وزیر اول کا بادشاہ سے شکار میں کہنا اور زوجۂ وزیر چہارم کے خراب کرنے میں ترغیب دے کر چھ مہینے کی مہلت لے کر بادشاہ سے رخصت ہو کر اُس کے وطن جانا اور وہاں پہنچ کر کٹنی سے تصویریں اور نشانیاں منگا کر پھر آنا
حاکیانِ غم اندوز و راویانِ جگر سوز اس داستان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حسب اتفاق ایک روز بادشاہ شکار کو تشریف فرما ہوئے۔ اس سواری میں سواے وزیر اول کے اور وزیر نہ تھا۔ یہی تنہا خواصی میں بیٹھا تھا اور یہ تین وزیر کاروبار مالی و ملکی میں یہاں مصروف تھے۔ اس حاسد نے جب میدان خالی پایا تو یہ جعل پھیلایا کہ راہ میں بادشاہ سے اِدھر اُدھر کا ذکر کر کے وزیر چہارم کا مذکور کر انھیں باتوں کا تذکرہ کیا۔ بادشاہ کو جب اپنی طرف متوجہ پایا تو اس طرح سے عرض کرنے لگا کہ اے خداوند نعمت! وزیر چہارم نے جو اپنی زوجہ کی اس قدر تعریف بیان کی ہے، سراسر خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کسی عورت کو اس درجہ باوفا نہیں دیکھا اور نہ زبانی کسی کی سُنا۔ اُس کی زیادہ تعریف کرنے سے فدوی کو معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر اُس نے اپنی زوجہ کی عصمت بیان کی ہے، اُسی قدر وہ فاحشہ و بدکار ہوگی اور اُس کو الو کا گوشت کھلا کر اُلو بنا رکھا ہے اور یہ بھی اُس کے مکر کے دام میں پھنس کر اپنے اختیار میں نہیں رہا۔ و یا یہ کہ اُس نے ہمیں آپ کے روبرو ذلیل و شرمندہ کرنے کے واسطے یاوہ گوئی کی ہے۔ کیونکہ ہم تین وزیروں نے آپ کے سامنے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہوگی۔ اُس نے آپ کے سامنے ایسی تعریف بیان کی کہ ہم سب کے ہوش پرّاں ہو گئے۔ پس فدوی کو اُس کے بیان سے صاف منکشف ہوگیا کہ وہ عورت بڑی فاحشہ ہے اور یہ جھوٹا ہے۔ اگر حضور فدوی کو کچھ دنوں کی مہلت دے کر رخصت فرماویں تو یہ فدوی اُس کے وطن جا کر کل ماہیت دریافت کر آوے تو سب قلعی کھل جاوے۔ بلکہ اغلب ہے کہ یہ عاجز اُس کی زوجہ کو خراب کر آوے اور اُس کو علانیہ جھوٹھا بناوے۔ جھوٹھ بولنا معاذ اللہ منہا بڑا ہی شدید گناہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔ علی الخصوص بادشاہوں کے سامنے دروغ گوئی بہت ہی بری بات ہے۔
جب بادشاہ نے وزیر اول کا کلام بد سنا تو فرمایا کہ وزیر چہارم دروغ گو نہیں ہے۔ کیا عجب ہے جو اُس کی بی بی ایسی ہی ہو جیسی وہ بیان کرتا ہے۔ جب وزیر اول خصومت شعار نے پھر عرض کی کہ حضور کیا فرماتے ہیں، سلف سے آج تک کسی نے ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی۔ اکثر لوگوں نے مستوراتوں کا امتحان کیا ہے، کسی کو بھی خالی از کید نہیں پایا۔ چنانچہ قول کسی استاد کا ہے۔ حضور نے سنا ہوگا۔ مصر؏:
اسپ و زن و شمشیر وفادار کہ دید
بادشاہ نے فرمایا کہ یہ بھی تو قول کسی استاد کا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ کیا، ارشاد فرمائیے، تب بادشاہ نے فرمایا۔ شعر:
نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
وزیر نے بادشاہ سے یہ قول سُن کر عرض کی کہ حضور! یہ دونوں قولِ بشر ہیں جو آپ نے ارشاد فرمایا اور فدوی نے التماس کیا، لیکن مستورات کی مذمت قرآن شریف میں جناب باری نے سورۂ یوسف میں بیان فرمائی ہے۔ آیہ: اِن کیدکُن عظیم۔ یہ آیہ پڑھ کر کہا: جناب عالی یہ فرقہ ایسا ہی بُرا ہے۔ خدا سب کو اس کے مکر سے بچائے۔ بادشاہ تو یہ سن کر چپ ہوئے، لیکن یہ کمبخت بکے ہی گیا۔ چُپ نہ ہوا۔ آخر کار بادشاہ نے فرمایا کہ اگر تو اُس کی زوجہ کو خراب نہ کر سکا تو تیری کیا سزا ہو۔ اُس نے عرض کی کہ حضور! چھ مہینے کی مہلت فدوی کو دیں۔ اگر اس مدت میں مَیں اُس کی زوجہ کو جس کی وہ عصمت ازحد بیان کرتا ہے، خراب کر آیا اور وجہِ ثبوت حضور میں لایا تو وہ کاذب دروغ گو گردن مارا جاوے اور در صورتیکہ یہ فدوی اُس کو نہ خراب کر سکا اور وجہِ ثبوت سرکار عالی میں نہ لایا تو اس خانہ زاد کو آدھا زمین میں گڑا کر تیروں سے چھدوا دیجیے گا۔ بادشاہ نے فرمایا کہ تو پختہ ہو کر کہتا ہے یا یوں ہی بکتا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ حضور! فدوی سے پہلے مُچلکہ مُہری لکھوا لیجیے جب مہلت و رخصت دیجیے۔ بادشاہ نے کہا: اچھا دیکھا جائے گا۔
جب بادشاہ شکار سے پھر آئے اور کئی روز گزرے کہ اس نے تنہائی میں بادشاہ سے التماس کیا کہ عالیجاہا! فدوی سے مچلکہ مہری مع گواہان حاشیہ لکھوا لیجیے اور چھ مہینے کی مہلت دیجیے۔ بادشاہ نے پھر واسطے حجت تمام کرنے کے کہا کہ اگر تو نے وجہ ثبوت اس کے خراب کرنے کی نہ پیش کی تو یاد رکھنا، اُس وقت ذرا تامل نہ ہوگا۔ فوراً تو گردن مارا جائے گا۔ اُس نے کہا بہتر ہے۔ اور جو وجہ ثبوت پیش نظر کی جاوے تو کیا ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ اُس صورت میں وزیر چہارم کی وہ ہی سزا ہوگی جو تیرے واسطے ٹھہری ہے۔ اُس نے دست بستہ عرض کی کہ بہتر۔ یہ کہہ کر ایک دستاویز اسی شرط کی لکھی اور ہاتھ سے انگشتری اُتار فوراً اُسی دستاویز پر مُہر کر دی اور دو چار گواہیاں اپنے عزیزوں کی حاشیہ پر لکھوا دیں۔ اور چھ مہینے کی مہلت لے کر اور سامان سفر درست کر کے روپیہ بہت سا اپنے ہمراہ لے وزیر چہارم کے وطن کو خفیہ روانہ ہوا۔ یہاں کچھ اور مشہور بہانہ ہوا۔ لیکن وزیر اول کچھ مسرور کچھ غمزدہ درگاہ جناب باری میں گریہ و زاری سے التجا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یا اللہ! میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔ مجھے بادشاہ اور سب دربار کے روبرو ذلیل نہ کرنا۔ تیرے ہی بھروسے پر نوشتہ کر گھر سے نکل روانہ ہوا ہوں۔ یہ دعا اللہ سے مانگتا ہوا اور روپیہ محتاجوں کو بانٹتا ہوا، منزل بمنزل کوچ در کوچ مقام در مقام کرتا ہوا اور راہ خدا میں زر خطیر خیرات کرتا ہوا برابر چلا گیا۔ اللہ جل شانہ تو بڑا بے پروا ہے اور بُرے بھلے کا مواخذہ روز قیامت پر موقوف ہے۔ دنیا میں وہ حاجت روا سب کی مراد دیتا ہے۔ تضرع و زاری اور وہ خیرات سیر چشمی سے اُس کی جناب باری میں منظور ہوئی جو وہاں داخل ہوتے ہی براے نام آرزو ہواے مراد پوری ہوئی۔
