گھر پہنچتے ہی حسنہ اور سارہ ریحان پر ہنس دیں۔۔۔
بڑی مامی کے ہاتھوں قورمہ بن رہا ہوگا اب بیچارے کا۔۔۔حسنہ نے تصور میں ریحان کا قورمہ چڑھتے دیکھا۔۔۔
سارہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
تو نے بھی تو آئس کریم کے بعد چارٹ کی فرمائش جھاڑ دی۔۔۔اپنے فراز سے کہا کر نہ۔۔۔سارہ نے لفظ اپنے پر زور دیا۔۔۔حسنہ شرما گئی۔۔۔اپیا کیا بتاؤں۔۔۔فراز بہت ہی اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔۔۔پڑھےلکھے بھی تو بہت ہے نہ۔۔۔حسنہ کو فراز کا مغرور چہرہ یاد آیا۔۔۔۔
پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے ایسا حسنہ ۔۔۔جاھل کرتے ہیں۔۔۔سارہ نے مذاق اڑایا۔۔۔حسنہ کا دل جل کر راکھ ہو گیا۔۔۔۔
زرینہ سیڑھیاں اترتے دکھائی دی۔۔وہ دونوں الرٹ ہو گئیں۔۔۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں فراز کی۔۔۔زرینہ سب سن چکی تھی۔۔
کچھ نہیں بھابی۔۔۔حسنہ کو زرینہ سے بہت ڈر لگتا تھا اُس نے بات ختم کر دی۔۔۔
سن۔۔۔حسنہ۔۔۔لڑکوں کو میری جیسی لڑکیاں پسند ہوتی ہیں کترینہ کیف جیسی۔۔۔وہ اترائی۔۔۔
تم کھا کھا کے سانڈ ہوتی جا رہی ہو۔۔۔آئینہ غور سے دیکھو ذرا۔۔۔بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہیں بیٹھ گئی۔۔۔۔
حسنہ نے خود کو دیکھا اور پھر زرینہ کو۔۔۔وہ سچ ہی کہہ رہی تھی حسنہ کا وزن کوئی پینسٹھ کلو کے آس پاس ہو گیا تھا۔۔۔
کوئی ٹوٹکا کرو نہ ۔۔۔آج زرینہ الگ ہی موڈ میں تھی ورنہ سیڑھیاں اُترنا اُس کی شان کے خلاف تھا۔۔۔
جی بھابی کرتی ہوں۔۔۔حسنہ باؤلی تھی مگر سارہ کو بھابی کے روّیے سے اندازہ ہو گیا کے پوری کی پوری دال کالی ہے۔۔۔
اچھا حسنہ سنو ذرا۔۔۔زرینہ نے پہلو بدلا۔۔۔
جی جی۔۔۔حسنہ اُس کی باتوں میں آ گئی تھی۔۔۔
میرے کپڑے تو استری کر دو ذرا ۔۔۔مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
جی کر دیتی ہوں۔۔۔حسنہ فوراً راضی ہوئی۔۔۔
سارہ نے اُسے گھورا۔۔۔بھابی آپ خود کیوں نہیں کر لیتی۔۔۔سارہ کو غصّہ آ رہا تھا۔۔۔۔
میرے ہاتھوں میں درد ہے۔۔۔زرینہ نے ہاتھ ہلایا۔۔۔
ریموٹ کا بٹن کم دبایا کریں نہ۔۔۔طنزیہ انداز میں کہتی وہ باورچی خانے میں گھس گئی۔۔۔
چلیں بھابی میں کرتی ہوں۔۔۔حسنہ اُس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔۔
ابھی دفتر میں داخل ہوئی تھی کہ اُس کے پر قیامت ٹوٹی۔۔۔۔
سارہ آج ہم سب واپسی میں تمھاری طرف چلیں گیں۔۔۔اُس کی کولیگ فروہ نے کہا۔۔۔
