ڈنمارک ایک چھوٹا ملک ہے جہاں سائنس کی قدر کی جاتی رہی ہے۔ اور یہاں سے تعلق رکھنے والے نوجوان نیلز بوہر تھے۔ بوہر سائنس کو نیچر کے ساتھ مکالمے کے طور پر دیکھتے تھے۔ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے آئن سٹائن کے آئیڈیا کو آگے بڑھایا اور 1912 تک ہائیڈروجن ایٹم کا ماڈل بنا چکے تھے۔ اس وقت تک کیمسٹ ہائیڈروجن کے سپیکٹرم کی پیمائش کر چکے تھے جو بوہر کی پیشگوئی سے مطابقت رکھتی تھی۔ یہ کوانٹم مکینکس کی طرف اہم قدر تھا۔
اس سے اگلی دہائی میں اس کا دوسرے ایٹموں اور سسٹم پر اطلاق کئے جانے کی کوشش رہی لیکن بہت کامیابی نہیں ہوئی۔
اور اس وقت فرانس کے لوئی ڈی بروئے نے فزکس کی دنیا کو ہلا دیا جب انہوں نے ایک عجیب خیال پیش کیا۔ “اگر روشنی بیک وقت ویو اور پارٹیکل ہے تو یہ خاصیت یونیورسل کیوں نہیں؟ یہی خاصیت تمام مادے اور ریڈی ایشن کی کیوں نہیں ہو سکتی؟”۔
(ڈی بروئے اس خیال تک کیسے پہنچے؟ انہوں نے ایک روشنی کے بارے میں ایک سادہ سوال پوچھا تھا، “روشنی کا کوانٹا حرکت کیسے کرتا ہے؟”)۔
ڈو بروئے نے اپنا تھیسس 1924 میں لکھا۔ 1926 میں اس کی تجرباتی تصدیق ہو گئی کہ الیکٹرون بھی بالکل ویسے ہی حرکت کرتے ہیں، جیسے روشنی اور بالکل ویسے ہی ڈیفریکٹ ہوتے ہیں جیسا کہ ڈی بروئے نے پیشگوئی کی تھی۔ پارٹیکل اور ویو کی دوئی صرف روشنی کی ہی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی بروئے کی اس خوبصورت تصویر میں ایک چیز شامل نہیں تھی۔ ایسی مساوات جو یہ بتائے کہ الیکٹرون ویو سپیس میں حرکت کیسے کرتی ہے۔ ارون شروڈنگر نے یہ بروئے کی الیکٹرون ویو کی یہ مساوات ڈھونڈ لی اور پھر ویل کی مدد سے اس مساوات کو نیوکلئیس کے گرد ایک الیکٹرون کے لئے حل کر کے بوہر کی دی گئی سٹیشنری سٹیٹ کی تھیوری نکال لی جو ہائیڈروجن کے سپیکٹرم کے تجرباتی مشاہدے سے بھی مطابقت رکھتی تھی۔
اور یوں کوانٹم مکینکس کی پیدائش ہو گئی۔
اب ہر کسی کے لیئے سوال یہ تھا الیکٹرون ویو، جس کو ڈی بروئے نے ایجاد کیا تھا اور شروڈنگر نے اسے مساوات کے ذریعے قابو کیا تھا، اس کو تصور کیسے کیا جائے؟
شروڈنگر کا شروع میں خیال تھا کہ الیکٹرون صرف ایک لہر ہے۔ لیکن یہ دکھانا آسان تھا کہ یہ درست نہیں۔ ایک لہر کی سیدھے راستے پر بغیر پھیلے حرکت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی تھی۔ میکس بورن نے تجویز کیا کہ یہ لہر صرف پارٹیکل کے ملنے کا امکان بتاتی ہے۔
آئن سٹائن کے لئے ویو اور پارٹیکل کی دوئی قبول کرنا بڑا چیلنج تھا۔ جب تک تو یہ دوئی روشنی کے بارے میں تھی، تو یہ قابلِ قبول تھا۔ لیکن مادے کی لہر؟ یہ ایک شاک تھا۔ ڈی بروئے اور شروڈنگر اس دوئی کو فزکس کی کور میں لے آئے تھے۔
اب سوال یہ نہیں تھا کہ “روشنی بیک وقت پارٹیکل اور لہر کیسے ہو سکتی ہے؟ بلکہ یہ کہ “ہر شے بیک وقت پارٹیکل اور لہر کیسے ہو سکتی ہے؟”۔
دوئی کا سب سے پہلے تصور دینے والے آئن سٹائن کی سمجھ سے یہ باہر تھا۔ اور جیسا کہ ان کا خود کہنا تھا کہ انہوں نے کوانٹم فزکس پر ریلیٹیویٹی کے مقابلے میں زیادہ وقت صرف کیا لیکن اس کو سلجھا نہیں سکے۔ ان کی بے مثال intuition ناکام رہی۔ کیوں؟ ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن شاید ان وہ مکمل تصوراتی وضاحت کا تقاضا کرتے تھے۔ شاید ان کا سائنس سے یہ تقاضا ان کے آڑے آ گیا۔