جب یہ وزیر اول بیس روز کے عرصہ میں وزیر چہارم کے وطن میں داخل ہوا اور ایک مکان رفیع الشان امیروں کے قابل چاندنی چوک میں کرایہ لے کر سکونت پذیر ہوا اور اُس مکان کو فرش و شیشہ آلات وغیرہ سے بہت آراستہ کر کے پانچ چار آدمی وہاں کے رئیس خدمت کے واسطے نوکر رکھے اور صبح و شام بڑے کر و فر سے سوار ہر کر ہوا کھانے کو جایا کرتا۔ جب کئی روز اُسے وہاں گزرے پھر تو اُس نے کٹنیاں تلاش کیں اور بلوائیں۔ جو کٹنی آتی تھی اس سے پہلے جوہر فن دریافت کرتا تھا، کوئی کہتی تھی کہ میں زمین پھاڑوں اور اندر جا کر پھیر چلی آؤں اور کوئی کہتی کہ اگر حکم ہو تو آسمان کے تارے توڑ لاؤں۔ کوئی کہتی تھی کہ اگر آپ فرمائیں تو قاف سے دمِ دیگر پری لے آؤں۔ اسی طرح ہر روز ہزارہا کٹنیاں آتیں اور اپنے اپنے ہنر بیان کرتیں، لیکن اُس کے پسند نہ آتیں۔ ایک روز ایک بڑھیا دلالہ شیطان کی خالہ خدا کرے مُنہ اس کالا، سب کٹنیوں کی استاد اور بہروپیوں اور مصوروں کے کان کاٹنے والی، ہر فن میں طاق، نوشت و خواند میں بہت مشاق، بڑی شتّاہ و عیارہ و مکارہ جس سے شیطان پناہ مانگے، شبیہ کشی میں ایسی استاد کہ جس کو ایک بار دیکھے، اُس کی تصویر بعینہ ہو بہو ایسی کھینچے کہ اصل صورت میں سرمو فرق باقی نہ رہے۔ فقط بول اُٹھنے کی دیر رہے اور جس کی چاہے فوراً شکل بنجا کے بہروپ ایسا بے نظیر بدلے کہ نقل کو اصل سے فوق ہو۔ یہ آج کل جتنے بہروپیے ہیں، اُس کے چیلے چاٹے ہیں۔ اس عیارہ نے سب کے کان کاٹے ہیں۔ آسمان کو پھاڑے اور پھر تھگلی لگائے۔ خدا سب کو اُس کے جال سے بچائے۔ اس وزیر پاس آئی۔ اُس نے بموجب دستور کے اُس سے بھی ہنر دریافت کیا۔ اُس نے وہ ہوا کے گھوڑے اڑائے، بلکہ زمین آسمان کے قلابے ملائے کہ وزیر دنگ ہوگیا اور جی میں اپنے بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ اس سے مطلب دل بخوبی حاصل ہوگا۔ پھر تو اُس کٹنی سے اُس نے کہا کہ ایک کام ہمارا ہے جو تو اُسے کر دے گی تو میں تجھ کو اتنا روپیہ دوں گا کہ تمام عمر کو بلکہ سات پشت تیری کو کافی ہوگا۔ اس نے کہا کہ بلا لوں وہ کام تو بیان کرو کیا ہے۔ تب وزیر نے اُس سے کہا کہ یہاں جو وزیر مسعود علی خاں رہتے ہیں اور قدیم سے یہیں کے رئیس ہیں، اُن کی بی بی سے بے تکلفی کی ملاقات کرا دے۔ میں فقط اُسی کے اشتیاق میں تا دیدہ مبتلا ہو ہوش و حواس کھو یہاں آیا ہوں۔ روپیہ کا اندیشہ نہیں۔ جس قدر صرف ہو، بلا سے لیکن وہ نازنین میری ہم پہلو ہو اور شب باش رہے۔ یہ میرا مطلب ہے۔ اُس نے یہ سُن کر وزیر سے کہا کہ تم نے اُس بی بی کی تصویر دیکھی ہے یا کہ کسی سے اُس کی تعریف سُنی ہے جو اس قدر مبتلا ہو کر یہاں آئے ہو۔ سب ماجرا من و عن مجھ سے بیان کر دو۔ وزیر نے اُس حرافہ سے کہا کہ تجھے اس سے کیا غرض ہے؟ تو ہم سے خاطر خواہ روپیہ لے اور ہمارا کام کر۔ اُس نے بیان کیا کہ میاں! جب تک کل ماہیت دریافت نہ ہو، تو اُس کی جستجو نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر کسی سے بحث ہو گئی ہو تو نشانی وغیرہ سے بھی بات رہ جائے گی اور جو فقط اُس کے دیکھنے یا رکھنے کی تمنا ہو تو ویسی ہی جستجو کی جاوے۔ اب آپ سب حال بیان کر دیں تاکہ بخوبی تمام حسب خواش آپ کے کوشش کی جاوے۔ پھر یہ وزیر نے اُس کو جواب دیا کہ وہ وزیر اور میں ایک ہی بادشاہ کے یہاں بعہدۂ وزارت ملازم ہیں۔ ایک دن اُس وزیر نے اپنی زوجہ کی صورت و سیرت، عصمت و عفت کی تعریف حد سے زیادہ بیان کی۔ اُس دن سے میرے دل پر ایسی چوٹ سی لگی کہ بغیر دیکھے اُس کے قرار نہیں ہے۔ علاوہ اس کے میں نے اُس وزیر کی غیبت میں پادشاہ سے اقرار کیا اور مچلکہ لکھ دیا کہ میں اُس کی زوجہ کو خراب کر آؤں گا اور جو نہ خراب کر آیا تو میری گردن جلادوں سے اڑوا دیجیے گا۔ تو نے سنا اگر وہ مجھ سے ملی اور میں نے اُسے اپنے پاس شب باش کیا اور ہم بستر ہوا تو لطف زندگی ہے، ورنہ مفت میں جان جاتی ہے۔ اب جس قدر چاہے روپیہ لے اور محنت و مشقت سے جستجو کر کے اُس نازنین زہرہ جبین کو میرے پاس لا اور بے تکلف مجھ سے ملا۔ دلالہ حرافہ نے جو یہ درخواست اور روپیہ بے اندازہ کا وعدہ دینے کا سُنا، کمال خوش ہوئی اور اپنے دل میں کہنے لگی کہ مدت مدید و عرصۂ بعید کے بعد میرے مکر کے جال میں ایسا اُلو پھنسا جسے ولولۂ شیطانی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ پھر اُس سے کہا کہ بلا لوں! اب اندیشہ نہ کر۔ یہ کون ایسا مشکل کام ہے جس کے واسطے تم گھبراتے ہو۔ شکر کرو تمھاری قسمت بہت زبردست تھی جو مجھ سی عورت ذو فنون ہر فن میں طاق سے ملاقات ہو گئی۔ اب ہر طرح خاطر جمع رکھو۔ دل محزون کو خوش و خرم رکھو۔ وزیر کی بی بی کو تم سے ملا دینا میرے نزدیک کتنی بڑی بات ہے۔ اگر آپ فرماویں تو آسمان سے زہرہ و مشتری کو ایک آن واحد میں یہاں لے آؤں۔ یہ عورت تو یہیں ہے۔ آپ دیکھیے گا میری چالاکی و استادی۔ لیکن جو آپ زر خطیر دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس میں فرق نہ ہو۔ وزیر نے کہا کہ یہ کیا بات ہے، جو کہا وہ جان کے ساتھ ہے۔ پہلے لے لو، بعد میرے کام میں دخل دو، لیکن بہت جلد اُس سے ملا دے۔ میری زیست اُس کے ملنے سے ہے کیونکہ میں نے بادشاہ سے چھ مہینے کی مہلت لی ہے اور مچلکہ لکھ دیا ہے۔ اُس نے یہ سُن کے کہا کہ لائیے اب تو کچھ دلوائیے۔ وزیر نے ایک ہزار روپئے کی تھیلی اُس کے آگے رکھ دی اور بہت سی چاپلوسی کی گفتگو کر کے کہا لو اب جلد جاؤ۔ وہ حرافہ ایک ہزار روپیہ کا توڑا لے کر وزیر سے رخصت ہوئی اور گھر میں جا توڑہ رکھا۔
