ہیلو ریان
جی پاپا
کہاں ہو تم ہوسپٹل پہنچوں فورا
ریان نے کار روکی
پاپا سب ٹھیک تو ہے نہ صنم ٹھیک ہے نہ ؟
ہاں ہاں صنم کو ہوش آیا ہے
ہم ہوسپٹل میں ھی ہے
جواد نے ریان کو نئی امید دی
سچ پاپا میں ابھی آرہا ہوں
صنم کے بیان سے ھر راز کھل جائے گے
ریان نے ایک لمبھی سانس لے کر خارج کی
اور کار ہوسپٹل جانے کے راستے کی طرف موڑ دی
ماہم چلو جلدی
ہاں بیا میں تیار ہوں
تائی ماں۔ چچی ہم نکلتے ہیں ہوسپٹل کے لئے
بیا اکیلی جا رہی ہو ؟
نہیں چچی ماہم ہے اور عمر باہر کار میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں
تائی ماں اور چچی کو تسلی ہوئی
بیا اور ماہم عمر کے ساتھ نکلے
داد جی جواد علی شاہ اور صباء کے ساتھ پہلے سے ھی موجود تھے
عمر کی نظر بار بار بیا پر جا رہی تھی
پھوپھو
صنم کیسی ہے
ریان اندر جانے لگا تو داد جی روکا
صنم کو ہوش آیا تھا ابھی سو رہی ہے دوبارہ
ریان سن کر رکا
اتنے میں ڈاکٹر باہر آئی صنم سے آپ لوگ مل سکتے ہیں پر پلیز اسے کوئی بھی ٹینشن یا ذہنی صدمہ نہ ہونے دینا
جی جی ڈاکٹر ۔۔ریان کہہ کر اگے بڑھا
داد جی
جواد علی شاہ
صنم کے لفٹ سائیڈ پر کھڑے ہوے
صباء اور ریان رائٹ سائیڈ پر
صنم نے چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھلی
پھر ایک دم پڑنے والی روشنی بھرداشت نہ ہوئی اور آنکھیں بند کر لی ۔۔۔
صباء نے ہاتھ تھاما اور اپنے لبوں سے لگایا
میری بچی آنکھیں کھلوں
صنم نے ہلکی ہلکی آنکھیں کھلولی
م۔۔مم ۔۔۔مما لبوں نے بڑی مشکل سے ماں کو پکارا
ہاں ۔۔ہاں میرے بچے میں تمارے پاس ہوں صباء نے صنم کے آنسو صاف کئے
صنم مسکرائی پھر گردن موڑ کر اپنے لفٹ سائیڈ دیکھا
نانا جان ۔۔۔
دادجی نے پٹی والا ہاتھ تھاما
صنم پھر اپنے بڑے ماموں کی طرف دیکھ کر مسکرائی
جواد علی شاہ تھوڑا بیڈ کے قریب آے
صنم نے جواد سےہوتے ہوئے نظریں ریان پر ٹکائی
ریان اگے بڑھا صنم کچھ کہنا چاہتی تھی
سب نے ھی سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا
ریان ۔۔۔
صنم تمارے ساتھ یہ سب کس نے کیا ۔۔
صنم کی آنکھوں کے سامنے بھیانک منظر گھوما ۔۔۔
اتنے میں دروازے پر ماہم بیا عمر پہنچے
تینو صنم کے پیروں کی طرف کھڑے ہوئے ۔۔
صنم کی نظر ان تینوں پر پڑی
صنم ۔۔۔
ریان نے دوبارہ پکارا
بولو صنم کون تھا کچھ کہنا چاہتی ہو کیا ریان صنم کے سر کی طرف آیا ۔۔
صنم کے ہونٹ لہرز رہے تھے
بچ۔۔۔ا ۔۔۔۔
بائیں ہاتھ کی انگلی کپکپآتی ہوئی اٹھی ۔۔
بیا ۔۔۔۔
سب کی نظریں صنم کے ہاتھ سے ہوتے ہوے اس کی کپکپی انگلی پر گئی
اور پھر بیا تک پہنچی
بیا کا حیرانگی میں صنم کی انگلی کی طرف گئی عمر کی نظریں صنم کے چہرے پر تھی
ماہم بیا کو دیکھ رہی تھی
صنم کی سانسیں تیز ہوئی
