صنم کو گزرے ہوے ایک ہفتہ گزر گیا
بیا سے کوئی بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتا تھا
رمیز علی شاہ کو پورا یقین تھا کہ اسکی بیٹی بے قصور ہے
ریان نے بھی بیا سے کوئی بات نہیں کی
بیا نے پھوپھو کو سمجھانے کی بہت کوشش کی
پر ھر بار پھوپھو نے اسے مجرم قرار دیا
عبّاس ۔۔۔
مجھے سے کیوں ناراض ہو ؟
میرا ان سب میں کیا قصور ؟؟
مجھے بھی صنم کے جانے کا بے حد دکھ ہے
تم ۔۔۔
بس کرو وش ۔۔عبّاس غصے میں چلآیا
وش کے قریب آیا
دونوں بازوں پر اپنی سخت ہاتھ گڑ دیے
وش کو درد محسوس ہوا ایک اہ نکلی ۔
قصور ؟؟؟
تمارا یہ قصور ہے کہ تم میری بہن کی قاتل کی بہن ہو
تم سے بات اس لئے نہیں کرتا کیوں کہ تمیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے مجھے
کہ میں جس سے محبّت کرتا ہوں اسکی بہن نے میری بہن کو جان سے مار دیا
تمیں دکھ ہے ؟؟ لیکن وش تماری بہن کو نہیں ہوا ذرا بھی دکھ
جب میری بہن کو بے دردی سے مار رہی تھی ۔۔۔
عبّاس کی آنکھوں میں خون سوار تھا
عبّاس بس کرو ۔۔
بیا آپی بے قصور ہے انہوں نے کچھ نہیں کیا ۔۔
وش بےبسی کے عالَم میں روئی
عبّاس نے اسے جھٹکے سے چھوڑا وش 2 قدم پیچھے کی طرف گری ۔۔۔
اور دیوار کے ساتھ لگ گئی
دونوں بازوں کو دیکھا جس کی نرم جلد پر انگلیوں کے نشان بن گے تھے ۔۔۔
چلی جاؤ یہاں سے عبّاس نے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا
وش نے امید بھری نظروں سے
دیکھا
لیکن عبّاس نے منہ پھیر لیا ۔۔
عبّاس میرا بھی تو تم سے رشتہ ہے تماری منگتیر ہوں
ہمارا رشتہ ہماری محبّت ۔۔۔
عبّاس نے غصے سے دیکھا تو وش کے الفاظ دم توڑ گے
عبّاس سیدھا ہوا
تو وش نے گھبرا کر نیچے دیکھا وش کا پورا چہرہ آنسوں میں بھیگا ہوا تھا
میرا ساتھ دو گئی ؟؟؟
عبّاس نے وش کے چہرے پر نظریں جمائی
ہاں دوگئی تم جو بولو گے ویسا کروں گئی
وش نے ہاتھ کی پشت سے چہرہ رگڑا
ٹھیک ہے جب تک بیا آپی کی بے گناھی ثابت نہیں ہو جاتی تب تک تمیں اپنی بہن سے ھر تعلق توڑنا ہوگا
وش کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا
اگر نہیں کر سکتی تو محبّت میں جھوٹے دعوے بھی مت کرو
آزاد کر لو خود کو
عبّاس نے حتمی فیصلہ سنایا
عبّاس ایسا مت کہو
میں تمیں نہیں چھوڑ سکتی اور نہ ھی اپنی بہن کو
وش نے التجا کی
سوچ کر فیصلہ کرو
کیوں کہ میں اپنی بہن کے قاتل کو سخت سے سخت سزا دلواو گا ۔۔
عبّاس کہہ کر نکل گیا
وش دیوار سے رگڑتے ہوے زمین پر بیٹھی
