وزیر چہارم کا قید ہو کر وطن جانا اور زوجہ اپنی کو طلاق بائن دے کر باہر شہر کے مقیم ہونا اور فرزند متبنیٰ کو وزیر پاس بھیج کر اس کی بی بی کا سب حال دریافت کرنا۔ بعد استفسار حال آپ بیسوا بن کر بادشاہ کے سامنے جانا اور سب حال دُہرا کر وزیر اول کو اپنے سامنے قتل کرا کے پھر آپ دونوں کا اپنے اپنے ہاتھ سے مر جانا، پھر بادشاہ کا فرزند متبنیٰ اس کے کو وطن سے بلوا کر وزیر اول اپنا کرنا اور روز بروز سرفرازی بخشنا
یہاں سے راوی یہ حکایت غم اس طرح سے بیان کرتا ہے کہ یہ وزیر بلائے ناگہانی آفت آسمانی میں مبتلا لب پر نالہ و آہ کئی روز کے عرصہ میں اپنے گھر پہنچا۔ اور جاتے ہی اندرون محل سپاہیان ہمراہی در آیا اور اپنی بی بی بے خطا کو طلاق بائن دے کر اُسی وقت واپس آ کر دو کوس شہر سے باہر نکل کر مقام کیا۔ اب حال اس کی بی بی کا سنیے کہ جس وقت وزیر مسعود اس حیثیت سے اپنے گھر گیا اور طلاق دے کر چلا۔ نہ کچھ اپنی کہی اور نہ اس کی سنی، اس سبب سے وہ سراسیمہ ہو زار زار رونے پیٹنے لگی اور اپنے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ دو طرح کا صدمہ اس کے دل پر ہوا۔ ایک تو وزیر کا اس کیفیت سے آنا دوسرے بے وجہ طلاق دینا۔ ان دونوں وجہوں سے کمال ہی حیران تھی۔ چاہتی تھی کہ چُھری مار کر مر جائیے۔ اتنے میں ایک عورت نے اٹھ کر جلد ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ مرنا تو ہر وقت ممکن ہے، لیکن پہلے یہ ماہیت تو دریافت کر لو پھر مر جانا۔ اس کے سنتے ہی اس نے اسی لے پالک لڑکے کو کہ علاحدہ مکان میں رہتا تھا، اصیل کو بھیج کر بلوا بھیجا۔ جب وہ آیا تو یہ ماجرا دیکھ کر گھبرایا اور جلدی حال دریافت کیا۔ اس کو ذرا کہنے میں تامل ہوا تو اس نے کہا کہ براے خدا جلدی مجھ سے یہ حال بیان کرو کہ یہ ماجرا کیا ہے اور کیا ایسا صدمہ ہے جس کی یہ گریہ و زاری ہے۔ جب تو اس بے چاری نے اُسی رونے کی حالت میں سب حال وزیر کا اُس کیفیت سے آنا اور بے قصور طلاق دے کر چلا جانا بیان کر کے کہا کہ بیٹا تم ابھی چلے جاؤ۔ جس طرح ہو سکے اپنے باپ کے قید ہونے کا سبب اور مجھے طلاق دینے کی وجہ اچھی طرح انھیں کے زبان سے سُن آؤ تاکہ مجھ کو حال مفصل معلوم ہو جاوے۔ وہ یہ حال سن کر گھبرایا ہوا پیدل روانہ ہوا۔ شہر کے باہر ہر ایک سے پوچھتا ہوا برابر چلا گیا۔ جب قریب دو کوس کے گیا ہوگا تو وہاں زیر درخت چند سوار اور کچھ پیدل دیکھے۔ ان سے اس نے پوچھا کہ بھائی ہمارے والد جو یہاں قید ہو کر آئے ہیں، اور وہ وزیر فلانے بادشاہ کے ہیں، کہاں ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ چھکڑے کے نیچے بیٹھے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی روتا ہوا ان کے پاس گیا اور وزیر نے باجازت سپاہیان ہمراہی اپنے پاس بلا کر گلے سے چمٹا لیا اور پیار کر کے خوب رویا۔ سپاہیوں نے کہا کہ بس رو چکے جو کچھ کہنا سننا ہو کہ سن لو اور اس لڑکے کو رخصت کرو۔ وزیر نے اول سے آخر تک سب داستان بیان کر کے کہا کہ وزیر اول مجھ سے پوشیدہ یہاں آیا اور دو مہینے تک تیری ماں کے ساتھ ہم بستر رہا اور دو تصویریں ایک برہنہ بدن کی دوسری تمام زیور و پوشاک سمیت یعنی آراستگی کی یہاں سے کھیچا کر لے گیا اور میری انگشتری اور پیش قبض اور چندن ہار اور نورتن یہ سب نشانیاں بھی اپنے ہمراہ لے جا کر بادشاہ کے سامنے مع تصویر رکھ دیں اور کُل حقیقت اس کی فاحشہ پنے کی بیان کر کے مجھے روبرو بادشاہ کے ذلیل و رسوا کیا۔ اور میرے قید ہونے اور گردن مارے جانے کا یہ سبب ہے کہ ایک دن بادشاہ نے دربار میں یہ سوال کیا تھا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی ہے کہ جس میں یہ چار صفتیں ہوں۔ ایک تو خوبصورت بہت ہو، دوسرے علم موسیقی میں کمال ہو، تیسرے قابل بلکہ قریب فضیلت ہو، چوتھے صاحب عصمت ہو۔ یہ سن کر اور وزیروں نے جواب دیا کہ جہاں پناہ جہاں میں کوئی ایسی عورت نہ ہوگی۔ الّا میری شامت جو آیا چاہیے، تو میں نے تیری ماں کی تعریف بیان کر کے عرض کی کہ یہ چاروں وصف جو حضور اقدس نے فرمائے ہیں، میری بی بی میں ہیں۔ یہ کہہ کر میں تو چپ ہو رہا۔ پھر مجھے خبر نہیں کہ کیونکر وزیر اول یہاں آیا۔ مجھے جب خبر ہوئی جبکہ وزیر مذکور یہاں سے مع وجہ ثبوت واپس جا کر بادشاہ کے روبرو سرخ رو ہوا اور مجھے بادشاہ نے بلوا کر بہت ذلیل و خوار کر کے حکم قتل کا دیا۔ دوسرے حکم پر میں نے عرض کی کہ ایک بار مجھے اجازت دیجیے تاکہ وقت اخیر میں اُس ناشدنی کمبخت کو دیکھ لوں۔ میرا ارادہ خاص یہی تھا کہ جا کر اُسے قید ہونے کی صورت دکھا کر جان سے مار ڈالوں۔ بارے اللہ نے بادشاہ کے جی میں ڈال دی جو عرض میری منظور ہوئی۔ لیکن اس شرط سے کہ جان سے اس کو نہ مارنا۔ اس سبب سے میں نے آن کر بادشاہ کی تاکید سے جان سے تو نہ مارا مگر طلاق بائنہ دے کر چلا آیا۔ اب یقین کامل ہے کہ جاتے ہی میرا سر قلم ہوگا۔ یہ سب ماہیت بیان کر کے خوب رویا اور لڑکے کو رخصت کیا۔ یہ لڑکا اپنے باپ سے رخصت ہر کر روتا ہوا اپنی ماں پاس آیا اور کل حقیقت جو وزیر سے سُن آیا تھا کہہ سنائی۔ جس وقت اس بے چاری نے یہ حال سنا، دل میں اپنے سمجھی کہ یہ سارا فتور اسی کٹنی جعلی ماں کا ہے۔ خیر اللہ کی مرضی، جو ہونا تھا ہوا۔ اس کی کیا تقصیر ہے۔ اپنی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ بدنامی و رسوائی اور خانہ بربادی ہو۔ یہ کہہ کر بعجلت تمام سب لونڈی غلام آزاد کر دیے اور نصف اسباب مع مکانات و روپیہ پیسا اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔ اور بہت سا اسباب اور کچھ نقد و زیور اس فرزند لے پالک کو دے کر دو تین لونڈیاں معقول خوبصورت جنھیں کچھ ڈھولک و طبلہ وغیرہ بجانے کی تمیز تھی، اپنے ہمراہ لیں اور آپ زیور و پوشاک سے آراستہ ہو ہمراہ انھیں لونڈیوں کے رتھ میں سوار ہو کر جہاں اس کا شوہر وزیر تھا، روانہ ہو رات دن برابر چلی گئی۔ راستے میں ذرا نہ ٹھہری۔ اگر دس دن کی راہ تھی تو یہ پانچ ہی روز میں وہاں پہنچی اور سرا میں کوٹھا کرائے کا لے کے جا اُتری اور گانے بجانے کا چرچا شروع کر دیا۔ یہاں تک مشہور ہوئی کہ شہرہ اس کا گوش زد بادشاہ ہوا کہ ایسی ایک بیسوا خوبصورت یہاں آن کر سرا میں ٹھہری ہے کہ آج تک چشم فلک نے بھی نہ دیکھی ہوگی۔ باوجود اس نورانی صورت کے خُلق لاثانی رکھتی ہے اور ایسی خوش گلوئی سے گاتی ہے کہ تمام شہر بلکہ جن و بشر مع دیوار و در سکتہ میں رہ جاتے ہیں۔ تمام عالم اس کا تابع فرمان ہے۔ لاکھوں گانے کے مشتاق ہیں، ہزاروں دید کی آرزو میں شب و روز غلاموں کے مانند حاضر رہتے ہیں۔ صبح سے تا شام اور شام سے تا صبح مجمع عام رہتا ہے اور وہ حسن خدا داد ہے کہ اپنی صناعی پر حیران خود وہ صورت گر ہے۔ بیان نہیں ہو سکتا جیسی کہ صورت اس پری وش کی ہے اور یہ سراپا جو یہاں بیان ہوتا ہے ادنیٰ سے صفت اس کی صورت کی ہے۔ اس بیان سے وہ حوروش کئی حصہ زیادہ ہے۔ حضور سنیں۔
سراپا تصنیف مصنف
رقم اس کا اب میں سراپا کروں
وہ قد نخل یکتاے باغ جمال
اگر بخشے اس سرو دلجو سے فاش
ادا و کرشمہ کی وہ استاد
حیا اُس کی پروردۂ چشم ناز
اگر دیکھ لے اس کی طرز خرام
مقابل میں اس کے جو شمشاد ہو
تناسب میں اعضا کے وہ بے مثال
وہ سر اس کا حسن و لطافت میں غرق
سیاہی سے بالوں کی ظلمات مات
کہیں دیکھ ہر اک تعجب کنان
عجب زلف اس کی سیہ فام تھی
جبیں لوح نور اُس پہ افشاں چنی
بھویں دونوں اس کی وہ مثل کمان
وہ آنکھیں نشیلی وہ چتون غضب
وہ آنکھوں میں پتلی کی جلوہ گری
مژہ کی غضب اس کی سر تیزیاں
لکھوں اس کے کانوں کی تعریف کیا
نہیں جاتی خوبیِ بینی لکھی
نگہ بھر کے جو دیکھے رخسار پر
لب لعل کا اس کے دیکھیں جو رنگ
زبس عالم لب وہ زیبندہ تھا
وہ درجِ دہاں کی صفت کیا لکھے
دہن تنگ وہ اس کا بے اشتباہ
وہ دانت اس کے ہموار و شفاف و صاف
ذقن کی صفت کیا کروں شان کی
کنواں اُن کو ملتا جو یہ راہ میں
نظر اس کے چہرہ پر پڑ جائے گر
وہ اس شوخ کی گردن خوش نما
نہ کچھ پوچھیے اس کے شانوں کی شان
وہ بازو نزاکت میں خوبی بھرے
جسے ہاتھ کی اُس کے ہاتھ آئے سیر
غضب اُس کے وہ پنجۂ دست تھے
صفائی کو اُس کی کہے کوئی کیا
وہ پستان بلا اس کے معمور نور
شکم اس کا مخمل سے بھی نرم تر
وہ ناف اُس کی دریاے خوبی کی ناف
کمر اس کی مو سے بھی باریک تر
صفائی وہ زانو کی اُس کے عیاں
اگر دیکھ لے تاب ساق اس کی برق
وہ پاے نگاریں کرے پائمال
یہ ختم سراپا یہ ہے التجا
جہان میں تو معنی کی عزت کو تھام
کہ رتبہ سخن کا دوبالا کروں
کہ طوبیٰ بھی ہو دیکھ جس کو نہال
صنوبر ہو اک کندۂ ناتراش
اُسے دلبری کے سب انداز یاد
وفا اس کی خدمت میں گرم نیاز
قیامت کرے اس کو جھک کر سلام
تو سب راستی اس کی برباد ہو
عیاں جس سے صنع حق کا کمال
کہ تھا گوے خور میں اور اس میں نہ فرق
وہ مانگ اس کی اک نہر آب حیات
کہ نکلی ہے بدلی میں کیا کہکشاں
کہ صید دل زار کو دام تھی
کسی نے بھی ایسی نہ دیکھی سنی
خدنگ قضا جس کا رطب اللسان
جسے دیکھے ہو اس کو حیرت عجب
عیاں جیسے شیشے کے اندر پری
روا جس کو عالم کی خوں ریزیاں
دو کان لطافت ہے دو سمت وا
کہ تھی ناک وہ شاہد حُسن کی
گریں اس کی آنکھوں سے شمس و قمر
تو سحر و فسوں صاف رہ جائیں دنگ
عقیق یمن کا فریبندہ تھا
قلم جس کے لکھنے سے عاجز رہے
بمشکل تکلم کی تھی جس میں راہ
چلے جس پہ ڈر کے نہ لاف و گزاف
قسم کھا کے کہتا ہوں ایمان کی
تو یوسف بھی گرتے اسی چاہ میں
تو رہ جائے مہر اس کا منہ دیکھ کر
