Haider Qureshi’s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood, Birmingham City University
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کو فکری طورپر میں ایک جدید ترقی پسند افسانہ نگار سمجھتا ہوں کیونکہ ان کے افسانے سماجی زندگی کے خمیر سے تیارہوتے ہیں اور معاشرے کے دکھ اور مظلوم کی بے بسی ان میں موجود ہے اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے موضوعات ترقی پسند ہیںاور معاشرے کو بدلنے کا آدرش رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی کہانیوں کو سیدھے بیانیہ میں پیش نہیںکیا بلکہ تخلیقی تجربے سے گزر کر ان کے لیے اظہار کی ایسی زبان وضع کی ہے جس میں استعارہ اور علامت دونوں موجود ہیں بلکہ اکثر انہوں نے تصوف کی اصطلاحات اور اساطیری حوالوں سے بھی کام لیا ہے جو انہیں جدید بناتے ہیں۔حلقہ اربابِ ذوق نے موضوع کے ساتھ ساتھ فن پارے کی ادبی حیثیت کو بھی ضروری قرار دیا تھا۔ سات اور بعد کی ادبی نسلوں کی تربیت زیادہ تر حلقہ ہی میں ہوئی ہے۔ حیدر قریشی بھی فکری طور پر حلقہ ہی کے پروردہ ہیں اس لیے ان کے افسانوں میںموضوع کی وسعت کے ساتھ ساتھ فنی حوالے بھی موجود ہیں اور وہ فنی جمالیات کے پوری طرح قائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی کے دونوں افسانوی مجموعے ان کے فنکارانہ سفر کے دو مرحلے ہیں ان میں ایک فنی اور فکری ارتقاءہے جو ان کی اگلی منزل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے مجموعی سفر میں بھی یہ دونوں مجموعے اپنی اہمیت اور پہچان رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر رشید امجد(اسلام آباد)
حیدر قریشی تاریخ کے جھروکے میں جھانکتے ہیں، تہذیبوں کی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں، مذہبی صحیفوں کی نظریاتی اور روحانی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ انسان کی روح میں اترتے ہیں ، اسکے دل کو بلوتے ہیں، اس کے تصور کے ساتھ اڑان بھرتے ہیں اور جسم کی لذت سے بھی آشنا ہوتے ہیں اور یوں کہانیاں روپ بدل بدل کر شیشا گھر میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ حیدر قریشی کی کہانیوںکی دنیاایسے کرداروں سے آباد ہے سچائی کا المیہ جن کی قسمت بن چکا ہے۔ ۔۔۔ ایسی کہانیوں میں دل کا بے انت پاتال ہے، روح کا سارا آکاش ہے، جسم کی حدوں کو توڑتا ہوا تفکر اور قوت متخیلہ ہے--- انسان اپنی کل ثقافت، جامع تاریخ،اپنے تمام گناہ و ثواب کی پونجی لئے اپنے آپ سے مخاطب ہے۔ میں کون ہوں؟ کہا ںسے آیا ہوں؟ کدھر جا رہا ہوں؟ ---یہ ایسے سوالات ہیں جو مجھے بھی مسلسل ستاتے رہتے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ میں کیوں ہوں؟ یہ جیون کیا ہے؟ میں کیوں زندہ ہوں؟ موت کیا ہے؟ روح ، غیرروح ، وجود ، عدم وجود، انسان، خدا ، خلا!! حیدر قریشی کی کہانیاں ایسے ہی سوالوں سے پریشان ہیں اسی لئے ان کی کہانیوں میں مجسم وارداتوں کی بجائے تفکر اور احساس کی لطافت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی شروعات ہیں جو واقعاتی تسلسل اور کہانی پن پر مبنی ہو کر سوال، شک اور فکر کی بنیاد پر کہانی کا شفاف شیشا گھر تعمیر کرتی ہیں۔ اس شیشا گھر میں ہم داخل ہونے کے لئے آزاد ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کے رستے بند ہیں، صرف ایک چھوٹا سا روشن دان کھلا ہے، ہمارے دل کا ---جس میں نہ جانے کہاں سے روشنی کی کرن چھٹک کر آرہی ہے جس کے ساتھ ساتھ چل کر ہم وقت کے اس نقطہ پر پہنچتے ہیں جہاں سچ ہمارا منتظر ہے۔
جہاںسچ سے ہم معانقہ کرتے ہیں! دیویندراسر(دہلی)
’عمر لا حاصل کا حاصل ‘میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے ۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ’بڑے افسانے‘ قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا ۔ ایسے تجربے سے جو سوچ ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔ عبداللہ جاوید(کینیڈا)