دوسرے روز فجر کو اپنے مکان سے باہر نکلی اور وزیر مسعود علی خاں کے دروازے پر گئی تو دیکھا مکان رفیع الشان مانند قلعۂ کلان کے ہے، اور بلندی اُس کی اس قدر ہے کہ پرند جانور بھی اُس کے اوپر سے پرواز نہیں کر سکتے اور بند و بست ایسا ہے کہ ہوا بھی بار نہیں پاتی اور بے اجازت اندرون محل نہیں جا سکتی۔ چاروں طرف پہرہ چوکی کو سوار و پیدل جابجا مہیا و معین ہیں اور بہت ہوشیار ہر سمت بیٹھے رہتے ہیں۔ اور اس مکان کی سات ڈیوڑھیاں ہیں، لیکن ہر وقت دروازے بند رہتے ہیں۔ اُس بڑھیا نے قریب کے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس محل کے دروازے کیوں بند رہتے ہیں؟ اُن لوگوں نے جواب دیا کہ اس محل کا یہ دستور ہے کہ جب تک صاحب خانہ یہاں رہتے ہیں یعنی وزیر مسعود علی خان صاحب تب تک دروازے بخوبی تمام کُھلے رہتے ہیں۔ جب وہ اپنی نوکری وزارت پر جاتے ہیں، دروازے بند رہتے ہیں جیسے تم دیکھتی ہو۔ یہ سُن کر اُس نے پھر پوچھا کہ میاں آٹھ پہر میں کسی وقت بھی کھلتے ہیں یا ہر وقت یوں ہی بند رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جا اپنا کام کر۔ تجھے اس بات کے دریافت کرنے سے کیا غرض ہے۔ بڑھیا افسردہ خاطر ہو کر بولی کہ مجھے یہ تعجب ہے کہ اگر آٹھوں پہر دروازے نہیں کھلتے تو کھانے پینے کی چیز کیونکر اندر جاتی ہوگی۔ یہ بات سُن کر انھوں نے کہا کہ ان کے یہاں ایک اصیل ہے بہت امانت دار اور بڑی دیانت دار، اُس کا اُن کے یہاں بڑا اعتبار ہے۔ آٹھ پہر میں وہ نیک بخت ایک بار باہر آتی ہے۔ جو کچھ سودا سلف منگوانا منظور ہوتا ہے رَوَنّہ کے ہاتھ منگا پھر دروازے بند کرتی ہوئی اندر چلی جاتی ہے۔ جبکہ اُس علامہ نے یہ حال سُنا، طوطے عقل کے اُڑے، گم صم بکم کا نقشہ ہوا۔ مایوس ہو کر وہاں سے پھری اور سیدھی وزیر کے پاس جا کر یہ سب ماہیت بیان کر کے کہنے لگی کہ میاں بڑے مشکل کی بات ہے کہ جہاں پرند جانور کا مقدور نہ ہو کہ پر مارے، وہاں آدمی کیا کر سکے۔ وزیر نے پھر بڑھیا سے باتیں عاجزی کر کے بہت لالچ دیا اور کہا کہ جس طرح ہو سکے میرا کام کر۔ بڑھیا دام زر میں تو پھنس رہی ہی تھی، اُس سے پھر خرچ طلب کیا۔ وزیر نے پھر ایک توڑا ہزار روپیہ کا بے تامل حوالہ کر دیا اور کہا کہ لے تو اب جا اور جلد کوئی تجویز نکال۔ بڑھیا روپیہ لے کر اپنے گھر روانہ ہوئی۔ گھر جا روپیہ رکھ مکر تازہ کی فکر کرنے لگی۔ بعد تامل کے اُس قحبہ نے یہ نیا جال کیا، سننے کے قابل ہے کہ پانچ روپیہ کی مٹھائی اور دونا پھولوں کا ہمراہ اپنے لے وزیر کی ڈیوڑھی پر گئی اور پہرہ والوں سے یہ فقرہ بنا کہنے لگی کہ عرصہ بارہ برس کا ہوا، لڑکا میرا گھر سے نکل گیا تھا۔ میں نے اُس کی مفارقت میں بہت خاک چھانی اور در بدر خاک بسر دیوانی سی ماری ماری پھری اور ہزاروں منتیں مانیں۔ سیکڑوں جگہ فال کھلوائی۔ گنڈہ تعویذ حاضراتیں بہت جا کرائیں، کچھ حال نہ معلوم ہوا کہ وہ کس سمت گیا ہے۔ آخر کار میں تھک کر بیٹھ رہی اور شب و روز گریہ سے کام رکھا۔ ایک روز رات کو اُس کے تصور میں روتے روتے سو گئی تو خواب میں ایک پیر مرد بزرگ صورت نیک سیرت مجھ سے فرماتے ہیں کہ تو جو اپنے بیٹے کی مفارقت میں عمر کو ضائع کرتی پھری اور جھک مارتی رہی، کیا حاصل ہوا۔ اب تو میری بات سُن اور اُس کو عمل میں لا۔ اللہ چاہے تو تیرا لڑکا تجھ سے جلد مل جاوے۔ وہ بات یہ ہے کہ اس شہر کے جو مسعود علی خان رئیس ہیں، اُن کی بی بی بہت عابدہ زاہدہ پرہیزگار و بزرگوار گویا کہ زندہ پیر ہے۔ تُو ان کی منت مان۔ جب تیرا لڑکا تجھ سے ملے تو شیرینی اور پھول اُن کو چڑھائیو۔ یہ کہہ میرا ہاتھ پکڑ اُٹھا بٹھایا اور آپ غائب ہو گئے۔ میں نے اُس وقت یہ منت مانی کہ اے اللہ تو ایسی نیک بی بی کے صدقے سے میرے بچھڑے ہوئے لڑکے سے مجھ کو ملا دے، تو میں بموجب پیر مرد کے فرمانے کے نذر نیاز کر کے اُس بی بی زندہ پیر کو چڑھاؤں بارے قربان اپنے اللہ کے اور نثار اُس کی قدرت کے کہ اُس نے ایسی نیک بی بی کے تصدق سے مجھ دکھیا کے لڑکے کو بارہ برس کے بعد ملایا کہ وہ کل کے دن سلامتی سے مع الخیر گھر آیا۔ میں اُس سے مل کر بہت شاد، غم سے آزاد ہوئی، نامرادوں میں بامراد ہوئی۔ دور دوری ہوئی، آرزو پوری ہوئی۔ سبحان اللہ کیا کہنا ہے۔ حقیقت میں میری بی بی تو زندہ پیر ہے۔ مجھے سچ بشارت پیر مرد نے دی تھی۔ اب میں منت بڑھانے آئی ہوں۔ اس واسطے پھول مٹھائی لائی ہوں۔ اسی طرح تین روز تک برابر لاؤں گی، اُس بی بی تک تو میری رسائی کاہے کو ہوگی، لیکن تم کو مٹھائی کھلاؤں گی اور پھولوں کا دونا دروازے پر چڑھاؤں گی۔ پھر دونا دہلیز پر چڑھا، مٹھائی سب کو تقسیم کر دی اور اپنے گھر کو چلی گئی۔
دوسرے دن دروازہ محل کا موافق معمول کے کھلا اور وہ اصیل کہ حقیقت میں اصیل تھی، باہر آئی اور پھول دروازے پر پھیلے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی کہ آج یہ پھول دروازے پر کیسے پڑے ہیں، جلد بتاؤ۔ سپاہیوں نے سب داستان بڑھیا کی کہہ سنائی اور کہا کہ کل پھر آوے گی۔ اُس بڑی بی نے سپاہیوں کو بہت بُرا بھلا کہہ، غصہ میں ان کو تاکید فرمائی کہ خبردار اگر تمھیں اپنی خیریت منظور ہے تو اس بدذات کٹنی کو آتے ہی گرفتار کر لینا اور مجھے خبر کرنا۔ وہ بیشک کٹنی ہے۔ اُس حرام زادی کا اس ڈیوڑھی پر کیا کام ہے۔ اگر تم لوگوں نے اُسے قید نہ کیا تو تمھارا پیٹ چاک کرا کے بُھس بھرا دیا جاوے گا۔ سپاہی سب ڈرے اور دست بستہ ہو کر کہا کہ ہمارا کیا مقدور ہے جو ذرہ بھی تامل کریں۔ جس وقت وہ یہاں آوے گی، فوراً قید شدید کیا جاوے گا۔ آپ کا فرمانا ایسا ہے جو ہم نہ مانیں گے، اپنے اوپر خرابی لاویں گے۔ آپ خاطر جمع رکھیے۔ یہ ماما تاکید اکید کر کے اپنے معمول کے موافق دروازے بند کرتی ہوئی اندر چلی گئی۔ وہ دن بھی گزر گیا۔ رات بھی تمام ہوئی۔ دوسرے روز فجر کو وہ محل دارنی باہر آئی اور ماجرا اُسی کٹنی کا دریافت کیا، تو سب نے عرض کی کہ ابھی تک تو نہیں آئی، مگر آیا چاہتی ہے۔ یہ سُن کر وہ اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ عیارنی بالکل شیطاننی ووہی پھول اور مٹھائی لائی۔ آتے ہی اُس کے سر پر خرابی آئی کہ سپاہیوں نے جھٹ پٹ اُس کے تئیں لات اور مُکی مار مشکیں کسیں اور دست و پا میں زنجیریں اور گردن میں طوق ڈال دیا اور گھسیٹتے ہوئے ایک تاریک کوٹھری میں لے جا کر بند کر دیا۔ گو وہ بہت فریاد و بُکا سے گریہ و زاری کرتی رہی اور دہائی تہائی سیکڑوں واسطے خدا و رسول کے دے دے کہتی تھی کہ صاحبو! میرا کیا گناہ و قصور ہے اور کیا تقصیر ہے کہ جس کی یہ تعزیر ہے، لیکن کسی نے اُس کی فریاد کو نہ سنا۔ آخر اُسی تاریک کوٹھری میں گھسیٹ کر بند ہی کر دیا اور ایک رات دن بھوکی پیاسی قید شدید میں رہی۔ دوسرے دن جب وہ ضعیفہ نیک خو فرشتہ خصال موافق اپنے معمول کے ہر ایک دروازہ کھولتی باہر آئی اور جو شے بازار سے منگانی تھی رونہ کے ہاتھ منگائی اور آپ چوکی پر دروازے کی بیٹھی، اُس وقت سپاہیوں نے اس حرافہ کو مع زنجیروں کے جس طرح قید کیا تھا، روبرو اُس صاف باطنہ کے حاضر کیا اور سب نے متفق ہو کر عرض کی کہ ہم نے بموجب ارشاد آپ کے اس کو قید کیا۔ اُس کی فریاد کو نہ سُنا۔ اب یہ آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے۔ یہ کلام سُن کر اس نے اُس کو خوب طرح بغور دیکھا اور بہت سخت کلامی اُس نالائقہ کو کر کے کہا: خیر اب تو میں تجھ کو چھوڑے دیتی ہوں لیکن خبردار پھر کبھی ارادہ ادھر آنے کا نہ کرنا اور جو بار دیگر ادھر آئی اور مجھے خبر ہوئی تو خدا کی سوں، موگریوں سے تیرا سر تڑوا دوں گی۔ خبردار ہرگز ادھر نہ آنا، بلکہ منہ بھی اس طرف نہ کرنا۔ غرض کہ بہت تاکید اکید کر کے رہا کر دیا او ر سابق دستور دروازہ بند کرتی ہوئی اندر چلی گئی۔
ادھر یہ جو قید سے رہا ہوئی، سیدھی وزیر پاس گئی اور ساری کیفیت وزیر سے بیان کی اور کہا: میاں جیسی تعریف تم نے اس بی بی کی سنی تھی اس سے چار حصے وہ زیادہ ہے۔ تمھارے دیکھنے اور ملنے کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی۔ الّا میں اپنی چالاکی و استادی سے اُس کی تصویر اور نشانی لا دوں گی مگر روپیہ خرچ بہت ہوگا۔ وزیر نے افسردہ خاطری سے جواب دیا کہ جی تو یہی چاہتا ہے کہ اُس سے بے تکلفی کی ملاقات ہو، وہ معشوقہ یہیں شب باش ہو تاکہ جی کے سب ارمان نکلیں۔ اس نے کہا کہ تم تو کیا ہو، اگر فرشتہ ہو تو اُس کی بھی مجال نہیں ہے جو اُس کی پرچھائیں دیکھ سکے۔ یہ جو میں تم سے کہتی ہوں کہ تصویر و نشانی لا دوں گی، اُس کو بھی آسان نہ جاننا۔ بڑی جانکاہی اور چالاکی اور محنت و مشقت سے ہاتھ آئے گی۔ اگر میری تدبیر چلے گی تو تمھاری جان تو بچے گی۔ بادشاہ کے سامنے ذلیل تو نہ ہو گے۔ میاں جان بچے لاکھوں پائے اگر مدعا ہاتھ آوے۔ وزیر نے یہ سُن کر اپنے دل میں کہا: سچ تو کہتی ہے، اگر بات اپنی رہ جائے تو بھی غنیمت ہے۔ پھر اُس کُٹنی سے کہا کہ اچھا تو جو کہتی ہے، اُسی کی جلد تدبیر کر۔ اُس نے کہا: بہتر ہے لیکن روپیہ کچھ اور دلوائیے۔ وزیر نے پھر ایک توڑہ ہزار روپیہ کا دے دیا اور رخصت کیا۔ اس شطاح نے روپیہ لے جا کر گھر میں رکھے اور باہر جا کر اہل محلہ سے دریافت کیا کہ اُس وزیر کی بی بی کہاں کی لڑکی ہے، کون سے شہر کے اُس کے والدین رہنے والے ہیں۔ اُن لوگوں نے جواب دیا کہ پنجاب کی طرف ایک شہر ہے، نام اُس کا سیالکوٹ ہے۔ اس لڑکی کے والدین وہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہیں سے یہ لڑکی بیاہ آئی ہے۔ جب اُسے یہ حال مفصل معلوم ہو گیا تو اُس نے سب سامان عیاری کے اپنے ساتھ لے اور کچھ خرچ زاد راہ رکھ اُسی کی طرف کو روانہ ہوئی اور چند روز میں وہاں پہنچی۔ سرا میں اُتر کر اُس کے والدین کے مکان کا پتہ دریافت کیا۔ جب مکان ملا تو اپنی محتاج کی سی صورت بنا کر اُس کی والدہ پاس جا کر نوکری کی درخواست کی۔ اُس نے اس کی صورت غریب دیکھی تو نوکر ماما گری پر رکھ لیا۔ پھر تو اُس نے ایک مہینہ وہاں رہ کر خوب طرح حال دریافت کر لیا اور اچھی طرح کل ماہیت مع صورت سیرت، خال و خط، قد و قامت، چال ڈھال،رفتار و گفتار اور احوال خانگی کلیہ دریافت کر اپنے ذہن میں رکھا اور صاحب خانہ سے کہا کہ صاحب میری طبیعت گھبراتی ہے۔ اب میں نہ رہوں گی۔ اپنے گھر جاؤں گی۔ یہ سن کر ان لوگوں نے بہت سمجھایا اور روکا کہ ابھی نہ جاؤ اور رہو، چھ سات مہینے کے بعد بطور رخصت جانا اور اپنے رہ کر تھوڑے روز پھر چلی آنا۔ ابھی تو تمھیں ایک ہی مہینہ نوکر ہوئے گزرا ہے۔ اُس نے ایک فقرہ بنا کر اُن سے بیان کیا کہ بی بی! میرا پوتا مجھ سے بہت ہلا تھا۔ اُس کی جدائی بہت شاق ہے۔ وہ بغیر میرے ہڑکتا ہوگا اور رو رو کے جان کھوتا ہوگا۔ میں کچھ ننگی بھوکی نہیں ہوں اور نوکری کی خواہش تھی۔ میں بسبب لڑائی ہونے کے بہو سے آزردہ ہو کر چلی آئی تھی۔ اب مجھ سے بغیر دیکھے پوتے کے رہا نہیں جاتا۔ فراق اُس کا میری جان لیتا ہے۔