اور منہ گھٹنوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر روئی کیوں اب اس کے لئے فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔
صباء پلیز کچھ کھا لو
ریحانہ نے صباء سے منت بھرے لہجے میں کہا
میز کے آس پاس کرسیوں میں موجود ھر شخص بیٹھا تھا بس بیا نہیں تھی
شاہ ہاؤس کا رواج تھا جتنی بھی بھوک ہو کم زیادہ اور چاہے نہ بھی ہو لیکن بیٹھے گے سب ساتھ ۔۔۔
بیا سوجھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اکر ایک کرسی پر بیٹھی
ریان کو بے حد افسوس ہوا
عمر نے ایک نظر دیکھا تو تڑپ گیا
بیا نے نوالہ بنایا
تو صباء نے پکارا ریان ۔۔
جی پھو پھو ۔۔
تم کب مجرم کو اسکی اصلی جگہ لے کر جاؤ گے ؟؟
سبی کے ہاتھ رکے داد جی افسوس بھری نظروں سے رمیز کو دیکھا
پھوپھو جیسے ھی مجرم کا پتا چل جائے گا اسی وقت ۔۔ریان نے اطمینان سے جواب دیا
سامنے تو ہے صنم نے گواھی بھی دی بیا کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔
بیا کو لے کر جاؤ یہ جب جب میرے سامنے آتی ہے میری تکلیف میں اضافہ کرتی ہے
بیا کے کئی آنسوں اسکی گود میں گرے ۔۔
صباء بیا نے کچھ نہیں کیا رمیز اپنی بیٹی کے لئے بولے ۔۔۔
پر صباء نے اپنے بھائی کو نظر انداز کیا ۔۔۔
ریان تم سے کچھ کہہ رہی ھوں صباء نے ریان کو غصے سے کہا لیکن آواز دھیمی تھی ۔۔
بیا اٹھ کر جانے لگی ۔۔
تو ریان نے بیا کو آواز دی
بیٹھو بیا ۔۔۔
سب کو حیرت بھی ہوئی ۔۔
بیا شرمندہ ہوکر واپس بیٹھی ۔۔
پھوپھو آپ کو یقین ہے کہ اشارہ بیا کی طرف تھا ؟ ریان نے پلیٹ کو ذرا کسکھایا ۔۔۔
کیا مطلب ریان ؟؟؟ کیا تم وہاں موجود نہیں تھے تمارے سامنے تھا سب کچھ ۔۔۔۔۔
صباء نے حیرت سے کہا
وہاں بیٹھے سبی افراد کو حیرت ہوئی ۔۔
موجود تھا جبھی آپ سے پوچھا ۔۔
اے سی پی ریان اپنی ڈیو ٹی نبھانا جانتا ہے
اگر بیا قصور وار ہوتی تو میں ضرور ایکشن لیتا ۔۔
بیا نے نظر بھر کر ریان کو دیکھا ۔۔
تو بیا قصور وار ہے ریان بھائی
عبّاس نے ایک دم کہا ۔۔
صنم نے مرتے وقت انگلی سے اشارہ کیا تھا تو مطلب بیا نے خون کیا ہے آمنہ نے جوس کا گھونٹ بھر تے ہوئے کہا
بیا کو محسوس ہوا کہ وه اپنوں کے سامنے مجرم بن چکی ہے
وش نے عبّاس پر افسوس کیا ۔۔
نہیں بیا کو میں مجرم مان ھی نہیں سکتا ریان نے بیا کی معصومیت دیکھ کر کہا
جس پر صباء عبّاس کو مزید غصہ آیا
آمنہ نے منہ بسور کر جوس پر توجہ دی
ماہم عمر رمیز داد جی عابد جواد وش رمشہ البتہ خاموش رہے ور پوری توجہ سے ریان کو سن رہے تھے
تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو عبّاس نے سوال کیا ۔۔
