کھلی کھڑکی باہر سے تازہ ہوا لے کر آ رہی ہے اور ساتھ باغ میں لگے پھولوں کی مہک بھی۔ لیکن یہ معجزہ کیسے ہو رہا ہے؟ ہوا میں بکھرنے والے مالیکیول ناک میں داخل ہو کر خوشبو کا احساس کیونکر دیتے ہیں؟ ہم رنگین دنیا دیکھتے ہیں۔ اور ہمیں وہ قصہ بھی یاد ہے کہ روشنی کی الگ ویولینتھ الگ نیورونز کو تحریک دیتی ہے۔ لیکن سرخی یا نیلاہٹ آخر الگ نیورون کے ایکسائیٹ ہونے کی وجہ سے کیسے ابھر آتی ہے؟ یہ محسوسات (جنہیں فلسفی کوالیا کہتے ہیں) جو رنگ اور خوشبو میں فرق کرتے ہیں، آخر ہیں کیا؟ اور اگر یہ سب نیورون کے برقی سگنل ہی ہیں تو پھر رنگ اور بو میں فرق کیوں ہے؟ اور یہ میں کون ہوں جو صبح بیدار ہوتا ہے؟ اور یہ کائنات کیا ہے جو جس میں میں آنکھ کھولتا ہوں؟
ہمارے وجود اور دنیا سے تعلق کے سادہ ترین فیکٹ بھی پرسرار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ابھی کے لئے ہم ان مشکل سوالات کے پاس سے چپکے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ بطور سائنسدان کہیں پہنچنے کے لئے ایسا ہی کرنا ہے۔ اور ابھی ایک بہت ہی سادہ سے سوال سے شروع کرتے ہیں۔ مادہ کیا ہے؟
مجھے ایک پتھر نظر آ رہا ہے۔ میں نے اس کو اٹھایا۔ اس کا وزن اور شکل میرا ہاتھ محسوس کر لیتا ہے۔ یقیناً، یہ ایک قدیم احساس ہے۔ لیکن یہ پتھر کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ پتھر کیسا لگتا ہے، کیسا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن یہ والی معلومات جتنی پتھر کے بارے میں ہے، اتنی ہی ہمارے بارے میں۔ اس کی صورت اور ہونے کے احساس سے ہمیں اس کے وجود کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پتھر میں زیادہ تر خالی جگہ ہے جس میں ایٹموں کی ترتیب ہے۔ اس کا ٹھوس پن اور سختی ہمارے ذہن کی تخلیق ہے۔ اور ہمارا ذہن محسوسات کو جس سکیل پر مربوط کرتا ہے جو ایٹموں کے سکیل سے بہت coarse ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادہ خود کئی صورتوں میں آتا ہے۔ ان میں سے کئی پتھر کی طرح خاصے پیچیدہ ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے کپڑوں یا کمبلوں میں سیا ہوا نامیاتی مادہ۔ تو ہم ابھی مادے کی سادہ شکل پر غور کرتے ہیں۔ گلاس میں پانی۔ یہ کیا ہے؟
ہماری آنکھ کو اور ہمارے لمس کو پانی ایک مسلسل اور سموتھ شے لگتی ہے۔ اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں (ایک صدی سے کچھ زیادہ ہی عرصہ گزرا ہے) جب فزسسٹ یہ خیال کرتے تھے کہ مادہ مسلسل ہے۔ البرٹ آئن سٹائن نے دکھایا کہ وہ غلط تھے اور پانی ایٹموں سے بنا ہے۔ پانی میں ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک ایٹم مل کر مالیکیول بنتے ہیں اور یہ پانی کی تنظیم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ ایٹم کیا ہے؟ آئن سٹائن کے کام کے ایک دہائی کے اندر ایٹم کو ننھے سے نظامِ شمسی کے طور پر سمجھا گیا۔ نیوکلئیس کا کردار ویسا جو سورج کا ہوتا ہے اور اس کے گرد الیکٹرون ویسے جیسے سیارے ہوتے ہیں۔
لیکن یہ الیکٹرون کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ الیکٹرون discrete اکائیوں کی صورت میں آتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس ماس اور چارج کی خاص مقدار ہوتی ہے۔ اس کی سپیس میں کوئی لوکیشن ہوتی ہے۔ یہ حرکت کر سکتا ہے۔ جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو یہ یہاں ہوتا ہے اور پھر جب دیکھتے ہیں تو وہاں ہوتا ہے۔
اپنی خاصیتوں کے سوا الیکٹران کا تصور کرنا آسان نہیں۔ نہیں، بالکل بھی آسان نہیں۔
اور اس کتاب کا بڑا حصہ اسی بارے میں ہے۔