یہ فقرہ چھوڑ اور اپنی تنخواہ ایک مہینے کی لے وہاں سے روانہ ہوئی۔ جب پانچ چار منزل وہ شہر رہا جہاں سے یہ آئی تھی، تو وہاں مقام کیا اور ایک فنس خرید کی اور بہت آدمی خدمتگار و سپاہی نوکر رکھے۔ بہروپ کے فن اور مصوری میں تو استاد تھی، ایسی صورت بے نظیر اُس کی ماں کی سی بنائی کہ بعینہ ہو بہو قد و قامت، خال و خط، صورت و سیرت، رفتار و گفتار، نشست و برخاست میں ذرہ فرق نہ رہا۔ گویا بالکل وہ ہی ہو گئی اور زیور و پوشاک ویسے ہی سے جسم آراستہ کر کے تیار ہوئی اور نوشت و خوند میں بھی طاق شہرۂ آفاق تھی، ایک خط اپنے ہاتھ سے اپنی لڑکی کو یعنی جس کی ماں بنی تھی، لکھ انھیں نوکروں میں سے ایک آدمی کے ہاتھ مکان کا پتہ بتا کر روانہ کیا۔ مضمون اُس خط کا یہ تھا کہ اے نور نظر، قوت دل و جگر، راحت جان! تیری دوری کے صدمے نے مجھے مارا، بے چین کر دیا۔ سب طرف سے تو میرے دل کو ٹھنڈک ہے لیکن تیرے فراق نے تڑپا کر قرار نہ لینے دیا۔ ہر چند میں نے تمھارے والد اور بھائیوں سے خط لکھوا کر بھیجے کہ تم چلی آؤ، صورت دکھا جاؤ، مگر تم نہ آئیں۔ جس دن سے تم بیاہی گئی ہو صورت کو ترس گئی، آنکھیں ڈھونڈتی ہیں۔ دل قبضۂ اختیار سے جاتا رہا۔ خود تمھارے پاس آنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ فلانی منزل پر مقام ہے۔ تم کو اطلاع کے واسطے خط لکھ روانہ کیا ہے تاکہ تم آگاہ ہو۔ ان شاء اللہ میں بہت عنقریب پہنچتی ہوں اور تم سے ملتی ہوں۔ یہ خط جس وقت آدمی لے کر دروازہ پر گیا تو وہاں کے سپاہیوں سے بیان کیا کہ میں خط وزیر کی خوش دامن کا لایا ہوں۔ تم مجھ کو بتاؤ کہ وزیر صاحب کہاں ہیں۔ وزیر کے آدمیوں اور سپاہیوں نے کہا کہ وزیر صاحب تو یہاں تشریف نہیں رکھتے ہیں، لیکن تمھارا اندرون محل کل پہنچے گا۔ آج کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر آؤ بیٹھو۔ کمر کھولو۔ بنیے سے جنس لاؤ، کھانا پکاؤ کھاؤ پیو۔ جب تمھارے آنے کی خبر اندر ہوگی اور خط طلب ہوگا تو بھیج دیا جائے گا۔ ناچار اُس آدمی نے وہاں مقام کیا۔ دوسرے دن جب وہ اصیل موافق وقت معینہ کے دروازہ کھولتی ہوئی باہر آئی تو معلوم ہوا کہ بیگم کے میکے سے ایک آدمی خط لے کر کل سے آیا ہوا ہے۔ تب اُس محل دار نے پہلے اندر جا کر بی بی سے بیان کیا کہ جناب آپ کے میکے سے ایک آدمی کل کے دن خط لایا ہے۔ اگر حکم ہو تو خط لے آؤں۔ یہ سُن کر اُس نے کہا کہ جا جلد لا۔ اُس نے باہر جا خط لا دیا۔ جبکہ خط اُس نے کھول کر پرھا تو معلوم ہوا کہ اماں صاحبہ تشریف فرما ہوئی ہیں۔ خط پڑھ کر کمال تردد میں ہوئی کہ وزیر تو یہاں ہیں نہیں۔ اب کیا کروں اگر بلواتی ہوں اور ملتی ہوں تو خلاف مرضیِ شوہر کے ہوتا ہے۔ بے اجازت کیونکر بلاؤں اور جو نہیں آنے دیتی ہوں تو ناراضیِ خدا اور رسول متصور ہے، کیونکہ حق والدین اور فرمانبرداریِ والدین سے خوشنودی خدا و رسول کی ہے۔ یہ تو اندیشہ میں تھی اور اُدھر سے متواتر خبریں پہنچنے لگیں کہ آج یہاں پہنچیں اور کل وہاں پہنچیں۔
غرض کہ ایک دن وقت فجر کے ایک آدمی دوڑا ہوا آیا اور بیان کیا کہ آج دریا تک آن پہنچی ہیں۔ اُس نے گھبرا کر اپنے فرزند لے پالک کو کہ اُس کے شوہر نے بھی اُسے فرزندی میں لے کر پالا و پرورش کیا تھا اور علاحدہ مکان میں بڑے کر و فر سے رہتا تھا۔ اُسی محل دارنی سے بلوا بھیجا اور ساری حقیقت اپنی والدہ کے دریا تک آنے کی زبانی اُسی ماما کے بیان کرا دی اور آپ فرمایا کہ تم کچھ آدمی ذی عزت اپنے ہمراہ لے جاؤ اور ہماری والدہ کو استقبال کر کے ہمراہ اپنے لوا لاؤ۔ اُس لڑکے نے عرض کی کہ بہتر اور جلد گھوڑے پر سوار ہو کر چند مصاحب ذی لیاقت اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا اور دریا پر جا، اُن سے ملاقات کر، دریا سے اتروا کر ساتھ اپنے با توقیر لایا اور اُسی محل خاص میں اتروا دیا۔ پھر تو یہ جعلی ماں بیٹی سے گلے مل کر خوب روئی اور بڑی دیر تک کلیجے سے جدا نہ کیا۔ تامل کے بعد دونوں ماں بیٹیاں آپس میں مل کر باہم بیٹھیں۔ اِدھر اُدھر کی خیریت کہی سُنی۔ پھر اس جعلی ماں نے وزیر کو پوچھا، بیٹی نے جواب دیا کہ اے اماں جان! وہ تو عرصۂ قلیل سے اپنی نوکری پر گئے ہوئے ہیں۔ غرض کہ وہ دن رات کھانے پینے کی مدارات میں بسر ہوئی۔ دوسرے دن اُس جعلی ماں نے بیٹی سے کہا کہ واری! تم نے اپنی یہ کیسی صورت بنا رکھی ہے، جیسے غریب غربا میلے کچیلے کپڑے پہنے رہتے ہیں۔ تم بھی ویسی ہی معلوم ہوتی ہو۔ نہ تو زیور ڈھنگ کا ہے، نہ پوشاک۔ یہ کیا واہیات تمھارے جی میں سمایا ہے کہ نہ گھر کی خبر نہ بدن کی سُدھ۔ یہ کیا تیری بُدھ ہے۔ خدا نخواستہ ایسا کیا صدمہ تیرے دل پر ہے جس کے سبب اُداسی ہے۔ بیٹی نے جواب دیا کہ خدا نہ کرے، کوئی صدمہ تو نوج ہو اماں جان۔ خداوند کریم نے اپنے فضل و کرم سے اس عاجزہ کو سب کچھ عنایت کیا ہے۔ کسی چیز کو محتاج نہیں کیا۔ ہزار ہزار شکر و احسان ہے، لیکن میرا یہ قاعدہ ہے کہ جب وزیر گھر میں ہوتے ہیں تو میں زیور مرصع سے اور پوشاک پرتکلف سے آراستہ و پیراستہ رہتی ہوں اور مکان کی بھی آرائش جیسی چاہیے کما حقہ کرتی ہوں اور جب وہ سلامتی سے گھر میں جم ہی جم ہوتے ہیں تو سب کچھ بڑھا رکھتی ہوں، کیونکہ عورت کا لباس و زیور مرد ہی کے سامنے بہت خوب زیب دیتا ہے اور جو مرد گھر میں خدا رکھے نہ ہو تو سب ہیچ ہے۔ یہ کہہ کر اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کھڑی ہو جواہر خانہ و توشہ خانہ مع سب سامان کل دکھلا دیا اور شکر پروردگار کا بجا لا کر کہا کہ کوئی شے ایسی نہیں ہے جو میرے ہاں نہ ہو۔ یہ سب سامان نادرہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئی اور چٹ چٹ بلائیں لے کر کہنے لگی کہ اماں واری! تم کم سنی میں بیاہی گئی تھیں، سن تمیز میں مَیں نے تم کو بنے سنورے نہیں دیکھا۔ آج تم خوب غسل کر کے اپنے تئیں آراستہ کرو تو میں تمھیں بنا سنور دیکھ اپنا جی خوش کروں۔ جی تو یہی چاہتا تھا کہ میں تم دونوں کو اچھی طرح سے ایک جا خوش و خرم دیکھ کر دل شاد کروں، مگر مجبور ہوں کہ وہ گھر میں نہیں ہیں۔ تمھیں اپنی آراستگی دکھلاؤ تو آنکھوں سُکھ کلیجہ ٹھنڈک ہو۔ اُس نے چند در چند عذر کیے اور سامان دکھلانے میں مشغول ہوئی، یہاں تک سامان شیشہ آلات و اسلحہ وغیرہ دکھلایا کہ شب ہو گئی۔ رات کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں گزری۔ فجر کو پھر وہ مجوز ہوئی۔ ناچار اُس فرماں بردار نے ماں کی خوشنودی کے واسطے حمام گرم کرنے کو حکم دیا اور آپ اپنی ماں سے باتیں کرنے لگی کہ سنیے اماں جان آپ کے داماد کی دو چیزیں ایسی ہیں جس کے سبب بعد سدھارنے اُن کے کے میری تسلی بہت ہوتی ہے۔ ایک تو انگشتری خاص انھیں کے ہاتھ کی ہے۔ چلتے وقت وہ میری انگشتری آپ لے جاتے ہیں اور اپنی مجھ کو دے جاتے ہیں۔ پیچھے ان کے میں اس انگشتری کو ایک لحظہ اپنے سے جدا نہیں کرتی ہوں اور ایک بیش قبض ہے کہ وہ بادشاہ نے خلعت میں مرحمت فرمائی تھی۔ اور وزیر بھی اُس کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ بعد اُن کے سدھارنے کے وہ پیش قبض میں اپنے ساتھ لے کر رات کو سوتی ہوں جب مجھ کو نیند آتی ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک خادمہ حاضر ہوئی اور عرض کی کہ حمام تیار ہے۔ حضور تشریف لے چلیں۔ زوجۂ وزیر اُٹھی اور چاہا کہ جس طرح سے ہمیشہ تنہا جا کر نہایا کرتی تھی اُس طرح سے نہائے، مگر اُس کی ماں نے تنہا جانے نہ دیا۔ آپ بھی ہمراہ اُس کے حمام میں گئی اور مُصر ہوئی کہ بٹیا کپڑے اتارو تو میں آج بہت دنوں کے بعد تمھیں خوب مل کر نہلاؤں۔ اُس نے عرض کی کہ اے اماں جان آج تک میرے جسم پر کسی پرند جانور کی نگاہ نہیں پڑی، نہ کہ بشر۔ میری کنیزیں سب علاحدہ ہو جاتی ہیں جب میں نہاتی ہوں، آپ باہر حمام کے تشریف رکھیں، میں ابھی تو غسل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہوں۔ یہ کلام بیٹی کا سُن کر جواب دیا، کہا: کیا خوب! تمھیں مجھ سے پردہ ہے۔ بھلا بیٹی تم نے جب نہ پردہ کیا اور نہ لحاظ کیا جب میں نے تمھیں نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھا اور جنی تو ننگا کُھلا میں نے تمھیں دیکھا اور دودھ پلایا، پالا پرورش کیا۔ اب جو سلامتی سے جوان ہوئیں تو ماں ہی سے شرم و لحاظ کرتی ہو۔ شاباس بچی! ہوش میں آ، دیوانی نہ بن، کپڑے اتار، جلدی کر۔ پھر تو وہ شرم کے مارے پسینے پسینے ہو گئی مگر مجبور ناچار ہو کر پوشاک اُتاری۔ اُس نے بدن ملنے کے بہانے خوب سارا تن بدن سر سے پا تک دیکھ نظروں میں جانچ لیا۔ جتنے خال بدن میں تھے، سب کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا اور نہلا دھلا کر کہا کہ لو بی بی تم اب جا کر توشہ خانہ سے پوشاک اور جواہر خانہ سے کل زیور منگا کر پہنو۔ بال سکھا تیل ڈال سر گندھوا، مسّی سرمہ سے آراستہ ہو کر مسند زریں پر بیٹھو، میں ذرا پِنڈا دھو کر ابھی آتی ہوں۔ یہ بے چاری سیدھی سادھی فریب کیا جانے۔ بموجب کہنے اسی جعلی ماں کے عمل میں لائی اور زیور اور پوشاک کے حاضر کرنے کو حکم دیا۔ اتنے میں مغلانی مُقابہ لے کر واسطے سر گوندھنے کے حاضر ہوئی۔ ادھر اُس شطاح نے جو فرصت پائی تو بالا خانہ پر جا اور وہ سب سامان عیاری و مکاری و شبیہ کشی کے اپنے ساتھ جو رکھتی تھی ایک آن واحد میں ایسی تصویر خوبرو برہنہ بدن کی بعینہ ہو بہو تیار کی کہ جس میں ذرا فرق نہ تھا۔ تصویر تیار کر پوشیدہ اپنے پاس رکھ جلدی سے وہاں آئی، جہاں وہ دل ملول سنگار میں مشغول بیٹھی تھی۔ اُس عیارہ نے جلد جلد پوشاک پرتکلف سے آراستہ اور زیور جواہر نگار سے پیراستہ کر مسند زریں پر بٹھایا اور کئی بار صدقہ ہو ہو بلائیں لیں۔ گلے سے لگایا، پیار کیا اور بہت سا روپیہ تصدق اُتار کر خیرات کیا۔ غرض کہ ایک دن رات اُس مکارہ نے وہ پوشاک و زیور اُتارنے نہ دیا۔
دوسرے روز فجر کے وقت اُس نے زبردستی پوشاک و زیور اُترا۔ اُس حرافہ نے کیا کام کیا کہ کسی بہانہ سے آنکھ بچا کر پھر بالا خانہ پر جا تصویر دوسری آراستگی کی ایسی دلچسپ تیار کی کہ جس کو فرشتے دیکھیں تو ہاروت و ماروت کے مانند فریفتہ ہو، ہوش و حواس کھو دیوانہ بن جائیں۔ تصویر اُس زہرہ جبین کی ایسی کھینچی کہ جس کی تعریف میں زبان انسان کی لال ہے۔ قلم کی کیا مجال ہے جو کچھ تعریف اُس کی تحریر کر سکے۔ ایسی لاثانی تصویریں تیار کر اپنے پاس رکھ لیں، ایک تو برہنہ بدن کی دوسری تمام پوشاک اور زیور سمیت۔ جب اُس سے فارغ ہوئی تو کئی دن کے بعد بہانہ کیا کہ اب میں زیادہ نہیں رہ سکتی کیونکہ تیرا بھتیجا مجھ سے بہت ہلا تھا کہ میرے بغیر اُسے ایک پل قرار نہ تھا۔ میرے یہاں آنے کے بعد بہت ہڑکتا ہوگا۔ مجھے تیری دوری ایسی شاق تھی کہ اُس کا بھی چلتے وقت دھیان نہ آیا۔ یہاں میں وحشت زدہ بوکھلائی ہوئی چلی آئی۔ خدا کی عنایت سے تم کو اچھی طرح خیریت سے دیکھا۔ خاطر جمع ہوئی، آنکھوں کو روشنی، دل کو ٹھنڈک حاصل ہوئی، لیکن ایک حسرت میرے دل میں باقی رہی کہ میں ایسے دنوں میں آئی کہ تمھارا شوہر گھر میں نہ تھا۔ مجھ کمبخت کو کیا خبر تھی کہ آج کل وزیر گھر میں نہیں ہے، ورنہ میں ابھی نہ آتی۔ جب وہ یہاں ہوتے، تب ہی آتی۔ میرا جی تیرے شوہر کے دیکھنے کو بہت چاہتا ہے، مگر کیا کروں مجبور ہوں کہ پوتے کی جدائی سے زیادہ نہیں رہ سکتی۔ جب تمھارے میاں گھر میں آئیں تو میری طرف سے بلائیں لے کر خیریت دریافت کر کے بہت بہت دعا کہہ دینا۔
یہ سُن کر وہ لڑکی یعنی زوجۂ وزیر کہ اسے سچ مچ اپنی ماں جانتی تھی رونے لگی اور کہنے لگی کہ اے اماں جان! آپ ابھی جانے کا ارادہ نہ کریں، آپ کو تو آئے ہوئے ابھی بہت تھوڑے دن ہوئے ہیں۔ ابھی رہیے، وہاں جا کر آپ کیا کریں گی۔ برسوں کے بعد آپ نے مجھے دیکھا۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے۔ ابھی آپ ناحق جانے کا عزم کرتی ہیں۔ میرا دل بھی تو نگوڑا آپ کی دید سے نہیں بھرا اور نہ ابھی آپ اُن سے ملیں۔ جب وہ گھر میں آویں گے اور آپ کے آنے کی خبر سنیں گے تو میرے اوپر بہت خفا ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نے میرے آنے تک کیوں نہ رکھا۔ جانے کیوں دیا۔ پھر بھلا میں اُن کو اس بات کا جواب کیا دوں گی۔ آپ ہر گز ابھی نہ جائیے۔ وہ بہت کہا کی لیکن یہ کب سنتی تھی۔ مطلب تو نکال ہی لیا تھا۔ پھر کیا غرض تھی جو رہتی۔ وہ بے چاری غم کی ماری ہر طرح سے سمجھاتی رہی اور روکتی رہی۔ مگر اُس نے حیلہ و حوالہ کر تیاری اپنی کر ہی دی۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ اب مانتی نہیں، مجبور ہو کر کچھ نذر کرنے کو نقد طلب کیا اور ہاتھ باندھ کر نذر دی۔ اس مکارہ نے کہا کہ بیٹا میں نقد روپیہ لے کر کیا کروں گی۔ تو جانتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے روپیہ بہت دیا ہے۔ ہاں مگر کچھ قسم ٹوم و ہتھیار وغیرہ کی ہو تو مضائقہ نہیں۔ کیونکہ تیرے بھائی بھاوج جانیں کہ ہماری بہن اور نند نے سوغات بھیجی ہے۔ اس میں البتہ تیرا نام اور میری خوشنودی کا سبب ہے۔ اگر دینا منظور ہے تو ایسی چیز دو ورنہ نقد روپیہ پیسا تو خدا نے بہت سا دیا ہے۔ یہ سُن کر وہ بے چاری بھولی بھالی دل میں سوچنے لگی کہ الٰہی اب میں ان کو کیا دوں۔ اتنے میں آپ ہی بول اٹھی کہ بٹیا میں بتاؤں جو تو دے یہ جو تیرے گلے میں چندن ہار ہے، تو اپنی بھاوج کے واسطے دے اور وہ جو پیش قبض ہے جسے تو اپنے ساتھ رات کو لے کر سوتی ہے، اپنے بھائی کو دے۔ یقین ہے کہ یہ چیزیں دیکھ وہ دونوں بہت خوش ہوں گے۔ اور یہ جو انگوٹھی چاندی کی ہے جسے تو اپنے ہاتھ میں پہنے رہتی ہے، مجھے دے کیونکہ میں تم دونوں کی نشانی براے یادگار اپنے پاس رکھوں گی۔ اور جو تیری چھوٹی بہن ہے اسے چاہے کچھ دے یا نہ دے۔ جو کچھ دے گی وہ خوش ہو جائے گی اور جو نہ دے گی تو خیر بچہ ہے یوں ہی بہل جائے گی اور وہ تو ایسی بھولی ہے کہ ایک جوڑی نورتن میں بھی خوش ہو جائے گی۔ جس کو تو پہنے ہے اس کو وہ ہی بہت ہے۔
یہ بے چاری سُن کر خاموش ہو رہی اور دل میں کہنے لگی کہ یہ چاروں چیزیں تو بہت بیش قیمت ہیں۔ میں بے اجازت اپنے شوہر کے کیوں کر دوں اور یہ بڑی قباحت ہے کہ اُس میں دو عدد خاص میرے ہیں، اگر دے دوں تو مضائقہ نہیں اور انگشتری اور پیش قبض میری نہیں ہے، دوں تو کیونکر دوں۔ اور علاوہ اس کے یہی دونوں چیزیں تو میری زیست کا سبب ہیں۔ دیتی ہوں تو میری پریشانی متصور ہے اور نہیں دیتی ہوں تو اماں جان آزردہ ہوں گی اور کہیں گی کہ میں نے اپنے منہ سے مانگیں، جس پر نہیں دیتی۔ یہ کہہ کر دونوں چیزیں گلے اور بازو سے اتار کر اپنی ماں کے سامنے رکھ دیں اور اُن دونوں کے دینے میں تامل کیا لیکن وہ عیارہ کب چھوڑتی ہے۔ یہ بات جو اس کے جی میں خلش کر رہی تھی، بشرہ سے دریافت کر کے کہنے لگی کہ بٹیا! بھاوج اور چھوٹی بہن تم کو بہت عزیز ہوئیں جو جلدی سے اپنے گلے و بازو سے اتار دونوں دے دیں اور وہ بھائی جو اللہ آمین کا ایک ہی ہے اس کو کچھ نہ دیا، وہ ناراض نہ ہوگا کہ بہن نے مجھے کچھ نہیں بھیجا اور میں نے تو کوئی ایسی چیز بڑی نہیں مانگی جس کے سبب تم پہلو تہی کرتی ہو۔ یہ کلام فریب انجام سن کر اس سے رہا نہ گیا۔ فوراً پیش قبض و انگوٹھی ہاتھ سے اُتار ماں کے حوالہ کر دی اورکچھ زر نقد بھی براے زاد راہ دیا اور ناشتہ کے واسطے کلچے وغیرہ پکوا کر ہمراہ کر دیے اور اچھا سا دن مقرر کر کے رخصت کیا اور بڑے تجمل سے دریا کے پار تک پہنچا دیا۔ بعدہ اپنے معمول کے موافق گھر میں رہنے لگی۔
یہاں کی بات تو یہاں رہی۔ اب اُس مکارہ کی حکایت سُننا چاہیے کہ اس نے وہ دونوں تصویریں اور یہ چاروں چیزیں نشانیاں لے جا کر کیا آفت برپا کی، سُننےکے قابل ہے۔ جب کہ وہ یہاں سے اس طرح سے رخصت ہوئی تو باہر جا کر سب اپنے ہمراہیوں کو انعام دے کر رخصت کیا اور آپ خوش و خرم سیدھی وزیر اول کے پاس جا دونوں تصویریں اور نشانیاں اس کو دے کر یہ زبانی کہا کہ لو میاں بڑے فریب و جانفشانی سے یہ تصویریں اور نشانیاں ہاتھ آئی ہیں۔ جیسے تم نے اُسے سُنا ہے، اُس سے وہ چار حصے زیادہ پارسا ہے۔ ایسی عورت ہمہ صفت موصوف کبھی ہم نے نہیں دیکھی سُنی تھی۔ نہ مجھ سی عورت شطاح ہر فن میں طاق ہوتی نہ تمھاری جان بچتی۔ اب یہ تصویریں اور نشانیاں لیجیے اور سدھاریے۔ وہاں پہنچ کر بادشاہ سے بیان کرنا کہ میں اس کو خراب کر آیا۔ دو مہینے تک وہ میرے پاس برابر شب باش رہی اور بر وقت چلنے کے مصور کو بلوا کر اسے برہنہ کر تصویر کھچوائی، دوسری تصویر آراستگی کی کھچوائی۔ چنانچہ یہ دونوں موجود ہیں اور یہ انگوٹھی خاص وزیر چہارم کے ہاتھ کی ہے کہ اپنی زوجہ کو نشانی دے کر آیا تھا، سو یہ میرے پاس موجود ہے۔ اور یہ پیش قبض بادشاہ نے خلعت میں وزیر چہارم کو دی تھی سو وہ بھی میرے پاس ہے اور اس کے گلے خاص کا چندن ہار اور خاص بازو کے نورتن بھی دونوں موجود ہیں۔ جب تم یہ نشانیاں مع تصویر دو گے تو فوراً بادشاہ اور اس کے شوہر کو یقین ہو جائے گا۔ یہ سب لیجیے اور میری جانفشانی پر غور کر کے بموجب وعدہ اپنے کے انعام دیجیے۔ جب کہ وزیر نے یہ چیزیں اور تصویریں موافق مطلب کے پائیں، بہت خوش ہوا اور کُٹنی کو ایک ہزار اشرفیاں اور خلعت وغیرہ انعام دے کر راضی کر کے رخصت کیا اور بعد جانے کٹنی کے نظر غور سے جو تصویروں کو دیکھا تو بس غش کر گیا۔ کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو سامان سفر درست کر کے وطن کو روانہ ہوا اور منزل بہ منزل، کوچ در کوچ مقام کرتا ہوا بیس روز کے عرصہ میں دار الریاست و پایۂ وزارت خود پر جا پہنچا اور اپنے مکان میں اُتر کر بعد فارغ ہونے غسل وغیرہ کے دوسرے روز علی الصباح بادشاہ کی ملازمت کے واسطے حاضر ہوا اور قدم بوسی حاصل کر کے کاروبار اپنے پر مستعد ہوا۔ جب بادشاہ سے تنہائی میں ملاقات ہوئی تو اس نے سب حال اس طرح بیان کیا کہ غریب پرور! جو اس خانہ زاد نے حضور پر نور میں عرض کی تھی وہ ہی ظہور میں آیا کہ زوجہ وزیر چہارم کی ایسی فاحشہ و بدکار ہے کہ دوسری زمانہ میں نہ ہوگی اور یہ دروغ گو کیسی عصمت اور عفت اس کی بیان کرتا تھا۔ اب حضور اس نامعقول کو بلوا کر سزا دیں۔ بادشاہ نے پھر حال مفصل دریافت کیا اور کہا کہ جو تو وجہ ثبوت لایا ہے پیش کر۔ پھر تو وزیر اول نے دونوں تصویریں اور پیش قبض و انگشتری و چندن ہار و نورتن پیش حضور کیے اور یوں زبانی کہنے لگا کہ جناب عالی! وہ عورت اوباش فدوی کے پاس دو مہینے تک برابر شب باش رہی۔ جب چلنے لگا تو اُس سے تصویر کی درخواست کی۔ اُس نے اپنے آدمی سے مصور کو بلوا کر برہنہ ہو کر تصویر اپنی کھچوا دی اور دوسری تصویر پوشاک و زیور پہن کر کھچوا دی۔ چنانچہ یہ دونوں موجود ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اور بروقت روانگی اپنی کے میں نے نشانی یادگاری کو مانگی تو اس نے فوراً اپنے گلے سے چندن ہار اور نورتن بازو سے اتار دیے۔ جب میں نے کہا کہ یہ دونوں چیزیں جو تم نے مجھے دی ہیں، ان کو میں ہر وقت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، کوئی چیز ایسی دو جسے میں آٹھوں پہر اپنے پاس رکھوں، ایک دم اپنے سے جدا نہ کروں، جس کے سبب دل کو تسلی رہے۔ یہ سن کر اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اتار دی اور یہ پیش قبض دے کر کہنے لگی کہ یہ دونوں چیزیں خاص وزیر کی ہیں۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور سب نشانیاں مع پیش قبض اپنے قبضہ میں کر رخصت ہو روانہ ہوا۔ یہ سب داستان گذشتہ عرض کر کے کہنے لگا کہ حضور خیال فرماویں اور تصور کریں کہ ایسا شخص کاذب زن مرید قابل عہدۂ وزارت کے ہے یا گردن مارنے کے خصوصاً ایسے جلیل القدر شہنشاہ کے روبرو ایسا دروغ بولنا معاذ اللہ منہا بہت ہی بُری بات ہے۔ بادشاہ کو یہ حال سُن کر اور تصویریں دیکھ کر یقین کامل ہوا اور کمال ہی غصہ آیا۔ پھر تو فوراً وزیر چہارم کو طلب فرمایا۔ جب وہ ناکردہ گناہ حاضر ہوا تو اس وقت بادشاہ غصہ میں تو بیٹھے ہی تھے۔ اس کی صورت دیکھ کر اور بھی غیظ میں آ گئے اور فرمایا کیوں جی تمھاری بی بی بڑی صاحب عصمت و عفت ہے۔ اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جی جناب عالی فدوی سے اس کی عصمت کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ حقیقت میں بڑی صاحب عصمت ہے۔ اس کا یہ کہنا اور بھی بادشاہ کو آگ لگی۔ انکھیں سُرخ ہو گئیں۔ مارے غصے کے کانپنے لگے اور اسی حالت غیظ میں فرمایا کہ تو بڑا کاذب زن مرید ہے۔ دیکھ تو یہ کس کی تصویریں ہیں اور یہ انگوٹھی اور پیش قبض کس کی ہے۔ خوب غور سے دیکھ کہ یہ وہی پیش قبض ہے یا نہیں جو میں نے تجھے خلعت میں دی تھی اور یہ چندن ہار نورتن تیری اسی زوجہ فاحشہ کے ہیں یا نہیں۔ یہ سب چیزیں اور تصویریں اسے دکھا کُل ماجرا وزیر اول کے جانے کا اور دو مہینے تک رہنے کا بیان کیا۔ وزیر چہارم یہ سن کر اور سب چیزیں کہ واقعی اسی کی تھیں دیکھ زرد ہو گیا اور شرمندگی سے سر در گریبان ہو پسینہ پسینہ ہو گیا اور خجالت سے آنکھیں اس کی اونچی نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت اس کا بس نہ چلتا تھا ورنہ اپنے تئیں فوراً ہلاک کر ڈالتا۔ منفعل و ذلیل گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے جلاد طلب کیے، حکم دیتے ہی جلاد حاضر ہوئے۔ جب بادشاہ نے جلادوں کی صورت دیکھی تو وزیر چہارم کے قتل کرنے کا حکم دیا کہ جلد اس کا سر تن سے جدا کر دو۔ وہاں تو حکم ہی کی دیر تھی۔ جھٹ پٹ اُس بے چارہ ناکردہ گناہ کی مشکیں کس کے شہر کے باہر واسطے قتل کرنے کے لے گئے۔ جبکہ قتل گاہ میں پہنچے تو حکم کے منتظر رہے۔ یہ بھی قدیم سے دستور ہے کہ جب تک تین حکم حاکم کے نہیں ہوتے قتل نہیں کرتے۔ چنانچہ یہ بھی موافق قاعدۂ قدیم کے حکم اول و دوم و سوم کے منتظر تھے۔ اتنے میں حکم اول آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حکم دوسرا آیا کہ جلد قتل کرو۔ جبکہ حکم دیگر صادر ہوا، جلادوں نے موافق رسم و قاعدہ کے کہا کہ میاں جس چیز کو تمھارا دل چاہے کھا لو پی لو یا کسی سے ملنا ہو مل ہو۔ اب تیسرے حکم کی دیر ہے۔ وزیر نے جلادوں سے کہا کہ مجھے روبرو حضور کے لے چلو تاکہ کچھ عرض کروں۔ اگر قبول ہو جاوے تو بہتر ہے۔ جلادوں نے اس کی درخواست حضور میں کہلا بھیجی۔ بادشاہ نے بموجب درخواست اس کی کے اپنے روبرو طلب کیا اور فرمایا کہ کیا کہتا ہے۔ اس نے زمین بوس ہو کر التماس کی کہ اے جہاں پناہ! امیدوار خاوندی کا ہوں کہ ایک نظر فدوی کو اس فاحشہ نالائقہ کے دیکھنے کی پروانگی ہو جائے۔ بعد اس کے حکم قتل کا صادر ہو۔ بادشاہ نے اس کی عرض کو قبول کیا اور فرمایا کہ اسی طرح مقید پابجولاں ہمراہ پہرہ چوکی کے جوان ہوں گے اور خبردار اس کو جان سے نہ مارنا۔ اس بے چارے نے سب منظور کر کے عرض کی کہ حضور جس طرح سے چاہیں بھیج دیں۔ پھر تو بادشاہ نے اس کو ایک چھکڑہ پر بٹھا اسی صورت سے قیدیوں کی طرح ہمراہ سوار و پیدل واسطے نگہبانی کے معین کر کے بہت سی تاکید کر دی کہ کسی وقت اس کو اکیلا نہ چھوڑنا اور بتاکید یہ بھی فرما دیا کہ اس کو جان سے مارنے نہ دینا۔ یہ کہہ کر رخصت کیا۔ پھر تو وہ بے چارہ مصیبت کا مارا اسی صورت سے قیدیوں کی طرح روانہ ہوا۔ یہ دنیا جاے عبرت ہے۔ اس واسطے یہ چند وصیت ہے کہ اے عزیز! دیکھ خبردار ہرگز ہرگز تو ایسا نہ کرنا جس سے ذلت اُٹھائے۔ بدنامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ خودی کو دل سے نکال، غرور و نخوت سے آپ کو سنبھال، تکبر سے بچ۔ بڑا بول مت بول۔ بادشاہ حقیقی کے روبرو عجز و انکساری سے سر جھکا۔ کسی سے کسی بات کا دعویٰ نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ تو بھی وزیر چہارم کی طرح اپنے بادشاہ حقیقی کے سامنے ذلیل و رسوا، نادم و شرمندہ ہو اور کہیں ٹھکانا نہ رہے۔ اگر وہ بادشاہ کے سامنے اپنی زوجہ کی پارسائی کا دعویٰ نہ کرتا تو کیوں ایسی رسوائی کا سزاوار ہوتا۔ دنیا دم مارنے کی جگہ نہیں۔ آٹھوں پہر جناب باری سے ڈرتا رہے اور کسی سے غرض مطلب نہ رکھے تو اچھا رہے گا۔