یورپ میں مقیم اردو قلم کاروں کی فہرست میں حیدر قریشی صاحب کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ گیاہے۔ویسے تو انہوں نے مختلف اصناف ادب میں اپنی محنت و ریاضت سے ممتاز جگہ حاصل کی ہے لیکن افسانے کے میدان میں ان کی مساعی واقعی بہت قابلِ لحاظ ہیں بعض بالکل ہی منفرد خصوصیات کی وجہ سے عصری کہانی کاروں میں ان کا ایک بالکل ہی علاحدہ اور ناقابلِ انکار تشخص متعین ہوچکا ہے۔ قیصر تمکین(انگلینڈ)
حیدرقریشی جہاں شاعری میں اپنے فن کو مکمل طورپر منواچکے ہیں وہاں اُن کے افسانے بھی اُردو ادب میں اپنے منفرد اور جدت و ندرت سے بھرپورہونے کی بناءپر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
منزہ یاسمین(بھاول پور)
۶۰ءاور ۷۰ءکے عشرے میں جہاں دیگر افسانہ نگار خارجی حقائق سے دلبرداشتہ ہو کر باطنی تجربہ کو کہانی میں وقوعہ بنارہے تھے وہاں حیدرقریشی خارج سے کٹ کر گیان دھیان کے فلسفے کو عمل میں لا کرکہانی کی نئی جہت کی تلاش میں مگن تھا۔حیدرقریشی کا بنیادی فلسفہ ’ہمہ اوست‘ ہے ۔ وہ کائنات اور دیگر تمام مظاہر کو ایک بڑے نامیاتی کل کا جزو مانتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میں نے ’جزو‘ کہا ہے عموماََ وحدةالوجود کی تعریف کرتے ہوئے بعض دانشور ’ایک بڑے کل کے حصے‘ خیال کرتے ہیں ۔ ’حصہ‘ ہونے سے وجود کی وحدانیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے ۔ جبکہ ’جزو‘ اس کل کا ایسا حصہ ہوتا ہے جو دوبارہ اپنی جگہ پر قائم ہوسکتا ہے۔
حیدر قریشی کا نظریہ حیات یہ ہے کہ کائنات ایک ’کل‘ کی حیثیت سے وجود رکھتی ہے گویا وہ تمام اشیاءمیں وحدت کی کارفرمائی کو بنیادی عنصر خیال کرتے ہیں۔ وحدةالوجود کا یہ تصور ہند سے فارس اور فارس سے اسلام کا حصہ بنا ہو یا صوفیا کے باطنی تجربہ کی اختراع ہو یہ امر طے شدہ ہے کہ اس نے حیات انسانی پر متنوع اثرات مرتب کیے ہیں۔حیدرقریشی کا نمایاں وصف مذہبی اساطیر کو کہانی کا حصہ بنا کر ان کے ذریعے سے سماجی مسائل کا اظہار ہے۔ ان کی کہانیوں کا داستانوی رنگ تقاضا کرتا ہے کہ موضوعاتی سطح پر ایک ایسا تلمیحاتی و استعاراتی نظام وضع کیا جائے جو انسان کے لیے نہ صرف یہ کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہو بلکہ عصر حاضر میں اس کی اہم ضرورت بھی ہو۔ مذہب کسی معاشرت کا فعال حصہ ہوتا ہے ۔ گو کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ ثقافت مذہب کے بطن سے پھوٹتی ہے یا مذہب مقامی ثقافت میں ڈھل جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی بلا شبہ اپنے عہد کا نباض افسانہ نگار ہے۔ جو تلخ سماجی حقیقتوں کے گھونٹ پیتا ہے اور پھر اپنے قاری کو کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے تو اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ان حقائق سے بھی آگاہ کردیتا ہے جن سے قاری بے خبر ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کا کہانی کہنے کا انداز تیکھا مگر دلنشیں ہے وہ قاری کو حیرتوں میں گم کردیتے ہیں تو ساتھ ہی اسے نئی دنیاؤں کے راستے بھی سجھاتے ہیں۔ گویا ان کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور وہ سب سے پہلے انسانوں کے درمیان مذہب کی دیوار ،سماج کی دیوار اور طبقے کی دیوار گرا کر اسے اس بے گانگی سے نجات دلانا چاہتا ہے جس نے اس کی زندگی کی شہزادی کو سامری جادوگر کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ حیدر قریشی تمام انسانوں کو ایک شمار کرتے ہیں اور بلاشبہ انسان دوستی کے بہت بڑے پرچارک ہیں۔ کامران کاظمی(اسلام آباد)
آپ کی کہانیوں سے مجھے کوئی بیتی خوشبو آئی ہے۔ ٹھہریئے میں اگر جلالوں----میں اگر جلا آیا ہوں اور خوشبو میں بھیگتے ہوئے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ مجھے آپ کا کہانی بننے کا ڈھنگ نویکلا لگا ہے"۔
مسعود منور(ناروے)
(روشن نقطہ)اپنی نوعیت کا بہت خوبصورت اور حیدر قریشی صاحب کی مخصوص چھاپ لگا افسانہ ہے۔میرے محدود علم کے مطابق اس رنگ میں ابھی تک حیدر صاحب سے اچھا افسانہ کسی نے نہیں لکھا۔تصوف اور روحانی واردات کا حسین امتزاج۔ جمیل الرحمن(انگلینڈ)
٭٭٭