کہ لطف صراحی کا والے گلا
نشان قرار دل غمکشان
درخشانی میں برق سے بھی پرے
کل آئے نہ اُس کو کلائی بغیر
کہ چشمک زن مہر یک دست تھے
وہ شفاف سینہ تھا بلور کا
کہ کوسوں مساس توہم سے دور
ہوس جس کی مہ کو بھی شام و سحر
دل اہل دل جس کا محو طواف
بجا ہے اُسے کہیے تار نظر
کہ منہ آئے آئینہ پر بے گماں
تو ہو جائے بحر خجالت میں غرق
دل عاشق پاے بندِ ملال
کرے خیر پر خاتمہ حق مرا
بحق رسول و بہ آل کرام
بادشاہ نے جو اس کے حسن کی اس قدر تعریف سُنی اور گانے بجانے کی صفت ایسی معلوم ہوئی، کمال ہی مشتاق ہوا اور فوراً چوبدار خاص بلانے کے واسطے سرا میں بھیجا کہ جلد جا کر ہمراہ اپنے لے آ۔ جبکہ چوبدار حضور سرا میں گیا اور اُس سے کہا کہ جلد چلو، تمھیں حضور نے یاد فرمایا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اس عاجزہ کی طرف سے بعد آداب و تسلیمات کے التماس کرنا کہ یہ لونڈی تو فقط حضور پر نور ہی کی قدم بوسی کی آرزو میں یہاں حاضر ہوئی ہے لیکن بسبب راہ دور و دراز کے تھک گئی ہے، دو چار روز کی مہلت ملے۔ جب کسل راہ سے افاقہ ہو جائے گا تو یہ فدویہ بے طلب حضور میں حاضر ہو کر آستانہ بوسی حاصل کرے گی۔ منشا اس عذر کا یہ تھا کہ میں تو دو منزلہ سہ منزلہ کرتی ہوئی جلد یہاں پہنچ گئی، لیکن وہ قیدی وزیر بھی تو آ جائے تاکہ روبرو بادشاہ کے پارسائی میری اور دروغ و بہتان وزیر اول کا اس کو معلوم ہو جائے۔ مطلب عذر کرنے میں تھا۔ غرض کہ چوبدار نے واپس آن کے اس کی عرض بارگاہ سلطانی میں گزارش کی۔ بادشاہ نے اس کا عذر منظور فرمایا۔ جب کہ پانچ روز گزر گئے اور شوہر بھی اس کا اسی صورت سے داخل شہر ہوا۔ ادھر اس کو بھی یہ خبر ہوئی کہ وہ بے چارہ وزیر قیدی آج آیا ہے، اب گردن مارا جائے گا۔ یہ سُن کر سر شوریدہ کو دُھن جلد جلد آراستہ زیور و پوشاک سے ہو اور ایک پیش قبض پوشیدہ اپنے پاس رکھ ساز و سامان گانے بجانے کا لے مع اُن لونڈیوں کے رتھ میں سوار ہو روانہ ہوئی اور قلعہ مبارک میں پہنچ کر عرض بیگی سے اپنے آنے کی اطلاع کرا دی۔ بادشاہ تو ہمہ تن گوش تھا، اسی وقت طلب کیا۔ جب کہ دیوان خاص میں یہ قریب فرش پہنچی تو مجرا گاہ میں کھڑے ہو کر اس قاعدہ سے مجرا کیا کہ تمام ارکان دولت دیکھ کے حیران ہو گئے۔ جونہی نگاہ بادشاہ کی اس کے حسن خداداد پر پڑی، بیک نگاہ ہزار جان سے فریفتہ ہو گیا، بلکہ بے حس و حرکت رہ گیا اور تمام حاضرین دربار بھی بے چین ہو گئے اور بے ساختہ درود شریف پڑھنے لگے۔ بادشاہ نے بعد سکوت کے جبراً و قہراً اپنے تئیں سنبھال آگے طلب کیا۔ جب اس نے حکم آگے آنے کا پایا تو پھر مجرا و آداب بجا لائی۔ بعدہٗ آگے بڑھی۔ اسے قاعدہ کون سکھاوے، وزیر کی بیٹی اور وزیر ہی کی بی بی، تمام آداب سلاطین یاد۔ ایسے دستور سے آداب و کورنش بجا لاتی ہوئی آگے بڑھی کہ سب ملازم دنگ ہو گئے۔ جبکہ یہ قریب تخت پہنچی تو بادشاہ نے اشارہ بیٹھنے کا کیا۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ لونڈی کی اتنی مجال نہیں ہے کہ ایسی گستاخی کرے۔ بادشاہ نے زبان مبارک سے بآواز بلند ارشاد فرمایا کہ ہم تمھیں اجازت دیتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ۔ اس نے بعد دعا و ثنا کے پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور تین بار تخت کے تصدق ہو آداب و کورنش بجا لا مع اپنے ہمراہیوں کے جانب چپ بیٹھ گئی اور عرض کی کہ جو ارشاد ہو، یہ کنیز خاص تعمیل حکم بجا لائے۔ بادشاہ تو محو دیدار تھا۔ اُسی کو دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کا کہنا نہ سُنا۔ اس نے مکرر عرض کی تو بادشاہ نے فرمایا کہ شہرہ تمھارے گانے کا تمام شہر میں بہت ہے۔ ہم بھی مشتاق ہیں کچھ گائیے۔ ہمیں سنائیے۔ اس نے سرِ بندگی جھکایا اور عرض کی کہ بہتر ہے جو اس خانہ زاد کو یاد ہے سناتی ہے۔ لیکن اور جو امیر و وزیر ملازم سرکاری ہوں، ان کو بھی طلب فرما لیجیے۔ حسب اتفاق یہاں اس فدویہ کا آنا ہوگیا ہے کوئی محروم نہ رہے۔ بادشاہ نے چوبدار جابجا بھیج کر سب کو بلوا لیا۔ جب سب حاضر ہو چکے اور اس نے دیکھا کہ اب سب حاضر ہیں، لیکن ایک وہی وزیر مصیبت کا مبتلا جو کہ اس کا شوہر تھا، نہیں ہے۔ اس نے پھر عرض کی کہ جناب عالی! فدویہ نے سنا ہے کہ حضور کسی وزیر سے ناراض ہیں اور وہ مقید ہے۔ یہ لونڈی امیدوار خاوندی کی ہے کہ آج ایک لحظہ کے واسطے اسے بھی یاد فرماویں تو بعید از بندہ نوازی نہ ہوگا۔ بادشاہ نے بخاطر اس کے تامل کے بعد یاد فرمایا۔ جب وہ بے چارہ قیدیوں کی طرح پابجولاں پہرہ چوکی ہمراہ حاضر ہو کر علاحدہ دربار کے کھڑا ہوا تو بادشاہ نے فرمایا کہ اب سب دربار میں حاضر ہیں، کوئی غیر حاضر نہیں ہے۔ اگر تمھارا جی چاہے تو کچھ گاؤ۔ پھر تو اس نے بموجب ارشاد بادشاہ سُر سازوں کے ملائے اور اس ڈھنگ سے گانا شروع کیا کہ تمام دیوار و در وجد میں آ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور سب حاضرین دربار بھی دنگ تھے۔ سکتے کے سے ڈھنگ تھے اور بادشاہ کا تو یہ عالم تھا کہ حیرت میں آ اسی کے منہ کو تکتا تھا۔ کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ کسی کے لب پر آہ تھی اور کسی کے لب پر واہ واہ تھی۔ کیا بیان کروں جو اس وقت وہاں سماں بندھا تھا۔ کسی میں ہوش و حواس نہ تھے۔ بادشاہ کو جب ذرا ہوش آیا تو بے ساختہ منہ سے نکلا کہ مانگ کیا مانگتی ہے، جو مانگے گی وہی پائے گی۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ حضور کا دیا لونڈی کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہ کہہ کر پھر گانے لگی۔ یہاں تک گائی کہ سب مُرغ بسمل کی طرح دربار میں لوٹنے لگے۔ اس میں دوبارہ بادشاہ نے فرمایا کہ مانگ کیا مانگتی ہے، جو مانگے گی وہی تجھ کو دوں گا۔ اگر تو میری تمام سلطنت مانگے گی تو یہ تخت یک لخت تجھ کو حوالہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہو کے گوشہ گیر ہو رہوں گا۔ اس نے یہ سن کر ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اے جہاں پناہ! یہ تخت سلطنت اللہ تعالیٰ حضور کو مبارک رکھے۔ میرے پاس حضور کی بدولت بہت کچھ موجود ہے۔ یہ خانہ زاد فقط حضور کی قدم بوسی کی تمنا و آرزوے ملازمت میں حاضر ہوئی ہے۔ کچھ مال و زر کی خواہش میں نہیں حاضر ہوئی۔ یہ عرض کر کے پھر تو اس طرح جی کھول کر گائی کہ آسمان سے زہرہ و مشتری اس کے گانے کی آواز سن کر بے چین ہو گئیں اور تمام فرشتے مع جن و پری و جانور و چرند و پرند اس کی آواز سے غش ہو کر جہاں کے تہاں گر پڑے۔ آدمیوں کا تو کیا مذکور ہے، اور تمام دربار مع بادشاہ بے ہوش تھا۔ کچھ خبر نہ تھی ہر ایک اپنے اپنے حال میں مبتلا بر لب نالہ و آہ، کوئی منہ پر مُہر سکوت لگا مانند تصویر کے نقش بدیوار بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ غرض کہ تمام اہل دربار مع حضرت عالی عجیب کیفیت میں تھے، جب اس نے دیکھا کہ سب کا حال ابتر ہے۔ خاموش ہو رہی۔
ایک گھنٹہ پختہ میں بادشاہ و رؤساے دربار کو ذرا اس حال سے افاقہ ہوا مگر سب کے سب مردہ تھے، نام کو زندہ تھے۔ بادشاہ نے اُسی بے خودی کے حال میں بقسم فرمایا کہ جو تو مانگے گی فوراً تجھ کو دوں گا۔ تامل نہ کروں گا۔ اگر تو میری جان تک مانگے تو بھی دریغ نہ کروں گا۔ جلد مانگ کیا مانگتی ہے۔ حسب طلب بلکہ طلب سے زیادہ پائی گی۔ جب کہ اس نے دیکھا کہ تین بار بادشاہ یہی کلمہ فرما چکے ہیں۔ اب بے تامل مطلب دل کہا چاہیے۔ پھر تو فوراً وہ ادب آموز کھڑی ہو کر زمین بوس ہوئی اور ہاتھ باندھ کر یوں عرض کرنے لگی کہ اللہ حضور کو ساتھ اس جاہ و حشم کے تا ابد سلامت و برقرار رکھے۔ زر و جواہر، مال و ملک کی یہ کنیز بھوکی و محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بدولت بہت کچھ دیا ہے۔ لیکن یہ خانہ زاد داد خواہ ہے، حضور اقدس میں نالشی آئی ہے، جور و ظلم کی ستائی ہے، جب یہ صورت پُر کدورت سرکار کے دیکھنے میں آئی ہے۔ بادشاہ نے یہ کلمہ سن کر فرمایا کہ کیا کہتی ہے، کس نے تیرے اوپر ظلم و ستم کیا۔ جلد بیان کر۔ ابھی تو تو اپنی خواہش کے موافق داد کو پہنچتی ہے۔ جلد کہہ۔ اس نے دست بستہ عرض کی کہ یہ جو وزیر اول سرکاری ہے، اس نے عاجزہ کو دو مہینے تک ہم بستر کیا اور ایک حبہ نہیں دیا۔ دو سو دینار سُرخ روزینہ قرار پایا تھا۔ دو مہینے تک آج کل کرتا رہا۔ آخر کار یہاں چلا آیا۔ امیدوار خاوندی کی ہوں کہ وزیر مذکور سے دو سو دینار سرخ کے حساب سے دو مہینے کی خرچی لونڈی کو دلا ملے۔ یہ سُن کر پادشاہ نے وزیر اول کی طرف نظر غضب سے دیکھ کر کہا کیوں یہ کیا کہتی ہے۔ حرام کاری ظلم کے ساتھ، اگر تو اپنی خیر چاہتا ہے تو ابھی اس کے کُل دینار دے کر راضی نامہ داخل حضور کر۔ ورنہ پیٹ چاک کرا کر بُھس بھروا دوں گا۔ وزیر اول نے جب یہ سُنا سفید ہوگیا اور کہنے لگا کہ پیر و مرشد! فدوی نے کبھی آج کے سوا اس کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ رکھنا اور ہاتھ لگانا کیسا؟ پہلے حضور یہ تو ثبوت کر لیں بعد حکم راضی نامہ کا صادر کریں۔ میں جانتا ہی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے۔ بادشاہ نے پھر اس عورت کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے سُنا وزیر کیا کہتا ہے۔ اس نے عرض کی کہ جناب عالی یہ جھوٹا ہے۔ لونڈی سچ عرض کرتی ہے۔ غرض کہ اسی طرح دیر تک آپس میں رد و بدل رہی۔ آخر کو اس عورت نے عرض کی کہ حضور اس کا فیصلہ اس طرح پر نہ ہوگا کہ یہ تو مکرتا ہے اور میں اقرار کرتی ہوں۔ اب ایک مچلکہ اس مضمون کا اس سےلکھوا لیا جائے کہ یہ لونڈی اگر وجہ ثبوت کما حقہ پہنچاوے تو تیری کیا سزا ہو۔ یہ سُن کر وزیر اول بعجلت تمام پہلے ہی سے بول اٹھا کہ جناب عالی اس نے کیا خوب بات کہی ہے۔ میں ابھی نوشتہ لکھے دیتا ہوں کہ سوائے آج کے جو کبھی میں نے اس عورت کو دیکھا ہو توپ سے باندھ کر فدوی کو اُڑوا دیجیے گا۔ ہم بستر ہونا اور ہاتھ لگانا کیسا ہوتا ہے۔ بادشاہ نے اسی شرط کا مچلکہ لکھا لیا۔ جب نوشتہ ہو چکا تو اس عورت نے عرض کی کہ حضور میں اس نے مچلکہ لکھ دیا ہے۔ اب حضور وہ تصویریں جو یہ مردود وزیر چہارم کی زوجہ کی لایا تھا، اس کے خراب کرنے کا روبرو آپ کے اقرار کیا تھا، منگائی جاویں اور ملاحظہ فرمایا جاوے۔ یہ سن کر وزیر اول تو سرنگوں ہوا اور بادشاہ نے وہ دونوں تصویریں طلب کی۔ جبکہ تصویریں روبرو آئیں تو بادشاہ نے شبیہ ملائی، پھر تو سر مو فرق اس کی صورت میں اور تصویروں میں نہ پایا۔ درحقیقت تصویریں اسی کی تو تھیں۔ فرق کیا ہوتا۔ جب تو بادشاہ کو یقین کامل ہوا کہ یہی وزیر چہارم کی زوجہ ہے۔ اور وزیر اول سے کہا کہ تو جو یہ تصویریں لایا تھا اور اس کے خراب کرنے کا اقرار ہمارے سامنے کرتا تھا اور اب تو کہتا ہے کہ میں نے کبھی اس عورت کو نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے۔ یا تو اب تو اقرار کر یا انکار کر۔ اب جاے غور ہے کہ وزیر کو بڑی مشکل ہوئی۔ اگر اقرار کرتا ہے تو مچلکہ دوم سے مارا جاتا ہے جو کہ اس عوت کے سامنے لکھا اور جو انکار کرتا ہے تو مچلکہ اول سے مارا جاتا ہے جو کہ بادشاہ کے سامنے وزیر چہارم کی بی بی کے خراب کرنے کے باب میں لکھا تھا اور چھ مہینے کی مہلت لی تھی۔ وہ مثل ہوئی کہ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ آخر کار وزیر اول نے انکار ہی کیا کہ میں نے اس عورت کو کبھی سواے آج کے نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تو نے اس عورت کو کبھی نہیں دیکھا تو یہ تصویریں کس کی ہیں۔ سچ بتا کیونکر ہاتھ لگیں، یہ سن کر اس عورت نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور! یہ داستان لونڈی سے سنیے۔ جب بادشاہ مخاطب ہوئے تو اس نے اول سے آخر تک اپنی ماں کا آنا اور مجوز ہو کر اپنے ہاتھ سے نہلانا اور بعد نہلانے کے بہ منت پوشاک و زیور پہنانا اور وقت رخصت کے اپنے منہ سے چندن ہار و نورتن و انگوٹھی و پیش قبض مانگنا اور بمشکل اپنا دینا اور زاد راہ خرچ دے کر رخصت کرنا، سب بیان کر کے کہا کہ جب تو میں حقیقت میں اپنی ماں جانتی تھی کیونکہ صورت سیرت میں سرِ مو فرق نہ تھا۔ لیکن اب مجھے یقین ہوا کہ وہ کٹنی تھی جو میری ماں کی صورت بن کے آئی اور میری اوپر ایسی خرابی لائی، جو یہ کنیز اس حیثیت سے حضور تک آئی اور اس نے مجھے نہلانے کے بہانے برہنہ کیا تاکہ تصویر برہنہ بدن کی کھینچے، بعد اس کے پوشاک و زیور بمنت پہنایا کہ تصویر دیگر آراستگی کی کھینچے۔ چنانچہ یہ دونوں تصویریں حضور عالی میں یہ بد ذات لایا تھا، موجود ہیں اور اب فدویہ کو یقین کامل ہے کہ میرا چندن ہار و نورتن و انگوٹھی و پیش قبض بھی اُس دلالۂ نابکارہ اس کی خالہ نے اسی کو دی ہوں گی اور یہ ہمراہ ان تصویروں کے یہاں لایا ہوگا۔ یہ سب ماہیت کہہ کر عرض کی کہ حضور خیال فرماویں کہ میری کس قدر ہتک عزت و بے حرمتی اس بد ذات نے بے سبب کی اور ناحق آبرو لی۔ اب فدویہ کو جب چین ہو کہ اس بدذات خصومت شعار کی بوٹیاں کٹوا کر چیل و کوؤں کو کھلوائی جاویں، جب میں اپنی داد کو پہنچوں کیونکہ اس کمبخت ناہجار نے میری خانہ بربادی مفت میں کی۔ مجھے دونوں جہاں سے کھو دیا۔ بادشاہ اور تمام اہل دربار یہ حقیقت سن کر وزیر اول کو بہت لعنت و ملامت کرنے لگے اور پھر بادشاہ نے اسی وقت وزیر اول کی مشکیں بندھوا کر حکم دیا کہ جلد اس کے اعضا اعضا کی بوٹیاں جدا کر کے چیلوں کو کھلوا دو اور وزیر چہارم کی بیڑیاں کٹوا کر باعزت جلد حضور میں حاضر کرو۔ یہ حکم سُنتے ہی اہالی و موالی وزیر اول کو سب لعنت و ملامت تو کر ہی رہے تھے، فوراً گردن میں ہاتھ ڈال کر کشاں کشاں دربار سے باہر لے جا کر وزیر اول کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کر قتل گاہ میں لے جا کر سارے بدن کا قیمہ کر کتوں اور کوؤں کو کھلا دیا۔ وہاں تو یہ کاروائی ہوئی اور یہاں بادشاہ نے یہ حکم دیا کہ وزیر اول کا کُل اسباب و املاک وغیرہ قرق کر کے قلمبند کر لو۔