ہائے وہ کیوں۔۔۔سارہ کے گلے میں کوئی گولہ سا پھنسا۔۔۔۔
تم نے بتایا تھا نہ کے تمھاری موم بیوٹیشن ہیں۔۔۔ہم نے سوچا آج اُن سے سروسز لی جائیں۔۔۔فروہ کی بات پر وہاں موجود سب خواتین نے سر ہلایا۔۔۔
ماڈل ٹاؤن سے ہم سب کے گھر زیادہ دور بھی نہیں اس لیے واپسی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔شانزے نے بھی فروہ کی طرف داری کی۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔نہیں جا سکتے آپ لوگ۔۔۔سارہ کی آنکھوں میں اپنا اسی گز کا گھر گھوم گیا۔۔۔
دیواروں سے چونا بھی جھڑ چکا تھا۔۔۔اور گلی میں تین جگہ گندے پانی کی نالیاں کھلی ہوئی تھیں۔۔۔اور شمع بیگم کا انداز۔۔۔افّفف ۔۔۔نہیں۔۔۔۔اُس کا دل چیخا۔۔۔
کیوں نہیں جا سکتے۔۔۔فروہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
موم بہت بزی ہیں آج کل ۔۔۔ سوسائٹی میں ہی اتنے کسٹمرز ہیں کہ موم کو ٹائم ہی نہیں ملتا۔۔۔بہت شان سے ایک جھوٹی مسکراہٹ اچھالی۔۔۔
اوہ۔۔۔چلو کوئی نہیں ۔۔۔حسنہ سے ہی مل لیں گے۔۔۔شانزے نے نیا شوشہ چھوڑا۔۔۔
حسنہ ۔۔۔اُس کے تو ایگزیمس ہونے والے ہیں نہ ۔۔۔وہ لائبریری میں ہوتی ہے گھر سے زیادہ۔۔۔سارہ کو نیا جھوٹ بولنا پڑا۔۔۔
چلو کوئی نہیں۔۔۔نیکسٹ ویک چلیں گے۔۔۔۔۔سب نے متفق ہو کر کہا۔۔۔۔
سارہ کی جان میں جان آئی۔۔۔۔
عطیہ ریل بٹن خریدنے نکلی تو گلی کے کونے پر ہی ذیشان کا رکشا کھڑا تھا۔۔۔ذیشان نے عطیہ کو دیکھتے ہی منہ میں بھرے پان کو سائڈ میں تھوکا۔۔۔دیوار پر نظر پڑی۔۔۔جہاں جلی حروف میں لکھا تھا یہاں تھوکنا منع ہے۔۔۔جلدی سے ادھر اُدھر نظر دوڑائی آس پاس کوئی نہیں تھا۔۔۔ رکشا اسٹارٹ کیا۔۔۔عطیہ قریب پہنچ گئی تھی۔۔۔بیٹھ جاؤ جلدی۔ ذیشان نے عطیہ کو جلدی سے رکشے میں بٹھایا۔۔۔بازار چلو۔۔۔منہ پھلائے بولی۔۔۔اب کیوں موڈ قریب ہے۔۔۔انگلیوں سے ہونٹوں کے کناروں کی لالی صاف کی۔۔۔تم چھوڑ نہیں سکتے یہ پان۔۔۔عطیہ کو اُس کا پان کھانا سخت نہ پسند تھا۔۔۔
ارے مجبوری ہے جھلی۔۔۔ذیشان کے ہنستے ہی لال دانت جھلملائے۔۔۔عطیہ کا مزید خون جل گیا۔۔۔۔
کیسی مجبوری۔۔۔دانت پیستے ہوئے شیشے میں سے اُسے گھو را۔۔۔۔
منہ میں کچھ نہ ڈالوں تو نیند لگ جاتی ہے یار۔۔۔سواری سمیت جنت پہنچ جاؤں گا۔۔۔وہ کمال ڈھیٹآئی سے بولا۔۔۔
جنت۔۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔جمعہ تک تو پڑھا نہیں جاتا جنت میں جاؤ گے۔۔۔
