یہ گھر جاوید اور نوید صاحب کا ہے شمع بیگم کےبھائیوں کا۔۔۔۔۔نیچے کے پورشن میں جاوید صاحب اُن کی بیگم فرخندہ جاوید ، بیٹا فرحان اور بیٹی عطیہ رہتے ہیں۔۔۔
فرحان ایک میڈیکل سٹور چلاتا ہے جب کے عطیہ نے میٹرک کے بعد گھر میں ہی سلائی کا کام شروع کر دیا۔۔۔
فرخندہ جاوید کو عطیہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔اور عطیہ کو چچی جان کا ذیشان۔۔۔۔
اوپری حصے میں نوید صاحب اُن کی بیگم طاہرہ نوید ۔۔آمنہ ،مومنہ ۔۔۔ذیشان اور ریحان رہتے ہیں۔۔۔
طاہرہ نوید کو آمنہ کے لیے فراز پسند ہے اور مومنہ کے لیے فرحان۔۔۔۔مومنہ کو فرحان سے ہی محبت ہے مگر آمنہ کو فراز ایک آنکھ نہیں بھاتا۔۔۔
ذیشان رکشا چلاتا ہے۔۔عطیہ اُس کی بچپن کی محبت ہے۔۔۔ جب کے ریحان گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا ہے۔۔۔اور حسنہ کے عشق میں مبتلا ہے۔۔
قسمت ان کے ساتھ کیا کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا)
دروازہ بجنے کی آواز پر فرخندہ جاوید چیخیں۔۔۔ہم ہی کھولیں گے کیا دروازہ۔۔۔اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی ہیں ماہ رانیاں۔۔۔۔ہم نوکر لگے ہیں ان کے۔۔
۔۔ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں کم بخت ماریو ں کی سیڑھیاں اترنے میں۔۔۔
امّاں اتنی دیر میں تو دروازہ بھی کھول آتیں تم۔۔۔عطیہ نے منہ سے دھاگہ توڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تو اپنی سلائی کر۔۔۔میرے منہ نہ لگ۔۔۔فرخندہ دندناتیں ہوئیں دروازے کی طرف گئیں۔۔۔۔
ارے فراز بیٹا آپ۔۔۔سارا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔۔
جی مامی۔۔۔امّاں نے کہا کہ یہ کپڑے عطیہ کو دینے ہیں سلائی کے۔۔۔مغرور نظروں سے مامی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
ہاں ہاں آ جاؤ نہ اندر۔۔۔فرخندہ کے لہجے میں چا شنی گھل گئی۔۔۔
وہ اُسے عطیہ کے سلائی والے کمرے میں ہی لے آئیں۔۔۔
عطیہ امّاں کے ارادوں سے واقف تھی سو فراز کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔۔۔
ارے عطیہ ۔۔۔چھوڑ سلائی ۔۔جا۔۔ جا کے روح افزا گھول فراز کے لیے۔۔۔بڑے پیار سے عطیہ کو کہتی مسکرائیں۔۔۔
امّاں تم ہی گھول لو۔۔۔لائٹ جانے سے پہلے سلائی کرنی ہے پوری۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی۔۔۔
فرخندہ بیگم نے گھور کر دیکھا مگر عطیہ ڈھیٹ بن کر سلائی کرنے لگی۔۔۔۔
