بقول شخصے۔ کہ۔
شملہ بمقدار علم۔ جتنا علم اتنی ہی پگڑی۔
تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ۔ سلطنت ادب میں رئیس فروغ کا شملہ بہت اونچا محض اس لئے بھی ہے کہ جو اپنی پلکوں پر روشن ہونے والے چراغوں کو اس امید پر بالائے طاق رکھتے رہے کہ کوئی راہ ادب کا مسافر ان راستوں کا سراغ پا لے جن پر چل کر اک توانا ادب تخلیق ہوتا ہے۔ فروغ ہمیشہ اپنے نام کی لاج رکھتے نظر آئے کہ فروغ ادب کے لئے بے حسی کی تیز و تند ہواؤں کے مقابل چراغ ہاتھ میں روشن کئے کھڑے رہتے۔ آندھیوں سے بے نیاز احساس کی شمعیں جلاتے اور لفظوں کے گل کھلاتے۔ ادب کی آبرو بچاتے نظر آتے رہے۔
رئیس فروغ کو شعر و سخن کا ناز کہوں تو حق بجانب ہوں کہ آپ کی شاعری میں موجزن کلاسیکی روایت، حسن و جمال کی دلآویزی اور جذبوں کی حلاوت و احساسات کی نزاکت نے آپ کی شاعری کو جو رعنائی و بانکپن عطا کیا ہے اس کی وجہ سے قدم قدم پر متنوع و معطر پیراہنوں کی سرسراہٹ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اور حسن کی کج ادائیوں و عشوہ طرازیوں، عشق کی پاسداریوں کے رومانی تلازموں کی دھنک جا بجا بکھری نظر آتی ہے۔ مگر یہ سب قاری اور سامع کی ژرف نگاہی پر منحصر ہے کہ وہ رئیس فروغ کے کلام جاودانی سے کیا کشید کرتا ہے۔
غزل میں آپ کو جو علم و دانش اور شعور کے ساتھ خیال و بیان کی وسعتیں مقدر رہی ہیں انھیں عطیہ خداوندی کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری کا دامن بہت کشادہ ہے۔ مضامین کے انبار موجزن ہیں۔ اگر ہم رئیس فروغ کے کلام پر تدبر کریں تو تنوع، رنگا رنگی، ہمہ گیری، خیالات و کائنات کے مسائل پر شاعرانہ اور فلسفیانہ نظر کو داد دینا ضروری ہو گی۔ رئیس فروغ کے لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کا شمار ان جید شعراء میں ہے جنھیں عشق اور غم عشق کے ساتھ خیال کے کسی اظہار میں دشواری پیش نہیں آتی۔
اگر انکے گیتوں پر شرف گفتگو مل جائے تو۔ مشتاق عاجز کا اک شعر رئیس فروغ کی نذر کرتا ہوں۔
پھر ساون کی رت آئی، پھر گھور بدروا چھایا
پھر بن میں کویل بولی، پھر گیت کسی نے گایا۔
رئیس فروغ کے لکھے گیت تحت اللفظ سے ترنم تک ساز و آواز میں پیوست ہو کر سنگیت کو جنم دیتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ گیت نگار جب یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی سر اس کے ذہن میں گنگنانے لگا ہے تو وہ تا دیر اس کو کسی اندرونی سطح پر سنتا رہتا ہے اور ایک بار جب کلیدی بول موزوں ہو جائیں تو پھر گیت کا خلق ہونا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ رئیس فروغ کے لئے کہا جاتا ہے کہ جب وہ گیت تخلیق کرتے تو الفاظ قطار اندر قطار آتے چلے جاتے اور خود بخود سطروں میں جڑتے چلے جاتے۔ اور پھر۔ میری ہمجولیاں کچھ یہاں کچھ وہاں۔ جیسے شہرہ آفاق گیت خوشبو بن کر چار سو پھیل گئے۔ اور زبان زد عام ہو گئے۔
بچوں سے متعلق رئیس فروغ کی نظموں پر بات کروں تو۔
فارسی کا قول یاد آتا ہے کہ۔
جامہ آفتاب می دو زد۔
سورج کو لباس پہنانا۔ یعنی ناممکن کام کو آسانی سے کرنا۔
جی۔ بچوں کے ادب پر کام کرنا حقیقی معنوں میں دشوار گزار صنف سخن ہے مگر رئیس فروغ نے بچوں کے ادب پر جو کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ انمٹ ہے۔ جو نظمیں آپ بچوں کے لئے سرمایہ چھوڑ گئے ہیں وہ سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ فروغ ہمیشہ ان احباب سے نالاں ہی رہے جو بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
آپ کا کہنا تھا کہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں ان کی بہتر تربیت میں ہمیں خلوص اور سچائی کے ساتھ حصہ لینا ہے تاکہ مادر وطن کو مثالی قوم مل سکے۔ اپ نے سادہ اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہوئے جدید علوم، فنون اور معلومات سے مزین نظمیں بچوں تک پہنچائیں۔ جو چراغ راہ تسلیم کی جاتی ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ ادب کی خدمت کو شعار سمجھنے والی عظیم الشان شخصیت رئیس فروغ کو رب العالمین اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
٭٭٭