انسان ہمیشہ سے ایک مسئلے کا شکار رہے ہیں۔ یہ reality اور fantasy کے بیچ حد کو پہنچاننے کا مسئلہ ہے۔
ہم دنیا کی وضاحت کرنے کے لئے قصے بناتے ہیں۔ اور چونکہ ہم بہترین قصہ گو ہیں، اس لئے ہم ان قصوں کو اصل سمجھ لیتے ہیں۔ اور دنیا کی representation کو اصل دنیا سمجھ لینے کی کنفوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ کنفیوژن سائنسدانوں میں بھی اتنی ہی ہے جتنی غیرسائنسدانوں میں۔ کیونکہ قصے ہمارا بہت طاقتور اوزار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے ہم قدرتی دنیا کی سمجھ کی گہرائی میں جاتے ہیں۔۔۔ چھوٹے سکیل پر اور بنیادی فینامینا پر۔۔۔۔ ہمیں ایک توازن قائم رکھنا پڑتا ہے تا کہ پھنس نہ جائیں۔ ایک طرف اسٹیبلشڈ علم پر ہمارا اعتماد، جبکہ دوسری طرف یہ بات سے آگاہی کہ ہمارا کامیاب ترین علم بھی کتنا hypothetical ہے۔
یہ سیکھنے کے لئے ایک مشکل سبق ہے کہ ہماری حسیات سے آنے والے احساس کی جزوی وجہ reality ہے لیکن اس کی مکمل تخلیق ہمارے ذہن میں ہوتی ہے جو ہمیں دنیا ہماری ضرورت کے مطابق ویسے پیش کرتا ہے کہ ہم اس میں آسانی سے گزر بسر کر سکیں۔
ان محسوسات سے آگے، نیچر موجود ہے جو بنیادی طور پر پرسرار اور ہمارے جان لینے کی حد سے ذرا سی آگے ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نیچر کے بارے میں جن اہم چیزوں کا علم رکھتے ہیں، یہ ہمارے احساس اور ادراک سے منکشف نہیں ہوا۔ اس میں آسان ترین عام باتیں بھی ہیں۔
مثال کے طور پر “مادہ ایٹموں سے مل کر بنا ہے” یا پھر “زمین ایک مائع کور کے اوپر سخت پتھر کا چھلکا اور باریک سا ہوائی غلاف ہے جو خلا میں معلق ایک قدرتی تھرمونیوکلئیر ری ایکٹر کے گرد گردش میں ہے”۔
یہ سادہ سے فیکٹ ہم اپنے پنگھوڑے سے نکلتے ہی سیکھ لیتے ہیں لیکن یہ سکالرز اور سائنسدانوں کی صدیوں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ہر فیکٹ کی انسانی شعور میں پیداوار ایک پاگل پن پر مبنی خیال کے طور پر ہوئی تھی جو معقول اور واضح (لیکن غلط) ہائیپوتھیسس کے مخالف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسی ذہن کا مطلب اچھا توازن ہے۔ متفقہ فیکٹس کا احترام جو نسلوں سے جاری علمی کشمکش سے ابھرا ہے۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ نامعلوم کے بارے میں کھلا ذہن۔ اسرار اس دنیا کا لازمی جزو ہے، اس کے بارے میں مزاج میں انکسار۔ کیونکہ جس کو ہم جانتے ہیں، وہ بھی قریب سے معائنے پر مزید پرسرار ہو جاتا ہے۔ اور جتنا ہم جانتے ہیں، اتنا ہی تجسس ابھرتا ہے۔ نیچر میں کوئی ایک مظہر بھی ایسا نہیں کہ اس پر غور ہمیں اس راہ پر نہ لے جائے جہاں حیرت کو الفاظ نہیں ملتے۔
ہم شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ ہم خود بھی اس سب کا حصہ ہیں۔
یہ سیریز اس کتاب کا ابتدائی حصہ ہے
Einstein’s Unfinished Revolution: The Search for What Lies Beyond the Quantum by Lee Smolin