میں مبتلا کرتی ہے۔ جس کی چند مثالیں ذیل ہیں :
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کر
دن بھر چہرے جمع کیے ہیں کھو جائیں گے شام کو
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے
اونچی مسہریوں کے دُھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
دیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا اسی ہوا سے بجھا بھی ہے
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمھارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
جدیدیت، اصطلاحی معنوں میں ارتقائی اپج کو کہہ سکتے ہیں۔ جس کی رو سے متقدمین سے متاخرین تک کی شاعری اپنی اپنی کیفیت اور برتاؤ میں جدید شاعری کی مثالیں ہیں۔ اردو شاعری میں جدیدیت کی پہلی کرن نظیر اکبر آبادی کے یہاں نظر آتی ہے، جو ایک مخصوص شعری حسّیت کے ساتھ ہر اہم شاعر کے پاس منتقل ہوتی گئی۔ نظیرؔ کے زمانے میں ہی میرؔ بھی جدید شاعری کی نیابت کرتے ہیں تو ان کے بعد غالب نے یہ باگ سنبھالی۔ ویسے غالب وہ واحد شاعر ہے جسے اس کے زمانے سے لے کر آج بھی جدید شاعری کا پیغمبر مانا جاتا ہے۔ پھر حالیؔ، اقبالؔ ، فیضؔ کے درمیان کئی اہم شعراء ہیں، جن کی جدید حسّیت نے اردو شاعری کی راہ متعین کی۔ جدیدیت کو گرچہ ایک ادبی تحریک قرار دیا جاتا ہے لیکن میری رائے اس حوالے سے مختلف ہے کہ جدیدیت کسی بھی تخلیق کار کی حسّیت کی ارتقائی اپچ کا نام ہے۔ جس کی مدد سے وہ تخلیقی چکر کو مکمل کرتا ہے۔ تخلیقی چکر سے مراد شاعر کا اپنے وجدان کا گیان ہے جس میں تحلیل ہو کر اس سے ایک واقعی مثالی فن پارہ تخلیق پاتا ہے، ویسے یہ ضروری نہیں کہ ہر فن پارہ مثالی ہو۔ اس بابت رئیس فروغؔ نے اپنے تخلیقی وجدان کا بیان خود کیا کہ:
جوئے تازہ کسی کہسار کہن سے آئے
یہ ہنر یوں نہیں آتا ہے جتن سے آئے
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
جدید حسّیت کے شاعروں میں ایک اہم شاعر چارلس بودلئیر ہے، جس نے اپنے زمانے کی رومانوی تحریک، جس کے سرکردہ شعراء میں ہیوگوؔ، لامارنینؔ، میوسےؔ اور وینئیؔ کے آگے سر جھکانے کے بجائے زندگی کے بارے میں اپنی ذاتی تجربے کو بہترین شعری پیرائے میں بیان کیا۔ اُس کا شعری مجموعہ ’’بدی کے پھول‘‘ کی تمام نظمیں سادہ زبان میں تخلیق کی گئیں۔ بودلئیرؔ نے اُس وقت کی روش جس میں عشق و رومان شعر گوئی کے موضوعات کا بنیادی جز تصور کئے جاتے تھے، سے ہٹ کر عام انسانوں کی بات کی اور یہی موضوعات ہمیں رئیس فروغؔ کے یہاں بھی واضح ہوتے ہیں۔
بودلئیر انسان کے جذبات، خیر و شر، اخلاقی قدر، انسانی جبلّت، فطرت کے مظاہر، سزا و جزا، امکان و گمان، مادّیت و روحانیت کا تصادم، خدا کا تصور، مذہب، موت و زیست، تزکیۂ نفس، مقدر کی حتمیت اور انسان کے ادراکی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے۔ بودلئیر کی شاعری میں سب سے اہم موضوع فطرت کے لوازم کے اظہاریے میں انسان کی بے بسی پر خدا و فطرت کے لوازم کے اظہاریے میں انسان کی بے بسی پر خدا و فطرت کی بے نیازی ہے۔ بودلئیر اپنے ہم جنس کے لیے خدا اور فطرت دونوں کو ہی اپنا احتجاج نوٹ کرواتا ہے۔ وہ خوشی کی تفہیم کراتا ہے کہ روحانیت سے خالی کوئی بھی خوشی دیرپا نہیں ہو سکتی، لہٰذا مآل کار ماسوا بے مداوا پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ سو اُس نے جنسی آسودگی کو بھی دائمی خوشی کی ایک لمحاتی حظ قرار دیا ہے۔
رئیس فروغؔ کی نظموں میں بھی بودلئیر کی نظموں کی طرح معاشرے کا حقیقی چہرہ نظر آتا ہے۔ یعنی سادہ بیانی اور موضوعات کا تنوع، خاص کر عشقیہ مضامین کی چھب میں بھی خالص علت و معلول کا بیانیہ، جس میں کہیں تفہیمی انداز ہے تو کہیں شکایتی۔ خواہ وہ اپنے ہمزاد سے ہو، ہم نفس سے یا پھر قادر مطلق سے۔ یہ سب ان کی نظموں کا خاصہ ہیں۔ ’’نئے شہروں کی بنیاد‘‘، ’’آدھا سفر ہم نے خیالوں میں کیا‘‘، ’’ریت کا شہر‘‘، ’’کمرہ‘‘، ’’لیاری پیاری‘‘ اور دیگر نظمیں اسی تسلسل کی ایک مثال ہیں، جو جدید حسّیت کو برتتے ہوئے تخلیق کی گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ رئیس فروغؔ کے ذاتی و شعری زندگی میں کس قدر مطابقت بہم تھی، یہ تو ان کے متعلقین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ رئیس فروغؔ نے جب کہ جوشؔ، فیضؔ، ن م راشد، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی، شکیب جلالی جیسے شعراء کا سکّہ رائج تھا، اس وقت بھی اپنی اہمیت کا احساس دلایا اور آج بھی ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، جس کی مثال ادبی مکالمے میں ان کا متواتر ذکر اور عوامی حلقوں میں ان کے اشعار کی گونج ہے۔
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
واللہ اعلم بالصواب!
٭٭٭