جب کہ اس عورت نے وزیر کو کہ جس کے سبب سے ذلت و بدنامی اٹھائی تھی قتل کرا لیا اور اس کا شوہر بھی قید سے رہا ہو کر قریب تخت آ کھڑا ہوا، اس نے عرض کی کہ اللہ حضور کو ساتھ اس عدل و انصاف کے سلامت رکھے۔ اس عاجزہ نے قرار واقعی اپنی داد پائی۔ یہ کہہ اور وہی پیش قبض جو کہ اپنے ساتھ لائی تھی، جلد میان سے نکال اپنے پیٹ میں مار جان بحق تسلیم ہوئی۔ بادشاہ اور تمام حاضرین دربار یہ ماجرا دیکھ دست تاسف مل ہی رہے تھے کہ اُدھر اُس کے شوہر نے یہ سب باتیں اپنے کانوں سے سُنیں اور یہ سانحہ عظیم اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تاب نہ رہی، مجنون وار و بے قرار دوڑ کر اُس کشتۂ جور و ستم کے قریب آ وہی پیش قبض خون آلودہ جس سے اُس ماہ پیکر کی جان قبض ہوئی تھی، ہاتھ میں اُٹھا اپنے پیٹ میں مار اُسی مجروح صاحب عصمت پر اپنے گوہر جان کو نثار کیا اور گردن میں ہاتھ ڈال وہ عاشق صادق اپنے معشوق باوفا سے ہم آغوش ہو ٹھنڈا ہوگیا۔ بادشاہ اور تمام حاضرین دربار کو یہ حادثہ جانکاہ دیکھ کمال ہی صدمۂ عظیم ہوا۔ چنانچہ بادشاہ مع سب ملازم بڑی دیر تک گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ جس وقت دربار میں یہ سانحہ عظیم ہوا تھا، گویا ایک ہنگامۂ محشر بپا تھا۔ آخر کار بادشاہ اور سب اہل دربار نے چارہ اس کا کچھ نہ دیکھا۔ مشیت ایزدی سمجھ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو رہے اور سب ارکان سلطنت تو وہاں مجتمع تھے ان دونوں کشتوں کی لاشیں علاحدہ کرنے لگے لیکن وہ ایسی چسپیدہ نہ تھیں جو الگ ہو جاتیں۔ ہر چند سب نے زور کیا اور بہت سی تدبیریں کیں، مگر کوئی تدبیر پیش نہ گئی۔ ناچار وہ سب مجبور ہوئے اور یہی تجویز ٹھہری کہ ان دونوں کو ایک ہی کفن میں لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کر دو۔ پھر تو ان دونوں کو ایک ہی کفن میں لپیٹا اور لاشوں کو صندوق میں رکھا اور سب نے لباس سیاہ ماتمی پہنا اور بڑے تزک سے زیر شامیانہ تابوت اور گرد خلقت کا انبوہ سب روتے پیٹتے جنازہ لے چلے۔ جب بازار میں جنازہ پہنچا، پھر تو جتنے بازاری اہل حرفہ تھے سب دکانیں بند کر اسی کے ساتھ روتے ہوئے چلے۔ یہ کثرت آدمیوں کی ہوئی کہ ہاتھ لگانا مشکل تھا، کندھا دینا کیسا۔ آہستہ آہستہ جنازہ لیے باہر شہر کے گئے اور ایک باغ بہت آراستہ و پیراستہ وزیر چہارم کا قریب موتی جھیل کے تھا، بہ تجویز ارباب دانش اسی میں دفن کیا اور مٹی دینے کے بعد فاتحہ پڑھ کے سب کے سب رنجیدہ واپس آئے لیکن شہر میں ہر جگہ یہی افسانہ تھا۔ تاسف میں یگانہ و بیگانہ، جہاں سُنو انھیں دونوں کا ذکر تھا۔
جب تیسرے دن فاتحہ سوم سے فارغ ہوئے، سب نے پوشاک ماتمی اتاری اور دربار میں سب حاضر ہوئے اور اسی روز بادشاہ نے دربار عام میں ایک شخص معتمد کو ارشاد فرمایا کہ تم وزیر چہارم کے وطن جاؤ اور جو کوئی اس کے وارثوں میں بیٹا بھانجا بھتیجا، تم کو ملے اس کو میرے پاس باعزت و توقیر ہمراہ اپنے لاؤ۔ یہ فرما کر سواری و خرچ معقول ہمراہ اس کے کر کے رخصت کیا۔ بعد اس کے ان عورتوں کو جو کہ وزیر چہارم کی زوجہ کے ساتھ ساز بجاتی تھیں، بہت آبرو سے بلوا کر اپنے یہاں رکھا اور مفصل حال ان سے دریافت کیا۔ پھر تو اُن عورتوں نے اپنی بی بی کی پارسائی کا اور اُس کٹنی کا آنا اور جو حال وہاں گزرا تھا اس چرب زبانی سے بیان کیا کہ بادشاہ کو اور ساکنان محل کو کمال ہی تاسف ہوا اور کہا کہ ناحق یہ دونوں مفت میں ضائع ہوئے۔ افسوس صد افسوس! بادشاہ نے دوسرے روز حکم دیا کہ ان دونوں کشتوں کے مدفن کی جگہ عالی عمارت سے ایک مقبرہ تیار ہو۔ ادھر یہ حکم صادر ہوا اور ادھر حکم پاتے ہیں اس باغ میں مدد جاری ہو گئی۔ اس عرصہ میں وہ فرستادۂ حضور اس کے وطن میں پہنچا اور تلاش کیا تو وہی لڑکا متبنیٰ وزیر چہارم کا ملا۔ تو اس لڑکے نے پہلے وہاں کی کیفیت کلیہ اس شخص سے دریافت کی کہ ان دونوں پر کیا گزرا۔ جب اس نے دربار کا حال اور وزیر اول کا قتل ہونا اور ان دونوں کا اپنے اپنے ہاتھ سے مر جانا اور بادشا ہ کا رنجیدہ ہونا سب بیان کر کے کہا کہ بادشاہ نے آپ کے واسطے سواری بھیجی ہے اور بلایا ہے۔ اب آپ جلد تیاری کر کے میرے ساتھ چلیے۔ اُس لڑکے نے جب کہ ان دونوں کا مر جانا سُنا، بہت رنجیدہ ہوا اور اس شخص سے کہا کہ بھائی تم دو چار روز یہاں مقام کرو، میں ان دونوں مرحوموں کی جب تک فاتحہ نہ کر لوں گا، نہ چلوں گا۔ آخر کار وہ شخص دو دن وہاں مقیم رہا۔ جب کہ یہ فاتحہ سے فارغ ہوا، یعنی کھانا وغیرہ بہ افراط پکوا کر تمام شہر و برادری میں تقسیم کر چکا، پھر اپنے چلنے کا سامان کیا۔ یہ لڑکا تو بہت لئیق تھا، صبحت یافتہ وزیر تھا کئی کشتیاں جواہرات وغیرہ کی واسطے نذر گزراننے بادشاہ کے ہمراہ لیں اور اسی آدمی کے ساتھ روانہ ہوا۔ راستہ میں وہاں کے بادشاہ اور اہل دربار کا طریقہ دریافت کرتا ہوا برابر چلا گیا۔ جب چند روزوں میں ہمراہ اسی شخص کے داخل شہر ہوا، بارگاہ سلطانی میں عین دربار کے وقت حاضر ہو کر مجراگاہ میں کھڑا ہوا۔ جب بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو یہ موافق قاعدہ کے آداب و کورنش بجا لایا اور ہاتھ باندھ کر روبرو کھڑا رہا۔ پھر تو بادشاہ نے دریافت کیا کہ یہ نیا شخص کون ہے اور کیوں کھڑا ہے۔ اس عرصہ میں اس شخص نے جو کہ اس کو لینے گیا تھا، آداب بجا لا کر التماس کیا کہ حضور یہ لڑکا وزیر چہارم مغفور کا ہے۔ فدوی اسے اس کے وطن سے بہ ایماے حضور اپنے ہمراہ لایا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ اے فرزند ارجمند! آگے آؤ۔ اس نے پھر آداب و تسلیمات بجا لا کر آگے بڑھ کے زمین بوس ہو وہ کشتیاں جواہرات کی جو کہ اپنے ہمراہ لایا تھا، نذر گزرانیں۔ بادشاہ اس کی لیاقت سے بہت خوش ہوا اور بہ دل نذر اس کی قبول فرمائی اور بہت تشفی و تسلی اس کی کر کے دست شفقت اس کے سر پر رکھا اور کمال دلجوئی سے دریافت کیا کہ اے فرزند! وزیر مسعود علی خاں تمھارے رشتہ میں کون تھے؟ اس نے دست بستہ عرض کی کہ عالیجاہا! یہ خانہ زاد متبنیٰ و پروردہ اسی مغفور کا ہے اور رشتہ میں اس عاصی کے وہ حقیقی چچا ہوتے تھے۔ اپنی فرزندی میں لے کر پرورش کیا تھا۔ یہ سن کر بادشاہ بہت شاد ہوئے اور خلعت دربار عام میں وزیر اول کا اس لڑکے کو مرحمت فرمایا اور قلمدان خاص عنایت کر وزیر کلاں اپنا کیا۔ اس لڑکے نے پھر آداب بجا لا کے نذر دی۔ بادشاہ نے نذر اس کی لے کر وزیر اول مقتول کا کُل اسباب مع ہاتھی گھوڑے، باغ و املاک وغیرہ جو کہ قرق ہوا تھا، اسی کو ہبہ کر دیا اور ایک مکان عالی شان وسیع بلند جو بیچ شہر کے واقع تھا، اس کے رہنےکو عطا فرمایا۔ یہ لڑکا بہت خوش و خرم عہدۂ وزارت لے اسی مکان میں سکونت پذیر ہوا اور وہ عورتیں جو کہ اس کی ماں کے ساتھ آئی تھیں باجازت بادشاہ اس کے یہاں چلی آئیں۔ اور ہر روز فجر کو وقت دربار کے حاضر ہوتا اور کام وزارت کا اس حُسن لیاقت سے انجام دیتا کہ بادشاہ بہت خوش ہوتے۔ یہاں تک کہ اور وزیر سب نظری ہوئے۔ کل امور کا اسی سے تعلق ہوا۔ مالی و ملکی کام سب اسی کے سپرد ہوئے۔ اس عرصہ میں وہ مقبرہ بھی عالی عمارت سے تیار ہوا، پھر تو اس دھوم سے عرس ہوا اور یہ کثرت آدمیوں کی ہوئی کہ میلہ پھول والوں کا اس کے آگے جھمیلا معلوم ہوتا تھا۔ بادشاہ اور وزیر بلکہ تمام شہر وہاں مجتمع ہوئے اور قرآن خوانی کے بعد شیرینی و کھانا وغیرہ تقسیم ہوا۔ آئندہ ہر سال یہی طور رہا۔ اسی طرح کثرت سے عُرس ہوا کیا۔ غرض اس سے یہ تھی کہ ان دونوں کا نام قیامت تک زبان زد خلق خدا رہے۔ جو دنیا سے ثابت قدم جاتے ہیں وہ کسی حال سے مریں، اسی طرح شہرت پاتے ہیں۔ یہ داستان تو تمام ہوئی لیکن کہنے کو ایک بات باقی رہی۔ حالانکہ یہ واہیات سی نقل ہے لیکن غور سے دیکھو تو اصل ہے۔ کیونکہ مطلب سے خالی لا اُبالی نہیں ہے۔ خیال کر کے دیکھو تو یہ دنیا جاے حذر ہے۔ مرنے کے بعد بازپرس کا خطر ہے۔ آٹھوں پہر خوف و رجا میں رہے۔ زمانہ کے نیک و بد سے تعلق نہ رکھے تو تو کچھ بچاؤ کی صورت ہے، ورنہ سراسر ضرر ہے۔ مرنا سب کو ہے۔ موت ہر وقت موجود ہے۔ مرنے سے پہلے مر جائے، جیتے جی جی سے گذر جاے، بموجب قول کسی استاد کے ؎
اس طرح جی کہ بعد مرنے کے
یاد کوئی تو گاہ گاہ کرے
کل مَن علیها فانٍ و یبقیٰ وجهُ ربك ذو الجلال والإکرام۔ شعر :
بڑی فکر رہتی تھی ہر صبح و شام
ہوا فضل حق سے یہ قصہ تمام
مدح جناب استاد جی صاحب
جب یہ قصہ تمام ہوا تو عاصی اپنے اُستاد پاس واسطے اصلاح کے لے گیا۔ وہ استاد حقیقت میں نادر زمانہ ہیں، خلق و حلم و مروت میں یگانہ ہیں۔ شاعر بے بدل نظم و نثر میں بے مثل بڑی بڑی کتابیں ازبر یاد ہیں۔ قصبۂ کدورہ میں از کہ تا مہ سب کے استاد ہیں، شعر وہ پُر مضمون بارعایت فرماتے ہیں کہ بشر سن کے تڑپ جاتے ہیں۔ مولوی جامی صاحب و یا میر تقی ظہوری و نظیری ہوتے تو وہ بھی آپ کی فصاحت کلام بلاغت نظام سن کر سن ہو جاتے۔ کبھی شعر گوئی کا دم نہ بھرتے۔ ایسے استاد کامل ہر علم میں طاق شہرۂ آفاق اس جوار میں کیا دور دور چشم بد دور لاجواب ہیں بلکہ انتخاب ہیں، میسر نہیں ہوتے۔ وہ دروازہ کیا ہے باب فیض ہے، صبح سے شام تک فیض جاری ہے۔ صدہا آدمی ہر روز آج تک درس پاتے ہیں۔ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس ریاست بادنے میں آپ ہی کی ذات بابرکات سے علم پھیلا ہے اور بہت سے شاگرد آپ کے صاحب دیوان ہیں۔ آپ کا تو کیا کہنا ہے، تاریخیں تطابق قاعدہ زبر و بینات میں ایسی تصنیف کیں کہ جس کا جواب نہیں اور دو دیوان بڑے بڑے ضحامت کے اور کئی مثنویاں نظم کیں۔ اور ایک فسانہ وہ رنگین عبارت کا تصنیف فرمایا کہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ منجملہ ان کے ایک مثنوی مہر و مشتری کے افسانہ کی مسمیٰ بہ بہار منظوم دہلی میں شاہدرے کے مطبع میں چھپ چکی ہے۔ اور بہت سی رباعی وغیرہ تصنیف فرمائی ہیں۔ چونکہ زمانہ سفلہ پرور ہے اور کمینہ پرست قدردان علم دنیا سے اٹھ گئے ہیں، جو ایسے استاد یہاں بے قدری سے تشریف فرما ہیں۔ اور بسبب معذور ہو جانے بینائی کے اب کہیں جا بھی نہیں سکتے ورنہ آپ جہاں تشریف فرما ہوں، وہاں کے لوگ سب اپنی آنکھوں پر بٹھاویں۔ کبھی اپنے دم سے ایک دم جدا نہ کریں۔ لیکن اب کہیں جانے کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ قلم آپ کی تعریف لکھنے سے عاجز ہے اور زبان اس بیان سے قاصر ہے۔ عابد زاہد عالم فاضل حضرت جناب میر امجد علی صاحب، اور تخلص آپ کا دور دور مشہور زبان زد بہ قلق ہے، آپ نے بسبب شاگرد نوازی و محبت قدیمانہ کے کہ ہمارے بزرگوں سے واسطہ و رابطہ ہے، زیور اصلاح سے مرصع کر دیا اور دو قطعہ تاریخیں ارشاد فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دین و دنیا میں خوش و خرم رکھے اور جتنے دوست و آشنا ہیں اور جن سے آج کل زیادہ ارتباط ہے، الٰہی تو ان سب کو شاد رکھ۔ خصوصاً شیخ امام الدین پسر شیخ امام بخش نبیرۂ شیخ فجو صاحب مرحوم کہ قدیم الایام سے ہمارا ان کا ایک ہی واسطہ ہے اور شب و روز ایک جگہ بزرگوں سے رہنے کا اتفاق ہے۔ جوان صالح نیک بخت اور فن بانک میں بھی اس عاصی کے شاگرد ہیں۔ سواے اس کے محبت بھی دلی ہے۔ ایک ہی جا نشست و برخاست ہے۔ جب کہ مجمع احباب میں یہ کتاب پڑھی گئی تو سب کے سب بہت دل شاد ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو ہمیشہ خوش و خُرم رکھے اور خاتمہ بخیر ہو۔ بہ طفیل رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے۔ آمین ثم آمین!
قطعہ تاریخ طبع زاد جناب استاد جی صاحب قبلہ و کعبہ حضرت استاد میر امجد علی صاحب متخلص بہ قلق
لکھا افسانہ امیر الدین نے
جب با مداد مداد مشک بیز
اس میں دکھلائے فصاحت کے سبب
جوہر ذہن رسا و فکر تیز
فیض رخشانی معنی سے ہوئے
فقرے فقرے اُس کے نور نجم ریز
تو ہوا طبع قلق سے اس کا سال
ہے پے ہر دل فسانہ درد خیز
ولہ:
تلمیذ جو میرے وہ امیر الدین ہیں
نیکو سیر و شرافت حفظ نصیب
اردوے فصیح و دلکشا میں جس وقت
اک لکھ چکے داستان دلچسپ و غریب
تحسین کی صدا بلند ہر سمت سے کی
تھے جتنے سخن سرا بعید اور قریب
تاریخ کہی قلق نے خوش ہو کے یہی
برہم زن صبر و تاب افسانہ عجیب
قطعۂ تاریخ طبع زاد جناب منشی محمد اسحاق صاحب شاگرد رشید جناب سید امجد علی صاحب متخلص بہ اسحاق طبع موزوں و خوش فکر و صاحب دیوان ہیں
قصہ تزویر کا و ہ حافظ معنی نے لکھا
جس کے مضمون سے ہر ایک کا دل چور ہے بس
سال تالیف بھی اسحٰق تو یہ ہی لکھ دے
قصہ کیا معنی کا پر معنی و پر زور ہے بس
ایضاً:
حافظ میر دین جو اک افسانہ لکھ چکے
آیا پسند سب کو کہا خوش ہو واہ واہ
سال اس کا فی البدیہ یہ اسحٰق نے لکھا
وہ تینوں جو موے ہوا قصہ تمام آہ
تاریخ طبع زاد منشی محمد امیر الدین صاحب خلف اکبر جناب منشی محمد اسحٰق صاحب جوان صالح و نیک بخت ہیں متخلص بہ فرحت تلمیذ جناب میر امجد علی صاحب
ہوا جب یہ قصہ تمام و کمال
اور اس کی عبارت کو سب نے سُنا
لکھا سال فرحت نے فوراً یہی
ہوئی نثر کی اوج زیب انتہا
قطعۂ تاریخ
طبع زاد منشی محمد صادق حسین نبیرۂ جناب قبلہ و کعبہ منشی محمد نادر حسین خان صاحب کہ شہرۂ تحریر و تقریر جناب موصوف کا دور دور ہے اور حقیقت میں منشی بے بدل ہیں۔ اس زمانہ میں انتخاب و لاجواب ہیں۔ صاحب کشف اوقات، بہت درست متقی و پرہیزگار، بزرگ صورت نیک سیرت، عابد و زاہد، معدن جود و سخا، منبع اشفاق و کرم متخلص بہ ہاشم اور تخلص منشی محمد صادق حسین کا وصفی تاریخیں اور غزلیں وغیرہ فارسی میں کہی ہیں۔
ہم صوری و ہم معنوی تاریخ ختم این کتیب
با یک ہزار و ہشت صد و ہفتاد آمد در حسیب
ولہ:
ببین فرزانہ آن حافظ امیر الدین کہ در عالم
بفن نکتہ سنجی با سمر گشتہ کمال او
ز طرح سحر پردازی رقم زد قصۂ نادر
کہ مطبوع خلائق گشت طرز بے مثال او
شکستہ خار در دل نغمہ پردازان گلشن را
نواے عندلیب خامۂ رنگین مقال او
خرد در صورت و معنی چنین گفتہ کہ اے وصفی
بود سبع و ہزار و دو صد و ہشتاد سال او
تاریخ طبع زاد مصنف مسمیٰ حافظ امیر الدین متخلص بمعنی تلمیذ جناب میر امجد علی صاحب
جو معنی میں نا آشناے معانی
رقم کر چکا قصہ اک عاشقانہ
تو فی الفور سال اس کا آیا یہ لب پر
دو مظلوم کا ہے یہ جادو فسانہ
ایضاً:
فضل خالق سے قصۂ پر زور
ماہ اول میں جب تمام ہوا
سال معنی نے یہ لکھا فوراً
بس اجی نسخہ اب تمام ہوا
ایضاً:
جب فسانہ کیا یہ میں نے تمام
اور دل کو بہت یہ بھایا جی
دل سے معنی لکھا یہ فوراً سال
قصہ پُر زور خوب لکھا جی