ہم جب روزمرہ کی دنیا میں بڑی اشیا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کوانٹم ورلڈ جیسا عجیب behavior نہیں دکھائی دیتا۔ ایک کرسی یا تو یہاں ہے یا پھر وہاں۔ یہ بیک وقت دونوں حالتوں میں نہیں۔
یا کسی ہوٹل کے کمرے میں جب میں رات کو کھٹکا سن کر جاگا تو میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا کہ کرسی کہاں پر ہے لیکن یہ یقیناً کسی معین جگہ پر ہے۔
اور پھر جب میں اس سے ٹکرایا تو ہمارے مستقبل entangle نہیں ہو گئے۔
جس دنیا کو ہم جانتے ہیں، اس میں بلی یا تو زندہ ہوتی ہے یا مردہ۔ خواہ وہ ڈبے کے اندر ہو جسے
ہم نے نہ کھولا ہو۔ اگر ڈبہ کھولنے پر وہ مردہ پائی گئی تو غالباً وہ کچھ دیر پہلے سے مردہ ہو گی اور اس کا ہمیں اس سے آنے والے بساند سے بھی پتا لگ جائے گا۔
روزمرہ کی اشیا میں کوانٹم عجیب پن نہیں پایا جاتا، جو اس کو بنانے والے اجزا، یعنی ایٹموں میں پایا جاتا ہے۔ یہ بڑی صاف سی بات لگتی ہے لیکن یہی ایک اسرار بھی ہے۔ کوانٹم مکینکس نیچر کی مرکزی تھیوری ہے۔ اگر اس کا ایک ایٹم پر اطلاق ہوتا ہے تو دو، دس یا سو پر بھی۔ اور ہمارے پاس بہترین تجرباتی شواہدات ہیں کہ یہ بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہت نفیس تجربات میں بڑے مالیکیولز کو سپرپوزیشن میں رکھا جا چکا ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ بڑے مالیکیول بھی اتنے ہی عجیب ہیں جتنا کہ الیکٹرون۔
کوانٹم مکینکس کا اطلاق ایٹموں کے بڑے مجموعے پر بھی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ میں یا آپ یا کرسی یا پھر بلی پر؟ لیکن لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اور لگتا ہے کہ نہ ہی کوانٹم مکینکس کے اثرات ان آلات اور مشینوں پر ہیں جن سے ہم ان ایٹموں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کے عجیب پن کو آشکار کرتے ہیں۔
جب ہم ایٹم کی خاصیت کی پیمائش کرتے ہیں تو ہم بڑے آلات استعمال کرتے ہیں۔ ایٹم کئی حالتوں کی سپرپوزیشن میں ہو سکتا ہے لیکن پیمائش کرنے والا آلہ ہمیشہ ممکنہ جوابات میں سے صرف ایک ہی بتاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کوانٹم مکینکس کی یہ خاصیت اس آلے میں کیوں نہیں جو کوانٹم سسٹم کی پیمائش کر رہا ہے؟
اس کو پیمائش کا مسئلہ (measurement problem) کہا جاتا ہے اور یہ 1920 کی دہائی سے متنازعہ اور غیرحل شدہ ہے۔ اتنے عرصے میں ماہرین اس بارے میں اتفاق پر نہیں پہنچ سکے، ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نیچر کے بارے میں کچھ بنیادی چیز ابھی تک سمجھ نہیں پائے۔
کہیں پر ایک ٹرانزیشن ہے جو کوانٹم دنیا، جس میں ایٹم بیک وقت کئی مقامات پر ہو سکتا ہے، اور عام دنیا ، جس میں ہر شے ہر وقت کسی معین جگہ پر ہے، کے بیچ ہے۔ اگر ایک مالیکیول دس یا نوے ایٹموں سے ملکر بنا ہے جن کی وضاحت کوانٹم مکینکس کرتی ہے تو آخر بلی کی کیوں نہیں۔ کیا ان دنیاوں کے بیچ میں کہیں پر کوئی لکیر ہے جہاں کوانٹم ورلڈ ختم ہوتی ہے۔ “پیمائش کے مسئلے” کا جواب ہمیں بتائے گا کہ یہ لکیر کیا اور کہاں ہے اور اس فرق کی وضاحت کرے گا۔
ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو یقین ہے کہ ان کو پیمائش کے مسئلے کے جواب کا علم ہے۔ اور ان میں سے کچھ خیالات کو ہم بعد میں دیکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیع تر مفہوم میں جو لوگ کوانٹم مکینکس کے اسرار کو حل کرنا چاہتے ہیں وہ دو قسم کے ہیں۔
پہلے گروپ کا یہ خیال ہے کہ کوانٹم تھیوری بالکل درست ہے۔ مسئلہ اس تھیوری کا نہیں ہے بلکہ ہماری سمجھ کا ہے۔ کوانٹم مکینکس کے بارے میں اس حکمتِ عملی کی تاریخ اس کے بانیوں میں سے بہت بااثر سائنسدان نیلز بوہر کی بھی تھی۔ اور اس کا بڑا اثر بعد میں آنے والوں پر رہا۔
دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ تھیوری نامکمل ہے۔ اس کی تک اس لئے نہیں بنتی کہ یہ مکمل کہانی نہیں۔ اور ان کی کوشش اس کو مکمل کرنے کی ہے، جس کے بعد اس کے اسرار کو طے کیا جا سکے گا۔ اس حکمتِ عملی کی تاریخ بھی کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں سے ایک کی ہے، جو کہ آئن سٹائن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم انقلاب میں آئن سٹائن کا بڑا حصہ ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے روشنی کی دہری نیچر (پارٹیکل اور ویو) کا بتایا۔ اگرچہ آج انہیں تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن ان کا نوبل انعام کوانٹم تھیوری پر کام پر ہے۔ اور ان کا خود یہی کہنا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کوانٹم تھیوری پر جتنا وقت لگایا ہے، وہ ریلیٹیویٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ آئن سٹائن کا شمار اس کے لیڈروں میں نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ ایک ضدی رئیلسٹ تھے۔ اور ان کا یہ یقین ان سے تقاضا کرتا تھا کہ وہ اس کو 1920 کی شکل میں تسلیم نہ کریں۔