خیالوں کے ریگ زارپر آبلہ پابھٹکی ہوئی نائلہ خودکو بہت بے بس محسوس کری رہی تھی۔ا سکی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ وہ کیاکرے؟ چھٹیوں کی آمدسوہانِ روح تھی ،وہی ضحی کا مسئلہ کہ آٹھ سالہ بچی کہاں رہے گی؟کیاکرے گی اس کو کس کے حوالے کرے؟ اسکول کا ہونا اس کے لئے ایک عظیم نعمت تھی وہ ضحی کو خوہی اسکول پہنچاکر دفترجاتی تھی اورمطمئن رہتی تھی کہ وہ اسکول میں محفوظ ہے ، سہ پہر نائلہ کے لوٹنے سے دوگھنٹے قبل ضحی آٹورکشا سے گھرلوٹ آتی تھی اورجوکچھ کھانا اس نے رکھا ہوتاوہ ڈھنگ سے کبھی نہ کھاتی اورماں کے گھر لوٹنے تک کبھی وہ ٹی وی سے دل بہلاتی تھی یااپنے بے جان کھلونوں سے کھیلتی تھی ، گھرکی چاردیواری میں مقید، تنہااکیلی وہ کیاکرتی تھی ، یہ ضحی خودجانتی تھی کیونکہ نائلہ کے پاس اتنی فرصت کہاں تھی کہ اس سے کچھ پوچھتی یالمحہ دولمحہ اس کے ساتھ کھیلتی، ضحی بڑا خاموش گم سم اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی رہتی تھی، گھرسے باہر بھی نہیں نکلتی تھی، پڑوس میں کسی کو دوست بھی نہیں بنایاتھااس نے ، خیر کچھ بھی تھانائلہ کواطمینان رہتاتھاکہ وہ محفوظ ہے مگرچھٹیاں ۔۔۔۔کمبخت ان چھٹیوں کے آتے ہی نائلہ کوہول آنے لگتا،ا سکی ماں تھی نہ ساس ، معاذ اوراس کے بھائی بہن اپنی دنیا میں مگن تھے ، ایسے میں کون کس کی ذمہ داری لیتاوہ کبھی کبھارسوچتی کہ جوب ہی چھوڑدے مگرمعاشی مجبوریوں کے ناگ اپنے پھن پھیلائے کچھ یوں کھڑے نظرآتے کہ وہ بے بس سی ہوجاتی ، اُف!!متوسط طبقے کے لوگوں کو ایک اسٹانڈرڈ زندگی جینے کے لئے کیاکچھ نہیں قربان کرنا پڑتا، کہاں گئے وہ دن جب ایک بھراپراکنبہ ہوتاتھا لوگ ہی لوگ ہوتے تھے گھروں میں، دادا، دادی، تاؤجی، تائی جی ، چاچا، چاچی ،سارے عم ّزادے ، اورنائلہ کو اپنا ماضی بے طرح یادآیا۔
ان دنوں چھٹیوں کے آتے ہی یوں لگتاجیسے ساری کائنات بولنے لگی ہووہ بڑا ساآنگن وہ چھوٹا سا کنواں،اس کے پاس ہی وہ مختلف قسم کے پیڑ ، نیم ،جامن، املی امرود ، اُف!!کتنے پیڑتھے آنگن میں اورپھروہ رنگ برنگے پودوں،پتوں اورڈالیوں پرآکر بیٹھنے والے کوئے ، چڑیاں۔۔۔۔وہ ہواؤں کے مست جھونکے ، وہ رنگین پھول۔۔۔۔پیڑوں سے لپٹی بیلیں،اوراس کی تلاش میں اڑتی پھرتی تتلیاں، اُف!!کتنا مزاآتاتھا ،ان کے تعاقب میں، وہ دن بھراپنی سہلیوں کے ساتھ اپنے عم ّزاد کے ساتھ کھیلتی کودتی تھی، کبھی مٹی میں لت پت کبھی پھولوں سے کھیلتی تھی کبھی پیڑوں پہ چڑھتی ، اورکچے پکے امرودتوڑڈالتی ، اورکتنے چاؤسے وہ پتوں کی آڑمیں چھپے چڑیاکے گھونسلے اوراس کے ننھے منے انڈوں کودیکھاکرتی تھی، اورکسی دن چلچلاتی دھوپ میں دوڑتے بھاگتے اس نے ایک تتلی پکڑی تھی ، اُف!!کتنی حسین اورکتنی رنگین تتلی تھی کیسے ملائم تھے اس کے پراس کا لمس آج تک نائلہ کے اندرزندہ تھا، اورآج ۔۔۔بہت بے چین ہوکراس نے صوفے پربیٹھے بیٹھے کروٹ بدلی، آج نہ وہ آنگن تھانہ اس کی بہار۔۔۔۔نہ وہ بھراپڑاکنبہ۔۔۔۔دوسرے فلورپرموجود تنگ سے کمرے میں بیٹھی گرم ہواپھینکتے سیلنگ فین کی گھرگھر سے رنجیدہ سی اپنے اکیلے پن سے خائف سی وہ ضحی کی چھٹیوں کو لے کرمسلسل پریشان تھی، اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھا کہ وہ کرے توکیاکرے؟فکرکی خادارجھاڑیوں میں الجھ کر لہولہان ہوجائے یاناامیدی کی ریت پر گرکردم توڑدے ۔
ملحقہ کمرے سے دفعتاً ضحی کی چینخ جوابھری تووہ بری طرح گھبراگئی ۔
’’ضحی‘‘۔ضحی کیاہوا،، وہ دوڑکر کمرے میں پہنچی تودیکھاضحی اپنے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے خائف سی گلدان کی طرف اشارہ کررہی تھی۔
’’ممی۔۔۔۔ممی۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔وہ ‘‘نائلہ نے ادھردیکھا وہ ننھی سی تتلی تھی ۔ رنگ برنگی پروں والی جانے کہاں سے چلی آئی تھی۔ اورگلدان میں سجے نقلی پھولوں کواصلی سمجھ کران پر منڈلارہی تھی،
’’وہ ‘‘خود پر قابوپاتے ہوئے نائلہ ہنسی‘‘ڈرونہیں بیٹا وہ توتتلی ہے‘‘۔
’’تتلی ‘‘ضحی سہم کر ا س سے لپٹ گئی’’تتلی کیاہوتی ہے ممی؟‘‘
اُف!!وقت کی ستم ظریفی پرنائلہ کے دل سے ہوک سی اُٹھی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیاکہیں ، اس کی آٹھ سالہ بیٹی نے کبھی تتلی نہیں دیکھی تھی ۔یہ آج کی نسل ۔۔۔اوران کابچپن سب کچھ کتنا غیرفطری اورمصنوعی ہے نائلہ اپنا دل مسوس کررہ گئی۔
٭٭٭