صنم ۔۔۔
ریان ڈاکٹر کو بھلاو
دادجی کے کہنے پر ریان اپنے حواسوں میں لوٹا ۔۔
اور پھر
دیکھتے ھی دیکھتے
صنم کی دھڑکنیں روکی
اور سیدھی لائن پر جب نظر پڑی
تو سب کے کلیجے پھٹے
صنم کا ہاتھ بے جان ہوکر بیڈ پر گر چکا تھا آنکھیں اب بیا پر تھی
نا جانے کیا کہنا تھا
صنم سب جو چھوڑ کر جا چکی تھی ۔۔۔
صنم آنکھیں کھولو خدا کے لئے آنکھیں کھولو
تماری یہ بوڑھی ماں اس صدمے کو بھرداشت نہیں کر سکتی
صنم میرا حکم ہے
اٹھو
ماہم نے صباء کو سمبھلا
ڈاکٹر سے بات چیت کے بعد اب صنم کو امبولینس میں لے کر جانے لگے
صباء کو دادجی اور ماہم لے کر گھر کی طرف نکلے
صباء بحال تھی
تھوڑی دیر کے بعد امبولینس میں ریان اور بیا صنم کے ساتھ
تھے
عمر اور جواد علی شاہ الگ کار میں گھر کی طرف گے
پورا گھر ماتم میں تبدیل ہو چکا تھا
رمشہ اور عبّاس اپنی بہن کی موت کو تسلیم نہیں کر پا رہے تھے
وش ریحانہ تائی کے ساتھ بیٹھے آنسو بہا رہی تھی
ساجد آے ہوے لوگوں میں مصروف تھا
داد جی چپ چاپ کھڑے تھے
رمیز اور عابد نے کفن کا بندوبست کیا
صباء صنم کا ہاتھ پکڑے اسے ہلا رہی تھی
رمشہ آپی آپی کہہ کر چلا رہی تھی
لوگ ماں بیٹی کو حوصلہ دے رہے تھے
لوگو کو تفصیل ببتانے میں مگن چھوٹی چچی آمنہ منہ بنا بنا کر بتا رہی تھی جس پر لوگ حیرت کا مظاہرہ کر رہے تھے
ریان اور عمر صباء کے پاس آے انھیں صبر کرنے کا کہہ رہے تھے
قک اب جنازہ اٹھنے والا تھا
بیا بھی وہی موجود آنسو بہا رہی تھی
اسے بار بار صنم کا اٹھتا ہوا ہاتھ یاد آرہا تھا
پتا نہیں صنم تم نے میری طرف کیوں اشارہ کیا
صباء کی نظر بیا پر پڑی
صباء نے اپنے کندھے سے ریان کا ہاتھ جھٹکا
اور بیا کی طرف آئی
بیا نے صباء کو دیکھ کر انکے گلے لگنے کے لئے اٹھی اور دو قدم اگے بڑھاے
بیا نے اپنی بہائیں کھلی لیکن صباء نے اچانک
ایک چٹاخ کی آواز سب نے سنی
بیا نے ایک ہاتھ اپنے گال پر رکھا
کیا دشمنی تھے میری بیٹی سے ہاں ؟؟؟
وش اور ریحانہ نے صباء کو غصے میں تھاما
بیا بے سود کھڑی تھی
ریان نے اونچی آواز میں کہا
داد جی تدفین کا وقت ہو گیا ہے
صباء الٹے پاؤ صنم کی طرف بھاگی
میری بیٹی کو کہی لے کر مت جائے
رمشہ نے اگے بڑھ کر روکا
نہیں آپی کو کہی لے کر نہیں جا سکتے
میری بہن کو کوئی لے کر نہیں جائے گا
عباس نے اپنی بہن کو گلے لگایا
بھائی پلیز آپی کہی نہیں جائے گئی نہ
عبّاس کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے
رمشہ امی کو سمبھالو تم پلیز
عبّاس نے منت سماجت کے ساتھ کہا
رمشہ نے صباء کو گلے لگایا
امی ۔۔۔
غم تھا جو کسی بھی صورت کم نہیں ہو سکتا
طوفان تھا جو اب تھم نہیں سکتا
سیلاب تھا جو اپنے ساتھ شاہ ہاؤس کی تمام خوشیاں لے کر جا چکا تھا