مامی آپ تکلف نہ کریں میں چھوٹی مامی سے مل کر جاؤں گا بس۔۔۔عطیہ کا روّیہ دیکھتے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
طاہرہ نوید نے جیسے ہی فراز کو دیکھا ۔۔بلائیں لے ڈالیں۔۔۔میرا بچہ ۔۔اللّٰہ نظر بد سے بچائے۔۔۔منہ ہی منہ میں کچھ پڑ کر پھونکا۔۔۔
بیٹھو نہ بیٹا۔۔۔آمنہ نے پلاؤ بنایا ہے کھا کر جانا۔۔۔محبت سے بولتے ہوئے آمنہ کو اشارہ کیا۔۔۔۔آمنہ نے ماں کو ان دیکھا کرتے ہوئے ٹی وی کی آواز بڑھا دی۔۔۔
مومنہ نے ماں کی لاج رکھتے ہوئے دستر خوان لگایا۔۔۔
فراز کے مزاج نہیں مل رہے تھے۔۔۔مامی آلو کا پلاؤ۔۔۔۔فراز نے منہ بنا لیا۔۔۔۔
ہاں بیٹا بس گوشت سے جی اُکتا گیا تھا۔۔۔طاہرہ نے جھٹ سے بات بنائی۔۔
مومنہ کو ہنسی آنے لگی۔۔۔پچھلے ایک ہفتے سے گوشت بنا ہی نہیں تھا۔۔۔
بھائ کے لیے ایک کالی بوتل منگوا دو باہر کسی بچے سے۔کھاتےمیں لکھوادینا۔۔۔۔۔
اور سنو۔۔تیس والی چھوٹی منگوانا۔۔۔۔مومنہ کو گھور کر کہتے ہوئے جیسے ہی فراز پر نظر پڑی مسکرا اٹھیں۔۔۔
بیٹا ہم لوگ کم پیتے ہیں نے گردے خراب نہ ہو جائیں۔۔۔جھینپ مٹاتی ہوئی بولنے لگیں۔۔۔۔
آمنہ ٹی وی کے سامنے ہی جمی بیٹھی تھی امّاں کی بات پر اُس کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔
سارہ تیری پسند کی کڑاہی بنائی ہے میں نے۔۔۔۔شمع بیگم پاؤں دباتے ہوئے بولیں۔۔۔
امّاں یہ لو تنخواھ ۔۔۔اب بس کرو یہ مکھّن لگانا۔۔۔منہ بناتے وہ ابّا کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔
شمع بیگم کا کام ہو چکا تھا۔۔۔
ستاروں سے بھری شال اپنے گرد لپیٹی بازار کے لیے نکل گئیں۔۔۔۔۔فیشیلکی کریمیں خریدنا تھیں آخر۔۔۔
زرینہ کچھ تھوڑا کھانے کو دے دو۔۔۔رّات کے کھانے میں بہت وقت ہے ابھی۔۔۔۔مصدق میاں کی بھوک سے حالت بری ہونے لگی۔۔۔۔ڈرتے ڈرتے زرینہ سے کہا۔۔۔
حد ہے مصدق۔۔۔خاندانی بھوکے ہو تم تو۔۔۔افطار کے وقت پیدا ہوئے تھے کیا۔۔۔اپنی بات پر خود ہی ہنس دی۔۔
مصدق میاں کا منہ مزید چھوٹا ہوگیا۔۔۔۔۔۔
اچھا سنو۔۔۔۔فریج میں پرسوں کی دال اور کل کی تندور کی روٹی پڑی ہے کھا لو۔۔۔اور اب گرم کرنے کے چونچلے نہ کرنا ۔۔۔پھر تمہیں برتن بھی دھونا پڑیں گے۔۔فکر کرتے لہجے میں کہا۔۔۔۔جیتو پاکستان دیکھتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ ڈبّے کھلوانے میں بھی مصروف تھی۔۔۔۔
مصدق خاموشی سے نیچے چلا آیا۔۔۔
بھائ بریانی لائے تھے نہ۔۔۔مصدق کو دیکھتے ہی حسنہ نے سوال کیا۔۔۔