ماہم ۔۔۔ریان نے پکارہ ۔۔
ماہم نے ریان کو دیکھا
بیا جب آئی تو تم بھی ساتھ تھی ۔۔
ماہم ہربڑآئی ۔۔ہاں تھی ۔۔
عمر تم بھی تھے ریان اب عمر کی طرف متوجہ ہوا
ہاں میں بھی تھا ساتھ ۔۔۔
تم اور ماہم اگے تھے ۔۔
رائٹ ؟؟ ریان ایک آفیسر کی طرح اب سوال جواب کر رہا تھا ۔۔
بیا تم لوگوں کے درمیان تھی
لیکن پیچھے
رائٹ ماہم ؟؟؟
ماہم نے ہاں میں سر ہلایا
رائٹ عمر ؟؟ ریان نے اب عمر سے پوچھا
ہاں ۔۔عمر نے دادجی کو حیرت سے دیکھ کر کہا ۔۔
بیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ ؟
ریان نے بیا سے پوچھا
بیا نے ہلکا سا سے سر ہلایا ۔
جب صنم نے اشارہ کیا تھا
تو عمر اور ماہم تم دونوں ہلکا سا ہلے تھے تا کہ بیا سامنے آجاے
ایسا ھی تھا ؟؟؟
ریان نے تقریبا ان سب کی طرف دیکھا جو ہوسپٹل میں موجود تھے
پر ریان صنم نے بیا کا نام لیا تھا ماہم نے یاد کروایا ۔۔
بلکل لیا تھا
صنم بیا کی اچھی دوست بھی تھی ہو سکتا ہے بیا کو کچھ بتانا چاہتی ہو ؟؟
جب تک ثبوت نہیں ملے گا میں کسی کو بھی جیل میں نہیں ڈال سکتا ۔۔
ریان نے بات ختم کی ۔۔
اب شک کی سوئیاں عمر اور ماہم پر بھی تھی ۔۔
بیا کو ریان اپنا محافظ لگا ۔۔
لیکن ریان کے دماغ میں بہت سے سوال ابھی بھی موجود تھے
ریان وردی میں ملبوث ۔۔
تیار ہوکر جانے کے لئے نکلا ۔۔
تو سامنے بیا تھی اسے یاد آیا کہ بیا نے اس دن پورا بیان سچائی کے ساتھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔
بیا ۔۔۔
ریان نے آواز دی
جی ۔۔
بیا رکی
پانی پلا دو گئی
جی ابھی لاتی ہوں
بیا تھوڑی دیر میں گلاس لے آئی
یہ لے پانی ۔۔
ریان موبائل میں بزی ہوا
ہمم رکھو ۔۔یہاں ایک منٹ
بیا پانی کا گلاس رکھ کر چلی گئی ۔۔
وہاں کسی کو نہ پاکر ریان نے گلفز کی مدد سے گلاس اٹھایا
اور باہر جا کر انڈیل دیا
اور گلاس محفوظ کر لیا
نہ چاھتے ہوے بھی انعم کی لیب کی طرف کار موڑ دی
اور پورے راستے دعا کی کہ اسکی محبّت پاک رہے کسی بھی قسم کا داغ نہ لگ پاے
بیا اگر تم مجھ سے جھوٹ نہ بولتی تو میں کبھی بھی یہ قدم نہیں اٹھاتا
میری محبّت کے ساتھ ساتھ میرا فرض بھی ہے ۔۔
ایک امید بھی تھی دل گواہی دے رہا تھا کہ بیا بے قصور ہے
بس اسی آس پر چل پڑا
انعم یہ لو اس میں بیا کے فنگر پرنٹس ہے
انعم حیران ہوئی
سر یہ وہی بیا تو نہیں جس سے آپ ؟؟؟
انعم مجھے کال کرنا ۔۔
ریان نے گلاسس آنکھوں پر چڑھاے
اور نکل گیا ۔۔۔
دوپہر ہوگئی تھی
پولیس اسٹیشن میں ریان کا دل نہیں لگ رہا تھا عجیب سی بے چینی تھی ۔۔۔