شروڈنگر اور کئی دوسرے بھی کافی عرصہ اسی کا شکار رہے۔
اور اس وقت بوہر تھے جنہیں پتا تھا کہ کیا کیا جانا ہے۔ یہ ان کا وقت تھا اور انہوں نے اس کو پکڑ لیا۔ یہ ریڈیکل اینٹی رئیلزم کا وقت تھا اور بوہر اس کے لئے تیار تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہر نے نئے فلسفے کو complementarity کا نام دیا۔ ان کے مطابق، نہ ہی پارٹیکل اور نہ ہی لہریں نیچر کی خاصیت ہیں۔ یہ صرف ہمارے ذہن کے آئیڈیا ہیں، جو ہم مشاہدے کے مطابق اپنے ذہن میں بناتے ہیں۔ الیکٹرون ان میں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ چھوٹی شے ہیں جس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس چیز کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، وہ الیکٹرون نہیں بلکہ ہمارے بڑے آلات پر الیکٹرون کا ہونے والا اثر ہے۔
ہمارے لئے کارآمد ہے کہ ہم ذہنی تصویر ویو یا پارٹیکل کی بنائیں لیکن ہم ان کو زیادہ سنجیدگی سے اصل کے طور پر نہیں لے سکتے۔ یہ تصاویر صرف کسی خاص تناظر میں الیکٹرون کی وضاحت کے لئے درست ہیں۔ اور کوئی تجرباتی آلہ ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم بیک وقت دو متضاد تصورات کا اس پر اطلاق کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہر کا موقف اینٹی رئیلسٹ تھا۔ اس کے مطابق آپ الیکٹرون کی بات اپنے ڈیزائن کردہ تجربے کے تناظر سے باہر کر ہی نہیں سکتے۔ اس موقف کے مطابق، سائنس الیکٹرون کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس بارے میں ہے کہ ہم الیکٹرون سے انٹرایکشن کی بات کیسے کرتے ہیں۔
نیلز بوہر کے لئے کمپلیمنٹریٹی صرف ایک اصول سے زیادہ تھا، یہ سائنس کا نیا فلسفہ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں یہ آئیڈیا چیمپئن کرتے رہے اور ہائزنبرگ سمیت کوانٹم مکینکس کے دوسرے بانی بھی اس کی حمایت میں رہے۔ (ہائزنبرگ آپریشنلسٹ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے)۔
بوہر کے مطابق، سائنس نیچر کے بارے میں نہیں۔ یہ ہمیں معروضی تصور نہیں دے سکتی کہ نیچر کیسی ہے۔ یہ ناممکن ہے کیونکہ ہم نیچر کے ساتھ کبھی براہِ راست انٹرایکٹ نہیں کرتے۔ ہم بالواسطہ طور پر اس کا علم حاصل کرتے ہیں جو کہ تجرباتی آلات کے ذریعے ہے، جن کو ہم ایجاد اور تعمیر کرتے ہیں۔
اور ہمیں یہ خیال ترک کر دینا چاہیے کہ سائنس کچھ بھی بتا سکتی ہے کہ ہمارے وجود اور مداخلت کو منہا کر دیا جائے تو پھر نیچر کیسی ہے۔
(نیلز بوہر اس کے بعد اپنے مضامین میں اس اصول کا اطلاق بہت سی دوسری جگہوں پر کرنے لگے، جن میں سے الگ جوڑوں میں سے ایک وقت میں کسی ایک کی بات کی جا سکتی ہے۔ فزکس اور زندگی، توانائی اور کازیشن، علم اور دانائی۔ ان کی نظر میں کوانٹم مکینکس کے سبق فزکس اور سائنس سے زیادہ وسیع تھے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیکل خیال اپنا لئے جانے کے بعد بہت جلد روایتی ہو جاتے ہیں۔ کوانٹم انقلاب برپا کرنے والے ہائزنبرگ، ڈیراک، پالی جورڈن، وان نیومن، بوہر نئی نسل کے نوجوان تھے۔ ان کے ریڈیکل خیالات اکیڈیمیا کا حصہ بن گئے۔ نئی نسل کے لئے یہی روایتی فکر بن گئی اور اگلی نصف صدی تک کوانٹم تھیوری کو پڑھانے کا صرف ایک ہی طریقہ رہا۔