ذیشان نے رکشا سائڈ پے لگایا۔۔۔اتنا برا لگتاہوں تو نہ آیا کرو میرے ساتھ۔۔۔۔غصے میں عطیہ کو اترنے کا اشارہ کیا۔۔۔
عطیہ نے غصے سے اُسے دیکھا۔۔۔بازار جانا ہے۔۔۔۔وہ غرآئی۔۔
تو جاؤ نہ پیدل۔۔۔تائ امّاں کو ویسے ہی میں زہر لگتا ہوں۔۔۔پان کی پڑ یا میں سے بچا ہوا آدھا پان نکال کر منہ میں ڈالا۔۔۔عطیہ اُسے پان منہ میں ڈالتا دیکھ رکشا سے چھلانگ لگا کر اُتری۔۔۔تم سے اچھا تو فراز ہے۔۔۔پڑھا لکھا سرکاری نوکری والا۔۔۔۔اُس کے دانت بھی صاف ہیں۔۔۔۔عطیہ کے الفاظ ذیشان کی غیرت پر ٹھا کر کے لگے۔۔۔
ہاں تو کر لینا اُس بیغیرت فراز سے ہی شادی۔۔۔۔ذیشان نے غصے میں رکشا اسٹارٹ کیا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
ہائے یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔عطیہ کو اندازہ ہوا اُس نے غلط وقت پر پنگا کیا تھا۔۔۔بازار ابھی کافی دور تھا اُسے پیدل چلنے میں موت آتی۔۔۔۔۔۔اب تو ذیشان جا چکا تھا فراز کے ذکر پر تو ذیشان کو ہمیشہ ہی مرچی لگتی۔۔۔۔فراز کا لائق ہونا باقی سارے خاندان کے لڑکوں کے لیے عذاب بن گیا تھا اسی لیے باقی سب نے مل کر فراز کا نام بیغیرت فراز رکھ دیا۔۔۔۔
حسنہ کو دبلا ہونے کا جنون سوار ہو گیا۔۔۔بھابی کی باتوں نے اُس کے دل میں دبلا ہونے کی خواہش پیدا کر دی تھی۔۔۔
ہر وقت مارننگ شو لگائے دبلا ہونے کے ٹوٹکے سیکھ رہی تھی حسب ضرورت ایک دو کاپی پر بھی لکھ ڈالتی۔۔۔۔پچھلے ایک ہفتے سے شمع بیگم اُسے دیکھ رہی تھیں مگر اب تک چپ تھیں۔۔۔ آج اُن کا صبر جواب دے گیا جب گیارہ بجے بھی گھر گندہ پڑا دیکھا اور حسنہ کوپی میں ٹوٹکے اُتارنے میں مصروف نظر آئی تو شمع بیگم نے آگے بڑھ کر ٹی وی بند کر دیا۔۔۔۔
امّاں ۔۔۔حسنہ چلائی ۔۔۔کیا مسئلہ ہے تمہارا۔۔۔۔
دبلا ہونا ہے نہ تو جھاڑو پونچھا کر۔۔۔سمجھی۔۔۔امّاں نے نیا ٹوٹکا بتایا۔۔۔
پیٹ میں پیر دبا کر بیٹھ اور ہر کونے کونے سے کچرا نکال۔۔۔۔ہر فرنیچر کے نیچے گھس گھس کر پونچھا مار۔۔۔
پیٹ خود ہی اندر جاۓ گا۔۔۔
اور قد بڑھا نا ہے نہ تو اُچک اُچک کر باورچی خانے کی چھت اور دیواریں بھی رگڑ ڈال سرف سے۔۔۔شمع بیگم نے اپنے تئیں بہت کام کی بات بتائی۔۔۔
امّاں ہزار بار کہا ہے اپنے تیزابی ٹوٹکے مجھے نہ دیا کرو تم۔۔۔۔وہ جھنجلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔کوپی میں کوئی سات آٹھ ٹوٹکے تو اُس نے باجی رشیدہ کے لکھ لیے تھے اب عمل کرنے کی باری تھی۔۔۔۔