ہاں لایا تھا۔۔۔۔حسنہ ۔۔کچھ کھانے کو ہے تو دو۔۔۔۔وہ بیچارگی سے بولا۔۔۔
بریانی کھا کے بھی۔۔۔۔حسنہ نے آنکھیں پھیلائیں۔۔۔
حسنہ منہ بند کر اپنا۔۔کیا بریانی بریانی لگائی ہے۔۔۔تصور
میں زرینہ چمچ بھر بھر کھا تی یاد آئی۔۔۔کمینی عورت۔۔۔دل ہی دل میں زرینہ کو گالی دے ڈالی۔۔۔
حسنہ نے جلدی سے مصدق کے ڈر سے کھانا نکال دیا۔۔
اتوار کی صبح حسنہ جلدی اٹھ گئی۔۔۔آج سارا کے ساتھ ایک سوٹ خریدنے جانا تھا۔۔۔ابھی وہ صفائی سے فارغ ہو کر جانے کی تیاری پکڑ ہی رہی تھی۔۔۔امّاں کے چلّانیے کی آواز آئی۔۔۔
زرینہ او زرینہ۔۔۔تیرا دماغ جگہ پے ہے کے نہیں۔۔۔شمع بیگم سیڑھیوں کے پاس کھڑی چلا رہی تھیں۔۔۔
امّاں اب کیا ہوگیا۔۔۔سارا اور حسنہ کمرے سے نکل آئیں۔۔۔
صحن میں قدم رکھتے ہی حسنہ کے پیروں میں مٹّی لگی۔۔۔ابھی تو صفائی کی ہے۔۔۔اُسے سمجھ نہ آیا۔۔۔۔
اوپر سے زرینہ بھابی نے جھانکا۔۔۔
صفائی کی ہے میں نے۔۔۔مٹّی نیچے آ گئی بس۔۔۔۔ایک جلا دینے والی مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل گئی۔۔۔
حسنہ اور سارا تو بھای کے ڈر سے کچھ نہ کہتی ۔۔مگر شمع بیگم جہاں تک بول سکتیں حسب توفیق ضرور کہہ ڈالتیں۔۔۔۔۔
وہ دونوں بازار کے لیے نکلیں ۔۔۔
دکان پر بیٹھی حسنہ کو ہر سوٹ پسند آ جاتا۔۔۔سارہ نے کہنی ماری۔۔۔ایک ہی لینا بس ہزار والا۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔
ہممم۔۔حسنہ کا دل ٹوٹا۔۔۔۔۔۔
بہت مشکل سے ایک سوٹ خریدا۔۔۔واپسی پر ریحان راستے میں ٹکرا گیا۔۔۔
حسنہ کو دیکھ ریحان کی بانچھیں کھل گئیں۔۔۔
چلو آئس کریم کھلاتا ہوں۔۔وہ حسنہ پر آنکھیں جمائے بولا۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔حسنہ اور سارہ فٹ راضی ہو گئیں۔۔۔
ریحان گوشت لینے نکلا تھا۔۔۔گوشت کے پیسوں سے آئس کریم خرید ڈالی۔۔۔۔
امّاں کی جوتیاں کھانے سے کوئی نہیں بچا سکتا وہ جانتا تھا مگر حسنہ پر تو جان بھی قربان۔۔۔۔
چھوٹے قد پر گول مٹول حسنہ کی بڑی بڑی کاجل والی آنکھیں۔۔۔ریحان کا دل اُسے دیکھ کر بے قابو ہو جاتا۔۔۔
ریحان۔۔۔حسنہ نے بہت لاڈ سے پکارا۔۔۔
ہاں حسنہ بولو نہ۔۔۔۔ریحان نے ہے قراری سے کہا۔۔۔۔۔
چنا چاٹ بھی کھلاؤ نہ۔۔۔وہ اٹھلا ئی۔۔۔
ہاں ہاں ضرور۔۔۔۔جیب میں پڑے بل کے پیسے نکال کر گنے۔۔۔
چلو ۔۔۔کھلاتا ہوں۔۔۔فراخ دلي سے بولا۔۔۔
گوشت اور بل کے پیسے ٹھکانے لگ گئے تھے۔۔۔اُس نے خود کو امّاں سے جوتیاں کھانے کو تیار کر لیا۔۔۔